Category Archives: معاشرہ

آپ حاکم بننا چاہتے ہیں ؟ ؟ ؟

ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا ۔ جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ ”وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا“۔

سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا ۔ ایک کُمہار جس نے ساری زندگی کچھ جمع نہ کیا تھا ۔ اس کے پاس سوائے ایک گدھے کے کچھ نہ تھا ۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کرلے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا ۔ اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس ۔ سو اس نے بادشاہ کے اہلکاروں کو بتایا کہ وہ ایک رات بادشاہ کی جگہ قبر میں گزارنے کے لئے تیار ہے

بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی ۔ وعدے کے مطابق کُمہار خوشی خوشی اس میں جا کر لیٹ گیا اور لوگوں نے قبر کو بند کر دیا ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور کُمہار کو کہا کہ ” اُٹھو اور اپنا حساب دو“ ۔
اس نے کہا ”بھائی حساب کس چیز کا ؟ میرے پاس تو ساری زندگی تھا ہی کچھ نہیں سوائے ایک گدھے کے“۔

فرشتوں میں سے ایک نے کہا ” تُمہارے نامہءِ اعمال میں لکھا ہے کہ فلاں فلاں دن تم نے گدھے کو ایک وقت بھوکا رکھا تھا“۔
کُمہار نے جواب دیا ”ہاں“۔
فرشتے نے کہا ”اسے 100 دُرّے مارے جائیں“۔ 100 دُرّے مارے گے
اس کے بعد پھر فرشتے نے سوال کیا ”یہ بتاو فلاں فلاں دن تم نے زیادہ وزن لادا اور پھر گدھے کو مارا بھی تھا ؟“
کُہار نے کہا ”ہاں“۔
پھر حُکم ہوا ”اس کو 200 دُرّے مارے جائیں“۔ اُسے دو سو دُرّے مارے گئے
غرض صبح تک اس کی پٹائی ہوتی رہی

صبح سب لوگ اکھٹے ہوئے اور قبر کشائی کی تا کہ اپنے نئے بادشاہ کا استقبال کر سکیں ۔ جیسے ہی انہوں نے قبر کھولی تو کُمہار نے باہر نکل کر دوڑ لگا دی ۔ لوگوں نے بھاگ کر اُسے روکا اور مؤدبانہ کہا ”بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں ؟“
تو کُمہار نے جواب دیا ”بھائیوں ۔ مجھے نہیں چاہیئے بادشاہت ۔ پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو ساری رعایا اور مملکت کا حساب کون دیتا پھرے“۔

کبھی سوچا ہے کہ ہم نے بھی حساب دینا ہے ۔ اور پتہ نہیں کہ کِس کِس چیز کا حساب دینا پڑے گا جو شاید ہمیں یاد بھی نہیں ہے

راست بازی ؟

کبھی کبھی آدمی جتنا مذہبی ہوتا جاتا ہے اپنے آپ کو اتنا ہی نیک سمجھنے لگ جاتا ہے
ایسا کردار اندرونی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے
مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم میں ہمدردی کا جذبہ بڑھنا چاہیئے نہ کہ ہم فیصلے دینے لگیں
جس دِل میں اللہ سما جائے وہ نرم پڑ جاتا ۔ سخت نہیں بنتا
اگر دِل سخت ہو رہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ دِل میں اللہ نے گھر نہیں کیا بلکہ خود ستائشی بھر گئی ہے جس پر مذہب اور پرہیزگاری کا لبادہ چڑھا ہوا ہے

سُنیئے محترمہ ۔ سُنیئے محترم

آج میرے مخاطب وہ خواتین و حضرات ہیں جو پڑھے لکھے ہیں اور اپنے آپ کو مُسلم یا مُسلمان سمجھتے ہیں
(خیال رہے کہ میں نے تعلیم یافتہ نہیں لکھا)
از راہ کرم اِسے واپس مجھ پر تھوپنے کی کوشش نہ کیجئے گا کیونکہ جب آپ اِسے پڑھیں گے تو آپ ”خطیب“ بن جائیں گے اور میں ”مُخاطب“۔

پہلا سوال یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سکول ۔ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھا تھا کیا اپنی عملی زندگی میں اس سے مکمل استفادہ کیا ؟
یا
حاصل کردہ اسناد کو صرف حصولِ روزگار یعنی پیٹ پالنے یا دولت اکٹھی کرنے کیلئے استعمال کیا ؟

مُسلم یا مُسلمان ہونے کے ناطے آپ نے قرآن شریف بھی پڑھا ہو گا چنانچہ میرا دوسرا سوال ہے کہ کیا آپ نے قرآن شریف کو سمجھا اور اسے اپنی عملی زندگی پر مُنطبق کیا ؟

اگر آپ کا پہلے سوال کا جواب ” نہیں “ہے ۔ ۔ ۔ تو آپ تعلیم یافتہ نہیں ہیں کیونکہ آپ نے سکول ۔ کالج اور یونیورسٹی میں کچھ نہیں سیکھا ۔ صرف اسے وقتی ضرورت کے تحت یاد کیا تھا

اگر دوسرے سوال کا جواب ” نہیں“ ہے
تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ صرف نام کے مُسلم یا مُسلمان ہیں حقیقت میں نہیں

میرے محترمین و محترمان ۔ آپ کی فلاح اِسی میں ہے کہ آپ تعلیم یافتہ مُسلم یا مُسلمان بنیں جس کیلئے کل کی اِنتظار نہ کیجئے ۔ آج اور ابھی سے کوشش و محنت کیجئے
صبح کا بھُولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اُسے بھُولا نہیں کہتے

امریکہ میں مُفت کھانا کھلانے والا پاکستانی ریستوراں

ریاستہائے متحدہ امریکہ (USA) کے دارالحکومت واشنگٹن میں منّان (ایک پاکستانی امریکن) بڑی سادگی سے اپنے مُلک پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے ۔ وائٹ ہاؤس سے بمُشکل ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ایک چھوٹا سا ریستوراں چلانے والے منّان کو واشنگٹن کے باسی ”مسیحا“ ۔ ”فرشتہ“ اور ”ہیرو“ کہتے ہیں ۔ سی این این ۔ اے بی سی ۔ وائس آف امریکہ اور واشنگٹن پوسٹ سمیت چوٹی کے ذرائع ابلاغ منّان کو ”مثالی تارکِ وطن(model immigrant)“ اور کامیاب مثال (success story) کہتے ہیں ۔ منّان کا دِل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے ۔

صرف 3 ڈالر لئے منّان جب امریکہ پہنچا تھا تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کہ ایک دن ذرائع ابلاغ میں اُس کے چرچے ہوں گے اور وہ امریکہ کے سینیٹروں (Senators)۔ کانگرسمین (Congressmen)۔ ججوں اور نامور لوگوں حتٰی کہ سابقہ صدر ہیلری کلِنٹن کے ساتھ کھانا کھائے گا (سُبحان اللہ و بحمدہِ) ۔ منّان کا کہتا ہے ”میں دنیا کی نظروں میں اپنے وطن اور اپنے دین کا تخیّل بہتر بنانا چاہتا ہوں اور اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان پاکستانی ہمدرد اور پیار کرنے والی قوم ہیں“۔

واشنگٹن میں غیر مُلکی کھانوں کے سینکڑوں ریستوراں ہیں لیکن ”سکِینہ حلال گرِل (Skina)“ کی عزت امریکنوں کے دِل میں سب سے Hlal Restaurantزیادہ ہے ۔ اس ریستوراں کی چِکن کڑاہی ۔ بَٹَر چِکن (Butter Chicken) اور بریانی پسندیدہ ہیں لیکن منّان کی فراخ دِلی بہت ہر دِل عزیز ہے

سکِینہ حلال ریستوراں میں کھانے کیلئے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں لیکن اِس کا طُرّہ امتیاز یہ ہے کہ یہاں غُرباء ۔ نادار اور بے گھر لوگوں کو بلامعاوضہ کھانا کھلایا جاتا ہے اور ریستوراں کے خدمتگار (waiters) اُنہیں ڈائیننگ ہال (Dining Hall) میں اُسی طرح کھانا کھلاتے ہیں جیسے پیسے دے کر کھانے والوں کو کھلاتے ہیں ۔

منّان پاکستان میں جہلم کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”کری شریف“میں پیدا ہوا ۔ اُس کا باپ راج مزدور کے کام کی تلاش میں لبیا چلا گیا ہوا تھا ۔ ماں مویشی پالتی اور اُن کا دودھ بیچتی ۔ منّان نے 12 سال کی عمر میں گلیوں میں سبزیاں بیچ کر ماں کا ہاتھ بٹانا شروع کیا ۔ 1996ء میں 25 سال کی عمر میں منّان امریکہ پہنچا اُس نے پٹرول پمپوں ()۔ کاروں کی ورکشاپوں اور لیبارٹریوں میں کام کیا غرضیکہ دن رات محنت کی اور اپنے گھر والوں کو پیسے بھیجتا رہا ۔

منّان بتاتا ہے کہ اُس نے ریستوراں اپنی پیاری ماں ”سکِینہ“ کی یاد میں کھولا ۔ بچپن میں اُس کی ماں نے اُسے ھدائت کی تھی ”خواہ تم کتنے ہی غریب ہو جو کچھ تمہارے پاس ہو اس میں دوسروں کا بھی حصہ رکھنا ۔ اللہ تمہاری مشکلیں آسان کرے گا“۔

منّان اپنے ریستوراں پر سالانہ 6000 غیریبوں کو مُفت کھانا کھلاتا ہے ۔ کوئی بھی غریب ۔ نادار یا غریب الوطن اُس کے ریستوراں میں مُفت کھانا کھا سکتا ۔ منّان کسی سے چُوں و چرا نہیں کرتا ۔

منّان کی محنت کے عِوض اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اُسے خُوب نوازہ ہے ۔اُس کی ماں کی نصیحت سچ ثابت ہوئی ہے ۔ ریستوراں کا کاروبار چل پڑا تو جلد ہی منّان ایک لِیموزین (Limousine) کا مالک بن گیا جس میں وہ اپنے گاہکوں سیر کراتا ۔ اب اُس کے پاس لِموزین کاروں کا ایک بیڑا (fleet) ہے ۔ منّنان کے کام پر اب 30 ملازمین ہیں ۔

منّان کا یقین پُختہ ہو چکا ہے کہ جب وہ غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے تو اللہ دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ اُس کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی کا مُسکراہٹ سے استقبال بھی برکت کا ذریعہ بنتا ہے ۔ جب منّان نے ریستوراں کھولا تو ایک باغیچہ (Park) میں جا کر نادار لوگوں کو اکٹھا کیا اور اپنے ریستوراں پر لا کر کہا”یہاں پر کوئی غریب ۔ نادار یا غریب الوطن بغیر معاوضہ کھانا کھا سکتا ہے“۔ منّان بتاتا ہے ”سب کے چہروں پر حیرانی چھا گئی لیکن اُن کی مطمئن آنکھوں نے مجھے سکُون بخشا“۔

اُس کی دریا دِلی کے باعث اللہ نے منّان کو ہر دلعزیز بنا دیا ہے ۔ منّان کا کہنا ہے کہ اُس نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی اُس کی پیشکش کا ناجائز فائدہ اُٹھا رہا ہے ۔ عام طور پر لوگ ایسا نہیں کرتے ۔ منّان کا یقین ہے کہ اگر کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اللہ اُس کا نگہبان ہوتا ہے
منّان اپنے مہمانوں کو پاکستان کے خوبصورت علاقوں کی وِڈیوز بھی دکھاتا ہے ۔ منّان کی بیوی اور دو بچے ہیں جو پاکستان میں ہیں ۔ منّان نے پاکستان میں 200 یتیم بچوں کیلئے ایک سکول بھی شروع کیا ہے ۔ (اللہ جسے توفیق دے)

زندگی کے موڑ

زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے کہ انسان دِل کا سب کچھ تَج دینے کو چاہتا ہے
اور اِنسان مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا
نشیب و فراز ہی کا نام زندگی ہے
ایسے وقت لمبی سانس اندر کھینچیئے
پھر لمبی سانس باہر نکالئے
یہ عمل چند بار دہرایئے
اللہ کا نام لے کر آگے بڑھنے کیلئے پھر کمر باندھ لیجئے

یومِ دفاع پاکستان

بھارتی فوجوں نے 6 ستمبر کو نمازِ فجر کے وقت سے پہلے اچانک لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر بھرپور حملے کر دیئے ۔ صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان سلِیپنگ سُوٹ ہی میں جی ایچ کیو کے آپریشن رُوم پہنچ گئے
اُنہوں نے 6 ستمبر کی صبح تقریر کی جس میں واقع بتانے کے بعد کہا ”وہ نہیں جانتے کہ اُنہیں کس قوم سے واسطہ ہے ۔ پاکستان کے فوجی جوان جن کے لَبوں پر کلمہ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ کا ورد ہے سرحدوں کی حفاظت کیلئے روانہ ہو چکے ہیں“۔
جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحٰی خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحٰی خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحٰی خان کمان سنبھالنے گئے تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس طرح چند اہم دِن ضائع ہو گئے
جنرل اختر ملک (مرزائی) اور جنرل یحٰی کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمانڈر (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رُک جانے کا حُکم دیا گیا تھا ۔ اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد راستہ پر قبضہ کر لیتے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحٰی کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر 2 دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتے رہے کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھے ۔ الله جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا

جنگِ ستمبر 1965ء اور دسمبر 1971ء کی جنگوں میں ہموطنوں کا کردار
ستمبر 1965ء
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب لاہوريئے پلاؤ کی ديگيں پکوا کر محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا اور بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت اَرزاں نرخوں پر ملنے لگيں تھیں
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا ”آپ کا جو کام ہے وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں“۔
خطرے کا سائرن بجنے پر کارکن ورکشاپوں سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے اندر جا کر اُنہیں باہر نکلنے کا کہا تو جواب ملا ”سر مرنا ہوا تو باہر بھی مر جائیں گے ۔ ہمیں کام کرنے دیں ہماری فوج کو اسلحے کی ضرورت ہے“۔
جب اپنے مُلک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا
جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچ ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

پھر ناجانے کس کی بُری نظر یا جادو کام کر گیا اور ۔ ۔ ۔
ملک میں ایک جاگیردار وڈیرے نے مزدروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا لالچ دے کر ایسا اُبھارا کہ دُنیا بدل گئی
خاکروبوں نے سرکاری کوٹھیوں پر نشان لگانے شروع کئے کہ یہ میری ہو گی یہ تیری ہو گی
سکول کالج کے اساتذہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی بے عزتی کرنا آزادی کا نشان بن گیا
کالجوں میں داخل لڑکوں نے پڑھائی پر جلوسوں کو ترجیح دی ۔ ٹوٹی ٹریفک لائیٹس ۔ سٹریٹ لائیٹس اور گھروں یا دکانوں کے شیشے اُن کی گذرگاہ کا پتہ دیتے

جنگِ دسمبر 1971ء
دسمبر 1971ء میں بھارت نے پھر پاکستان پر حملہ کر دیا
کارکنوں کے ساتھ مل کر خندقیں کھودنے کی پیشکش کی تو جواب ملا ”آپ خود کھودیں یا ٹھیکے پر کھدوائیں ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے”۔
دوسرے دن صبح اکثر کارکنوں نے یہ کہہ کر کام کرنے سے انکار کر دیا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے ۔ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا ایک نام نہاد نمائندہ بولا ”افسر دولتمند ہیں ۔ مر جائیں گے تو بیوی بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔ ہم مر گئے تو ہمارے بچوں کا کیا بنے گا ۔ آپ کام کریں ہم ورکشاپ کے اندر نہیں جائیں گے“۔

فی زمانہ تو حالات مزید دِگرگوں ہو چکے ہیں
يا الله ۔ وہ ستمبر 1965ء والے دن پھر سے لادے
یا الله ۔ میرے ہموطنوں کو عقلِ سلیم عطا فرما دے
يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے ۔ یا خالق و مالک ۔ ہماری التجاء قبول فرما

کیا ؟ ؟ ؟

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ نہیں پوچھیں گے کہ
” کتنا بچا کر جمع کیا تھا ؟ “
” کیا خواب دیکھے تھے ؟ “
” تمہارے منصوبے کیا تھے ؟ “
” تم کیا کہتے رہے تھے ؟“

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھیں گے کہ
” تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟ “
” کیا تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟ “
” کیا لوگ تمہاری زبان سے محفوظ تھے ؟ “
” کیا پڑوسی تم سے خوش تھے ؟“