آدمی اپنے پیاروں سے(یعنی بیوی بچوں سے)
”گزشتہ رات مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں وہ بھی ہیں جنہیں حقیقتاً میری ضرورت ہے“۔
اُس کے پیاروں میں سے ایک حیرانگی سے بولا “ اچھا ؟ وہ کون ہیں ؟“
آدمی ” مچھر“۔
آدمی اپنے پیاروں سے(یعنی بیوی بچوں سے)
”گزشتہ رات مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں وہ بھی ہیں جنہیں حقیقتاً میری ضرورت ہے“۔
اُس کے پیاروں میں سے ایک حیرانگی سے بولا “ اچھا ؟ وہ کون ہیں ؟“
آدمی ” مچھر“۔
ہوائی سفر کے دوران ایک سیاستدان اور ایک کم سِن لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔ پرواز شروع ہوئی تو سیاستدان لڑکی سے مخاطب ہوا ”بات چیت سے آسانی سے کٹ جاتا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟“
لڑکی جس نے پڑھنے کیلئے کتاب کھولی ہی تھی بولی ”آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں ؟“
سیاستدان نے مُسکراتے ہوئے کہا ”کوئی خاص نہیں ۔ گلوبل وارمِنگ یا تیز برائڈ بینڈ یا مہاجرین کا مسئلہ ۔ کیا خیال ہے ؟“
لڑکی بولی ”ٹھیک ہے ۔ آپ کو اِن میں دِلچسپی ہے لیکن پہلے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں ۔ کیا وجہ ہے کہ ہرن ۔ گائے اور گھوڑا سب گھاس کھاتے ہیں لیکن اُن کے فُضلے بالکل مُختلِف ہوتے ہیں ؟“
سیاستدان کم سِن لڑکی کے سوال پر حیران ہوتے ہوئے بولا ” میں کچھ نہیں کہہ سکتا“۔
لڑکی بولی ” معمولی سی چیز تو آپ جانتے نہیں ۔ آپ اتنے بڑے بین الاقوامی معاملات پر کیا بات کریں گے جنہوں نے بڑے بڑے مفکّروں کو پریشان کر رکھا ہے“۔
اور لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہو گئی
اَیویں دُنیا دیوے دُہائی ۔ چُوٹھا پاؤندی شور
اپنے دِل تے پُچھ کے ویکھو ۔ کون نئیں اے چور
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
حق دُوجے دا مار مار کے بَن گئے لوک امِیر
میں اَیہنُوں کہندا چوری ۔ لوکی کہن تقدیر
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
ویکھے پنڈت گھیانی دھیانی دیآ دھرم دے بندے
رام نام چَپ کے کھاؤندے گاؤ شالہ دے چَندے
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
سَچے پھانسی چَڑھدے ویکھے ۔ چُوٹھا مَوج اُڑاوے
لوکی کہن اے رَب دی مایا ۔ میں کہندا انیآ اے
تے کی میں چُوٹھ بولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں کُفر تولیا ۔ کوئی نہ
تے کی میں زہر کولیا ۔ کوئی نہ
چھٹی کا دن تھا ۔ ایک بہت بڑی کمپنی کے کمپیوٹر میں گڑبڑ ہو گئی تو کمپنی کے ایم ڈی نے ماہر انجنیئر کے گھر ٹیلیفون کیا
ایک بچے کی مدھم سی آواز آئی ”ہیلو“۔
ایم ڈی ” ابو گھر میں ہیں ؟“
بچہ ہلکی آواز میں ”ہاں“۔
ایم ڈی ”میں ان سے بات کر سکتا ہوں ؟“
بچہ ” نہیں“۔
ایم ڈی نے سوچا شائد غسلخانہ میں ہوں اور پوچھا ” آپ کی امّی ہیں ؟“
بچہ ”ہاں“۔
ایم ڈی نے التجا کی ”بیٹا۔ اپنی امّی سے بات کرا دیں“۔
بچے نے اسی طرح مدھم آواز میں کہا ” نہیں“۔
ایم ڈی نے سوچا شائد وہ باورچی خانہ میں ہو ۔ اتنے چھوٹے بچے کو اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا چنانچہ اس نے کہا ” آپ کے قریب کوئی تو ہو گا ؟“
بچہ مزید مدھم آواز میں بولا ”ہاں پولیس مین“۔
ایم ڈی حیران ہوا کہ کمپنی کے انجنیئر کے گھر میں پولیس مین کیا کر رہا ہے ۔ اس نے معاملہ معلوم کرنے کے لئے پولیس مین سے بات کرنے کا سوچا اور کہا ”میں پولیس مین سے بات کر سکتا ہوں ؟“
بچے نے سرگوشی میں کہا ” نہیں ۔ وہ مصروف ہیں“۔
ایم ڈی نے مزید حیران ہو کر کہا ”پولیس مین گھر میں کیا کر رہے ہیں ؟“
بچہ ”وہ ابو ۔ امّی اور ایک فائر مین سے باتیں کر رہے ہیں“۔
اچانک فون میں سے گڑگڑاہٹ سنائی دی ۔ ایم ڈی نے پریشان ہو کر پوچھا ”بیٹا ۔ یہ کیسا شور ہے ؟“
بچے نے سرگوشی میں کہا ”ہیلی کاپٹر اُترا ہے“۔
ایم ڈی نے نہائت پریشانی میں پوچھا ”یہ ہیلی کاپٹر کیوں آیا ہے ؟“
ایک پریشان سرگوشی میں بچے نے کہا ”سرچ ٹیم ہیلی کاپٹر سے اُتری ہے“۔
ایم ڈی کا دل دَھک دَھک کرنے لگا ۔ ہمت کر کے پوچھا ” کیا ہوا ہے ؟ یہ سرچ ٹیم کیوں آئی ہے ؟“
بچے نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے سرگوشی میں کہا ”مجھے ڈھونڈ رہے ہیں“۔
مجھے مووی فلميں ديکھے آدھی صدی ہو گئی ہے اور اس سے پيشتر بھی سال ميں ايک يا دو بار ديکھتا تھا جو کوئی معلوماتی يا مزاحيہ [نرالا کی نہيں] ہوتی ۔ لوگ کہتے ہيں کہ ميں نے کچھ بھی نہيں ديکھا ۔ اُس زمانے میں ہالی وُڈ کا نام سُنا تھا لیکن اب سُنا ہے کہ بالی وُڈ اور لالی وُڈ کی فلميں بڑی زبردست اور ہيرو بے مثال ہوتے ہيں ۔ مجھے لالچ دلانے کيلئے کسی نے چند مناظر کی وِڈیوز بھيجيں جنہيں دیکھ کر سمجھ آئی کہ دنيا بہت ترقی کر گئی ہے ۔ ان فلموں کو ديکھنے کے بعد جو کچھ ہمارے مُلک ميں ہو رہا ہے وہ بھی کچھ کم لگتا ہے
1 ۔ ہيرو کو برين ٹيومر [brain tumor] ہو جاتا ہے ۔ ڈاکٹر لاعلاج قرار دے ديتا ہے ۔ موت يقينی ہے ۔ ايک دن ہيرو کا دشمن ہيرو پر گولی چلاتا ہے ۔ گولی ايک کان سے داخل ہو کر دوسرے کان سے نکل جاتی ہے اور اپنے ساتھ ٹيومر کو بھی لے جاتی ہے
2 ۔ ہيرو کا اپنے دُشمن 3 بدمعاشوں سے سامنا ہو جاتا ہے ۔ ہيرو کے پاس چاقو اور بندوق ہے مگر گولی ايک ہی ہوتی ہے ۔ ہيرو درميان والے بدمعاش کی طرف چاقو پھينکتا ہے اور پھر اس کا نشانہ لے کر گولی چلاتا ہے ۔ گولی چاقو کو لگ کر دو ٹکڑے ہو جاتی ہے ايک داہنے والے کو لگتا ہے اور بائيں والے کو اور وہ ڈھير ہو جاتے ہيں درميان والے کو چاقو لگتا ہے اور وہ بھی ڈھير ہو جاتا ہے
3 ۔ ہيرو کے دشمن اور ہيرو کے درميان اتنی اُونچی ديوار ہے کہ ہيرو کسی طرح اُس کے اُوپر سے گذر نہيں سکتا ۔ ہيرو کے پاس دو پستول ہيں ۔ وہ ايک پستول ہوا ميں پوری قوت سے اُچھالتا ہے ۔ جب پستول ديوار کی اُونچائی سے اُوپر پہنچ جاتا ہے تو ہيرو دوسرے پستول سے اُس پستول کے گھوڑے (trigger) کو نشانہ بناتا ہے ۔ بلندی پر پستول چل جاتا ہے اور اُس ميں سے نکلنے والی گولی ديوار کے دوسری طرف ہيرو کے دُشمن کو ڈھير کر ديتی ہے
ان فلموں کے اداکار ہدائتکار اور فلمساز نامعلوم کونسی دنيا کے باشندے ہيں
پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ماسٹرز (ماس کمیونیکیشن) کے ایک طالب عِلم 100 کے قریب لوگوں کی آواز اور طریقہءِ گفتگو کی نقل اُتار لیتا ہے ۔ اس طالب عِلم نے سماع ٹی وی پر اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا
یہاں کلِک کر کے دیکھیئے سُنیئے اور لُطف اُٹھایئے
ایک اور طالب عِلم کا بھی یہی کمال یہاں کلِک کر کے دیکھیئے سُنیئے اور لُطف اندوز ہویئے
سب جانتے ہیں کہ خاوند اور بیوی کا رشتہ اہمیت کا حامل ہے ۔ جمہوریت کا زمانہ ہے اسلئے اُمید کرتا ہوں کہ اس قابلِ احترام رشتے کے فرائض اور ذمہ داریاں سمجھانے میں آسانی رہے گی ۔ خاوند گھرانے کا صدر ہوتا ہے اور بیوی وزیرِ اعظم
صدر کا ریاست میں بڑا احترام ہوتا ہے کیونکہ وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے ۔ ریاست کے تمام قوانین حتٰی کہ آئین بھی صدر کی منظوری (دستخط) کے بغیر نافذ نہیں ہو سکتے
وزیرِ اعظم کا کام ریاست کا کار و بار چلانا ہوتا ہے ۔ داخلی امور کے ساتھ ساتھ خارجی امور اور تعلقاتِ عامہ بھی اُس کی ذمہ داری ہوتے ہیں ۔ وزیرِ اعظم جو بھی فیصلہ کرے یا قانون بنائے صدر کے پاس بھیجتا ہے اور صدر اُس پر منظوری کے دستخط کرنے کا پابند ہوتا ہے ۔ جو بھی فیصلہ کرنا ہوتا ہے وہ وزیرِ اعظم کرتا ہے لیکن وزیر اعظم صدر کے عہدے کا احترام کرتا ہے اسلئے فیصلہ لکھنے کے بعد صدر کو دیکھنے اور دستخط کرنے کیلئے بھیج دیتا ہے
صدر کا عہدہ ہے بہت قابلِ احترام گو صدر کے اخراجات کی منظوری بھی وزیرِ اعظم دیتا ہے ۔ صدر کوئی فیصلہ نہ از خود کر سکتا ہے اور نہ نافذ کر سکتا ہے ۔ یہ کام وزیرِ اعظم کے ذمہ ہے ۔ بے چارہ وزیرِ اعظم ۔ لیکن صدر کا عہدہ بہت قابلِ احترام ہے
سمجھ نہیں آیا تو ایک بار پھر پڑھیئے