عقل الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے ہر اِنسان کو دی ہے ساتھ ایک آسان اور واضح User Manual (قرآن شریف) دیا ہے اور استعمال انسان پر چھوڑ دیا ہے
چنانچہ
1 ۔ کوئی عقل زیادہ استعمال کرتا ہے
2 ۔ کوئی عقل کم استعمال کرتا ہے
3 ۔ کوئی عقل سنبھال کر رکھتا ہے اور صرف اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے
4 ۔ کوئی عقل کو غلط استعمال کرتا ہے
پہلی قسم کم ہے ۔ انہیں عقلمند یا ذی شعور کہا جاتا ہے ۔ یہ دوسروں کے کام آتے ہیں
دوسری قسم پہلی سے کچھ زیادہ ہے ۔ یہ عام آدمی کہلاتے ہیں ۔ اگر دُشمنی نہ ہو تو یہ بھی دوسروں کے کام آتے ہیں
تیسری قسم کافی زیادہ ہے ۔ یہ ہوشیار یعنی خود غرض لوگ ہوتے ہیں ۔ ہر کام میں اپنا فائدہ تلاش کرتے ہیں
چوتھی قسم تیسری سے کچھ کم ہیں ۔ یہ ہر چیز یا بات کو اپنی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں چنانچہ دوسروں کی بُرائیاں چُننے کے ماہر ہوتے ہیں
Category Archives: طور طريقہ
کیا ہم انسان بننا چاہتے ہیں ؟
آج سے 6 دہائیاں قبل اگر کوئی دوست یا ساتھی تنگ کرتا تو ”انسان بنو بھئی“ کہنے سے وہ رک جاتا
اگر کوئی بچہ تنگ کرتا تو ”انسان بنو یا انسان کا بچہ بنو“ کہنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا
آجکل کے زمانہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
تُجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار ۔ وہ کردار ۔ تُو ثابت ۔ وہ سیّا رہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر ۔ آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ اقبال
یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں نے پچھلے سال ستمبرمیں دوسرے بلاگ [حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے] میں لکھا تھا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ءمیں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے آزاد جموں کشمیر میں آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی مزید جن دشوار گزار راستوں سے یہ لوگ آزاد جموں کشمیر میں داخل ہوتے تھے اُن کی بھارت کو نشان دہی کر دی گئی جس کے نتیجہ میں بھارتی فوج نے 500 کے قریب بے خبر مجبور کشمیریوں کو شہید کر دیا ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔
اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔
قائداعظم اور قرآن ۔ 3
جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)
یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941ء کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)
قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ءبحوالہ احمد سعید صفحہ 216)
قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)
قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔
قائداعظم اور قرآن ۔ 2
اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم اِنٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ حصہ اوّل میں شامل ہے۔ یہ اِنٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے، اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن
سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔ (صفحات 239 و 240)۔
غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں
قائداعظم اور قرآن
اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے۔ رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا۔ وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کتب موجود تھیں اور وہ اکثر سید امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں
اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر 1 کی سوانح عمری ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو تین دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔ جنرل اکبر 25جون 1948 کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنئے۔”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کااعلان فرمائیں۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حکم دیا کہ ”میرا کانفیڈریشن بکس لے آؤ“جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اوراسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا۔ قائداعظمؒ نے ایک مسودہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا۔ میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر ریسرچ شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے۔ قائداعظمؒ نے اس تحریک کو پسند فرمایا۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی“۔ (صفحہ 282-281)
اُردو قومی زبان کیسے بنی ؟ بہتان اور حقیقت
آج سے 72 سال 9 ماہ قبل 21 مارچ کو ایک واقعہ ہوا تھا جسے درست بیان کرنے کی بجائے نامعلوم کس مقصد کیلئے قوم کو خود تراشیدہ کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں اور اب تک سنائی جاتی ہیں ۔ جن صاحب نے سب سے پہلے خود تراشیدہ کہانی کو کتابی صورت میں پیش کیا وہ عطا ربانی صاحب (میاں رضا ربانی کے والد) تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا
”قائداعظم نے مارچ 1948ء میں اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران مشرقی بازو کی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو محض 2 فیصد آبادی کی زبان تھی اور وہاں ہنگامہ ہوگیا جس میں 3 طلباء مارے گئے“۔
عطا ربانی صاحب نے جو لکھا وہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ ڈھاکہ کے اس جلسے میں بطور اے ڈی سی قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ سات ماہ قائداعظم کے ساتھ رہے اور 19 مارچ 1948ء کو واپس ایئرفورس میں چلے گئے تھے جبکہ قائداعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ سے 21 مارچ 1948ء کو خطاب کیا۔ مزید یہ کہ اس جلسہ میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا
قائداعظم کی اس جلسہ میں تقریر کا پس منظر اور پیش منظر منیر احمد منیر صاحب نے اپنی کتاب ” قائداعظم، اعتراضات اور حقائق“ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں جو اعلان کیا وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ 25 فروری 1948ء کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے کانگریس کے ہندو رُکن دھرنیدر ناتھ دتہ نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ قائداعظم نے اسمبلی کے سپیکر کے طور پر اس مطالبے کو رد کرنے کی بجائے اس پر بحث کرائی۔ کانگریسی رُکن اسمبلی نے کہا ”ریاست کے 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے ہیں اس لئے قومی زبان بنگالی ہوگی“۔
ایک اور کانگریسی رُکن پریم ہری ورما نے اس مطالبے کی حمایت کی ۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی ارکان مولوی تمیز الدین اور خواجہ ناظم الدین نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ہم انگریزی کی جگہ اُردو کو لانا چاہتے ہیں اس کا مطلب بنگالی کو ختم کرنا نہیں۔ کافی بحث کے بعد متذکرہ مطالبہ مسترد کردیا گیا ۔ یہ مطالبہ مسترد کرنے والوں میں بنگالی ارکان حسین شہید سہروردی ۔ نور الامین ۔ اے کے فضل الحق ۔ ڈاکٹر ایم اے مالک اور مولوی ابراہیم خان بھی شامل تھے ۔ چنانچہ اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ قائداعظم کا نہیں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ تھا
قائداعظم نے 21 مارچ 1948ء کی تقریر میں یہ بھی کہا تھا آپ اپنے صوبے کی زبان بنگالی کو بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے نمائندوں کا کام ہے ۔ بعدازاں صوبائی حکومت نے اُردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن تاخیر سے کیا گیا اور اس تاخیر کا پاکستان کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا
بنگالی عوام قائداعظم سے ناراض ہوتے تو 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جنرل ایو ب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرتے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ڈھاکہ میں جیت گئی تھیں جہاں اِن کے چیف پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمان تھے“۔