Category Archives: مزاح
کانٹا صحيح جگہ ڈالئے
عصرِ حاضر میں ہر کوئی کانٹا ڈالنے کی فکر میں ہے کہ کسی طرح دنوں میں بادشاہ نہیں تو کم از کم سرمایہ دار بن جائے ۔ بُش اور مُش سے لے کر عام آدمی بھی اسی فکر میں مبتلاء ہے لیکن ایسے میں لوگ بھول جاتے ہیں کہ کانٹا اگر صحیح جگہ نہ ڈالا جائے تو وہی ہوتا ہے جو اس خاکے میں دکھایا گیا ہے ۔ کیا بُش کیلئے عراق اور مُش کیلئے چیف جسٹس کچھ ایسے ہی ثابت نہیں ہو رہے ؟
چاچا وردی لاندا کیّوں نئیں
۔ ۔ ۔ ۔ پنجابی لوک گیت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُردو ترجمہ
بن کے مرد وخاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بن کے مرد دکھاتے کیوں نہیں
اپنا قول نبھاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا وعدہ نبھاتے کیوں نہیں
لَے کے پِنشن جاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لے کے پنشن جاتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
تیری مدّت ہو گئی پوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہاری مدت تو ہو چکی پوری
ہُون تے جانا اے مجبوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جانا ہے اب تمہاری مجبوری
رجیا نئیں تُوں کھا کھا چُوری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیٹ نہیں بھرا کھا کھا چوری
تَوڑیاں نے حدّاں دستوری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توڑی ہیں حدیں دستورکی
عزّت نال گھر جاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عزت سے گھر جاتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
آیاں اے کی چَن چڑھاون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آئے ہو تم نیا چاند چڑھانے
یورپ دا ماحول بناون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یورپ کا ماحول بنانے
دھیاں بھہناں نچرا پاون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹیاں بہنیں ناچ ناچیں
سڑکاں اُتے دَوڑاں لاون ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سڑکوں پر وہ دوڑیں لگاویں
ڈُب کے تُوں مر جاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ڈوب کے تو مر جاتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
نَس کے تُوں واشنگٹن جاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھاگ کے تم ہو واشنگٹن جاتے
بُش نوں جا جا مسکہ لاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بُش کو جا جا مکھن لگاتے
پَیراں وِچ ڈِگ ڈِگ جاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاؤں میں اس کے تم گِر گِر جاتے
مظلوماں نُوں تُوں تَڑیاں لاویں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مظلوموں کو ہو تم دھمکیاں دیتے
ظالم نال ٹکراؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظالم سے ٹکراتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
باطل نے شطرنج وچھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باطل نے ہے چوپال بچھائی
مَوہرہ رکھ چال چلائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موہرہ رکھ کے ہے چال چلائی
مِلّت نُوں تُوں مات دوائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملت کو تو نے مات دلوائی
جا کے دُشمن نال نبھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جا کے دشمن سے دوستی نبھائی
جُرم تے شرماؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جرم کر کے تو شرماتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
اپنی قوم نُوں ضربا لائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی قوم کو ضربیں لگائیں
کوہ چھَڈیا اے وانگ قصائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذبح کرتا ہے جیسے قصائی
ہلّہ شیری پار بلایاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فخر کرتے ہو سرحد پار جا کے
دیندا اے کشمیر دُہائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کشمیر دے رہا ہے دہائیاں
اَوتھے ٹَور وخاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں اکڑ دیکھاتے کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
قاتل نُوں دِلدار بنا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قاتل کو محبوب بنا کے
کی لَبیا اے ظُلم کما کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ملا تمہیں ظلم کما کے
افغاناں دا خُون بہا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افغانوں کا خُون بہا کے
ساری ملّت نُوں زخما کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساری ملت کو زخما کے
کِیتی تے پشتاندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کئے پہ تو پچھتاتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
اَکھیاں کھول کے تک بے دردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آنکھیں کھول کے دیکھو بے دردی
امریکہ دی دہشت گردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکہ کی دہشت گردی
کِیڑَیاں وانگوں اُمت مردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکوڑوں کی طرح ہے امت مرتی
غیرت نُوں اپناؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیرت کو اپناتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
جو لُٹیرے لُٹ لُٹ رَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لٹیرے لوٹ لوٹ کے سیر نہ ہوں
قوم دے ڈاکو تیرے سَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ قوم کے ڈاکو ہیں تیرے ساجن
کھُلے ڈھُلے نَسّن بھَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھلے عام دندناتے وہ ہیں
مسجداں تے چھاپے وَجّن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر مسجدوں پر چھاپے پڑتے ہیں
کھَسماں نُوں تُوں کھاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ [اکتاہٹ کے ساتھ] ہماری جان تو چھوڑتا کیوں نہیں
چاچا وردی لاؤندا کیّوں نئیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چچا وردی اتارتے کیوں نہیں
ضرورت ہے ایک قصائی کی
سُنیئے جنابِ والا
کیا کہتا ہے منادی والا
منادی سُنیئے غور سے
پھر بات کیجئے کسی اور سے
ضرورت ہے ۔ ضرورت ہے
ضرورت ہے ۔ ایک قصائی کی
وردی جو اُتارے اک سپاہی کی
نہ یہ بات ہے حیرانی کی
نہ یہ بات ہے پریشانی کی
پچھلے چھ سات سال میں بڑے بلند بانگ دعوے کئے گئے مگر وردی کوئی نہ اُتروا سکا اور اب ۔ ۔ ۔ وردی والے نے وردی کو کھال کا درجہ دیدیا ہے ۔ اگر ایک دکان میں کوئی کرایہ دار 45 سال رہے اور دکان کا مالک اس قابل نہ ہو کہ اُس کرایہ دار کو دکان سے بے دخل کر سکے تو مالک صرف کرایہ دار کی باتیں سُن سکتا ہے اُسے کہہ کچھ نہیں سکتا ۔ جو شخص 45 سال وردی پہنے رکھے اور کوئی اس کی وردی اُتروا نہ سکے تو اُس سے اور کیا اُمید ہو سکتی ہے ۔ ویسے تو ہمارے ملک میں [مع وردی والے کے] انسان کی کھال اُدھیڑنے والے بہت ہیں مگر ہم نے بچپن سے اب تک قصائی کو کھال اُتارتے دیکھا ہے ۔
کيا شوق صرف آپ کو ہے ؟
بجلی اور ایجنسیاں
میں نے کل لکھا تھا حال پانی کے بعد بجلی کی صرف ایک واردات کا ۔ تو ہوا یوں کہ بعد دوپہر 3 بجے بجلی پھر ایک گھینٹہ لاپتہ رہی اور ساڑھے چار بجے پھر غائب ہو گئی ۔ آجکل بہت انسان غائب ہو رہے ہیں اور بی بی سی کی تا زہ خبر کے مطابق پاکستان کے علاوہ آزاد جموں کشمیر کے صرف ایک شہر سے 15 افراد لاپتہ ہو گئے ہیں اور لوگ کہتے ہیں ایجنسیوں والے لے گئے ہیں ۔ گمان ہوا کہ بجلی بھی کہیں ایجنسی والوں کے ہاتھ نہ آ گئی ہو ؟ ایک تجربہ کار عقلمند نے کہا “نہیں ۔ ایجنسی والے بجلی کو ہاتھ نہیں لگا سکتے”۔ ہم نے پوچھا “آخر کیوں ؟” تو بولے “بجلی کرنٹ مارتی ہے” ۔ کہتے ہیں کہ سیانے کی بات پلے باندھ لینا چاہیئے ۔ اب سمجھ آ ئی کہ بااثر لوگوں ۔ غنڈوں ۔ بدکاری کرنے والوں اور ڈاکووں وغیرہ کو ایجنسیوں والے کیوں ہاتھ نہیں لگاتے ؟ وہ کرنٹ مارتے ہیں ۔