Category Archives: طور طريقہ

ذرا ہوش سے

ویسے تو بہت سے لوگوں کا معمول بن چکا ہے کہ ہر بات ہر عمل سے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کو جوڑتے ہیں خواہ بے جا ہو لیکن عمل سے قبل اللہ کے احکامات ذہن میں نہیں رکھتے ۔ دین اسلام کے ذریعہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کی زندگی میں ہر عمل کیلئے رہنما اصول نہ صرف وضع کئے ہیں بلکہ کئی معاملات میں حُکم دیا ہے اور حُکم عدولی گناہ ہے

قارئین سے درخواست ہے کہ ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کرتے وقت اللہ کے مُجرم بننے سے احتراز کریں ۔ انتخابات میں پیش آنے والے عوامل کے متعلق چند چیدہ چیدہ احکامات

سورت 2 البقرۃ آیت 42 ۔ اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ ‏
( یعنی سب سے اچھے اُمیدوار کو چھوڑ کر کم اچھے اُمیدوار کو ووٹ نہ دیں)

سورت 2 البقرۃ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپالے وہ گناہ گار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے،‏
( ووٹ دینا گواہی ہے اسلئے ووٹ نہ دینا گناہ کے ذمرہ میں آئے گا)

سورت 4 النساء آیت 58 ۔ اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے، بیشک اللہ تعالٰی سنتا ہے دیکھتا ہے۔‏
(ووٹ قوم کی امانت ہے اسے درست حقدار کو دیں)

سورت 5 المائدہ آیت 8 ۔ اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کر دے عدل کیا کرو جو پرہزگاری کے زیادہ قریب ہے، اور اللہ تعالٰی سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالٰی تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔‏
(ووٹ ڈالنا گواہی دینا ہے اسلئے اس کے استعمال کو اللہ کے احکام کے تابع رکھیں)

سورت 104 الھمزۃ آیت 1 ۔ بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو۔‏
(چنانچہ دوسروں کے عیب نہ گِنیئے)

واللہ اعلم ۔ وما علینا الالبلاغ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ نظر رکھیئے

My Id Pak

اپنے خیالات پر نظر رکھیئے کہ یہ الفاظ کو جنم دیتے ہیں
اپنے الفاظ پر نظر رکھیئے کہ یہ فعل یا عمل کو جنم دیتے ہیں
اپنے فعل یا عمل پر نظر رکھیئے کہ یہ عادت بنتے ہیں
اپنی عادات پر نظر رکھیئے کہ یہ آپ کے کردار کی نشانی بنتی ہیں
اپنے کردار پر نظر رکھیئے کہ یہ آپ کا مقدّر یا نصیب بنتا ہے

آپ کے مقدّر یا نصیب میں 11 مئی کو آپ کے کردار کا بھی حصہ ہے
اسلئے ووٹ ضرور دیجئے اور ایسے اُمیدوار کو دیجئے کہ بعد میں پچھتانے کا کوئی خدشہ نہ رہے
فرشتے تلاش نہ کیجئے جو ملیں گے نہیں اور آپ گھر بیٹھے رہیں گے
نتیجہ یہ ہو گا کہ ووٹروں کی کُل تعداد کے 20 سے 30 فیصد ووٹ لینے والا آدمی کامیاب ہو جائے گا جو نہائت بُرا ہو سکتا ہے اور اس کے آپ ذمہ دار ہوں گے

وقت کی پُکار ؟؟؟

مایوسی گناہ ہے اور یہ آدمی کی اپنی کمزوریوں سے جنم لیتی ہےMy Id Pak
فرشتے آسمانوں پر ہوتے ہیں اس دنیا میں بہتر انسان کو تلاش کیجئے

دوسروں سے بھلائی کی اُمید میں وقت ضائع نہ کیجئے
”میں اکیلا کیا کروں“ کو ذہن سے نکال دیجئے

جو کرنا ہے آپ نے کرنا ہے

ایک اکیلا ہوتا ہے
اگر اپنے خلوص اور محنت سے وہ ایک ساتھی بنا لے تو 11 کے برابر ہوتے ہیں
اگر یہ دونوں اپنے خلوص اور محنت سے ایک اور ساتھی تلاش کر لیں تو 111 کے برابر ہو جاتے ہیں
11 مئی کو ووٹ ڈالنے ضرور جایئے اور ووٹ اُس اُمیدوار کو دیجئے جو آپ کے حلقہ کے اُمیدواروں میں سب سے زیادہ سچا ہو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

تم وطن کے شیر ہو ۔ شیر ہو دلیر ہو
تم اگر جھپٹ پڑو تو آسماں بھی زیر ہو

تمہارے دم سے ہے وطن یہ مرغزار یہ چمن
دہک اُٹھے دمن دمن وہ گیت گاؤ ساتھیو

یہ زمیں یہ مکاں ۔ یہ حسین کھیتیاں
ان کی شان تم سے ہے تُمہی ہو ان کے پاسباں

بچاؤ ان کی آبرو ۔ گرج کے چھاؤ چار سُو
جو موت بھی ہو روبرو تو مسکراؤ ساتھیو

ظلم کو پچھاڑ کے ۔ موت کو لتاڑ کے
دم بدم بڑھے چلو صفوں کو توڑ تاڑ کے

گھڑی ہے امتحان کی ۔ دکھاؤ وہ دلاوری
دہک رہی ہو آگ بھی تو کود جاؤ ساتھیو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

آج مجھے کہنے دیں

میرے اس بلاگ کا عنوان ہے “میں کیا ہوں”۔ مطلب یہ کہ ہم سب کیا ہیں ؟My Id Pak
تبدیلی اگر لانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلنا لازم ہے ۔
ہم ہیں کیا ؟ پوری دیگ میں سے صرف چند چاول
اور ہاں یہ اَن پڑھ یا مُفلس عوام کی باتیں نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے سُوٹِڈ بُوٹِڈ لوگوں کی جن میں مُلکی نظامِ تعلیم کو حقیر سمجھنے والے بھی شامل ہیں

میں جرمنی ۔ برطانیہ ۔ ہالینڈ ۔ بیلجیم ۔ فرانس ۔ ترکی ۔ لبیا ۔ امریکہ ۔سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات وغیرہ ممالک میں رہا ہوں

متذکرہ ممالک میں بنک ہو یا کوئی اور دفتر حتٰی کہ بس یا ٹرام کے انتظار میں سب لوگ آرام سے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں قطار میں کھڑا ہونا شاید جاہلیت کی علامت سمجھا جاتا ہے

متذکرہ ممالک میں کسی کو سلام کریں تو وہ مسکرا کر جواب دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں سلام کرنا شاید غریب یا چھوٹے آدمی کا فرض سمجھا جاتا ہے

متذکرہ ممالک میں کسی مقامی کو مُلک کے خلاف بولتے نہیں سُنا
ہمارے ہاں لوگ کماتے کھاتے اسی مُلک سے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔

متذکرہ ممالک میں ٹریفک پولیس والا موجود ہو یا نہ ہو ۔ دن ہو یا رات ہو کوئی گاڑی والا سُرخ بتی کراس نہیں کرتا خواہ دوسری طرف سے کوئی گاڑی نہ آ رہی ہو ۔
ہمارے ہاں ۔ ٹریفک پولیس والا نہ ہو تو گاڑی چلانے والے سُرخ بتی پر نہیں رُکتے چاہے کسی اور گاڑی والے کو رُکنے پر مجبور ہونا پڑے

متذکرہ ممالک میں سڑک کے کنارے کوئی ضعیف آدمی یا عورت سڑک پار کرنے کے انتظار میں دیکھیں تو گاڑیوں والے گاڑیاں روک کر اُنہیں گذرنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔
ہمارے ہاں گاڑی والوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی پیدل شخص خواہ کتنا ہی ضعیف ہو سڑک پار کرنے کی گُستاخی نہ کرے

متذکرہ ممالک میں جب کوئی گاڑی والا اپنی قطار سے دوسری قطار میں جانے لگتا ہے تو اشارہ دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں بغیر اشارہ دیئے دوسری قطار میں جاتی گاڑی کے سامنے زبردستی گھُس جانا شاید بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا ہے

کوئی عام دعوت ہو یا شادی کی دعوت متذکرہ ممالک میں لوگ بڑے تحمل سے اُٹھتے ہیں اور بڑی عمر کے لوگوں اور عورتوں کو آگے جانے کی درخواست کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کھانا کھُلتے ہی زیادہ تر لوگ اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے باہر دانہ ڈال کر چوزوں کا ڈربہ کھولا جائے تو سب گرتے پڑتے ایک دوسرے کو دھکیلتے دانے پر پہنچتے ہیں

فہرست اتنی طویل ہے کہ شاید لکھتے لکھتے میرا وقت ختم ہو جائے

سب سے پہلے اپنے اوصاف تو درست کیجئے پھر لگایئے نعرہ تبدیلی کا
تبدیلی اگر لانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلنا لازم ہے

سیانے لوگ جانتے ہیں کہ اگر جنگلی جھاڑی بڑی ہو جائے تو اُس کی اُوپر سے ٹہنیاں کاٹنے سے وہ ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ پھیل جاتی ہے ۔ جنگلی گھاس اُگ کر بڑھ جائے تو اسے تلف کرنے کیلئے ایک فٹ گہرائی تک کھدائی کر کے ساری گھاس ایک طرف کر کے جلا دی جاتی ہے ۔ پھر نئی مٹی ڈال کر اچھی گھاس لگا کر سالہا سال اس کی حفاظت کی جاتی ہے

کہاں جنگلی جھاڑی یا جنگلی گھاس کی طرح پلے آدمی جو جھاڑی یا گھاس کی طرح ساکن نہیں ہوتے بلکہ دوڑتے پھرتے ہیں ۔

جب تک آدمی انسان نہیں بن جاتے لیٰڈر یا جماعتیں تبدیل کرنے سے کچھ نہ ہو گا

بہتری کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے جو سب سے زیادہ دیانت دار یا یوں کہہ لیجئے کہ جو سب سے کم بد دیانت ہو اور جس کے ماضی کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہو کہ وہ باقیوں کی نسبت زیادہ اچھا کام کرے گا اُسے کامیاب کرایئے ۔ پارٹیوں کو بھول جایئے اور پارٹیوں کے سربراہوں کو بھی بھول جایئے ۔ کام آپ کیلئے آپ کے علاقہ سے منتخب ہونے والے نے کرنا ہے اور اسی کو آپ پکڑ بھی سکتے ہیں ۔ پارٹی کے سربراہ کو تو آپ صرف ٹی وی پر دیکھ سکیں گے

میں کانپ گیا

کچھ دنوں سے مجھے ماضی بعید میں پی ٹی وی پر دکھایا جانے والا رائٹر پروڈیوسر فاروق قیصر کا پروگرام”انکل سرگم“ یاد آ رہا ہے ۔ انکل سرگم کہا کرتا تھا ”سمال کراکری ۔ چھوٹا پانڈا“۔

گریٹ کرکٹ کیپٹن کے تقریری سٹائل نے انکل سرگم کی یاد دلائی ہے

عمران خان ایک بال سے 2 وکٹیں لینے سے شروع ہوا
پھر کہا “بلّے سے چھکّا ہی نہیں ۔ پھینٹی بھی لگائیں گے
پھر اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے نواز شریف پر تابڑ توڑ ذاتی حملے کرنا شروع کئے

مگر میں اُس وقت کانپ گیا جب بہاولپور کے جلسے میں عمران خان نے بڑی لہر میں آتے ہوئے کہا

(میرے اللہ ۔ تیرا یہ بندہ افتخار اجمل بھوپال دست بستہ عرض کرتا ہے کہ عمران خان کے بیہودہ بیان کو نقل کرنے کی جسارت کرنے پر مجھے معاف کر دینا)

عمران خان نے کہا ” اللہ نے سُوئَو مَوٹَو نوٹس لے لیا ہے“۔

یہ بھی پڑھیئے ” کہاں ہیں وہ مَور پنکھ ؟ “۔

بدنامِ زمانہ شیخ رشید کے ساتھ سپورٹ کا معاہدہ کرنا ہی کم نہ تھا کہ ٹیکسلا کے بدنام قبضہ مافیا کے سردار ” غلام سرور خان“ کو عمران خان نے ٹکٹ دے دیا

تبدیلی ؟ کیسے ؟

آجکل تبدیلی کا بہت غُوغا ہے ۔ ہر سمت سے تبدیلی کے آوازے سُنائی دے رہے ہیں ۔ My Id Pak
بڑے بڑے جلسوں میں تبدیلی کا دعوٰی کیا جاتا ہے ۔ کہیں سونامی سونامی کیا جا رہا ہے ۔ کیا ماضی قریب میں آنے والے سونامی کو تباہی مچاتے نہیں دیکھا یا یہ کہ بہتری کی بجائے تباہی لانے والی تبدیلی لانا چاہتے ہیں

کیا ہی اچھا ہوتا اگر کہتے ”ہم جہالت کے خلاف جہاد کر کے خلفائے رسول اللہ ﷺ کا دور واپس لائیں گے

تبدیلی کا نعرہ لگانے والے شاید خود بھی نہیں جانتے کہ تبدیلی کیسے لانا ہے اور اس کیلئے کیا کرنا پڑے گا

دیکھا جائے تو تبدیلی کا آغاز تو 2007ء میں ہو گیا تھا ۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ اپنی منازل طے کر رہی ہے
ضرورت ہے اس تبدیلی کو جاری رکھنے کی اور اس کی رفتار قدرے تیز کرنے کی

کیا پہلے کبھی گدی پر بیٹھے پاکستان کے وزیر اعظم کو عدالت نے 5 سال کیلئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا ؟
کیا کبھی پاکستان کے وزیر اور پھر وزیر اعظم بننے والے پر کرپشن کے مقدمات چلائے گئے تھے ؟
کیا کبھی جعلی ڈگری پیش کرنے پر اسمبلیوں کے اراکین یا سینیٹرز کو جیل بھیجا گیا تھا ؟

تبدیلی نعروں سے کبھی نہیں آئی اور نہ آئے گی ۔ اس کیلئے تحمل کے ساتھ پُرخلوص لگاتار محنت کی ضرورت ہوتی ہے

تبدیلی لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ
ہر ووٹر پچھلی غلطیوں پر نادم ہو اور آئیندہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی عوامل سے اپنے آپ کو بچائے رکھے
ووٹ ایسے اُمید وار کو دے جو موجود اُمیدواروں میں سب سے زیادہ دیانتدار اور سچا ہو
لیکن ووٹ ضرور دے ۔ یہ سوچ کر نہ بیٹھا رہے کہ سب چور ہیں ۔ فرشتے الیکشن لڑنے نہیں آئیں گے ۔ اسلئے اُمیدواروں میں جو سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دے
یہ خیال بھی رہے کہ ووٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کو نہیں دینا بلکہ اپنے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے ایک کو دینا ہے اسلئے اس کی دیانت اور سچائی کو دیکھیئے نہ کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی

وقتِ عمل

میں 6 ماہ قبل یہ پیغام شائع کر چکا ہوں ۔ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئیMy Id Pak

نہ تو پہلی تصویر میں کھڑے آدمی کی طرح بے فکر بنیئے یعنی سب چور ہیں کہہ کر گھر نہ بیٹھے رہیئے ۔ بُروں میں سے جو اُمیدوار باقیوں سے بہتر ہے اُسے ووٹ دیجئے
اور
نہ دوسری تصویر میں دکھایا گیا راستہ اختیار کیجئے

وقتِ عمل ہے اور سوچ سمجھ کر عمل کیجئے تاکہ مستقبل سکون سے گذار سکیں

11 مئی 2013ء کو آپ کا فیصلہ ہی آپ کے مستقبل کو اچھا یا بُرا بنائے گا ۔ جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر عقل اور تجربے سے کام لے کر فیصلہ کیجئے