وہ آئے فی الفور دِل پھیر کر
پھر معصوم روحوں کو گھیر کر
توپوں کے دہانے کھول دئیے
جیسے اچانک قیامت آ پڑے
ننھے فرشتوں کے پرخچے اُڑے
اَن گِنت پھول سے جسم جلے
ہو گیا بپا وہاں پر ایسا حشر
جسم سے جسم علیحدہ نہ کر سکے
سی ڈی اے کے سوِیپر چار دن
جلے جسم و ٹکڑے اکٹھے کرتے رہے
ڈبوں میں ڈال کے سبزی کی طرح
راتوں و رات اُنہیں اکٹھا دفنا دیا
آیا نہ کسی کو بھی خیال مگر
یہ بھی ہیں کسی کے لختِ جگر
کہیں تڑپتے ہوں گے ان کے باپ
کہیں تلملاتی ہوں گی مائیں بھی
قصور تھا ان کا بتاؤ تو کیا
کسی کا سر تو نہیں پھوڑا تھا
اصلاحِ معاشرہ کے واسطے
حکومت نہ فرض نبھا سکی
تھا انہوں نے اپنے ذمہ لیا
بتاؤ کیا وہ جُرم تھا اتنا بڑا
صفائی کا بھی موقع نہ دیا
سینکڑوں معصوموں کو قتل کر دیا
ابھی ابی مجھے موبائل فون پر ایک پیغام ملا ہے
یہ بازی خُون کی بازی ہے
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے غازی نکلے گا
تم کتنے غازی مارو گے