بھارتی فوجوں نے 6 ستمبر 1965ء کو نمازِ فجر کے وقت سے پہلے اچانک لاہور اور سیالکوٹ کی سرحدوں پر بھرپور حملے کر دیئے ۔ صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان سلِیپنگ سُوٹ ہی میں جی ایچ کیو کے آپریشن رُوم پہنچ گئے ۔ اُنہوں نے 6 ستمبر کی صبح تقریر کی جس میں واقع بتانے کے بعد کہا ”وہ نہیں جانتے کہ اُنہیں کس قوم سے واسطہ ہے ۔ پاکستان کے فوجی جوان جن کے لَبوں پر کلمہ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الله کا ورد ہے سرحدوں کی حفاظت کیلئے روانہ ہو چکے ہیں“۔
جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گئے تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ اس طرح چند اہم دِن ضائع ہو گئے
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھَمب جَوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی تَوی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور تَوی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمانڈر (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے تَوی کے کنارے رُک جانے کا حُکم دیا گیا تھا ۔ اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد راستہ پر قبضہ کر لیتے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر 2 دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتے رہے کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھے
جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965ء کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی