ہوائی سفر کے دوران ایک سیاستدان اور ایک کم سِن لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھے تھے ۔ پرواز شروع ہوئی تو سیاستدان لڑکی سے مخاطب ہوا ”بات چیت سے آسانی سے کٹ جاتا ہے ۔ کیا خیال ہے ؟“
لڑکی جس نے پڑھنے کیلئے کتاب کھولی ہی تھی بولی ”آپ کس موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں ؟“
سیاستدان نے مُسکراتے ہوئے کہا ”کوئی خاص نہیں ۔ گلوبل وارمِنگ یا تیز برائڈ بینڈ یا مہاجرین کا مسئلہ ۔ کیا خیال ہے ؟“
لڑکی بولی ”ٹھیک ہے ۔ آپ کو اِن میں دِلچسپی ہے لیکن پہلے میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں ۔ کیا وجہ ہے کہ ہرن ۔ گائے اور گھوڑا سب گھاس کھاتے ہیں لیکن اُن کے فُضلے بالکل مُختلِف ہوتے ہیں ؟“
سیاستدان کم سِن لڑکی کے سوال پر حیران ہوتے ہوئے بولا ” میں کچھ نہیں کہہ سکتا“۔
لڑکی بولی ” معمولی سی چیز تو آپ جانتے نہیں ۔ آپ اتنے بڑے بین الاقوامی معاملات پر کیا بات کریں گے جنہوں نے بڑے بڑے مفکّروں کو پریشان کر رکھا ہے“۔
اور لڑکی اپنی کتاب کی طرف متوجہ ہو گئی
Category Archives: طور طريقہ
محبت ؟
محبت صرف وہ نہیں ہوتی جو لڑکے اور لڑکی کے درمیان ہو
محبت دوستوں میں بھی ہوتی ہے جو لڑکے لڑکی کی محبت سے بہتر ہوتی ہے
سچّی محبت نہ صرف حاصل کرنا مُشکل ہے
بلکہ اسے چھوڑنا بھی بہت مُشکل ہے
اور
بھُلانا ناممکن ہوتا ہے
شاہراہ پر سونے کے سِکے
ایک بادشاہ نے نئی شاہراہ بنوائی اور اِفتتاح کیلئے تمام شہریوں کی دوڑ کا اعلان کیا کہ سب سے اچھا سفر کرنے والے کو اِنعام ملے گا ۔ شہریوں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ شاہراہ کے دوسرے سِرے پر بادشاہ دوڑنے والوں کے تاءثرات پُوچھتا رہا ۔ سب نے شاہراہ کی تھوڑی یا زیادہ تعریف کی مگر سب نے بتایا کہ شاہراہ پر ایک جگہ بجری پڑی ہے ۔ اُسے اُٹھوا دیا جائے
شام تک بادشاہ اُٹھ کر جانے لگا تو ایک سپاہی نے بتایا کہ دوڑ میں حصہ لینے والوں میں سے ایک آدمی جو صبح سویرے داخل ہوا تھا لیکن دوسرے سِرے پر آنا باقی ہے ۔ کچھ دیر بعد ایک درمیانی عمر کا شخص دھُول میں لَت پَت تھکا ہارا ہاتھ میں ایک تھیلی پکڑے پہنچا اور بادشاہ سے مخاطب ہوا ”جناب عالی ۔ میں معافی چاہتا ہوں کہ آپ کو انتظار کرنا پڑا ۔ راستہ میں کچھ بجری پڑی تھی ۔ میں نے سوچا کہ آئیندہ اِس شاہراہ سے گذرنے والوں کو دِقّت ہو گی ۔ اُسے ہٹانے میں کافی وقت لگ گیا کیونکہ میں ہاتھوں سے ہی ہٹاتا رہا ۔ بجری کے نیچے سے یہ تھیلی ملی ۔ اس میں سونے کے 100 سِکّے ہیں ۔ آپ کے سڑک بنانے والوں میں سے کسی کے ہوں گے ۔ اُسے دے دیجئے گا“۔
بادشاہ نے کہا ” یہ تھیلی اب تمہاری ہے ۔ میں نے رکھوائی تھی ۔ یہ تمہارا انعام ہے ۔ بہترین مسافر وہ ہوتا ہے جو مستقبل کے مسافروں کی سہولت کا خیال رکھے”۔
دعا ہے کہ اللہ ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگ پیدا کر دے ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بادشاہ سے نہیں تو اللہ سے انعام ضرور پائیں گے
احترام ۔ کب؟ ؟ ؟
بڑوں کا احترام اُس وقت کیجئے جب آپ جوان ہوں
کمزوروں کی مدد اُس وقت کیجئے جب آپ توانا ہوں
جب آپ غلطی پر ہوں تو اپنی غلطی مان لیجئے
کیونکہ ایک وقت آئے گا
جب آپ بوڑھے اور کمزور ہوں گے اور یہ احساس بھی پیدا ہو گا کہ آپ غلطی پر تھے
لیکن اُس وقت آپ صرف پچھتا ہی سکیں گے
جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شَب کو اُٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے
بیٹی کیلئے دُعا
میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ 1960ء میں گرمیوں کی چھُٹیوں میں گھر راولپنڈی آیا ہوا تھا ۔ ایک دِن ریڈیو سے ایک گیت سُنا ۔ پسند آیا اور لکھ لیا
1973ء میں میری چھوٹی بہن کی شادی ہوئی ۔ میں نے بغیر کسی کو بتائے Public Address Systemکا بندوبست کر رکھا تھا جس کے سپیکر گھر کے ماتھے پر لگائے تھے اور مائیکروفون بیٹھک (Drawing Room) میں چھُپا رکھا تھا ۔ رُخصتی کے وقت بہن کو اپنے دروازے پر وِداع کر کے بھاگا اور بیٹھک میں بند ہو کر یہ گیت گانا شروع کر دیا
پچھلے دِنوں اپنی بھتیجی کی شادی پر یہ گیت یاد آیا . سوچا قارئین کی نظر کیا جائے
بابل کی دعائی لیتی جا ۔ جا تُجھ کو سُکھی سَنسار مِلے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے ۔ سسرال میں اِتنا پیار مَلے
بِیتیں تیرے جِیون کی گھڑیاں پیار کی ٹھنڈی چھاؤں میں
کانٹا بھی نہ چُبھنے پائے کبھی میری لاڈلی تیرے پاؤں میں
اُس دوار پہ بھی نہ کوئی آنچ آئے جس دوار سے تیرا دوار مِلے
بابل کی دعائیں لیتی جا ۔ جا تُجھ کو سُکھی سَنسار مِلے
بَچپَن میں تُجھے پالا میں نے پھُولوں کی طرح کلیوں کی طرح
میرے باغ کی اے نازک ڈالی ۔ جا تُجھ پر سَدا بہار رہے
بابل کی دُعائیں لیتی جا ۔ جا تُجھ کو سُکھی سَنسار مِلے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے ۔ سسرال میں اِتنا پیار مِلے
خوبصورت پیغام
اگر آپ حق پر ہیں تو غصہ میں آنے کی ضرورت نہیں
اور اگر آپ غلط ہیں تو آپ کو غصہ میں آنے کا کوئی حق نہیں
خاندان میں صبر کرنا محبت ہے
غیروں کے ساتھ صبر کرنا احترام ہے
اپنے آپ سے صبر کرنا اعتماد ہے
اور
اللہ کے سامنے صبر کرنا ایمان ہے
ماضی کی مُشکلات کا کبھی نہ سوچیں ۔ یہ آنسو لاتا ہے
مستقبل کے متعلق زیادہ نہ سوچیں ۔ یہ خوف کو جنم دیتا ہے
ہر لمحہ مسکرایئے ۔ یہ خوشی لاتا ہے
زندگی کا ہر امتحان ہمیں تلخ یا بہتر بناتا ہے
جو مُشکل آتی ہے وہ ہمیں بنا جاتی ہے یا بکھیر جاتی ہے
فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم فاتح بنیں یا مظلوم
خوبصورت اشیاء ہمیشہ اچھی نہیں ہوتیں لیکن اچھی اشیاء ہمیشہ خوبصورت ہوتی ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے انگلیوں کے درمیان جھَریاں کیوں رکھیں ؟ تاکہ آپ سے پیار کرنے والا آپ کا ہاتھ تھام کر یہ جھَریاں پُر کر دے
خوشی آپ کو مِیٹھا رکھتی ہے لیکن مِیٹھا رہنا خوشیاں لاتا ہے
اسے اپنی زندگی کے سب اچھے لوگوں تک پہنچایئے
حادثہ اور ہمارا کردار
عیدالفظر سے ایک دن قبل احمد پور شرقیہ کے پاس ایک اندوہناک حادثہ پیش آیا جس میں 150 افراد لُقمہءِ اجل بن گئے اور 100 زخمی ہوئے ۔ وطنِ عزیز میں عام طور پر اختیار کئے جانے والے ردِ عمل جس میں ہر کوئی حکومت اور سرکاری اہلکاروں کو موردِ الزام ٹھہرا کر کوسنا شروع کر دیتا ہے سے ہٹ کر میں ایک خاص تکنیکی نقطہءِ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں جو میرے زندگی بھر کے مشاہدات پر مبنی ہے
واقعات کا خلاصہ کچھ یُوں ہے ۔ صبح سویرے ساڑھے 5 بجے 25000 لیٹر پٹرول سے بھرا ٹینکر شاہراہ پر اُلٹ گیا ۔ پٹرول بہنے لگا ۔ قریبی دیہات کے لوگ بالٹیاں اور ڈبے لے کر پٹرول لُوٹنے پہنچ گئے ۔ ڈرائیور نے اُنہیں ٹوکا ۔ ٹریفک پولیس نے اُنہیں منع کیا لیکن بے سود ۔ شاہرہ پر سفر کرنے والے اپنی کاریں اور موٹر سائیکلیں روک کر حصہ وصول کرنے لگے ۔ اس طرح سینکڑوں لوگ اس لُوٹ میں شامل ہو گئے ۔ ایک لمحہ کیلئے بھی نہ سوچا کہ وہ آگ کے بم کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ بے فکری کا یہ عالم کہ سوا 6 بجے کے بعد کسی نے جلتا سگریٹ پھینکا پھر وہی ہوا جو متوقع تھا
اب اس سے مِلتے جُلتے حادثہ کا خلاصہ جو 4 دہائیاں قبل پیش آیا تھا
۔ میں طرابلس (لبیا) میں کہیں سے اپنی رہائشگاہ کی طرف آ رہا تھا ۔ مخالف سمت سے 2 پٹرول کے ٹینکر آگے پیچھے آ رہے تھے ۔ اگلے ٹینکر کے آگے سے ایک چھوٹا لڑکا بھاگ کر سڑک پار کر گیا ۔ بچے کو بچاتے ہوئے ٹینکر ڈرائیور نے یکدم بریک لگائی اور ٹینکر بائیں جانب موڑ کر درمیانی پٹڑی پر چڑھا دیا ۔ لڑکا تو بچ گیا لیکن پچھلا ٹینکر اگلے ٹینکر سے ٹکرایا گیا ۔ میں اگلے ٹینکر سے پانچ چھ میٹر کے فاصلے پر رُک گیا ۔ میری داہنی طرف ایک گاؤں تھا اور سڑک کے دونوں جانب گاؤں والوں کی دُکانیں تھیں
رُکنے کے بعد میں نے دیکھا کہ پٹرول سڑک پر بہنا شروع ہو گیا ہے ۔ دُکاندار اور گاؤں کے لوگ ٹینکروں کے گرد کم از کم 5 میٹر فاصلہ چھوڑ کر ایک دائرہ بنا چکے تھے دو تین آدمی دونو اطراف سے آنے والی ٹریفک کو روکنا شروع ہو گئے ۔ کچھ آدمی گینتیاں اور بیلچے لے کر آ گئے اور سڑک کے کنارے کچی جگہ پر گڑھا کھودنے لگ گئے ۔ کچھ بیلچوں والے کھودی ہوئی مٹی اُٹھا کر ٹینکر سے گھڑے تک ایک نہر بنانے لگ گئے ۔ جب پٹرول گڑھے کی طرف آنا شروع ہوا تو لوگ ایک اور گڑھا کھودنے لگ گئے ۔ پھر جو لوگ پہلے نہر بنا رہے تھے وہ دوسرے گڑھے کی مٹی اُس پٹرول پر ڈالنے لگ گئے جو چاروں طرف پھیل گیا تھا ۔ اس سارے عمل میں 15 منٹ لگے ہوں گے
اب میں نے سوچا کہ مجھے پچھلے جانا چاہیئے ۔ میں نے اپنی کار سے باہر نکل کر پچھلی طرف دیکھا تو کچھ لوگ تمام گاڑیوں کو پیچھے جانے کا اشارہ کر رہے ہیں اور گاڑیاں تیزی سے اُلٹی ہی پیچھے جانا شروع ہو چکی ہیں ۔ چند منٹ بعد میں بھی اپنی کار اُلٹی ہی پیچھے لے جا رہا تھا ۔ 10 منٹ اُلٹا جانے کے بعد ایک سڑک آئی جس پر سب لوگ مُڑ رہے تھے ۔ میں بھی مُڑ کر گاؤں کے اندر چلا گیا ۔ آہستہ آہستہ کار چلاتا کوئی 100 میٹر کے بعد پھر مُڑ کر اپنی رہائشگاہ کی سمت چل پڑا ۔ اپنی رہائش گاہ سے ایک کلومیٹر سے زائد آگے جا کر ایک سڑک پر مُڑ کر پھر رہائشگاہ کے پچھلی طرف گلی میں داخل ہو کر گھر پہنچا کیونکہ میری رہائشگاہ کا سامنے کا راستہ بھی بند تھا
قارئین کرام ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں میرے ہموطن اَن پڑھ ۔ جاہل ۔ بیوقوف اور نجانے کیا کچھ خطابات دیا کرتے تھے
بہت دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فی زمانہ ہموطنوں نے بے تُکی باتیں اور حرکات بہت سیکھ لی ہیں مگر کام کی بات اور باہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ عام طور پر اپنی کوتاہیاں وطن عزیز یا حُکرانوں کے سر تھوپ کر سرزنش کرتے رہتے ہیں ۔ ایک فقرہ عام طور پر بولا جاتا ہے ”اِس مُلک کا 70 سال سے بُرا حال ہے“۔ حالانکہ کہ ایسا کہنے والوں کو پچھلے 10 سال کے واقعات بھی یاد نہیں رہتے اور بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان کے حُکمران بلکہ اس میں بسنے والے سب بھی 1966ء تک باہمی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے تھے اور نظم و بُردباری کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ پھر ایک نئی طرز کے شخص نے لیڈر بننے کی کوشش میں زہر گھولنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں ہماری 1966ء تک والی خصوصیات جن کی بدولت اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں پاکستان عطا فرمایا تھا اور اس کی تعمیر کی توفیق دی تھی وہ خصوصیات اب اپنے دیس میں ناپید ہو چکی ہیں ۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں
فی زمانہ سب جانتے ہیں کہ دُشمن کے زر خرید ہموطن اپنے ہی وطن میں دہشتگردی کر کے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر چکے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں ۔ ۔ ۔
Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:
American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy.
ترجمہ ۔ بھارت کے ایک رسالے میں 24 اکتوبر 1951 میں چھپنے والے مضمون سے اقتباس
امریکی دانشوروں نے لیاقت علی کے قتل کے منصوبہ پر غور شروع کر دیا ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو تاکہ بین الاقوامی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے ۔ جس طرح کہ ایران ۔ عراق ۔ اُردن میں غدار مل گئے تھے امریکہ کو پاکستان میں ایک بھی غدار نہ مل سکا ۔واشگٹن سے حُکمرانوں نے کابل میں امریکی سفارتخانے سے رابطہ کیا ۔ امریکی سفارتخانے نے پختونستان کے لیڈروں سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اُن کے راست میں لیاقت علی ہی ایک رکاوٹ ہے اور اُنہیں یقین دلایا کہ اگر وہ لیاقت علی کو ہلاک کر دیں تو 1952ء تک وہ پختونستان قائم کر دیں گے ۔ پختون لیڈروں نے اس کام کیلئے اکبر (سید اکبر) کو تیار کیا اور سازش کو چھُپانے کی خاطر سید اکبر کو بھی ہلاک کرنے کا بندوبست کر دیا