میں کیا ہوں کون ہوں ؟ یہ بتانے سے میں رہا
اب خُود کو خُود سے خُود ہی ملانے سے میں رہا
میں لَڑ پَڑا ہوں آج خُود اپنے خلاف ہی
اب درمیاں سے خُود کو ہٹانے سے میں رہا
ہے زندگی اسیرِ عدم جانتا ہوں میں
دنیا تیرے فریب میں آنے سے میں رہا
Category Archives: شاعری
مٹی وِچ رُل جانا
رُسے ساہنُوں یاد نہیں کردے
تے راضِیاں وی بھُل جانا اے
مٹی دا اَیہہ جُسا جس دن
اے مٹی وِچ رُل جانا اے
کِیہ کھویا ، کِیہ کھَٹیا ای
کِیہ لُٹیا ای، کِیہ وَٹیا ای
عملاں والا کھاتہ تیرا
وچ قبرِیں کھُل جانا اے
کاہدی آکڑ، کاہدی پھُو پھاں
چھَڈ دے بَندیا کرنی تُو تاں
جِیویں لُون کھُرے وِچ پانی
سَبھ اَوہداں گھُل جانا اے
پیسہ پیسہ لائی رکھی
جِند اپنی کملائی رکھی
اِک کفنی وِچ ہوکے رُخصت
کِیہ تیرا مُل رہ جانا اے
چَنگا کر تے مَندڑا چھَڈ دے
مَن اَندرَوں کھوٹ نُوں کڈھ دے
تِن دیہاڑے جِندڑی تیری
دِن چَوتھے تُوں ٹُر جانا اے
کلام ۔ طارق اقبال حاوی
ہندو شاعرہ کا اسلام بارے خیال
راجستھان (بھارت) کے دارالحکومت (capital) جے پور کے ایک برہمن والدین کے ہاں پیدا ہونے والی ہِندو ٹی وی اداکارہ اور شاعرہ لتا حیا کا اسلام کے متعلق کلام سُنیئے
اسلامی موسیقی ؟ ؟ ؟
اسلام قبول کرنے کے محرک کے متعلق ایک برطانوی نَو مُسلم کی آپ بیتی کی تلخیص کر کے ترجمہ شائع کیا تھا ۔ اس پر دہلی (بھارت) سے ایک محترمہ نے سوال پوچھا ۔ میں نے جواب میں لکھا ”میں نہیں جانتا اسلامی موسیقی کیا ہوتی ہے“۔ اس کے بعد کراچی سے ایک محترمہ نے وکی پیڈیا پر لکھے کا حوالہ دیا ۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ اس امر کی وضاحت ہو جانی چاہیئے
قرآنی آيات اور احاديث گانے بجانے كے آلات اور موسيقی كی مذمت پر دلالت كرتے ہيں اور انہيں استعمال نہ كرنے كا كہتے ہيں ۔ قرآن مجيد راہنمائی كرتا ہے كہ ايسی اشياء كا استعمال گمراہی اور اللہ تعالٰی كی آيات كو مذاق بنانے كا باعث ہے جيسا كہ اللہ تعالٰی كا فرمان ہے
”اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھی ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كی راہ سے روك سكيں اور اسے مذاق بنائيں ۔ يہی وہ لوگ ہيں جن كے لئے ذلت آميز عذاب ہو گا (سورۃ 13 لقمان آیت 6)“۔
صرف شادى بياہ كے موقع پر دف بجانی جائز ہے اور يہ بھی صرف عورتوں كے لئے خاص ہے كہ وہ آپس ميں دف بجا سكتی ہيں تاكہ نكاح كا اعلان اور سفاح اور نكاح كے مابين تميز ہو سكے اور عورتوں كا آپس ميں دف بجا كر شادى بياہ كے موقع پر گانے ميں كوئی حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں برائی و منكر پر ابھارا نہ گيا ہو اور نہ ہی عشق و غرام كے كلمات ہوں اور يہ كسی واجب اور فرض كام سے روكنے كا باعث نہ ہو اور اس ميں مرد شامل نہ ہوں بلكہ صرف عورتيں ہی سُنيں اور نہ ہی اعلانيہ اور اونچی آواز ميں ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہو اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہی بُرا كام كر رہے ہيں كيونكہ ايسا كرنا مسلمان پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے اور شادى بياہ وغيرہ موقع پر عورتوں كے لئے دف كے علاوہ كوئی اور موسيقی كے آلات استعمال كرنا جائز نہيں مثلاً بانسرى گٹار، سارنگی وغيرہ بلكہ يہ برائی ہے ۔ صرف انہيں دف بجانے كی اجازت ہے ليكن مردوں كے لئے دف وغيرہ ميں سے كوئی بھی چيز استعمال كرنی جائز نہيں ۔ نہ تو شادى بياہ كے موقع پر اور نہ ہی كسی اور موقع پر بلكہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے تو مردوں كے لئے لڑائی كے آلات اور ہُنر سيكھنے مشروع كئے ہيں كہ وہ تير اندازی اور گھڑ سواری اور مقابلہ بازى كريں اور اس كے علاوہ جنگ ميں استعمال ہونے والے دوسرے آلات مثلا ٹينك ہوائی جہاز اور توپ اور مشين گن اور بم وغيرہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں معاون ثابت ہوں ۔ ديكھيں مجموع الفتاوی ابن باز (3/423 و 424)
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں کہ يہ علم ميں ركھيں كہ قرون ثلاثہ الاولٰی جو سب سے افضل تھے اس ميں نہ تو سرزمين حجاز ميں اور نہ ہی شام اور يمن ميں اور نہ مصر اور مغرب ميں اور نہ ہی عراق و خراسان كے علاقوں ميں اہل دين اور تقوٰی و زہد اور پارسا و عبادت گزار لوگ اس طرح كی محفل سماع ميں شريك اور جمع ہوتے تھے جہاں تالياں اور شور شرابہ ہوتا، نہ تو وہاں دف بجائی جاتی اور نہ ہی تالی اور سارنگی اور بانسرى بلكہ يہ سب كچھ دوسرى صدی كے آخر ميں بدعت ايجادى كی گئی اور جب آئمہ اربعہ نے اسے ديكھا تو اس كا انكار كيا اور اس سے روكا ۔ ديكھيں مجموع الفتاوى (11/569)
اور رہا ان نظموں اور ترانوں كا جنہيں اسلامی نظموں اور ترانوں كا نام ديا جاتا ہے اور ان ميں موسيقی بھی ہوتی ہے تو اس پر اس نام كا اطلاق اسے مشروع نہيں كرتا بلكہ حقيقت ميں يہ موسيقی اور گانا ہی ہے اور اسے اسلامی نظميں اور ترانے كہنا جھوٹ اور بہتان ہے اور يہ گانے كا بدل نہيں سكتے تو ہمارے لئے يہ جائز نہيں كہ ہم خبيث چيز كو خبيث چيز سے بدل ليں بلكہ ہم تو اچھی اور پاكيزہ چيز كو خبيث اور گندی كی جگہ لائينگے اور انہيں اسلامی سمجھ كر سُننا اور اس سے عبادت كی نيت كرنا بدعت شمار ہو گی جس كی اللہ نے اجازت نہيں دی
تفصیل
اكثر علماء كرام نے لہو الحديث كی تفسير گانا بجانا اور آلات موسيقی اور ہر وہ آواز جو حق سے روكے بيان كی ہے امام طبری ابن ابی الدنيا اور ابن جوزی رحمہم اللہ نے درج ذيل آيت كی تفسير ميں مجاہد رحمہ اللہ كا قول نقل كيا ہے ۔ فرمان باری تعالٰی ہے ”اور ان ميں سے جسے بھی تو اپنی آواز بہكا سكے بہكا لے اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھی اپنا شريك بنا لے اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھی وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں (سورت 17الاسراء آیت 64 و 65)
مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں يہ گانا اور آلات موسيقی اور بانسری وغيرہ ہيں اور طبری نے حسن بصری سے ان كا قول نقل كيا ہے كہ اس كی آواز دف ہيں ديكھيں (جامع البيان ۔ 15 / 118-119) ۔ ذم الملاہی ( 33 ) تلبيس ابليس (232 )
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں ”يہ اضافت تخصيص ہے جس طرح اس کی طرف گھڑ سوار اور پيادے كی اضافت كی گئی ہے چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالٰی كی اطاعت كے بغير ہو اور ہر وہ آواز جو بانسری يا دف يا ڈھول وغيرہ كی ہو وہ شيطان كی آواز ہے”۔ ديكھيں اغاثۃ اللھفان (1 / 252)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابن ابی ليلی كی سند سے حديث بيان كی ہے وہ عطاء سے بيان كرتے ہيں اور وہ جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ كے ساتھ نكلے تو ان كا بيٹا ابراہيم موت و حيات
كی كش مكش ميں تھا ۔ رسول كريم صلی اللہ عليہ و سلم نے بيٹے كو گود ميں ركھا تو ان كی آنكھوں سے آنسو بہنے لگے تو عبد الرحمن كہنے لگے ” آپ رونے سے منع كرتے ہيں اور خود رو رہے ہيں ؟“
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”ميں رونے سے منع نہيں كرتا بلكہ دو احمق اور فاجر قسم كی آوازوں سے منع كرتا ہوں ۔ ايك تو مزامير شيطان اور موسيقی كے آلات اور نغمہ كے وقت نكالی جانے والی آواز سے اور دوسرى مصيبت كے وقت چہرے پيٹنے اور گريبان پھاڑنے كےساتھ آہ بكا كرنے كی آواز ۔ سنن ترمذی حديث نمبر (1005)
امام ترمذى كہتے ہيں ”يہ حديث حسن ہے اور اسے امام حاكم نے المستدرك (4/43) اور بيہقی نے السنن الكبری (4/69) اور الطيالسی نے مسند الطيالسی حدی نمبر اور امام طحاوی نے شرح المعانی (4/29) ميں نقل كيا ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار ديا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ كہتے ہيں ”اس سے مراد گانا بجانا اور آلات موسيقی ہيں ۔ ديكھيں تحفۃ الاحوذی (4/88)
صحيح حديث ميں نبی كريم صلی اللہ عليہ وسلم كا يہ بھی فرمان ہے ”ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقی حلال كر لينگے اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگی تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہيں گے كل آنا تو اللہ تعالٰی انہيں رات كو ہی ہلاك كر ديگا اور پہاڑ ان پر گرا دے گا اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا
امام بخاری نے اسے صحيح بخاری (10/51) ميں معلقا روايت كيا ہے اور امام بيہقی نے سنن الكبری (3/272) ميں اسے موصول روايت كيا ہے اور طبرانی نے معجم الكبير (3/319) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان (8/265) ميں روايت كيا ہے اور ابن صلاح نے علوم الحديث (32 ) ميں اور ابن قيم نے اغاثۃ اللھفان (255) اور تہذيب السنن (2/1270-272) اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری (10/51) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ (1/140) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ميں كہتے ہيں ۔ المعازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں اور قرطبی نے جوہری سے نقل كيا ہے كہ معازف گانا ہے اور ان كی صحاح ميں ہے كہ يہ گانے بجانے كے آلات ہيں اور ايك قول يہ بھی ہے كہ يہ گانے كی آوازيں ہيں اور دمياطی كے حاشيہ ميں ہے معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں ۔ ديكھيں فتح البارى (10/55) ۔ اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں ۔ اس كی وجہ دلالت يہ ہے كہ معازف سب آلات لہو كو كہا جاتا ہے ۔ اس ميں اہل لغت كے ہاں كوئی اختلاف نہيں اور اگر يہ حلال ہوتے تو اسے حلال كرنے كی بنا پر مذمت نہ كی جاتی اور نہ ہی اس كا حلال كرنا شراب اور زنا كے ساتھ ملايا جاتا ۔ديكھيں اغاثۃ اللہفان (1/256)
اس حديث سے گانے بجانے كے آلات كی حرمت ثابت ہوتی ہے اور اس حديث سے كئی طرح استدلال ہوتا ہے
پہلی وجہ ۔ نبی كريم صلی اللہ عليہ وسلم كا فرمان وہ حلال كر لينگے ۔ يہ اس بات كی صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں ۔ تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنی گانے بجانے كے آلات بھی شامل ہيں
دوم ۔ ان گانے بجانے والی اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كی حرمت قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اگر ان معازف اور گانے بجانے والی اشياء كی حرمت ميں اس حديث كے علاوہ كوئی ايك آيت يا حديث نہ بھی وارد ہوتی تو اس كی حرمت كے لئے يہی حديث كافی تھی اور خاص كر اس طرح كے گانے كی حرمت ميں جو آج كل لوگوں ميں معروف ہے ۔ يہ وہ گانے ہيں جس ميں فحش اور گندے قسم كے الفاظ استعمال ہوتے ہيں اور اسے مختلف قسم كی موسيقی و ساز اور طبلے و ڈھول اور سارنگی و بانسری اور پيانو و گِٹار وغيرہ كے ساز پائے جاتے ہيں اور اس ميں آواز ہيجڑوں اور فاحشہ عورتوں كی ہوتی ہے ۔ ديكھيں حكم المعازف للالبانی اور تصحيح الاخطاء و الاوھام الواقعۃ فی فھم احاديث النبی عليہ السلام تاليف رائد صبری (1/176)
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں معازف ہی وہ گانے ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دی تھی كہ آخری زمانے ميں كچھ لوگ ايسے آئيں گے جو شراب و زنا اور ريشم كی طرح اسے بھی حلال كر لينگے ۔ يہ حديث علامات نبوت ميں شامل ہوتی ہے كيونكہ يہ سب كچھ واقع ہو چكا ہے اور يہ حديث جس طرح شراب اور زنا اور ريشم كو حلال كرنے والے كی مذمت پر دلالت كرتی ہے ۔ اسی طرح اس كی حرمت اور اسے حلال كرنے والے كی مذمت پر بھی دلالت كرتی ہے ۔ گانے بجانے اور آلات لہو سے اجتناب كرنے والی آيات و احاديث بہت زيادہ ہيں اور جو شخص يہ گمان ركھتا ہے كہ اللہ تعالٰی نے گانا بجانا اور آلات موسيقی مباح كئے ہيں اس نے جھوٹ بولا ہے اور عظيم قسم كی برائی كا مرتكب ہوا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہميں شيطان اور خواہشات كی اطاعت سے محفوظ ركھے اور اس سے بھی بڑا اور قبيح جرم تو اسے مباح كہنا ہے ۔ اس ميں كوئی شك و شبہ نہيں كہ يہ اللہ تعالٰی اور اپنے دين سے جہالت ہے ۔ بلكہ يہ تو اللہ تعالٰی اور اس كی شريعت پر جھوٹ بولنے كی جسارت و جراءت ہے
اللہ تعالٰی سے ہم سلامتی و عافيت كی دعا كرتے ہيں
مزيد تفصيل كے لئے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں
تلبيس ابليس (237) المدخل ابن حجاج (3/109) الامر بالاتباع والہنی عن الابتداع للسيوطی ( 99 ) ذم الملاہى ابن ابی الدنيا
الاعلام بان العزف حرام ابو بكر
جزائری تنزيہ الشريعۃ عن الاغانی الخليعۃ
تحريم آلات الطرب للالبانی
واللہ اعلم
الشيخ محمد صالح المنجد
اَوکھا
راہ دے وِچ کھلَونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (راستہ میں کھڑا رہنا مُشکل)
اپنا آپ لُکاؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اپنے آپ کو چھپانا مُشکل)
اَینی وَدھ گئی دُنیاداری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اتنی ہو گئی دنیا داری)
کلَیاں بہہ کے رونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (رونے کیلئے خلوَت پانا مُشکل)
داغ محبت والا باہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (داغ محبت کا باہو)
لگ جاوے تے دھونا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ (لگ جائے تو دھونا مُشکل)
کلَیاں عِشق کمانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اکیلے عشق کا حاصل بھی مُشکل)
کسے نُوں یار بنانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کسی کو دوست بنانا بھی مُشکل)
پیار پیار تے ہر کوئی بولے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پیار پیار تو سب کہتے ہیں)
کر کے پیار نبھانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کر کے پیار نبھانا مُشکل)
دُکھاں تے ہر کوئی ہَس لیندا ۔ ۔ (دُکھوں پر سب ہنس تو لیتے ہیں)
کِسے دا درد وٹاؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کسی کا درد بانٹنا ہے مُشکل)
گلاں نال نئیں رُتبے مِلدے ۔ ۔ ۔ (باتوں سے بُلندی حاصل نہیں ہوتی)
جوگی بھَیس بناؤنا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (فقیر بن کے رہنا بھی مُشکل)
کوئی کِسے دی گل نئیں سُندا ۔ (کوئی کسی کی بات نہیں سُنتا)
لوکاں نُوں سمجھانا اَوکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لوگوں کو سمجھانا بھی ہے مُشکل)
کلام ۔ سلطان باہو
دوست کی قدر
چَڑھدے سورج ڈَھلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (چَڑھتے سورج ڈھلتے دیکھے)
بُجھے دِیوے بَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بُجھے چراغ جلتے دیکھے)
ہِیرے دا کوئی مُل نہ تارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ہیرے کی کوئی قیمت نہ لگائے)
کھوٹے سِکے چَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (کھوٹے سِکے چلتے دیکھے)
جِنّاں دا نہ جَگ تے کوئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جن کا نہیں دنیا میں کوئی)
اَو وی پُتر پَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ بیٹے بھی پَلتے دیکھے)
اوہدی رحمت نال بندے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اُس کی رحمت سے لوگ)
پانی اُتّے چَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پانی پر چلتے دیکھے)
لَوکی کہندے دال نئیں گَلدی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (لوگ کہیں کہ دال نہیں گلتی)
میں تے پَتھّر گَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں نے تو پتھر گلتے دیکھے)
جِنھاں قَدر نہ کیتی یار دی بُلھیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بُلھیا ۔ جنہوں نے دوست کی قدر نہ کی)
ہَتھ خالی اَو مَلدے ویکھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (خالی ہاتھ وہ مَلتے دیکھے)
کلام ۔ بابا بُلھے شاہ
ہنسوں یا روؤں ؟
آج صبح سویرے کتابِ چہرہ پر ایک شعر نما پڑھ کر سوچ میں پڑ گیا ہوں
کہ
قہقہہ لگاؤں ؟
یا
آنسو بہاؤں ؟
دِل کو کراچی سمجھ رکھا ہے تُم نے
آتے ہو ۔ جلاتے ہو ۔ چلے جاتے ہو