Category Archives: طور طريقہ

میری کہانی 7 ۔ سمجھ کی بات

آجکل جب کبھی رات کو سونے کیلئے بستر پر لیٹے ہوئے اپنے ماضی پر نظر پڑتی ہے تو ایک بات پر میں تعجب کئے بغیر نہیں رہتا کیونکہ اس کا سبب میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ چنانچہ میں مندرجہ ذیل شعر بار بار پڑھتا ہوں اور اشک باری کرتا ہوں کہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں

سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو
میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا
مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

میں ایک عام دنیا دار آدمی ہوں ۔ زندگی کا بیشتر حصہ ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا اور چند جوڑے کپڑے ہی میری متاعِ کُل رہی ۔ دولت کی ہوس تو نہ تھی البتہ دولت کی ضرورت ہمیشہ رہی ۔ لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ بچپن سے لے کر آج تک مجھ پر اتنا اعتبار کیوں کیا جاتا رہا ۔ پہلے کا تو کچھ یاد نہیں سکول میں آٹھویں جماعت (1950ء) سے انجنیئرنگ کالج تک اور پھر ملازمت کے دوران بھی اگر پیسے رکھنے کیلئے کسی کو خزانچی بنانا ہوتا تو ساتھی میرے گرد ہو جاتے اور انکار کے باوجود مجبور کر دیتے ۔ کہیں ذاتی طور پر یا کالج کی طرف سے دورے پر جاتے تو کچھ لڑکے اکٹھے ہو کر اپنے اپنے پیسے مجھے دے دیتے اور کہتے ہم اکٹھے ہی ہر جگہ جائیں گے ۔ خرچ تم کرتے جانا

سکول کالج اور جوانی میں بھی میں صنفِ مخالف کے ساتھ بہت روکھا بولا کرتا تھا ۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں آزاد خیال لڑکیوں کے سوا (جو اُس زمانہ میں بہت کم تھیں) کسی لڑکی کو کسی لڑکے سے کوئی کام ہوتا تو مجھے قاصد بنا دیتی

اُستاد کوئی تفتیش کر رہے ہوتے تو آخر میں مجھے بُلا کر پوچھتے کہ درست بات کیا ہے ؟ انجنیئرنگ کالج میں ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ صاحب جو مکینیکل انجنیئرنگ کے سربراہ بھی تھے اور بعد میں وائس چانسلر بنے خود آڈٹ کرنے کی بجائے خُفیہ طور پر مجھ سے کرواتے اور جو میں کرتا اُس پر دستخط کر دیتے

ذاتی معاملات میں بھی کئی اصحاب مجھ سے مشورہ طلب کرتے ۔ میں عام طور پر یہی کہتا کہ ”یہ آپ کا ذاتی یا خانگی معاملہ ہے ۔ اس پر میں کیا رائے دے سکتا ہوں ۔ آپ اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں“۔ لیکن وہ مصر رہتے اور ذاتی یا خانگی تفصیلات بیان کر دیتے
میں اُس وقت سوچا کرتا کہ میں اتنا اچھا آدمی نہیں ہوں پھر یہ صاحب مجھ پر اتنا بھروسہ کیوں کر رہے ہیں ۔ کبھی میں اتنا ڈر جاتا کہ میرے مشورے کے نتیجہ میں ان کا کوئی نقصان ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکوں گا

بلاشُبہ اللہ بے نیاز ہے ۔ ایک دانہ بونے سے جو پودا اُگتا ہے اُسے بہت سی پھلیاں پڑتی ہیں اور ہر پھلی میں کئی کئی دانے ہوتے ہیں
اگر اللہ ہماری محنت کا برابر صلہ دینا شروع کرے تو ہمارا کیا بنے ؟

آپ کتنے پانی میں ہیں ؟

”حکمران خراب ہیں“۔ ”زمانہ خراب ہے“۔
یہ فقرے عام سننے میں آتے ہیں
حُکمرانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے پہلا قدم لازم ہے کہ حکومت یا کسی دوسرے پر الزام لگانے والا اپنا جائزہ لے کہ
میں کیا ہوں ؟
میری اس معاشرے میں کیا ذمہ داریاں ہیں ؟
کیا میں وہ ذمہ داریاں نباہ رہا ہوں ؟

تخلیے میں تھوڑا سا اپنا امتحان تو لیجئے

کیا میرے دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہے ؟
کیا میں کوئی فلاحی کام کرتا ہوں ؟
کیا میرا پڑوسی مجھ سے خوش ہے ؟
کیا میں اپنے بچوں کی شادی اور دیگر خوشی کے مواقع پر یتیموں اور مسکینوں کو یاد رکھتا ہوں ؟
کیا مجھے حرام اور حلال کی سوجھ بوجھ ہے ؟
کیا میں حرام سے بچتا اور حلال کیلئے محنت کرتا ہوں ؟
کیا میں ادھار لے کر وقت پر لوٹاتا ہوں ؟
کیا میں دوسروں کو اسی کام کی تلقین کرتا ہوں جس پر میں خود عمل پیرا ہوتا ہوں ؟

اگر سب سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں ملتا ہے تو آپ کی اصلاح کی کوشش ناکام نہیں ہو گی
استقلال کے ساتھ عملی کوشش جاری رکھیئے
بصورتِ دیگر انسان بننے کیلئے کوشش کیجئے قبل اس کے کہ درستگی کا وقت ختم ہو جائے
اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلائے

ایک اور اوّل

حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں 2013ء کے دوران ہونے والے ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں ۔ اس سال بھی اُنہی 5 ممالک کے باشندے سب سے زیادہ حادثات کا باعث بنے جو سال 2012ء میں حادثات کا سبب بنے تھے

سال 2013ء میں کُل 1567 حادثات ہوئے جن میں سے 1128 کا سبب انہی 5 ممالک کے باشندے بنے

کُل 160 اموات ہوئیں جن میں سے 101 اموات کے ذمہ دار انہی 5 ممالک کے باشندے ہیں

کُل 2344 لوگ زخمی ہوئے جن میں 1702 لوگوں کے زخمی ہونے کے ذمہ دار انہی 5 ممالک کے باشندے ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی ۔ ۔ ۔ ۔ بھارتی ۔ ۔ ۔ اماراتی (مقامی) ۔ ۔ ۔ ۔ بنگلادیشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصری

حادثات ۔ ۔ 373 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 314 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 298 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 78 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65

اموات ۔ ۔ ۔ 33 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 30 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5

زخمی ۔ ۔ ۔ 577 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 432 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 467 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 111 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 115