Category Archives: طور طريقہ

میں چور ؟؟؟

اس سلسلہ میں 3 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“اور ”گھر کی مرغی ؟“ لکھ چکا ہوں

ذرائع ابلاغ کے ذریعہ واقعات کا حال ہم تک مرچ مصالحے کے ساتھ پہنچتا ہے ۔ ہماری اکثریت حقائق سے واقف نہیں ہوتی اسلئے ان ظُلم کی داستانوں کا اثر وقتی ہوتا ہے ۔ آج کی تحریر ”جس تن لاگے وہ تن جانے“ والی ہے جس سے میں نے سنسنی کو دُور رکھنے کی پوری کوشش کی ہے اور نہائت اختصار سے کام لیا ہے

میں نے اپنے والدین ۔ دادا اور اساتذہ سے تین عوامل سیکھے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی کہ ان پر عمل کرنے کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں میں آج تک سر اُٹھا کے چلتا ہوں

1 ۔ جھوٹ کبھی نہیں بولنا ۔ چاہے جان جائے
2 ۔ کسی کو گالی نہیں دینا ۔ خواہ وہ کتنا ہی ظُلم کرے
3 ۔ محنت کرتے وقت اپنے سے زیادہ محنت کرنے والے کو نظر میں رکھنا اور اپنی حالت پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سے کم مراعات والے کو یاد رکھنا

میں ادارے میں 10 سال سے زائد ملازمت کر چکا تھا اور میری عادات سے میرے ماتحت کام کرنے والوں سے لے کر افسرانِ بالا تک سب واقف ہو چکے تھے ۔ بات ہے 1973ء کی جب میں پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ ایک دن میں دفتر پہنچا تو اسسٹنٹ منیجر ”ب“ نے آ کر اطلاع دی کہ تین درجن سے زائد بندوقیں غائب ہیں ۔ جہاں کبھی کوئی چھوٹی سی چیز غائب نہ ہوئی ہو تین درجن بندوقیں غائب ہونا ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں نے کہا ”اچھی طرح دیکھ بھال کریں ۔ ہو سکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو“ ۔ لیکن ایسا نہیں تھا بندوقیں سَچ مُچ غائب تھیں ۔ میں نے قوانین کے مطابق رپورٹ تیار کی اور جا کر ٹیکنیکل چیف کو دستی دے آیا

دو دن بعد معلوم ہوا کہ ایک گوڈاؤن کیپر اور ایک ورکر کو گھر سے لے گئے تھے اور واپس نہیں آئے ۔ مزید 5 دن بعد رات کو میں سویا ہوا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی نے مجھے جگا دیا ۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے گھڑی دیکھی تو ڈھائی بجے تھے ۔ دل میں کہا ”یا اللہ خیر “ اور ٹیلیفون کان سے لگایا ۔ ایک خاتون کی آواز تھی ”بھائیجان ۔ رات 8 بجے ”ع“ صاحب (اُس کا خاوند ۔ میرے ماتحت منیجر) کو بُلا کر لے گئے تھے کہ پندرہ بیس منٹ کیلئے آ جائیں اور اپنا بیان لکھا کر واپس چلے آئیں مگر وہ ابھی تک نہیں آئے”۔ میں نے اُنہیں تسلی دی کہ صبح سویرے اس سلسلے میں بھاگ دوڑ کروں گا ۔ صبح ساڑھے چھ بجے اُن کے گھر جا کر پوری تفصیل حاصل کی اور پونے سات بجے دفتر پہنچا ۔ 8 بجے تک معلوم ہو چکا تھا کہ فورمین ”ت“ ۔ فورمین ”ح“ اور ایک چارج مین بھی کچھ اسی طرح ہی گھروں سے اُٹھائے گئے تھے

میں دفتر سے نکلا اور ایک سنیئر افسر ”م“ کے پاس گیا جو پہلے میرے باس رہ چکے تھے اور منیجر ”ع“ اور فورمینوں ”ت“ اور ”ح“ کو جانتے تھے ۔ ”م“ صاحب نے ساری بات سننے کے بعد مجھے کہا ”تم ایک مُجرم کے گھر گئے ۔ مُجرم کو ملنے والا بھی مُجرم ہوتا ہے“۔
میں نے ان سے کہا ”پہلے کوئی ثبوت تو دیجئے ع کے مُجرم ہونے کا ۔ ابھی تو وہ ملزم بھی نہیں ہے کہ اس سلسلہ کی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی“۔ میری یہ بات ”م“ صاحب کو بہت ناگوار گذری

واپس آیا تو میرے براہِ راست ٹیلیفون کی گھنٹی بجی جو ایمرجنسی کیلئے ہوتا ہے یا جب ٹیکنیکل چیف یا ادارے کا چیئرمین براہِ راست خود ملائے ۔ میں نے اُٹھایا تو ایک اجنبی آواز آئی
”میں میجر ”ش“ بول رہا ہوں ۔ آپ میرے پاس آئیں میں نے تفتیش کرنا ہے“۔
میں نے بتایا ”میں تین آدمیوں کا کام کر رہا ہوں ۔ کہیں نہیں جا سکتا“۔
آواز ”آپ کو میرے پاس آنا ہو گا بیان دینے کیلئے“۔
میں ”جو کچھ میرے علم میں تھا میں لکھ کر اپنے افسران کو دے چکا ہوں ۔ اب کچھ کہنے کو نہیں ہے“
آواز ”آپ کو آنا ہو گا“۔
میں ”میں اپنے افسروں یا عدالت کے حُکم پر آپ کے پاس آ سکتا ہوں ۔ میں متاءثرہ فریق ہوں بیان لینا ہے تو یہاں آ کر لیں“
آواز ”آپ کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ آپ چور نہیں ہے“
میں ”تو گویا آپ یہی دیکھنے کیلئے بُلا رہے ہیں کہ میرے ماتھے پر کیا لکھا ہے ۔ پہلے آئینہ میں دیکھ لیں کہ آپ کے ماتھے پر کیا لکھا ہے“ اور میں نے ٹیلیفون بند کر دیا

کوئی گھنٹہ بعد ٹیلیفون آیا کہ چیف ایڈمن افسر بلا رہے ہیں ۔ ان کے دفتر میں داخل ہوا ہی تھا کہ اُلٹ پُلٹ باتوں کے ساتھ رُعب ڈالنے لگے ۔ میں یہ کہہ کر چلا آیا ”یہ اہم معاملہ ہے ۔ جو کچھ پوچھنا یا کہنا ہے لکھ کر دیجئے ۔ میں لکھ کر جواب دوں گا“

واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد پی اے نے بتایا کہ ”م“ صاحب بلا رہے ہیں ۔ اُن کے دفتر پہنچا تو گویا ہوئے
”تم اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھتے ہو ۔ جانتے نہیں تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ۔ تم لوگوں کو ہڑتال پر اُکسا رہے ہو“
میں ”میں نے کسی کو ہڑتا ل کا کہا ہے اور نہ مجھ سے کسی نے ہڑتال کی بات کی ہے ۔ میں لیبر نہیں ہوں سنیئر افسر ہوں اور ہڑتالوں کے خلاف ہوں“
”م“ ”ہم نے تماری گفتگو ریکارڈ کی ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو“
میں ”وہ گفتگو مجھے بھی سنوا دیجئے تاکہ معلوم ہو کہ کون جھوٹا ہے“
”م“ ”پکی بات ہے تم نے نہیں کہا ؟“
میں ”آپ اس ریکارڈ کو دوبارہ سن لیجئے تاکہ معلوم ہو کون آپ کو دھوکہ دے رہا ہے“

پھر بہت کچھ ہوا اور بالآخر چوری ہونے کے 12 دن بعد یعنی منیجر ع کے اُٹھائے جانے کے 5 دن بعد ان اہلکاروں کو رہا کر دیا گیا ۔ رہا کرنے سے قبل ان سے چیف ایڈمن افسر صاحب نے زبانی معافی مانگی اور کہا کہ سب کچھ ”نیک نیتی“ سے ہوا تھا
گوڈاؤن کیپر چل نہیں سکتا تھا ۔ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ ظُلم ہوا لگتا ہے تو کہا گیا کہ اُس نے بھاگنے کیلئے دوسری منزل سے چھلانگ لگائی تھی

یومِ یکجہتیءِ کشمیر

انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا

کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ

“جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں”
یا
“سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”

جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
راہِ حق میں جد و جہد کرنے والوں کو موت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی

اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے ۔ بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے

اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے

جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

گھر کی مرغی ؟

اس سلسلہ کی 2 تحاریر ”گفتار و کردار“ اور ”پارسل“ لکھ چکا ہوں

سوال ہے کہ ” تعلیم یافتہ ذہین اور زِیرک جوان مُلک کیوں چھوڑ جاتے ہیں ؟“

محاورہ ہے ”گھر کی مرغی دال برابر“۔ ہونا چاہیئے تھا ”گھر کی دال باہر کی مُرغی کے برابر“۔
اپنے مُلک کے حکومتی نظام کو پَرکھیں تو گھر کی مُرغی دال سے بھی بہت کمتر درجہ میں چلی جاتی ہے ۔ 30 سالہ سرکاری اور 5 سالہ غیرسرکاری ملازمت میں میرے ساتھ کئی حوصلہ شکن واقعات پیش آئے ۔ بات سمجھنے کیلئے اُمید ہے کہ صرف ایک واقعہ کافی ہو گا

پس منظر
پاکستان نے 1966ء میں جرمن مشین گن المعروف مشین گن 42 بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی منصوبہ بندی ۔ نشو و نما اور پیداوار (Planning, development and production) کیلئے مجھے مقرر کیا گیا ۔ منصوبہ بندی کے دوران زمینی حقائق (ground realities) کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ جرمن مشین گن کی نالی کے سوراخ (Barrel bore) میں جھَریاں (grooves) بنی تھیں جن پر سخت کروم پلیٹنگ (hard chrome plating) کی جاتی تھی جس سے اس کی برداشتی زندگی (endurance life) زیادہ سے زیادہ 16000 کارتوس تک ہو جاتی تھی ۔ اگر سخت کروم پلیٹنگ نہ کی جائے تو برداشتی زندگی زیادہ سے زیادہ 6000 رہ جاتی تھی ۔ سوراخ میں کروم پلیٹنگ کرنا نہائت مشکل کام ہوتا ہے اور اس میں جرمنی کی ایک دوسری کمپنی مہارت رکھتی تھی جسے نالیاں تیار کرنے کے بعد بھیج دی جاتی تھیں ۔ مشین گن کی تیار نالیاں (finished barrels) کروم پلیٹنگ کے بعد 30 فیصد تک ناکارہ (reject) ہو جاتی تھیں ۔ سب سے بڑی بات کہ یہ کمپنی سوراخ میں کروم پلیٹنگ کی ٹیکنالوجی بیچنے کو تیار نہ تھی

ہم اگر ان کا پلانٹ پاکستان میں لگاتے تو ہر وقت اُن کے رحم و کرم پر ہوتے ۔ مزید یہ کہ کسی خرابی کی صورت میں اُن کے ماہرین کو جرمنی سے بُلانا پڑتا ۔ اس طرح خرچہ بھی بہت ہوتا اور وقت بھی ضائع ہوتا ۔ میں نے جرمن انجنئیروں سے بات کی کہ وہ کیوں دوسری کمپنی کے محتاج بنے ہوئے ہیں اور اس کا کوئی بہتر حل نہیں نکالتے ؟ اُنہوں نے بتایا کہ 25 سے 30 فیصد بنی بنائی نالیاں بیکار ہونا اُنہیں بہت کھلتا ہے اسلئے وہ پچھلے 5 سال سے سوراخ کا ڈیزائین بدل بدل کر تجربے کر چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ہوئی البتہ کوشش جاری ہے

میں نے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی صلاحیت اور عِلم کو استعمال کرتے ہوئے سوراخ کا ایک ڈیزائن بنایا جس میں جھریوں کے کنارے ختم ہو گئے ۔ اس ڈیزائین کا نام میں نے پولی گون پروفائل (Polygon Profile) رکھا ۔ یہ ڈرائینگ میں نے جرمنی بھیجی کہ اس کے مطابق ایک کھونٹی (Mandrel) بنا کر بھیج دیں ۔ کچھ ماہ بعد اُنہوں نے کھونٹی بنا کر بھیجی اور اس سے بنی ہوئی چند نالیاں بھیجیں کہ ہم اُنہیں مشین گن میں لگا کر امتحانی فائرنگ (Test firing) کریں ۔ ہم نے خود بھی اس کھونٹی کے مطابق چند نالیاں بنائیں اور ان سب نالیوں کی امتحانی فائرنگ کروائی

امتحان لینے والے سینئر انسپکٹنگ آفیسر (ایس آئی او) میجر منیر اکبر ملک تھے جو مکینیکل انجنیئر تھے ۔ 2 روز بعد بہت خوش خوش آئے ۔ بڑے تپاک سے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور بولے ” آپ کو تو سونے میں تولا جانا چاہیئے ۔ وَنڈر فُل وَنڈر فُل ۔ اچھا بتاؤ کتنے کارتوس فائر کئے ہوں گے ؟”۔ میں جو اس وقت شَشدر کھڑا تھا ڈرتے ڈرتے بولا ”12000 ؟” میجر صاحب بولے ”بس س س ؟؟؟ ادھر آؤ ۔ گلے ملو“۔ مجھے بھینچ کر فارغ ہوئے تو بولے ”18000 پلس“۔ اللہ کے فضل سے بغیر سخت کروم پلیٹنگ کے ہم نالی کی 3 گنا زندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے جو کرومیئم پلیٹِڈ سے بھی 2000 زیادہ تھی

جرمنی کی جس کمپنی سے پاکستان نے مشین گن بنانے کا لائسنس لیا تھا اُن کے سربراہ اور ٹیکنیکل چیف جرمنی کی حکومت کے متعلقہ وزیر کو ساتھ لئے پاکستان پہنچ گئے ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین جنرل اُمراؤ خان اُنہیں ساتھ لئے میرے پاس آئے اور مجھے کہا ” بھوپال یہ آپ کو لینے آئے ہیں ۔ میں نے ان سے کہا ہے کہ آپ کے پاس تو کئی ایسے آدمی ہیں ۔ ہمارے پاس صرف ایک ہے وہ بھی آپ لیجائیں گے تو ہم کیا کریں گے ۔ تمہارا کیا خیال ہے ؟“ میں کہا ” آپ نے درست کہا ہے ۔ میں کہیں نہیں جاؤں گا“۔ میرا بنا ہوا ڈیزائین ہمیں لائسنس دینے والی کمپنی نے بھی اپنا لیا اور جرمن افواج کو میرے بنائے ڈیزائین کی مشین گن سپلائی ہونے لگی

اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے

میں نے کمانڈنٹ آئی ڈی اے (Inspection Depot Armament) کے نام معرفت سینئر انسپکٹنگ آفیسر خط لکھا ۔ جس میں ساری روئیداد لکھ کر درخواست کی کہ چیف انسپکٹر آرمامنٹ سے اس ڈرائینگ کی منظوری حاصل کی جائے ۔ کمانڈنٹ آئی ڈی اے نے اس خط کو زبردست قسم کی سفارش (recommendation) کے ساتھ آگے بھیجا ۔ ہفتہ بعد ایس آئی او ”جاہل نالائق” اور پتہ نہیں کیا کیا بولتے ہوئے بڑے پریشان میرے دفتر میں داخل ہوئے ۔ میں نے کھڑے ہو کر پوچھا ”خیریت ؟ کیا ہوا ؟ کسے گالیاں دے رہے ہیں ؟“۔ جواب ملا ”وہی جاہل جو آجکل چیف انسپکٹر آرمامنٹ ہے“۔ پھر ایس آئی او نے بتایا کہ ڈرائینگ اس اعتراض کے ساتھ واپس آ گئی تھی کہ صرف جرمنی کی کمپنی جن سے لائسنس لیا ہے کی ڈرائینگ کی منظوری دی جائے گی

ایک طرف میری محنت یا عزت تھی اور دوسری طرف ملک و قوم کا مفاد ۔ میں نے وہ ڈرائینگ جرمنی بھیج دی کہ اپنی طرف سے مجھے بھیجیں ۔ 2 ہفتے بعد جرمنی سے ایک انجنیئر پاکستان آ گیا ۔ وہ مجھے ملنے آیا اور کہا ”یہ ڈیزائین آپ نے بنایا ہے تو اسے اپنے نام سے کیوں رجسٹر نہیں کراتے ؟” میں نے بڑی مشکل سے اسے سمجھایا تو اُس نے اپنی کمپنی کے نام سے بنی ہوئی وہی ڈرائینگ مجھے دے کر کہا ” کاش آپ جرمنی میں پیدا ہوئے ہوتے”۔

سال کے آخر میں میرے باس نے میری سالانہ رپورٹ میں لکھا
Not yet fit for promotion

تعلیم ؟؟؟؟

پی پی پی اور ایم کیو ایم کے عوام کے ہمدرد اور خدمتگار ہونے کے دعووں پر مبنی لمبی لمبی تقاریر سُنتے کان سائیں سائیں کرنے لگے ہیں اور ٹی وی چینلز پر عوام کے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے ضیاع سے بار بار چلنے والے اشتہار دیکھ دیکھ کر آنکھیں دُکھنے کو آئی ہیں

ان کے کرتوتوں کی ایک ادنٰی سی مثال کراچی کے فیڈرل بی ایریا میں واقع گورنمنٹ منیبہ میموریل اسکول ہے جس پر حکمرانوں کی پروردہ مافیا نے ایک سرکاری حُکمنامے کے تحت 12 روز قبل قبضہ کر لیا تھا اور حکمرانوں کو احساس نہیں کہ 11 روز سے اسکول بند پڑا ہے اور سالانہ امتحانات آئیندہ ماہ ہیں ۔ طلباء کا پورا سال برباد ہو جائے گا

طلباء گزشتہ 11 دن سے اسکول کے باہر روزانہ احتجاج کر رہے تھے ۔ منگل 29 جنوری کو طلباء نے ا سکول کے گیٹ کے باہر فرش پر دریاں بچھا کر کلاسیں لیں ۔ اس موقع پر اسکول کے تمام طلباء ، اساتذہ اور ان کے والدین بھی موجود تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وہ اسی طرح پڑھیں گے۔ آخر طلباء نے سکول کے صدر دروازے پر لگا تالا توڑ دیا تاہم تا لا ٹوٹنے کے بعد جب وہ اندر پہنچے تو انہیں سخت دکھ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ لینڈ مافیا اسکول کا فرنیچر اور ضروری اشیاء اور اسکول کے دروازے کھڑکیاں بھی نکال کر لے جا چکی تھی اور عمارت کا کچھ حصہ بھی توڑ دیا تھا ۔ اساتذہ نے طلبہ سے کہا کہ وہ روزانہ آئیں اور فرش پر ہی تعلیم حاصل کریں۔ وہ فرنیچر کی پرواہ کئے بغیر دریوں پر تدریسی عمل جاری رکھیں گے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ رونا کیسا ؟

اگر آپ ایک خوشی کو لے کر بار بار خوش نہیں ہو سکتے

توپھر

ایک دُکھ کو لے کر بار بار کیوں روتے ہیں ؟

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے ”

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ذہین آدمی

* * * * * * * * * * * ذہین آدمی وہ نہیں ہوتا
جو صرف یہ جانتا ہو کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے

* * * * * * * ذہین آدمی وہ ہوتا ہے
جو کچھ اچھا دیکھے تو اُسے اختیار کرے
اور
جو کچھ بُرا دیکھے اُس سے اجتناب کرے