Category Archives: طور طريقہ

پھول کی فریاد

یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی

کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر  اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو

میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو

شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے

تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے

میری خُوشبُو سے  بسائے گا بچھونا رات بھر

صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر

پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی

رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی

تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے

کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے

دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے

پَتی پَتی ہو چلی  بے آب ۔ مر جانے کو ہے

پیڑ کے دو سبز پتے رنگ میرا اِن میں لال

جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی

حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی

تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی

غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی

دُودھ شبنم نے پلایا تھا ملا وہ خاک میں

کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں

مہر  کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی

ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی

دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ

شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ

میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں

اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں

شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے

دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لے

حسبِ حال

حق کی خاطر جب بھی کھولی زباں کسی نے
ہاتھوں میں حاکم کے اِک نئی تعذِیر نظر آئی
جس سِمت نظر اُٹھی اس شہرِ حاکماں میں
اُن کے کاغذی وعدوں کی ہی تشہِیر نظر آئی
ایسا طلِسم دیکھا شہر میں اب کے
ہر سُرعت کے پیچھے تاخِیر نظر آئی
جہانگِیری اِنصاف کے نعرے تو بہت ہیں
ہر مخالف کےگلے ہی میں زنجِیر نظر آئی
سوچا تھا نیا پاکستان خوشیوں کا گھر ہو گا
ہمیں یہ دنُیا تو حادثوں کی جاگِیر نظر آئی

آج کے مسلمان کی حالت

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب
بد ن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلمانوں کا جامہء احرام

کیا ہم انسان بننا چاہتے ہیں ؟

پچاس سال پہلے اگر کوئی دوست یا ساتھی تنگ کرتا تو “انسان بنو بھئی” کہنے سے وہ رک جاتا ۔ اگر کوئی بچہ تنگ کرتا تو
انسان بنو یا انسان کا بچہ بنو” کہنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا ۔ آجکل کے زمانہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ”

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ۔ تو ثابت وہ سیّا رہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ اقبال

تبدیلی تبدیلی تبدیلی

خود بدلتے نہیں ۔ سب کچھ بدل دیتے ہیں
میرے اہل وطن یہ کیا چارہ گری کرتے ہیں

تبدیلی تبدیلی تبدیلی
پچھلی آدھی صدی سے یہ گردان سنتا چلا آ رہا ہوں
نتیجہ
جتنی تبدیلی لائی گئی ہے اتنا ہی ملک اور قوم کا نقصان ہوا
وجہ
تبدیلی اس لئے لائی گئی کہ تبدیلی لانا تھی
تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لا لا کر تعلیم کو بے مقصد بنا دیا گیا ہے
حکومتیں تبدیل کر کر کے ملک کو وحشیوں بھرا جنگل بنا دیا گیا ہے
آئین میں تبدیلیاں کرتے کرتے ملک بے آئین ہو کے رہ گیا ہے
آجکل تو تبدیلی نہیں تبدیلیوں پر زور ہے اور آئین کو ایک بے کار کتاب کی طرح بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے
اللہ رحم کرے اس ملک پر اور ہم عوام پر

ترقّی چاہیئے تو ترقّی تبدیلی سے نہیں ہوتی بلکہ ترقّی از خود تبدیلی لاتی ہے
اگر کچھ کرنا ہی ہے ترقّی کی کوشش کیجئے ۔ تبدیلیاں خود بخود آئیں گی اور ترقّی کے نتیجہ میں آنے والی تبدیلیاں صحتمند اور خوشگوار ہوں گی
مگر ترقّی کے لئے بے غرض محنت کی ضرورت ہے

انسان اور کتا

شیخ سعدی نے گلستان سعدی لکھی یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتاب میں نے جب پہلی بار پڑھی تو میں آٹھویں جماعت میں تھا۔
اس وقت مجھے وہ بچوں کی کہانیاں لگیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہانیاں بھی آگے چلتی گئیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ کہانیاں ہر عمر کے لئے ہیں اور ان کو پڑھ کر آدمی انسان بن سکتا ہے

آپ فالحال مندرجہ دو کہانیاں پڑھیئے

ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا۔ درویش کے پاس اس کا کتا بیٹھا تھا
بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا ” آپ اچھے ہیں یا آپ کا کتا ؟ “۔
درویش نے جواب دیا ” یہ کتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کتا مجھ سے اچھا ہے “۔

ایک آدمی کو کتے نے کاٹ لیا۔ درد سے اس کے آنسو نکل آئے
اس کی کمسن بچی اسے کہنے لگی ” بابا روتے کیوں ہو۔ کتا آپ سے بڑا تو نہیں ہے۔ آپ بھی اس کو کاٹ لیں”۔
آدمی نے کہا ” بیٹی ٹھیک ہے کہ کتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں اور انسان کتے کو نہیں کاٹتا “۔