Category Archives: معاشرہ

آپ کے پاس 3 روپے ہوں گے ؟

کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اور علی بھائی (مشہور اداکار محمد علی) بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ چپڑاسی نے علی بھائی سے آ کر کہا ”باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے ۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے“۔
علی بھائی نے اسے بلوا لیا ۔ کاروباری سا آدمی تھا ۔ لباس صاف سُتھرا مگر چہرے پر پریشانی جھلَک رہی تھی ۔ شیو بڑھی ہوئی ۔ سُرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان ۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا ” جی فرمایئے“۔
”فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی ۔ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں“۔ اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا
علی بھائی نے اس سے کہا ” آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیئے“۔
اس آدمی نے کہا ”چَوبُرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب“۔
” جی“۔
” لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے“۔
” کیوں ؟ کیسے جا رہی ہے“۔ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا
وہ آدمی بولا ” ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا ۔ میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے ۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے“۔
یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے ” آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟“
وہ آدمی بولا ” جی جی وہی ۔ ۔ ۔ علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا ۔ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں“۔
”فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں ؟“
” میرے پاس 20 ہزار ہیں ۔ 50 ہزار آپ مجھے اُدھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر اس آدمی کو دیکھا۔ سگریٹ سُلگائی اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے ”روبی بھائی ۔ یہ آسمان بھی بڑا ڈرامہ باز ہے ۔
کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے ۔ شطرنج کی چالیں چلتا ہے ۔ کبھی مات کبھی جیت“۔
یہ بات کہی اور اُٹھ کر اندر چلے گئے ۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا ۔ کرسی پر بیٹھ گئے
اور اس آدمی سے کہنے لگے ”پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی“۔
وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ” جی ۔ یہ بہت پرانی بات ہے“۔
”جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں“۔ علی بھائی نے کہا اور اچانک کہیں کھو گئے ۔ سگریٹ کا دھُواں چھوڑ کر فضا میں کچھ تلاش کرتے رہے ۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے ” آپ کے پاس 3 روپے ٹوٹے ہوئے ہیں ؟ “
” جی جی ہیں“۔
اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے 3 روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے
علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اُٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا ”یہ 50 ہزار روپے ہیں ۔ لے جایئے“۔
اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے
اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا ” علی بھائی مگر یہ 3 روپے آپ نے کس لئے ۔ ۔ ۔ ؟“
علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ”یہ میں نے آپ سے اپنے 3 دن کی مزدوری لی ہے“۔
”مزدوری ۔ ۔ ۔ مجھ سے ؟ میں آپ کی بات نہیں سمجھا “ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی
علی بھائی نے مُسکرا کر جواب دیا ” 1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اُٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی“۔
یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا
علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی ” مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے 3 دن کی مزدوری رکھ لی تھی ۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر وہ 3 روپے جیب میں ڈال لئے
” آپ یہ 50 ہزار لے جائیں ۔ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا “۔
علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے ۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی 2 حنوط شدہ مَمِیاں کرسی پر رکھی ہوں
احمد عقیل روبی صاحب کا تحریر کردہ واقعہ تو ختم ہوا

کیا آپ کو سمجھ آئی کہ کروڑ پتی محمد علی کیلئے 3 روپے کی کیا اہمیت تھی کہ لے لئے ؟
یہ محمد علی کی معاملہ فہمی ہے ۔ محمد علی نے سوچا ہو گا ” اچھا بھلا چلتا کار و بار تباہ ہونے کی وجہ شاید ایک غریب مزدور کی 3 دِن کی مزدوری نہ دینا ہو “۔
محمد علی نے اپنی مزدوری وصول کر لی تا کہ اُس شخص کی سختی ختم ہو

بشکریہ ۔ مصطفٰے ملک صاحب ” گھریلو باغبانی والے“۔

کہاں چلے گئے وہ بلاگر ؟

جی ہاں ۔ صرف پانچ سات سال پہلے جو جوان بلاگ لکھا کرتے تھے میں اُن کی بات کر رہا ہوں
کیا زمانہ تھا اور کتنا بھائی چارہ تھا آپس میں
ہر ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتا تھا
اِدھر میں نے مدد مانگی ۔ اُدھر مدد حاضر

حالانکہ سب جانتے تھے کہ میرا بڑا بیٹا زکریا کمپوٹر ہارڈ ویئر ۔ سافٹ ویئر اور بلاگنگ کا ماہر ہے
پہلا اردو بلاگز ایگریگیٹر (اُردو سیّارہ) ۔ اُردو محفل ۔ وغیرہ زکریا ہی نے بنائے تھے

میری مدد جن جوانوں نے کی اِن میں سے مندرجہ ذیل بغیر مدد مانگے ہی مدد کی پیشکش کرتے رہتے تھے
حارث بن خُرم
قدیر احمد جنجوعہ
جہانزیب اشرف
پرویز اُردو دان
حیدرآبادی

میں پچھلے چار سالوں میں تین بار مدد کی درخواست کر چکا ہوں لیکن مدد تو کُجا کسی نے حَوصلہ افزائی بھی نہ کی

آخری بار میں نے تین دِن قبل تمام قارئین سے مدد کی درخواست کی تھی
اِن تین دنوں میں 58 قارئین نے میری درخواست کو دیکھا لیکن میں مدد کی اِنتظار ہی میں رہا
آخر میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے مسئلہ حل کر دیا

جولائی کا الٹرا ساؤنڈ اور اگست کا بلیک باکس

اَن گِنت حُرّیَت پسندوں نے محکُوم قوموں کے لئے آزادی کی سیاسی جدوجہد کے اصول وضع کئے ۔ یہ آزادی محض غیرملکی حکمرانوں کو بے دَخَل کرنے کا نَصبُ العَین نہیں تھی۔ آزادی کی اس لڑائی کا حتمی نَصبُ العَین یہ تھا کہ اس زمین کے رہنے والے اپنی معاشی ۔ سماجی اور سیاسی صلاحیتوں کو برُوئے کار لاتے ہوئے انسانی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے ۔ دنیا کے ابھرتے ہوئے امکانات میں اپنا پورا پورا حق حاصل کر سکیں گے

اِسی اصول کے تحت آزادی محمد علی جناح اور اُن کے ساتھیوں نے آزادی کی جد و جہد کی ۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم شمالی یورپ کے جزیرے برطانیہ سے آنے والوں کو رُخصت کر کے مقامی طاقتور گروہوں کے غلام ہو جائیں جو نسل ۔ عقیدے اور بندوق کے بَل پر ہمارا اِستحصال کریں

جاننا چاہیئے کہ 25 جولائی 2018ء کی تصویر بدستور دھُندلی ہے ۔ اہلِ حُکم کا تھُوک ہمارے مقَدّس پرچم پر جم گیا ہے ۔ ہماری زمیں پَر زَور آور کے قدموں کے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں عِلم سے محروم کر کے تعصب اور نفرت میں اُلجھا دیا گیا ہے ۔ ہمارے قابل صد احترام آباؤاجداد کی سَتّر بَرس پر محیط قربانیوں سے ایک مرحلہ طے ہو گیا ہے ۔ اب ہماری کشمکش کسی ایک فرد یا منصب دار سے منسوب نہیں ہے ۔ ماضی میں ہم نے اپنے خوابوں کو فرد واحد کی ذات سے وابستہ کر رکھا تھا ۔ اب یہ کشمکش زیادہ اصولی اور ادارہ جاتی شکل اختیار گئی ہے ۔ ہمارے کچھ سیاسی رہنما آجکل اداروں کے احترام پر زور دے رہے ہیں ۔ ان کی رائے یقیناً وزن سے خالی نہیں ہو گی لیکن ان کی سوچ میں داخلی تضاد کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی چارہ نہیں

ہمارے یہ مہربان عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن ووٹ کی بالادستی کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں ۔ اگر انہیں ووٹ مانگتے ہوئے ایسے خدشات اور وسوسے لاحق ہیں تو کل جب یہ رہنما ووٹ سے تشکیل پانے والے اداروں میں رونق افروز ہوں گے تو ان کے دست و بازو پہلے سے قطع ہو چکے ہوں گے ۔ زمانے کا انقلاب دیکھیئے ۔ جو مہربان سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کو مک مکا قرار دیتے تھے اب سقوط جمہوریت کے دستاویزی شواہد پر شاداں و مسرور ہیں ۔ تاریخ کے یہ چیمبرلین اگر جولائی کے الٹرا ساؤنڈ سے خوف زدہ ہیں تو اگست کے بلیک باکس کا سامنا کیسے کریں گے ؟
وجاہت مسعود کی تحریر سے اقتباس

ووٹ کسے دیا جائے ؟ شرعی فتوٰی

مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع بن محمد ياسین عثمانی دیوبندی (25 جنوری 1897ء تا 06اکتوبر 1976ء) صاحب کا ووٹ کے بارے میں تاریخی فتوی
جس اُمیدوار کو آپ ووٹ دیتے ہیں شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریئے عِلم و عمل اور دیانتداری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے ۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں
1 ۔ آپ کا ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمائندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدمات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی ۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے
2 ۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے اسکا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے ۔ ثواب و عذاب بھی محدود ۔ قومی و مُلکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی اس کا ادنٰی نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے ۔ اس لئے اس کا ثواب یا عذاب بھی بڑا ہے
3 ۔ سچی شہادت کا چھپانا اَز رُوئے قرآن حرام ہے اس لئے اگر آپ کے حلقے میں صحیح نظریہ کا حامل کوئی دیانتدار اُمیدوار کھڑا ہے تو اس کو ووٹ نہ دینا گناہ کبیرہ ہے
4 ۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے
5 ۔ ووٹ کو پَیسوں کے عِوَض بیچ دینا بدترین قسم کی رِشوت ہے اور چند ٹَکوں کی خاطر اِسلام اور مُلک سے بغاوت ہے ۔ دوسروں کی دُنیا سنوارنے کے لئے اپنا دِین قُربان کر دینا چاہے کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسروں کی دنیا کے لئے اپنا دین کھو بیٹھے
(جواھر الفقہ ۔ جلد نمبر 2 ۔ صفحہ 300 و 301 ۔ مکتبہ دارالعلوم ۔ کراچی)

خرچ

سورة 2 البَقَرَة آیت 215
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا

گوٹھ نوّں پوترا کے مکینوں کا یادگار کردار

غالباً 29 جون 2018ء کو 27 اَپ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے جب تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو محراب پور سے چند کلو میٹر آگے گوٹھ نوّں پوترا کے پاس اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیئے ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے ۔ ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا اور الحمدللّہ ٹرین ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی

سواریوں کو اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس تھا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے ۔ سُبحان اللہ عجیب منظر تھا ۔ کسی نے پانی کا کولر اُٹھایا ہوا ہے ۔ کسی نے مٹکا ۔ کوئی جگ اُٹھائے ہے تو کوئی دودھ کا برتن ۔ کوئی بزرگ اپنی پگڑی میں برف لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں ۔ ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ۔ غرض بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اپنی استداد کے مطابق ہر کوئی کچھ نا کچھ لئے چلا آ رہا تھا ۔ چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی دیگ ایک رکشہ پر لائی گئی ۔ دیہاتیوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے ۔ چاول کھلانے کے لئے مٹی کی پلیٹیں لے آئے ۔ آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں
ہمدردی کے جذبہ سے سرشار گاؤں کے نیک سیرت سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ اُنہیں خدمت کا موقع ملا ۔ نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ جس کی وہ مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے ۔ کس ذات برادری ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ بس ایک ہی رشتہ تھا ۔ انسانیت کا ۔ پاکستانیت کا اور احسان کا کہ اللہ کا فرمان ہے
اللّہ تعالٰی ان سب کو جزائےعظیم دے ۔ ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے ۔ آمین

اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رُخصت کیا جاتا ہے

االلہ اللہ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے باری تعالٰی کی حمد کے ساتھ میری آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
مجھے اپنے دیہاتی بھائیوں کی ہمدردی اور مہمانداری کا تجربہ ہے ۔ میں جوانی میں سیر و سیاحت کا شوقین تھا ۔ جہاں بھی جاتا بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات کی طرف چلا جاتا ۔ قصبہ یا گاؤں کے اندر سارا سفر پیدل ہی ہوتا تھا ۔ میں نے خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی سیر کی اور پہاڑوں کی بھی ۔ ہر قصبہ ہر گاؤں کے باسیوں کو میں نے مُخلص ہمدرد پایا ۔ اُن کی ایک اور عادت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مُختلف تھی ۔ وہ برملا سیدھی بات کرتے تھے ۔ کسی لفظ یا فقرے پر مٹھاس چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ مجھے یہ طور پسند آیا کیونکہ مجھے بھی آج تک کسی بات پر ملمع چڑھانا نہیں آیا ۔ میں محسوس کرتا رہا کہ وہ بھی میرے انداز سے خوش تھے

ہمارے مُلک سلطنتِ خدا داد پاکستان کے اکثر عوام ہمدرد ۔ دُکھ درد بانٹنے والے ۔ مصیبت میں کام آنے والے ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناسی اور جذبہءِ خدمت و ایثار سے سرشار ہیں

جب میں اپنے مُلک کے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور اچھی مالی حالت والے لوگوں کی زبان سے سُنتا ہوں
”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔
”سب چور ہیں“۔
”سب بے ایمان ہیں“۔
تو میرا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اِن پڑھے لکھے جاہلوں کے ذہنوں میں ہالی وُڈ کی بنی مووی فلموں ۔ ٹی وی ڈراموں اور غیر مُلکی معاندانہ پروپیگنڈہ نے گھر کیا ہوا ہے ۔ یہ نہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں
اللہ ہم سب کو کریم ایسے ہموطنوں کو نیک ھدائت دے

غیب کا عِلم صرف اللہ رکھتا ہے

سورة 11 ھُود آیۃ 49
تِلۡكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهَاۤ اِلَيۡكَ‌ۚ مَا كُنۡتَ تَعۡلَمُهَاۤ اَنۡتَ وَلَا قَوۡمُكَ مِنۡ قَبۡلِ هٰذَا‌ ‌ۛؕ فَاصۡبِرۡ‌ ‌ۛؕ اِنَّ الۡعَاقِبَةَ لِلۡمُتَّقِيۡنَ

اے محمدﷺ ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ۔ پس صبر کرو ۔ ا نجام کار مُتّقِیوں ہی کے حق میں ہے