Category Archives: طور طريقہ

شیطانی چرخہ اور اس کا سبب

جب 1964ء میں پاکستان میں پہلا ٹی وی چینل (پی ٹی وی) لاہور میں شروع ہوا تو چند عُلماء کے اسے شیطانی چرخہ کہنے پر روشن خیال لوگوں نے شور برپا کر دیا اور عُلماء کو جاہل ۔ ترقی کے دُشمن ۔ مُلک کے دُشمن اور جو کچھ اُن کے منہ میں آیا قرار دے دیا تھا ۔ آج میں اُس دور کا سوچتا ہوں تو کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کے وہ عُلماء کتنے بارِیک بِین اور دُور اندَیش تھے کہ بالکل درست بات کہی تھی

آرمی چیف نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کی ۔ ملاقات کے بعد ترجمان وزیر اعظم ہاؤس نے بتایا کی سکیورٹی اور موجودہ حالات پر بات ہوئی ۔ رات کو طاہر القادری نے اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سُنائی کہ ”حکومت کے کہنے پر فوج نے ثالث اور ضامن بننا قبول کر لیا ہے ۔ مجھے آرمی چیف نے بُلایا “۔ اس کے بعد عمران خان بھی اسی پٹڑی پر چڑھ دوڑا ۔ میڈیا شاید بریکنگ نیوز کے چارے کو ترس رہا تھا۔ تمام ٹی وی چینلز پر کہرام مچ گیا اور اس حوالے سے نواز شریف اور اُس کی حکومت کو ہارا ہوا کھلاڑی ثابت کرنے میں ایک نے دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ اگلا سارا دن اسی میں گذر گیا

بات قومی اسمبلی تک پہنچی جہاں اپوزیشن لیڈر نے ناراضگی کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آئین کے خلاف ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور وزیر اعظم کی مکمل حمائت کا اعلان کیا ۔ میڈیا نے تھوڑا سا بیان بدلا اور کہنا شروع کر دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ حکومت نے آرمی چیف کو مصالحت کا کہا ہے ۔ طاہر القادری نے اپنا دستور جاری رکھتے ہوئے اور اور تقریر کر ڈالی کہ ”نواز شریف حکومت کا اخلاقی جواز ہی باقی نہیں رہا ۔ اب تو فوج نے نواز شریف کا جھوٹ کا پول کھول دیا“۔

وزیرِ داخلہ کا قومی اسمبلی میں بیان قارئین نے ٹی وی سے سُن لیا ہو گا یا اخبار میں پڑھ لیا ہو گا ۔ ذرا دیکھیئے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ڈی جی ایس پی آر نے صرف ٹویٹر پر یہ لکھا
Tweet ISPR
ترجمہ ۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم سے گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے موجودہ بحران کے حل کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا کہا

According to Merriam Webster dictionary, “facilitate”, means to make (something) easier, to help cause (something), to help (something) run more smoothly and effectively

اُردو ترجمہ facilitate کا ۔ سہولت پیدا کرنا ۔ آسان بنانا ۔ معاملہ حل کرنے میں مدد کرنا ۔ آسان یا مؤثر بنانے میں مدد کرنا
اس کا مطلب کسی طرح بھی ثالثی (moderatorship) یا مصالحت (mediatorship) یا ضمانتی (Sponsor, Surety) نہیں بنتا
It neither means “rapprochement” or “reconcilement”. Nor it means “moderatorship”, “mediatorship”, Sponsor, Surety
طاہر القادری اور عمران خان نے لفظ ”ثالث“ اور “ضامن“ کا بار بار استعمال کیا اور میڈیا ان کے بیانات کو مسلسل اُچھالتا رہا ۔ ٹی وی چینلز میں غلط خبریں دینے اور اشتعال انگیزی میں اے آر وائی سب سے آگے رہا اور اے آر وائی میں بھی لُقمان مبشّر نے جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ اس مُلک پاکستان میں تباہی پھیلانا ہے ۔ جب عمران اور طاہر القادری کے حُکم پر اُن کے پیروکار پارلیمنٹ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف بڑھے اور پولیس پر لاٹھیاں اور غلیلوں کے ساتھ شیشے کی گولیوں اور شیشے کے ٹکڑوں کی بارش کر دی تو بجائے درست صورتِ حال بتانے کے اے آر وائی سے 100 فیصد جھوٹ پھیلایا گیا کہ مظاہرین میں سے ایک عورت سمیت 7 آدمی ہلاک ہو گئے ہیں ۔ اس خبر کے سُنتے ہی جو مظاہریں پہلے تشدد پر نہیں اُترے تھے وہ بھی تشدد پر اُتر آئے

درحقیقت موجودہ بحران میڈیا ہی کا پیدا کردہ ہے اور میڈیا ہی اسے بد سے بدتر کی طرف لے جانے میں کوشاں ہے ۔ لیکن میڈیا کاروباری ادارہ ہے اور کوئی کام بغیر منافع کے نہیں کرتا جس میں جائز منافع ہوتا ہے اور ناجائز بھی ۔ زیادہ معاوضہ ناجائز کاموں میں ملتا ہے
دیکھنا یہ چاہیئے کہ منافع کے پیچھے کون ہے ؟

موجودہ صورتِ حال میں طاہر القادری اور عمران خان سامنے نظر آتے ہیں لیکن عام طور پر سامنے نظر آنے والا یا والے کسی اور کے ہاتھ میں کھیل رہے ہوتے ہیں یعنی کسی اور کے روبوٹ بنے ہوتے ہیں جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے ۔ معاہدہ لکھ کر دستخط ہونا تھے تو تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی کے فیصلہ سے متفق ہونے کے بعد کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا اچانک عمران خان نے آگے بڑھنے کا حُکم دے دیا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پسند

Flag-1آپ کو اپنی پسند کا پورا اختیار ہے
لیکن
اس کے نتائج کے ذمہ دار بھی آپ ہی ہو ں گے

طاقت ور وہ نہیں جو دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اُٹھائے
بلکہ
طاقت ور وہ ہے جو اپنی کمزوریوں سے بخوبی آگاہ ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Man Up

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خواہشات اور حقوق

Flag-1آپ جو چاہیں ۔ خواب دیکھیئے
آپ جو بننا چاہیں ۔ بنیئے
آپ جہاں جانا چاہیں ۔ جایئے
بلاشُبہ آپ کے پاس ایک ہی زندگی ہے اور آپ اس کا بھرپور استعمال چاہتے ہیں
مگر یاد رکھیئے کہ
دوسرے بھی آپ ہی جیسی خواہشات اور حقوق رکھتے ہیں

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Afghan Refugees

قرض اور میں

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم تو واضح ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے
سورت النسآء آیت 58 ۔ اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حُکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو ۔ یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے ۔ بیشک اللہ تعالٰی سنتا ہے دیکھتا ہےFlag-1

نامعلوم میرے ہموطنوں میں قرض لے کر واپس نہ کرنا یا لمبی تاخیر کرنا کی عادت کیسے در آئی ؟
البتہ میرے ایسے ہموطن بھی ہیں جن کی امداد اس اُمید پر کی جائے کہ رقم شاید واپس نہ ملے اور وہ واپس کر دیتے ہیں

وسط رمضان میں کاشف صاحب کی مجبوری (پریشانی) پڑھ کر ماضی کی جو تلخ و شیریں یادیں میرے ذہن میں اُبھریں میں نے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں لیکن رمضان مبارک کے بھرپور جدول اور عیدالفطر کے بعد قومی موضوعات کے باعث شائع نہ کر سکا ۔ سو آج پیشِ خدمت ہے

میں نے دیکھا تھا کہ والد صاحب نے جسے بھی اُدھار دیا ۔ وہ رقم واپس نہ ملی یا پھر عرصہ دراز پر محیط اقساط میں کچھ ملی باقی نہیں ۔ غریب مقروضوں کو رہنے دیتا ہوں کہ مجبوری ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ کا فرمان بھی ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 280 ۔ اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
چنانچہ صرف دو مالدار آدمیوں کی بات کرتا ہوں

1 ۔ ایک شخص نے 1949ء میں میرے والد صاحب کے 30000 روپے دینا تھے ۔ 20000 روپے لمبے عرصہ پر محیط چھوٹی چھوٹی اقساط میں ادا کئے پھر موصوف دنیا سے کُوچ کر گئے ۔ میرے والد صاحب بھی جولائی 1991ء میں چل بسے ۔ والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد مقروض صاحب کا بیٹا 10000 روپے مجھے دینے آیا ۔ میں نے صرف اتنا کہا ”محترم آج اس رقم کی کیا قیمت رہ گئی ہے ؟ پھر بھی والد صاحب کی زندگی میں ادا کر دیتے تو بہتر ہوتا“۔
خیال کیجئے کہ 1949ء میں ایک روپے کے ملتے تھے
(1) اچھی گندم کا آٹا 6 کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(2) خالص دودھ8 لیٹر ۔ ۔ ۔ یا
(3) دیسی گھی ایک کلو گرام ۔ ۔ ۔ یا
(4) بکرے کا صاف کیا ہوا گوشت سوا کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(5) دیسی مرغی کے انڈے 24

2 ۔ دوسرے صاحب نے 1975ء میں والد صاحب کو 250000 روپے دینا تھے ۔ اُن کے پیچھے بھاگ بھاگ کے قسطوں میں 1991ء میں والد صاحب کے فوت ہونے تک آدھی رقم وصول کی اور بقیہ آدھی رقم نہیں ملی

والد صاحب کے تجربہ کی بناء پر میں نے جب بھی کسی کو رقم دی یہ سوچ کر دی کہ واپس نہیں ملے گی ۔ دو اصحاب جن سے رقم واپس ملنے کی توقع تھی اُن میں سے ایک نے واپس نہ کی اور دوسرے نے جو میرا بہترین دوست تھا 10 سال بعد واپس کی
جسے یہ سوچ کر رقم دی تھی کہ واپس ملنا مُشکل ہے اُس نے واپس کر دی ۔ یہ واقعہ تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے

میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا (1959ء) ۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور رازداری سے بات کی کہ فلاں لڑکے کی مالی حالت بہت خراب ہے اُس کے والد بیمار ہو گئے ہیں ۔ اُسے مدد کی اشد ضرورت ہے ۔ کچھ میں نے کیا ہے ۔ کچھ آپ کر دیں ۔ اگر اس نے واپس نہ کئے تو انجنیئرنگ کے بعد ملازمت ملنے پر میں واپس کر دوں گا”۔

جس لڑکے کی مدد کرنا تھی میں اُسے جانتا تھا کیونکہ 1955ء تک میرے والد صاحب نے اُس کے والد کو اپنی دکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر پرچون صابن بیچنے کی اجازت دی ہوئی تھی جس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔ شریف سفید پوش لوگ تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اُسے کب تک رقم چاہیئے تو کہا ”فائنل امتحان تک کا خرچہ اُسے چاہیئے ۔ ابھی تو میں دے دوں گا ۔ آپ کے پاس اسلئے آیا ہوں کہ تین چار ماہ میں بند و بست کر لیں“۔ اُن دنوں میری مالی حالت بھی اچھی نہ تھی ۔ میرے والد صاحب 3 سال سے بیمار چلے آ رہے تھے اور اُن کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا ۔ میں نے 4 ماہ تک کا وعدہ کر لیا اور بچت میں لگ گیا جو کہ انتہائی مُشکل کام تھا ۔ اللہ نے مہربانی کی اور میں نے 4 ماہ میں 1500 روپیہ اکٹھا کر کے دے دیا اور اس بات کو بالکل بھُلا دیا

انجنیئرنگ کے بعد ملازمت شروع کی اور ماہ و سال گذرتے گئے ۔ اوائل 1965ء میں مجھے ایک خط ملا جس میں 1500 روپے کا بنک ڈرافٹ تھا ۔ اور ایک خط تھا جس میں شکریہ کے ساتھ تاخیر ہو جانے کی معافی مانگی تھی ۔ تاخیر کی وجہ اُس کے والد صاحب پر چڑھا قرض پہلے اُتارنا تھی ۔ اللہ کے بندے نے اپنا پتہ نہیں لکھا تھا

خاص بات یہ ہے کہ اُسے میری راولپنڈی شہر میں جھنگی محلہ کی رہائش کا علم تھا اور 1958ء کے بعد میری اس سے ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ ہم 1964ء میں سیٹیلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے تھے ۔ میں حیران تھا کہ اُسے میری نئی رہائشگاہ کا کیسے علم ہوا ؟ کچھ دن بعد مجھے اُس لڑکے کا خط ملا جو مجھ سے پیسے لے کر گیا تھا ۔ اس میں لکھا تھا کہ اُس نے میرا پتہ اُس سے پوچھا تھا اور اُس نے واپڈا میں اپنے کے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک دوست سے میرا پتہ معلوم کر کے اُسے لکھا تھا

مطالبات کا تجزیہ

میں تعلیم اور پیشہ کے لحاظ سے انجنیئر ہوں اور میرے انجنیئر بننے کا سبب اللہ کی مدد کے بعد میرا اس پیشے سے عشق ہے ۔ اسلئے میں کاغذی نہیں عملی طور پر انجنیئر ہوں ۔ انجنیئرنگ کی بنیاد منطق پر ہے ۔ اس لئے میں ہر چیز کو ریاضی (Mathematics) کے دائرے میں پرکھنے کا عادی ہوں ۔ میں نے عمران خان کے مطالبات و اعلانات اور زمینی حقائق کی جمع تفریق ضرب تقسیم جذر اور لاگ سب کر کے دیکھا ہے ۔ جو نتیجہ نکلا ہے اُس کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے

1 ۔ الیکشن کو بوگس اور جعلی قرار دیا ۔ ۔ ۔ خود اور ساتھی سب اسی الیکشن کے ذریعہ مختلف اسمبلیوں کے ممبر بنے اور ایک صوبے میں حکمران بھی ہیں ۔ ساتھ ہی ان سہولیات کے ناطے سوا سال سے لُطف اُٹھا رہے ہیں چنانچہ خود سب بھی بوگس اور جعلی ہیں

2 ۔ عوام کو تلقین کی ہے یوٹیلٹی بل اور ٹیکس ادا نہ کریں ۔ ۔ ۔ خود (الف) سب تنخواہ وصول کر رہے ہیں جس میں سے ٹیکس کٹتا ہے (ب) منسٹر ہاوسز ۔ کے پی ہاؤس اور پارلیمنٹ لاجز میں سرکاری بجلی اور ائیرکنڈیشنر وغیرہ کی سہولتوں سے مستفید ہو رہے ہیں (ج) پختونخوا حکومت کے بجٹ کا 90 فیصد سے زیادہ حصہ وفاقی حکومت کے ان قابل تقسیم محاصل سے آتا ہے جو وفاقی ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے (د) وزیراعلیٰ اور وزیر احتجاج کیلئے بھی سرکاری خرچے پر سرکاری گاڑی میں اسلام آباد آتے اور اسلام آباد کے اندر بھی اِدھر اُدھر جاتے آتے ہیں

3 ۔ اسلام آباد کی ایڈمنسڑیشن سے کئے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آج شام ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کیا گیا ہے اور دوسرے مرد ۔ عورتوں اور بچوں سے زندگی کی قربانی مانگتے ہیں ۔ ۔ ۔ عمران خان نے اپنے بیٹے مارچ سے 2 دن قبل برطانیہ واپس بھیج دیئے جس کا اعلان جلسے میں عمران خان نے خود بھی کیا

4 ۔ قومی ۔ بلوچستان ۔ سندھ اور پنجاب اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا (ابھی استعفے دیئے نہیں) ۔ ۔ ۔ (الف) بلوچستان میں تحریکِ انصاف کا کوئی ممبر نہیں ۔ سندھ میں 168 میں سے 4 ۔ پنجاب میں 371 میں سے 29 اور قومی اسمبلی میں 342 میں سے 34 ممبر ہیں(ب) خیبر پختونخوا جہاں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے اُس کا ذکر نہیں کیا ۔ خیبر پختونخوا میں 124 میں سے 46 ممبر تحریکِ انصاف کے ہیں ۔ وہاں 3 جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے جو مستعفی ہونے کو تیار نہیں ۔ آئین کے تحت وزیرِ اعلیٰ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں لیکن اُن کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد آ جائے تو ایسا نہیں کر سکتے چنانچہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان مؤثر نہیں ہو گا

5 ۔ سول نافرمانی کا اعلان کر دیا ہے ۔ ۔ ۔ تحریکِ انصاف سول نافرمانی کی تحریک کیسے چلا سکتی ہے جبکہ ایک صوبے میں حکمرانی کر رہی ہے ؟

6 ۔ دیانتداری اور اپنے لئے نہیں قوم کی خاطر سب کچھ کرنے کا دعویٰ ہے ۔ ۔ ۔ عمران خان کے ساتھ دائیں بائیں جہانگیر ترین ۔ شاہ محمود قریشی ۔ اعظم سواتی اور شیخ رشید کھڑے ہیں ۔ شاہ محمود پچھلے الیکشن میں پی پی پی کے ساتھ تھے ۔ اعظم سواتی ہارس ٹریڈنگ کے بادشاہ مانے جاتے ہیں ۔ باقی دو پرویز مشرف کی آمریت کا حصہ تھے ۔ ایسے میں یہ بلند بانگ دعوے کیا معنی ؟

7 ۔ پشاور آندھی اور سیلاب کی زد میں تھا۔ 16 افراد جاں بحق ہوئے اور درجنوں زخمی ۔ ۔ ۔ وزیراعلیٰ اپنی کابینہ سمیت اسلام آباد میں محو رقص رہے

8 ۔ 10 لاکھ نفوس پر مشتمل مارچ کا دعویٰ بار بار کیا گیا تھا ۔ ۔ ۔ تعداد روزانہ کی بنیاد پر اور دن رات کے مختلف اوقات میں گھتی بڑھتی رہی ۔ مبالغہ بھی کیا جائے تو تعداد 25000 سے زیادہ کسی دن کسی وقت نہ ہوئی جو کہ 10 لاکھ کا ڈھائی فیصد ہے

9 ۔ آخر میں یہاں کلک کر کے دیکھیئے پاکستان میں کونسی تبدیلی لائی جا رہی ہے

حقیقت کا خلاصہ لکھ دیا ہے ۔ فیصلہ کرنا ہر آدمی کا اپنا حق ہے

قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء

Flag-114 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور 15 اگست کو سرزمینِ پاکستان پر آزادی کا پہلا سورج طلوع ہوا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنے آزاد ملک کا تحفہ ایک مقدس دن کو عنائت کیا ۔ اس روز جمعہ کا مبارک دن اور رمضان المبارک 1366 ھ کی 27 تاریخ تھی
قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جو پیغام دیا تھا نہائت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آسودگی حاصل ہوتے ہی قوم دولت کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے لگ گئی اور اپنے قائد و محسن کا پیغام ہی نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیا

قائداعظم کی تقریر نقل کرنے سے پہلے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ کے نمائیندہ ریڈ کلِف نے نہرو کے ساتھ ملی بھگت کر کے نہائت عیّاری کی اور پاکستان کی حدُود کا اعلان 17 اگست 1947ء کو کیا جس سے معلوم ہوا کہ کسی ضلع کو تقسیم نہ کرنے کے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مُسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کی تقسیم کر کے نارو وال کا مشرقی علاقہ بشمول ڈیرہ بابا نانک ۔ بٹالہ ۔ گورداسپور شہر ۔ دینا نگر ۔ پٹھانکوٹ ۔ مادھوپور راجپورہ بھارت میں شامل کر دیا جس سے بھارت کو کٹھوعہ کے راستہ جموں میں آسانی سے داخل ہونے کا راستہ مہیاء کر دیا ۔ اس ”تاخیری اعلان“ کی وجہ سے قائداعظم کی تقریر میں مسئلہ جموں کشمیر کا ذکر نہیں ہے

15 اگست 1947ء کو قائداعظم کا خطاب

میں انتہائی مسرت اور جذبات کے احساس کے ساتھ آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ 15 اگست پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست کا جنم دن ہے ۔ یہ مسلم قوم کی منزل کی تکمیل کی علامت ہے جس نے اپنے وطن کے حصول کیلئے پچھلے چند سالوں میں بھاری قربانیاں دیں ۔ اس اعلٰی لمحے میں میرے ذہن میں اس مسلک کیلئے جد و جہد کرنے والے شجاع لوگ ہیں

ایک نئی ریاست کی تخلیق نے پاکستان کے شہریوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ اس تخلیق نے یہ ثابت کرنے کا موقع دیا ہے کہ کس طرح متعدد عناصر پر مشتمل قوم ذات اور عقیدہ سے قطع نظر کرتے ہوئے امن اور بھائی چارے کے ساتھ تمام شہریوں کی بہتری کیلئے کام کر سکتی ہے

ہمارا مقصد اندرونی اور بیرونی امن ہونا چاہیئے ۔ ہم امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنے قریبی ہمسایہ ملکوں اور دنیا کے ممالک کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم کسی کے خلاف بھی جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ۔ ہم اقوامِ متحدہ کے منشور کی حمائت کرتے ہیں اور دنیا میں امن اور خوشحالی کیلئے اپنا پورا حصہ ڈالیں گے

ہندوستان کے مسلمانوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ ایک متحد قوم ہیں اور ان کا مطالبہ انصاف اور حقائق پر مبنی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ آیئے آج اس دن ہم عاجزی کے ساتھ اس عطیہ کیلئے اللہ کا شکر ادا کریں اور دعا کریں کہ ہم اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کر سکیں

آج کا دن ہماری قومی تاریخ کے ایک تکلیف دہ دور کے اختتام کی علامت ہے اور اسے نئے باعزت دور کا آغاز بھی ہونا چاہیئے ۔ آیئے ہم اقلیتوں کو عمل ۔ گفتار اور سوچ سے باور کرائیں کہ اگر وہ بحیثیت وفادار پاکستانی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو اُنہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیئے

ہم اپنی سرحدوں پر بسنے والے آزادی پسند قبائل اور ہماری سرحدوں سے باہر ریاستوں کو مبارکباد دیتے ہیں اور اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان اُن کی حیثیت کا احترام کرے گا اور امن قائم رکھنے کیلئے دوستانہ تعاون کرے گا ۔ ہمیں کوئی ہوّس نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم باعزت زندگی گذاریں اور دوسروں کو بھی باعزت زندگی گذارنے دیں

آج جمعۃ الوداع ہے ۔ رمضان کے مقدس مہینہ کا آخری جمعہ ۔ ہم اس وسیع برِ عظیم میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اسی سبب پوری دنیا میں بھی ہم سب کیلئے خوشی کا دن ہے ۔ تمام مساجد میں ہزاروں مسلمانوں کے اجتماعات قادرِ مطلق کے سامنے عاجزی سے جھُکیں ۔ اُس کی دائمی مہربانی اور فراخدلی کا شکریہ ادا کریں اور پاکستان کو ایک طاقتور ملک اور اپنے آپ کو اس کے مستحق شہری بنانے کیلئے اُس کی رہنمائی اور مدد کے طلبگار ہوں

میرے ہموطنو ۔ میں آخر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان بڑے زبردست وسائل کی زمین ہے ۔ لیکن اسے مسلمانوں کے لائق ملک بنانے کیلئے ہمیں اپنی قوت و ہمت کا بھرپور استعمال کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسا پوری دلجمعی کے ساتھ کیا جائے گا

پاکستان زندہ باد ۔ یومِ آزادی مبارک

یہ تقریر انگریزی میں تھی ۔ میں نے حتی الوسع اس کا درست ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انگریزی متن پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے