Category Archives: طور طريقہ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کردار

بند کمرے میں ہوں تو
جس طرح چھوٹے چھوٹے سوراخوں میں سے آتی سورج کی کِرنیں سورج کے مزاج کا پتا دیتی ہیں

اسی طرح انسان کی چھوٹی چھوٹی باتیں اُس کے کردار کو عیاں کرتی ہیں

اپنے کہے الفاظ اور حرکات جنہیں آپ معمولی سمجھتے ہیں اِن پر نظر رکھیئے یہی آپ کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں

برادری ۔ چوہدری ۔ پنچائت ۔ خُوبیاں اور خامیاں

برادری نظام افریقہ اور ایشیا کا قدیم معاشرتی نظام تھا ۔ انگریز جہاں بھی پہنچا اُس نے اسے سب سے پہلے نشانہ بنایا کیونکہ اُن کے اجارہ داری نظام کی راہ میں یہ نظام ایک بڑی رکاوٹ تھا ۔ ہندوستان میں عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے برادری نظام کے مقابلے میں اُنہوں نے لمبرداری یا نمبرداری نظام تشکیل دیا جس میں لمبردار یا نمبردار برطانوی حکومت کا نمائندہ ہوتا تھا اور اُسے عوام کو لوٹنے اور تنگ کرنے کے کئی اختیارات سونپے گئے تھے ۔ اس مصنوعی نظام نے برادری نظام کو کمزور کرنے میں اور برادریاں توڑنے اور ہندوستان پر انگریزوں کی گرفت مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ انگریز کے بنائے نظام میں بھی ایک چوہدری ہوتا تھا جو برادری کا قابلِ احترام بزرگ ہونے کی بجائے انگریز کا پِٹھو جاگیردار ہوتا تھا جسے اپنی قوم سے غداری کے عوض جاگیر ملی ہوتی تھی

نئی اچھی چیزیں اپنانا انسانی بہتری کیلئے لازم ہے لیکن یہ رویہ بھی غلط ہے کہ جدیدیت کو اپناتے ہوئے اپنے قدیم اچھے اوصاف سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے ۔ برادری نظام جس میں عدالت کا کام پنچائت کرتی تھی اپنی کمزور ترین حالت میں آدھی صدی قبل تک رائج تھا ۔ یہ نظام گو اپنی خُوبیوں میں سے اکثر کھو چکا تھا پھر بھی موجودہ انگریزی نما آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام سے بدرجہا بہتر تھا ۔ میں صرف اپنے خاندان کے برادری نظام کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں جو کہ اب مرحوم ہو چکا ہے

ہماری برادری دوسری برادریوں سے ایک لحاظ سے مختلف تھی کہ اس میں اپنے ہی خاندان میں شادی کرنے کی پابندی نہ تھی البتہ ترجیح ضرور تھی ۔ جس دوسرے خاندان میں شادی ہوتی اُسے اُن کی رضامندی سے اپنی برادری میں شامل کر لیا جاتا ۔ جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس سوچ کے نتیجہ میں ہماری برادری کا بہت زیادہ پھیل جانا بھی اس برادری نظام کے خاتمہ کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ۔ دوسری بڑی وجہ جدیدیت کا بخار ہے جس نے 1950ء کی دہائی میں جوان ہونے والی نسل کو خودسر بنا دیا تھا

برادری کا ایک چوہدری ہوتا تھا جسے برادری کے بزرگ چُنتے اور وہ اُس وقت تک چوہدری رہتا جب تک وہ صحت یا کسی اور خاص وجہ سے معذوری ظاہر نہ کرتا ۔ چوہدری کے خلاف کوئی بڑی شکائت ملنے پر پنچائت بُلائی جاتی جس کی صدارت تو چودری ہی کرتا لیکن اسے بولنے کا اختیار صرف اس وقت ہوتا جب پنچائت اسے کسی خاص بات کی وضاحت کرنے کو کہے ۔ اگر چوہدری کے خلاف شکایات بڑھ جاتیں تو چوہدری خود ہی کسی غیرمتنازعہ شخص کو اپنی ذمہ داری سونپ کر الگ ہو جاتا

جو خاندان اپنے باہمی فیصلے نہ کر پاتے وہ چوہدری سے رجوع کرتے اور اگر چوہدری اس کا متفقہ فیصلہ نہ کر پاتا تو معاملہ پنچائت تک پہنچایا جاتا ۔ شادی کی بات پکی کر کے چوہدری کو اطلاع دی جاتی ۔ کچھ لوگ شادی کی بات پکی کرنے سے قبل ہی چوہدری کو اعتماد میں لیتے اور کچھ ایسے بھی ہوتے جو اپنے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کرنا چوہدری کے ذمہ کر دیتے ۔ شادی کی تاریخ مقرر ہو جانے پر چوہدری سب مہمانوں کو مطلع کرنے کا ذمہ دار ہوتا یہ کام وہ اس کام کیلئے مقرر ایک خاندان سے کرواتا جس کی کُنیت بھَٹ تھی ۔ کسی کی وفات کی صورت میں بھی بھَٹ کو اطلاع دی جاتی جو گھر گھر جا کر وفات کی اطلاع کے ساتھ نماز جنازہ کے وقت اور دفن کی جگہ کی اطلاع دیتا ۔ اس کے علاوہ بھی سب اجتماعی ۔ معاشرتی اور انفرادی مسائل میں چوہدری سے مشورہ کیا جاتا اور اہم معاملات میں پنچائت بُلائی جاتی ۔ چوہدری گاہے بگاہے اپنے انفرادی طور پر کئے ہوئے فیصلوں پر پنچائت کو اعتماد میں لیتا رہتا ۔ چوہدری کسی بھی صورت مطلق العنان نہیں تھا

شادی کسی کی بھی ہو اس کا منتظمِ اعلٰی چوہدری ہی کو سمجھا جاتا تھا ۔ چوہدری جس کو اس شادی کا منتظم نامزد کر دیتا سب لوگ بالخصوص نوجوان اُس سے تعاون کرنے اور اُس کا حُکم ماننے کے پابند ہوتے ۔ شادی کے کھانے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے وہ برادری کی ملکیت ہوتے تھے اور عام طور پر برادری کے چندے سے خریدے جاتے تھے لیکن کوئی چاہے تو چندے کے علاوہ اپنی جیب سے برتن خرید کر دے سکتا تھا ۔ اگر دُلہن بننے والی لڑکی کے والدین کی مالی حالت کمزور ہو تو چوہدری چُپکے سے برادری کے مخیّر حضرات سے مالی تعاون حاصل کر لیتا ۔ کبھی کبھی کوئی مخیّر شخص پوری برادری کی ضیافت بھی کرتا جسے “برادری کا کٹھ” کا نام دیا جاتا ۔ یہ ایک بہت بڑی ضیافت ہوتی تھی جس کا انتظام سب مل کر کرتے تھے ۔ بعض اوقات کچھ لوگ مل کر بھی برادری کے کٹھ کا خرچ اُٹھاتے تھے

میرے والدین کی شادی سے بھی پہلے میرے دادا کو چوہدری بنایا گیا تھا جبکہ برادری میں کئی بزرگ اُن سے عمر میں بڑے تھے اور اُن کے اپنے تینوں بھائی بھی اُن سے بڑے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے دور میں برادری کی اجتماعی ضروریات کے سلسلہ میں اپنی جیب سے بہت خرچ کیا جس نے اُنہیں برادری کے عام لوگوں میں ہر دلعزیز بنا دیا لیکن پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے کچھ پہلے اُنہوں نے اپنی صحت کے حوالے سے ذمہ داریاں کسی اور سونپ دیں

دوسری قسط کچھ دن میں

بہتر کون ؟

آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے

لیکن

سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے شاید ایسے لوگوں کو پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

جیت گیا آ آ آ آ آ آ آ آ پاکستان

جیت گیا پاکستان اور میں جیت گیاMy Id Pak
ہار گیا نکتہ دان اور دشمن ہار گیا

کسی نے کہا تھا

سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

ہمارا حلقہ ہے اسلام آباد این اے 48 ۔ بہت پہلے سے معلوم تھا کہ مقابلہ تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی اور مسلم لیگ ن کے انجم عقیل میں ہو گا ۔ سیاسی جماعتوں کے موجودہ قائدین میں سے میں میاں محمد نواز شریف کو سب سے اچھا سمجھتا ہوں ۔ میں نے اُس اصول کے مطابق جس کی تلقین پچھلے ایک ماہ سے میں بار بار کر رہا تھا ووٹ میاں محمد اسلم کو ووٹ دیا ۔ میں جانتا تھا کہ وہ ہار جائے گا لیکن میں نے کبھی اپنا اصول نہیں توڑا ۔ میاں محمد اسلم دیانتدار ہے ۔ خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور آسانی سے اُس کے ساتھ ملاقات کی جا سکتی ہے ۔ غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق ہمارے حلقہ میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی جیت رہے ہیں

قومی اسمبلی کے اب تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق صورتِ حال یہ ہے

مسلم لیگ ن ۔ 129
پاکستان تحریکِ انصاف ۔ 34
پی پی پی پی ۔ 31
ایم کیو ایم ۔ 12
جمیعت علماء اسلام ف ۔ 10
جماعت اسلامی ۔ 3
پی ایم ایل کیو ۔ 1
اے این ۔ صفر
بقایا سیاسی جماعتیں
آزاد اُمیدوار ۔ 27

خاص باتیں
1 ۔ پہلی بار کراچی سے مسلم لیگ ن کا اُمید وار پی پی پی پی کے اُمیدوار کو ہرا کر جیت گیا ہے
2 ۔ اے این پی کا صفایا ہو گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی سیکولر جماعتوں سے دور ہو گئے ہیں
3 ۔ پی پی پی پی کو اُن لوگون کے ووٹ ملے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو شہید اور پیر سمجھتے ہین اور اُن کا دعوٰی ہے کہ اُن کی آنے والی نسلیں بھی شہیدوں پیروں کو ووٹ دیں گی
4 ۔ اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے جاوید ہاشمی کو ملنے والے ووٹوں میں 60 فیصد سے زیادہ ووٹ عورتوں اور لڑکیوں کے ہیں اور 40 فیصد سے کم مردوں اور لڑکوں کے ہیں ۔ گویا عمران خان صنفِ نازک کا ہیرو ہے
5 ۔ جہاں جہاں سوشل میڈیا کا دور دورا ہے وہاں عمران خان کی واہ واہ ہوئی اور تحریکِ انصاف کے اُمیدوار جیتے ہیں ۔ جہاں لوگ حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے ہیں وہاں مسلم لیگ ن کے اُمیدوار جیتے ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طبیعت

دنیا کو اپنی خوشگوار اور دیانتدار طبیعت کو نہ بدلنے دیجئےMy Id Pak
بلکہ
اپنی خوشگوار طبیعت ۔ دیانت اور تحمل سے دُنیا کو بدل ڈالیئے

کل آپ کا امتحان ہے ۔ اپنی خوشگوار اور تحمل والی طبیعت اور دیانت کا ثبوت پیش کیجئے

سیاست ۔ جھوٹ ۔ تبدیلی ؟

صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں ساری دنیا میں سیاستدانوں کی تقاریر اور وعدوں پر نظر ڈالی جائے اکثریت جھوٹ بولتی محسوس ہوتی ہے ۔ الیکشن 2013ء کے سلسلہ میں زیادہ تر سیاسی جماعتیں تبدیلی کی بات کر رہی ہیں ۔ تبدیلی کیسے آئے گی ؟

تبدیلی لانے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ عوام میں اچھے اور بُرے کا شعور پیدا کیا جائے اور سمجھایا جائے کہ اپنی اور مُلک و قوم کی ترقی کیلئے مَل جُل کر خلوصِ نیت سے محنت کے ساتھ کام کیا جائے ۔ حکمرانی کے ذریعہ تبدیلی لانے کیلئے لازم ہے کہ تبدیلی لانے والی سیاسی جماعتقومی اسمبلی کی کم از کم 172 نشِستیں حاصل کرے ۔ پھر اس کے پاس کم از کم ایک درجن باشعور مخلص اور محنتی وزراء ہوں

تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے فاروق عالم انصاری کی ایک تحریر میں بھی دکھائی دی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں

گوجرانوالہ ایشیا کا گندہ ترین شہر سہی لیکن تحریک ِ انصاف کی ٹکٹوں کی کہانی میرے شہر کی گندگی سے بھی بڑھ کر ہے۔ دوگنی، چوگنی اور کتنے گنا ہوگی؟ بھئی انت شمار سے باہر ہے۔ ہمارے چیئرمین تحریک ِ انصاف کہہ رہے ہیں کہ ہم سے ٹکٹو ں کے معاملے میں کچھ غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ یہ بے خبری اور بھولپن کی انتہا ہے کہ اسے ”محض“ سمجھا جائے۔ کیا یہ غلطی ہے؟ خود ہی جواب تلاش کریں۔ میں صرف چند واقعات لکھ کر بری الذمہ ہوتاہوں۔ وما علینا الا البلاغ المبین
(1) گوجرانوالہ میں چیئرمین کے 2مئی کے منسوخ شدہ جلسہ کے لئے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی سے چندہ مانگا گیا تو وہ کہنے لگا کہ 42 لاکھ دے کر ٹکٹ لیا ہے اب مجھ سے اور کیا مانگتے ہو ؟
(2) وزیرآباد سے ایک امیدوار صوبائی اسمبلی اسی جلسہ کے لئے چندہ مانگنے پر پھٹ پڑا ”جتنے روپے آپ مانگ رہے ہیں اس کے آگے کئی صفرے لگانے پر وہ رقم بنتی ہے جو دے کر میں نے ٹکٹ خریدا ہے، اب مجھ میں ادائیگی کی اور کوئی سکت نہیں رہی“ یاد رہے کہ اس سے چیئرمین کے جلسہ کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا
(3) گوجرانوالہ پی ٹی آئی کے سابق ضلعی صدر اظہر چیمہ کو ایک امیدوار نے بتایا کہ اس نے یہ ٹکٹ 50لاکھ روپے میں خریدا ہے۔ اظہر چیمہ بڑے بھولپن سے پوچھ بیٹھا کہ ”آپ تو پی ٹی آئی کے ممبر بھی نہیں تھے“ اس نے جواب دیا ”پی ٹی آئی کی ممبرشپ انتخابی ٹکٹ کے
ساتھ خود بخود ہی مل جاتی ہے۔“ اب یہ خبر جو میں ابھی بتانے والا ہوں پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوگی۔ خبریوں ہے کہ اس موقع پر اظہر چیمہ کف افسوس ملتے ہوئے بولا ”مجھے علم نہیں تھا کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ فروخت ہو رہے ہیں ورنہ میں اس ٹکٹ کا ایک کروڑ روپے بھی ادا کرنے کو تیار تھا“
(4) میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہو رہا تھا۔ موضع کوہلو والہ تحصیل گوجرانوالہ کے بلال سانسی کو پچاس لاکھ روپے لے کر پہنچنے کاحکم ملا۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلا بھرا اور اسلام آباد کی طرف چل پڑا۔ میریٹ ہوٹل کے قریب پولیس چیک پوسٹ پر سپاہی نے ڈگی کی تلاشی لیتے ہوئے پوچھا ”اس تھیلے میں کیا ہے؟ بلال سانسی نے جواب دیا”کرنسی نوٹ ہیں“ سپاہی بے ساختہ بولا ”اچھا تو آپ بھی میریٹ ہوٹل جارہے ہیں؟ وہاں جوبھی جارہا ہے نوٹوں سے لدا پھندا جارہا ہے نجانے وہاں کیا کاروبار ہو رہاہے؟“ اب بلال سانسی کی بدقسمتی کہ اس کے حلقے کا ٹکٹ اس کے پہنچنے سے پہلے فروخت کیا جاچکا تھا
(5) ایک امیرزادہ بڑا کایاں نکلا اسے رقم کا کوئی مسئلہ نہیں تھا اس نے بیک وقت ملتان کے دونوں سیاسی آڑھتیوں کو رقم کی ادائیگی کردی زیادہ سے زیاد ہ کیا ہوا؟ ٹکٹ تو دوگنی قیمت کا ہو گیا لیکن اس کاملنا تو یقینی ہوگیا
(6) میں پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ ٹکٹ کی مد میں ہمارے عزت مآب ضلعی صدر رانا نعیم الرحمن خان صاحب سے بھی ایک معقول رقم بٹوری گئی ہے اس بیچارے کو آخری دم تک خواجہ محمد صالح کے بھوت سے ڈرایا جاتا رہا تھا
(7) گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والا سنٹرل پنجاب پی ٹی آئی کا ایک نوجوان عہدیدار ٹکٹوں کے بیوپار میں مالامال ہوگیا ہے۔ ٹکٹوں کی دلالی کوئلوں کی دلالی نہیں کہ اس میں منہ کالا ہو جائے بڑا صاف ستھرا کام ہے۔ اس نفیس کام میں رنگت کچھ اور نکھر آتی ہے۔ اسے تین ضلعوں کے ٹکٹوں کے سودے کروانے کی سعادت نصیب ہوئی
(8) پی ٹی آئی کاایک امیدوار مجھے یہ کہتے ہوئے بات ختم کرنے کی تلقین کرنے لگا کہ ضلع گوجرانوالہ میں کون ہے جسے تحریک ِ انصاف کا ٹکٹ مفت ہاتھ آیا ہو؟
میں اس بات کاحلف دینے کو تیار ہوں کہ میرے اس کالم میں کوئی ایک بات بھی کسی شخص سے غلط طور پر منسوب نہیں کی گئی۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسے امیدوار جو اپنے وافر مال منال کے باعث پی ٹی آئی کے ٹکٹ خریدنے میں کامیاب ہوگئے
ہیں اگر منتخب ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے تو بھلا کیا تبدیلی آجائے گی
شب گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا

ذمہ داری پوری کیجئے

اگر آپ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری نہیں کرتے تو آپ کو اپنے حقوق کی بات کرنے کا حق نہیں ہےMy Id Pak

ملک کے 18 کروڑ عوام جن میں بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ مرد ۔ لڑکیاں اور لڑکے سب شامل ہیں کی قسمت کا اختیار کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ گویا نہ صرف اپنے ماں ۔ باپ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ خاوند یا بیوی ۔ بیٹا ۔ بیٹی بلکہ خود اپنی گردن بھی کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ اسلئے یاد رکھیئے کہ

انتخابات کھیل تماشہ نہیں اور نہ ہی چھٹی آرام کرنے کیلئے دی جاتی ہے ۔ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں ۔ آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیے

فرشتے تلاش نہ کیجئے ۔ آپ کے علاقہ کے اُمید واروں میں سے جو کردار کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دیجئے

تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اُسے دیجئے جس کا ماضی باقی اُمیدواروں کے مقابلے میں زیادہ دیانتدار ہو اور بے لوث عوامی خدمت کرتا ہو

ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ۔ ووٹ اسے دیجئے جس کا ماضی زیادہ دیانتدار ہو اور بے لوث عوامی خدمت کرتا ہو

جس آدمی سے آپ ڈرتے ہوں اسے بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کہہ دیجئے ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے احباب کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش کیجئے

ورنہ اگلے 5 سال بھی پچھتانے میں گذریں گے