جمہوريت
Category Archives: مزاح
لڑکياں کيا کرتی ہيں
اپنے ساتھ پيش آنے والے چند واقعات تو ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب دنيا ميں ہونے والے واقعات ميں سے چند
گاڑی اُلٹی کيسے نکالتے ہيں
گاڑی کيسے چلاتے ہيں
ايک
دو بلکہ زيادہ
ہائے ميں مر گئی
ميری پھوپھی کی بيٹی جو مجھ سے 15 سال بڑی تھيں کہا کرتی تھيں “ہائے ميں مر گئی”
ميں ابھی دس گيارہ سال کا تھا تو اُن کی نقل کرتے ہوئے خاص کر اُن کے سامنے بات بے بات پر کہتا “ہائے ميں مر گئی”۔ اور وہ سُن کر ہنس ديتيں ۔ يہ فقرہ ميرا تکيہ کلام بن گيا اور ميرے دوست جب سنتے تو ہنس ديتے ۔ ميں نے اپنی شادی [نومبر 1967ء] کے بعد يہ کہنا چھوڑ ديا تھا
ڈيڑھ ماہ قبل اچانک يہ فقرہ ميری زبان سے ادا ہو گيا جس کی وجہ اخبار ميں چھپی ايک خبر تھی
انسانی نفسیات اور شخصیت پر کام کرنے والے ماہرین کی تحقيق کہتی ہے کہ مردوں کے ہاتھ کی چوتھی [چھنگليا کے ساتھ والی] انگلی مردانہ وجاہت کا تعین کرتی ہے ۔ چوتھی انگلی دوسری [يعنی شہادت کی] انگلی کے مقابلے جتنی لمبی ہوگی اس مرد کی شخصیت اتنی ہی پرُکشش اور جاذب نظر ہوگی اور ايسے مرد کا چہرہ صنف مخالف کیلئے اتنا ہی پُرکشش ہوگا
ايسے ميں ميرے منہ سے نکلنا ہی تھا نا “ہائے ميں مر گئی”؟
بُرا ہوا کہ يہ تحقيق ميری جوانی کے زمانہ ميں نہ ہوئی ۔ ايسا ہو جاتا تو ميں کم از کم ايک پريشانی سے بچ جاتا
ميں سوچا کرتا تھا کہ ميں [بوجوہ] کسی لڑکی کو لِفٹ نہيں کراتا اور لڑکيوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے خُشک لہجہ اختيار کرتا ہوں جس پر مجھے دوست ہميشہ ٹوکتے بھی ہيں ۔ اس صورتِ حال کے باوجود لڑکياں مجھے کيوں اہميت ديتی ہيں ۔ جوانی کے زمانہ ميں شادی سے قبل ميں راولپنڈی ۔ لاہور ۔ کراچی ۔ جرمنی ۔ ہالينڈ ۔ بيلجيئم اور برطانيہ گيا ۔ ہر جگہ ايسا ہوا ۔ جرمنی اور ہالينڈ ميں تو ميرے ساتھ ايک پاکستانی ساتھی تھے ۔ وہ کسی لڑکی کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتے اور لڑکی اُن کی بجائے ميرے ساتھ باتيں کرنے لگ جاتی ۔ وہ مجھے اُردو ميں کہتے “يار ۔ ميرا تعارف بھی کراؤ”۔ ميں کہتا “بات تو آپ نے شروع کی تھی اور مصيبت ميرے گلے پڑ گئی ہے”
جی ہاں ۔ ميری چوتھی اُنگلی دوسری اُنگلی سے خاصی زيادہ لمبی ہے اور تيسری يعنی درميانی اُنگلی سے تھوڑی سی چھوٹی ہے
ميں نہيں کہہ سکتا کہ کوئی لڑکی مجھ پر فريفتہ ہوئی يا نہيں ۔ صرف اتنا مشاہدے ميں آتا رہا کہ جب بھی کوئی موقع ہوا لڑکيوں اور عورتوں نے مجھے اہميت دی ۔ ويسے تو مجھے مردوں نے بھی عزت دی ۔ 10 سال قبل تک ميں مختلف فورمز پر تقارير کيا کرتا تھا ۔ موضوع زيادہ تر ٹيکنيکل يا منيجمنٹ ہوتے تھے ۔ تقرير کرنے والے باقی سارے ہُوٹ ڈاؤن بھی ہو جائيں تو اللہ کے فضل سے ميری تقرير خاموشی سے سُنی جاتی تھی
البتہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مجھ پر اتنی زيادہ مہربانی رہی ہے کہ ننھے بچے ہميشہ مجھ پر فريفتہ رہے ہيں
مُلک کے رکھوالے
حجامت اور سياستدان
ا يک پھولوں کی دکان کا مالک بال ترشوانے حجام کی دکان پر گيا ۔ بال ترشوا کر اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
دوسرے دن حجام دُکان پر آيا تو ايک شکريہ کا کارڈ اور درجن گلاب کے پھول دُکان کے سامنے پڑے تھے
اُس دن ايک پوليس والا بال ترشوانے آيا تو حجام نے اُسے بھی کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے روز حجام دکان پر آيا تو ايک پيسٹريوں کا ڈبہ اور ساتھ شکريہ کا کارڈ دُکان کے سامنے پڑے تھے
تيسرے دن ايک پاليمنٹيرين بال ترشوانے آيا ۔ جب وہ اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے دن جب حجام دُکان پر پہنچا تو درجن بھر پارليمنٹيرين بال ترشوانے کيلئے دُکان کے سامنے قطار لگائے ہوئے تھے
حقيقت اور مَنڈوا
لفظ “مَنڈوا” پر کئی قارئين سوچ ميں پڑ جائيں گے کہ “يہ کيا بلا ہے ؟”
جسے آجکل سنيما کہا جاتا ہے اس کی اُردو “مَنڈوا” ہے اور يہ لفظ ميں نے اپنے بچپن ميں استعمال ہوتے سُنا تھا ۔ اب کچھ پڑھے لکھے کہہ سکتے ہيں کہ “کتنا گنوار لفظ ہے”۔ ٹھيک ہی کہيں گے کيونکہ جہاں “غسلخانہ” “باتھ روم” ۔ “باورچی خانہ” “کچن” ۔ “ملازم” “سرونٹ” اور “ملازمہ” “ميڈ” بن چکے ہيں وہاں اور کيا توقع ہو سکتی ہے ؟
شايد اسی لئے کسی نے کہا تھا “جو تھی آج تک حقيقت وہی بن گئی فسانہ”
ہاں تو بات ہے حقيقت اور مَنڈوے يا سنيما کی ۔ اور اسی پر بس نہيں ۔ سنيما ۔ سنيما ۔ سنيما اور سنيما کی
آيئے ديکھتے ہيں
حقيقت
اب کوئی وُڈ يعنی ہالی وُڈ ۔ بالی وُڈ ۔ لالی وُڈ يا ڈالی وُڈ يعنی انگريزی فلم ۔ ہندی فلم ۔ پاکستانی فلم اور پنجابی فلم باری باری
انگريزی فلم
ہندی فلم
پاکستانی فلم
اور يہ رہی پنجابی فلم
سائنس اور سَينس
ايک “سائنس [Science]” ہوتی ہے اور ايک “سَينس [Sense]” ۔ سائنسدان [Scientist] سمجھ نہ آنے والی چيز کو “نان سَينس [Non-sense]” کہتا ہے اور جب وہی چيز اُسے سمجھ آ جائے تو کہتا ہے “اِٹ ميکس سَينس [It makes sense]”
جب ارشمِيدس [Archimedes] نہاتے ہوئے ننگا بھاگ نکلا اور بآوازِ بلند کہتا جا رہا تھا “پا ليا ۔ پا ليا [Got it, got it]”۔ اُس وقت لوگوں کيلئے وہ نان سَينس تھا مگر اُسے احساس نہ تھا کہ وہ کيا کر رہا ہے کيونکہ اُس کيلئے نان سَنس جو تھی وہ سائنس بن گئی تھی
ايک ايجاد [Invention] ہوتی ہے اور ايک دريافت [Discovery]۔ ايجاد وہ ہوتی ہے جو پہلے نہ تھی اور کسی نے نئے سرے سے بنا دی جبکہ دريافت وہ ہوتی ہے جو پہلے سے موجود تھی مگر معروف نہ تھی
انسان ازل سے ہی ہيرا پھيری کرتا آيا ہے ۔ سائنسدان خود ہی کہتے ہيں کہ مادہ نہ بنايا جا سکتا ہے اور نہ اسے فنا کيا جا سکتا ہے البتہ اسے ايک صورت سے دوسری صورت ميں تبديل کيا جا سکتا ہے [Matter can neither be created nor destroyed but it can change its form]۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مادہ ايک بار اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بنا ديا اور وہی اسے فنا کر سکتا ہے ليکن سائنسدان “ميں نہ مانوں” پر اَڑ جاتا ہے
خير چھوڑيئے مذہبی بات کو ۔ صرف سيکولر [Secular] بات جاری رکھتے ہيں ۔ اگر مادہ نہ بنايا جا سکتا ہے اور نہ فنا کيا جا سکتا ہے تو پھر ايجادات چہ معنی دارند ؟ جن کو ايجادات کہا جاتا ہے وہ دريافتيں ہی ہوئيں چنانچہ ثابت ہوا کہ انسان نے اپنی بے عِلمی پر پردہ ڈالنے کيلئے دريافت کو ايجاد کہنا شروع کيا
ارشميدس کی مثال ليجئے ۔ وہ ٹب ميں پانی بھر کر نہانے کيلئے اُس ميں گھُسا تو ٹب ميں سے کچھ پانی باہر بہہ گيا ۔ نہ تو وہ پہلی بار نہانے لگا تھا اور نہ وہ بغير ٹب کے نہاتا تھا کيونکہ اس زمانے ميں کميٹی کے نلکے نہيں تھے اور نہ اس کے گاؤں ميں کنواں اور رہٹ تھی کہ نيچے بيٹھ کر نہا ليتا جيسے ہمارے ملک ميں ديہات ميں لوگ نہاتے ہيں ۔ ثابت يہی ہوا کہ ارشميدس پہلے نان سَنس تھا کيونکہ اُس نے پہلے کبھی توجہ ہی نہ دی تھی کہ جب وہ نہانے کيلئے پانی کے ٹب ميں گھُستا تھا تو کچھ پانی ٹب سے باہر بہہ جاتا تھا يا کم از کم پانی کی سطح بُلند ہو جاتی تھی ۔ جب اُسے عِلم ہو گيا تو سائنسدان بن جانے کی خوشی ميں ننگا ہی بھاگ کر لوگوں کے سامنے نان سينس بنا
ميں نے بات طبيعات کی کی ہے کيميا کی نہيں ۔ کيميا کی بات کرتا تو ايووگيڈرو [Avogadro] کو بيچ ميں گھسيٹنا پڑتا اور ايووگيڈڈرو پادری تھا ۔ اس طرح پھر مذہب اور سيکيولرِزم کا دنگل پڑ جاتا