Category Archives: سیاست

ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم

عرضداشت ۔ کل ابھی یہ تحریر نامکمل تھی کہ غلطی سے شائع ہو کر اُردو سیّارہ پر ظاہر ہو گئی ۔ مگر بلاگ سے ہٹا دیئے جانے کے باعث قارئین پڑھ نہ سکے جس کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ اب پوری تحریر پڑی جا سکتی ہے

قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1946ء میں پاکستان کیلئے رائے شماری ہونے سے قبل ناگپور میں منعقد ہونے والی آل انڈیا مُسلم سٹوڈنٹس کنونشن میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آپ کو میں ایک مقولہ [Motto] دیتا ہوں ۔ ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم

قائد اعظم کی وفات کے کچھ دہائیاں بعد بلند آواز والے لوگوں نے اس مقولے کو اتحاد ۔ یقین ۔ تنظیم بنا دیا ۔ اُن کا استدلال تھا کہ یقین اتحاد سے پیدا ہوتا ہے جبکہ ساری دنیا کے مفّکر کہتے ہیں کہ اتحاد یقین یا ایمان سے پیدا ہوتا ہے ۔ بہرکیف دورِ حاضر میں ایمان کی جو حالت ہے وہ سب جانتے ہیں ۔ اکثر لوگ امریکا سے ڈرتے ہیں یا امریکا کی خوشنودی چاہتے ہیں ۔ انفرادی طور پر بھی طاقتور یا بارسوخ انسان سے ڈرتے ہیں ۔ اللہ سے نہ ڈرتے ہیں نہ انہیں اللہ کی خوشنودی سے کوئی سرو کار ہے

رہ گئی تنظیم تو فوجی کاروائی کے نتیجہ میں بے گھر ہونے والے بے قصور لوگوں کو متبادل جگہ اور خوراک مہیاء کرنے میں حُکمرانوں اور ان کے حواریوں نے جو دھماچوکڑی مچائی ہے ایسی بدانتظامی کا نمونہ شاید ماضی میں دنیا کے کسی بدترین حصہ میں بھی دیکھنے میں نہ آیا ہو ۔ حکومت اور اقوامِ متحدہ کا متعلقہ ادارہ مل کر بے گھر افراد کے 15 فیصد کو ابھی تک نہ خیمے ۔ نہ خوراک اور نہ دوسری ضروریات مہیاء کر سکے ہیں ۔ باقی شہروں کا کیا ذکر دارالحکومت پشاور میں پہنچنے والے ان بے گھر افراد کی حالت سب سے زیادہ ابتر ہے ۔ خوراک کی تقسیم کا حصول اتنا سُست ہے کہ لوگ پورا پورا دن قطار میں کھڑے رہتے ہیں کیونکہ اُن کی شناخت اور تقسیم صرف ایک نقطہ پر ہو رہی ہے اور بندوبست یہ ہے کہ فی خاندان دو تھیلے گیہوں اور ایک ڈبہ تیل کا دیا جاتا ہے ۔ جن لوگوں نے بالآخر گیہوں اور تیل وصول کر لیا وہ پریشان ہیں کہ اسے کیا کریں ۔ کیا وہ گیہوں کھا کر تیل پی لیں ؟ ہمیشہ سے ڈالروں پر پلنے والی نام نہاد این جی اوز کا وہاں پر کردار صرف اتنا ہے کہ کچھ وہاں تصاویر بنوا کر واپس چلے جاتے ہیں ۔ حُکمران اور دوسرے بڑے اہلکار بھی وہاں صرف تصاویر بنوانے جاتے ہیں ۔ سرکاری کیمپوں کی حالت یہ ہے کہ اتنی شدید گرمی میں ابھی تک بہت کم خیموں میں پنکھے دیئے گئے ہیں ۔ پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ خاص کر بچے اسہال میں مبتلاء ہو رہے ہیں ۔ بلند بانگ دعوے روزانہ کئے جا رہے ہیں

اس کے برعکس جو کیمپ دردمند لوگوں نے بنائے ہیں وہاں لوگوں کو بجلی کے پنکھوں سمیت سب کچھ مہیاء کیا گیا ہے ۔ ہمارے جو وفود امداد پہنچا کر آئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مقامی عام لوگوں نے جو کردار ادا کیا ہے اس کے بعد الخدمت فاؤنڈیشن [جماعتِ اسلامی والی] ۔ اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ اور چھوٹی چھوٹی نجی قسم کی ویلفیئر سوسائٹیاں وہاں مصروفِ عمل نظر آتی ہیں ۔ سرکاری کیمپ بدنظمی کا مظہر تھے ۔ میڈیکل ٹیمیں زیادہ تر حکومتِ پنجاب کی ہیں ۔ کچھ نجی اور کچھ فوج کی بھی ہیں ۔ کل آئندہ کے لائحہ عمل پر بات ہو رہی تھی تو حکومتی بدانتظامی کا ذکر بھی آیا ۔ ایک صاحب جو ایک سال قبل تک پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے کہنے لگے “جن کا کوئی جلوس یا جلسہ یا دعوت کبھی بغیر بگھدڑ توڑ پھوڑ یا مارکٹائی کے نہیں ہوا وہ کیا جانیں انتظام کس بلا کا نام ہے ؟ ”

سب سے کم دولت والے صوبے بلوچستان نے بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کیلئے 6 کروڑ روپیہ دیا ہے ۔ پنجاب نے 10 کروڑ روپیہ کے علاوہ میڈیکل ٹیمیں مع دوائیوں کے بھیجی ہیں ۔ پنجاب نے دونوں صوبوں میں بے گھر ہو جانے والے لوگوں کی میزبانی کی پیشکش بھی کی اور پنجاب میں ہزاروں بے گھر ہونے والے لوگ پناہ لے چکے ہیں ۔ صوبہ سندھ امداد کے بارے میں خاموش ہے شاید وہ بہت نیک لوگ ہیں اور اس مقولے کے پابند ہیں کہ ایک ہاتھ دے اور دوسرے کو پتہ نہ چلے ۔ سب سے بڑھ کر جو کام صوبہ سندھ نے کیا ہے یہ ہے کہ الطاف حسین کے کہنے پر متاءثرین کے سندھ میں داخلہ پر پابندی لگا دی ہے ۔ انسانی ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کرنے والی ایم کیو ایم نے ایک ٹرک بھیجا تھا تو کئی دن صبح شام اس کی تشہیر کی جاتی رہی تھی ۔ اب جسقم کے ساتھ مل کر اپنے ہی پُرزور مطالبہ پر ہونے والی فوجی کاروائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے عام شہریوں کے سندھ میں داخلے کے خلاف ہڑتالیں کر رہے ہیں

مشقِ لاحاصل

قومی کانفرنس تمام ہوگئی ۔ 43 چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ سب کو اظہار خیال کا موقع ملا ۔گھنٹوں مباحثہ ہوا ۔ حکومت کی تیار کردہ قرارداد میں ترامیم ہوئیں ۔ ایک متفقہ قرارداد کا متن تیار ہوا ۔ اس پر تمام جماعتوں کے عمائدین نے دستخط ثبت فرمائے ۔ اس 16نکاتی اعلامیے میں سب کچھ ہے لیکن کہیں ”فوجی آپریشن“ کے الفاظ استعمال نہ ہوئے اور نہ ہی زعمائے ملت نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا کہ باجوڑ کے شدت پسندوں کو زبردست فوجی قوت کے ساتھ کچل دیا جائے ۔ منظور کردہ قرارداد میں ”طالبان“ کا لفظ بھی موجود نہیں ۔ عمومی اندازوعظ و تلقین اور دعوت و ارشاد کا سا ہے ۔ کوئی ایک بھی ٹھوس، جامع اور متعین بات نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا میکانزم تجویزکیا گیا ہے جو اس کانفرنس کی منظور کردہ قراردادکو عملی جامہ پہنانے کا اہتمام کرے گا ۔ سب کچھ ایک بار پھر اسی حکومت پر چھوڑدیا گیا ہے جس کی ناک میں امریکہ کی نکیل پڑی ہے اور جو مشرف کے اس فلسفے کو ایمان کا درجہ دیئے بیٹھی ہے کہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے شہنشاہ عالم پناہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے

کانفرنس نے اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی منظور کردہ قراردادوں کی حمایت کی ۔ آئین اور ریاستی خودمختاری کے تحفظ کا عہد کیا ۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ریاستی رٹ پر زور دیا ۔ آئین اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی مسلح کوششوں کی مذمت کی ۔ فوجیوں اور معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا ۔ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کہا ۔ بے گھر ہوجانے والے افراد کی ہرممکن امداد اور بحالی کا عزم ظاہر کیا ۔ قوم سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کیلئے اٹھ کھڑی ہو ۔ ایک متحرک اور فعال جمہوری نظام کو ناگزیر قرار دیا ۔ پورے یقین کے ساتھ دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے ایک موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں ۔ زور دے کر کہا کہ اہم قومی دفاعی معاملات اور فوج کی مختلف مقامات پر تعیناتی صرف پاکستان کا کام ہے ۔ کہا گیا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اقتصادی ، سیاسی اور جانی قربانیاں دی ہیں ان کی نظیر کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور علاقائی خودمختاری کے خلاف کارروائیوں بالخصوص ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی گئی اور قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک آزادوخودمختار ملک ہے اور اسے دی جانے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو شرائط میں جکڑنے کے منفی اثرات برآمد ہوں گے

یہ ایک لحاظ سے وعظ و نصیحت کا وہ پرچہ ہے جو آپ کو کبھی کبھار ڈاک میں موصول ہوتا ہے اور جس کے کنارے پہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر تم نے اس کی مزید دس کاپیاں تیار کرکے تقسیم نہ کیں تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔ ممکن ہے یہ تاثر مبنی برحقیقت نہ ہو لیکن قیاس یہی ہے کہ قومی کانفرنس کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ فوجی آپریشن اسی انداز میں چلتا رہے گا، گناہ گاروں اور بے گناہوں کی تمیز کے بغیر لاشیں گرتی رہیں گی ۔ بے خانماں ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہے گی

عرفان صدیقی کے مضمون کا بقیہ یہاں کلک کر کے پڑھیئے
بشکریہ ۔ جنگ

بھیک مانگنے میں کامیابی پر مبارک

اِسے حالات کی ستم ظریفی کہئے یا اعتقادکی ضعیفی مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اب ہماری شناخت ”بھک منگوں“ کے سوا کچھ نہیں رہی ہے… ہم وہ بھکاری اور ڈھیٹ منگتے ہیں جوڈالر اور پاؤنڈ کے لئے اپنے ہی گراؤنڈ خانماں بربادوں سے بھر کر ”انسانی گراؤنڈ“ پر یہود و نصاریٰ سے بھیک مانگتے ہیں…کئی دہائیوں سے بدچلن حکمرانوں کا یہی چلن ہے کہ دنیا پرستوں سے دنیا سازی کی باتیں کر کے چھلنی دامن کو ”امداد کے نوٹوں“ سے بھر لیں…یہ اور بات ہے کہ دل اور دامن میں سوراخ کے سبب گرنے والے نوٹوں کا اِس لئے حساب نہیں ہوتا کیونکہ اُن گِرے ہوؤں کو ”گِرے ہوئے“ اُٹھالیتے ہیں اور جو الجھ کر جھولی ہی میں رہ جاتے ہیں وہی ”قومی خزانے کا حصہ “قرارپاتے ہیں…افسوس ہوتا ہے اپنے حکمرانوں پر کہ جن کے نزدیک بھرے کشکول کے ساتھ کامران لوٹنا ہی عظیم سفارت کاری ہے …نویں جماعت کے لازمی مضمون ”مطالعہ پاکستان“میں کبھی پڑھا تھا کہ سربراہِ مملکت جب کسی دوسرے ملک جاتا ہے تو معاہدے کرتا ہے ، مختلف شعبوں میں تعاون کی یادداشتوں پر دستخط کئے جاتے ہیں،مشترکہ امور پر متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے اور پھر وطن واپسی پر قوم کو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو فلاں معاملے پر مقدم رکھا، اُس کی سالمیت اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے ہم نے ایسی کوئی شرط تسلیم نہیں کی جس سے ہماری خودی پر آنچ آتی ہو اور ہم نے برابری کی بنیاد پر باہمی تعلق کو فروغ دیا لیکن ”نواں آیا سوہنیا“کیا جانے کہ ”نویں جماعت“ کا سبق کیا ہے؟اُنہیں تو ڈالروں کی خوشبو ملک سے باہر کھینچے رکھتی ہے ، پاؤنڈ اور فرینک کے حصول میں وہ اتنے Frank ہیں کہ دل کی بات فوراً ہی زبان پر لے آتے ہیں، کوئی پس و پیش اور نہ ملال بس دولت، روپیہ اور مال…اپنے فن میں بلا کے ماہر ہیں کہ”مانگنے“ میں کوئی جھجھک ہی محسوس نہیں ہوتی،

بقیہ مضمون پڑھیئے یہاں کلِک کر کے

طویل المعیاد امریکی حکمتِ عملی

افغانستان میں امریکی موجودگی دراصل ایک طویل المعیاد امریکی فوجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ اپنی دیرینہ معاشی اور حُکمرانی کے خواب پورا کرنا چاہتا ہے ۔ پڑھیئے ایک ہوشرُبا تجزیہ ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر دی ہوئی ترتیب سے باری باری کلِک کر کے
1 ۔ ذرخیز مشرق پر امریکی قبضہ کا منصوبہ
2 ۔ عزائم کی تکمیل میں امریکی خوش قسمتی ۔ پاکستان میں تابعدار فوجی آمر کی موجودگی
3 ۔ دراصل امریکہ طالبان کی مالی امداد کر رہا ہے
4 ۔ امریکہ کا منصوبہ طالبان کو فتح کرنا نہیں بلکہ اس سے بہت بڑا مقصد ہے

بنیادی مُجرم کون ؟

میں وطنِ عزیز کے حالات اور اس سلسلے میں ہموطنوں کے کردار کے بارے میں گاہے بگاہے لکھتا رہا ہوں ۔ آج جس حال کو وطنِ عزیز پہنچ چکا ہے اس کی ذمہ داری حُکمرانوں اور سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن اس سب کا بنیادی ذمہ دار کون ہے اس کا ادراک اور اصلاح ازحد ضروری ہے ۔ اصل وجہ کی طرف جانے کیلئے 62 سال کی سیاسی تاریخ کا مختصر سا جائزہ ضروری ہے

قوم 1947ء میں کئے گئے مسلمانوں کے قتل وغارت کے نتائج سے ابھی سنبھلی نہ تھی کہ قائداعظم چل بسے ۔ پھر پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم قتل کر دیئے گئے ۔ پھر پورے ہند کے مسلمانوں کی منتخب کردہ اسمبلی توڑ دی گئی ۔ وہ سیاستدان جنہوں نے صدق دل سے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا اُنہوں نے قانونی جنگ لڑی جو عدالتِ اعلٰی کی سطح پر جیت لی مگر عدالتِ عظمٰی کا سربراہ منیر جو گورنر جنرل غلام محمد کا ہم نوالا اور ہم پیالہ تھا ڈنڈی مار گیا ۔ اس کے بعد غلام محمد اور سکندر مرزا اپنی باری پر پُتلی کا تماشہ کرتے رہے ۔ 1958ء میں ایک پختون عبدالقیوم خان نے اس مطلق العنانی کے خلاف آواز اُٹھا کر پشاور سے لاہور تک 6 میل لمبا جلوس نکالنے کا اعلان کیا ۔ قوم تحریکِ پاکستان کے بعد پہلی دفعہ اُٹھی ۔ پشاور سے جلوس روانہ ہوا جہلم پہنچنے سے پہلے 21 میل لمبا ہو گیا ۔ حکومت کی مشینری حرکت میں آئی اور مارشل لاء نافذ کر دیا گیا ۔ ایک بار پھر قانون کا غلط استعمال ہوا اور اسے جائز قرار دیدیا گیا جو کہ آج تک معمول بنا رہا

سیاستدانوں کو سیاست سے باہر کر کے نئی پنیری لگائی گئی ۔ دوستیاں نبھاتے ہوئے نئے چہرے سیاست میں متعارف کرائے گئے جن میں سکندر مرزا کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ کا بیٹا ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھا ۔ معاشی منصوبہ بندی کسی طرح پٹڑی پر رہی اور عوام کی معاشی حالت بہتر ہوتی رہی ۔ پھر جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کے منصوبہ پر عمل کرتے ہوئے 1965ء میں آپریشن جبرالٹر کیا گیا اور نہ صرف ہزیمت اُٹھانا پڑی بلکہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ۔ افواج قوم کے تعاون سے بے جگری سے لڑیں اور ملک کو بچا لیا ۔ پہلی بار بڑی طاقت سوویٹ روس جو جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتی تھی اور کئی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ ماننے پر تیار ہو گئی ۔ یہ بات جنرل ایوب خان کے منہ بولے بیٹے کو پسند نہ آئی جس پر اُسے وزارت سے ہٹایا گیا ۔ اُس نے توڑ پھوڑ کی سیاست شروع کی جس کیلئے طلباء رہنماؤں کو 2000 روپیہ ماہانہ دیا جاتا تھا ۔ ان میں راولپنڈی کا شیخ رشید احمد بھی شامل تھا ۔ مارشل لاء پھر لگا دیا گیا ۔ اس دور میں ترقی رُک گئی اور ملک کے حالات بالخصوص مشرقی پاکستان کے حالات خراب ہونے شروع ہوئے

ذوالفقار علی بھٹو کو قید کیا گیا تو اُسے غلام مصطفٰے گھر کی صحبت ملی اور وہ لیڈر بن گیا ۔ تمام سیاسی رہنماؤں کے دباؤ میں آ کر اُسے رہا کیا گیا ۔ انتخابات کا اعلان ہونے پر مشرقی پاکستان میں “سونار بنگلہ اور پنجابی کھا گیا” کا نعرہ لگایا گیا اور مغربی پاکستان میں محروم عوام اور مادہ پرست لوگوں نے “روٹی کپڑا مکان” کے نعرے میں بہت کشش محسوس کی ۔ عام تاءثر ہے کہ 1970ء کے انتخابات منصفانہ تھے لیکن جو لوگ اس عمل سے منسلک رہے وہ جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن حکومتی اداروں کی بے رُخی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھونس دھاندلی کے ذریعہ بھاری اکثریت لے گیا ۔ مغربی پاکستان میں باقی علاقوں کا تو مجھے علم نہیں ضلع راولپنڈی کے کچھ علاقوں کا میں شاہد ہوں کہ کس طرح دھمکیوں کے ذریعہ پیپلز پارٹی کو ووٹ ڈلوائے گئے ۔ نتیجہ آیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے نامنظور کرتے ہوئے” اُدھر تُم اِدھر ہم ” کا نعرہ لگا دیا

حُکومتی اداروں کی خودغرضیوں اور بے حِسی کے سبب یحیٰ خان کے تین سالوں میں بھارت نے سرحدوں کی جغرافیائی موافقت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان میں اپنے سینکڑوں ایجنٹ اور کمانڈو داخل کر دیئے تھے جن کیلئے مجیب الرحمٰن سودمند ثابت ہوا ۔ یحیٰ بھٹو گٹھ جوڑ کے بعد مجیب الرحمٰن کو حکومت دینے کی بجائے قید کر کے مشرقی پاکستان میں اچھے اور بُرے کی تمیز کے بغیر فوجی کاروائی نے حالات خطرناک بنا دیئے ۔ موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے حملہ کر دیا ۔ نہ صرف حکمران بلکہ پاکستانیوں کی اکثرت امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کا تصور لئے مطمئن بیٹھے رہے ۔ دیسی شیر کہلانے والے جرنیل نے قید کو شہادت پر ترجیح دیتے ہوئے 16 دسمبر 1971ء کو ہتھیار ڈال دیئے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق یحیٰ خان کو 12 دسمبر 1971ء کو صدارت سے ہٹا کر حراست میں لے لیا گیا تھا ۔ 12 دسمبر سے ذوالفقار علی بھٹو کے صدر بننے تک کون حکومت چلاتا رہا یہ راز بھی اُسی طرح نہیں کھُل سکا جس طرح غلام محمد کے مکمل مفلوج ہونے کے بعد سے سکندر مرزا کے گورنر جنرل بننے تک گورنر جنرل کے دستخط کون کرتا رہا ۔ قصہ کوتاہ ۔ مشرقی پاکستان میں صفر اور مغربی پاکستان میں سیاستدانوں کی ناچاقی کے نتیجہ میں 33 فیصد ووٹ حاصل کرنے والا ذوالفقار علی بھٹو بقیہ پاکستان کا اکثریتی راہنما ٹھہرا اور پاکستان کا صدر اور دنیا کا پہلا سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بقیہ پاکستان کو بڑا پاکستان [Greater Pakistan] کا نام دیا

عوامی دور میں صنعتی اور تعلیمی ادارے ماسوائے اُن کے جو غیرملکی چلا رہے تھے بغیر مناسب منصوبہ بندی کے قومی تحویل میں لے کر اُنہیں چلانے والوں کو چلتا کیا گیا اور اُن کی جگہ سیاسی بھرتیاں کی گئیں ۔ دفاتر اور عدالتوں میں انتظامی اصلاحات کے نام پر اپنے حمائتیوں کو براہِ راست بھرتی کیا گیا جن کی اکثریت اس قابل نہ تھی ۔ اگلے انتخابات میں باوجود جیتنے کی اُمید ہوتے ہوئے لالچ کے تحت بڑے پیمانے پر ہیرا پھیری کی گئی ۔ احتجاج کو گولی کے زور پر روکنے کی کوشش کی گئی ۔ لاہور میں درجنوں لاشیں گریں ۔ احتجاج زور پکڑ گیا اور پھر مارشل لاء نافذ ہو گیا ۔ ضیاء الحق نے بڑی سیاسی غلطی یہ کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھوا دیا ۔ اس مارشل لاء کے دوران امریکا نے اپنے دیرینہ حریف کو نیچا دکھانے کی خاطر ہماری سرزمین ۔ عوام اور حکومت کو استعمال کیا اور کامیابی حاصل کی ۔ اسی دوران ضیاء الحق نے افغانستان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تو اُسے مع اُس کے قریبی ساتھیوں کے ہوائی حادثے میں مروا دیا گیا

پھر انتخابات ہوئے اور کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکی ۔ صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے مطابق اکثریت دکھانے کی دعوت دینے کی بجائے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کر دیا اور بے پیندے کے لوٹے لُڑھک کر اُس کی طرف چلے گئے ۔ ابھی سال ہی گذرا تھا کہ مردِ اول کی کارستانیوں سے لوگ پریشان ہونے لگے ۔ وزیراعظم اور صدر کے اختلافات بڑھے اور حکومت جاتی رہی ۔ اگلے انٹخابات میں میاں محمد نواز شریف اکثریت لے کر آئے مگر جرنیل کی فرماں برداری نہ کرنے پر اُسے اور صدر دونوں کو گھر بھیج دیا گیا ۔ اگلی بار پھر بینظیر بھٹو کی حکومت بنی مگر اپنے بنائے ہوئے صدر اور مردِ اول کی جھڑپ کے نتیجہ میں ختم ہوئی اور نواز شریف تین چوتھائی اکثریت سے سامنے آئے ۔ جرنیل نے قومی سلامتی کونسل کی تجویز پیش کی ۔ سیاستدانوں کو اس کی آڑ میں آئینی فوجی حکمرانی کو تحفظ ملتا محسوس ہوا ۔ اس پر جرنیل کو مستعفی ہونا پڑا ۔ بھارت کے ایٹمی دھماکے کرنے اور پھر پاکستان کو دھمکیاں دینے کے نتیجہ میں ایٹمی دھماکہ کیا اور اور عوام نے بہت سراہا مگر کچھ ہموطنوں اور اُن کے غیرمُلکی آقاؤں کو یہ ادا پسند نہ آئی ۔ جب پرویز مشرف کو فوج کا سربراہ بنایا گیا تو اُسے ہیرو بننے کی سوجھی ۔ کرگل کا محاظ کھول دیا اور ہزیمت اُٹھائی ۔ پارلیمنٹ میں انکوائری کی صدا بلند ہوئی تو ہائی جیکنگ کا جھوٹا بہانہ بنا کر وزیرِ اعظم اور اس کے تمام ساتھیوں کو گرفتار کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا گیا ۔ امریکا کی تابعداری اختیار کی اور قوم اور مُلک کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ۔ صرف اسی پر بس نہ کیا ۔ جس کی طرف اشارہ ہوا اُٹھا کر امریکا کے حوالے کر دیا ۔ اپنے آقا کی خوشنودی کیلئے اپنے ہموطنوں کا قتلِ عام شروع کیا یہاں تک کہ ڈاماڈولا کے مدرسہ کے 70 سے زائد کم سن لڑکوں اور اسلام آباد میں جامعہ حفصہ کی سو سے زائد 4 سے 17 سال کی بیگناہ بچیوں کو بھون کے رکھ دیا ۔ چودہ ماہ قبل کے انتخابات سے ایک بار پھر کم از کم نام کی جمہوریت آئی لیکن ابھی تک کوئی جمہوری کام ہوتا نظر نہیں آیا

اس سب ظُلم و ستم اور قوم و مُلک کے انحطاط کا بنیادی ذمہ دار کون ہے ؟

کیا بھارت ہے ؟ یا افغانستان ؟ یا امریکا ؟ ٹھیک ہے کسی حد تک یہ سب بھی ذمہ دار ہیں لیکن اُن کا تو یہ سیاسی منصوبہ اُن کے اپنے قومی یا سیاسی مفاد کیلئے منفی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ۔ مگر وہ اپنی ان کاروائیوں میں کامیاب آخر کیونکر ہوئے ؟ اس کا بھی جائزہ ضروری ہے لیکن اب میں تھک گیا ہوں اور کچھ اور کام بھی کرنا ہے ۔ کل میں نے ہفتہ بھر کا سودا لانا ہے اور دوسرے کام بھی ہیں ۔ باقی اِن شاء اللہ بُدھ 29 اپریل کو

یہ میں نہیں کہتا

جو کچھ وطنِ عزیز کے قبائلی علاقوں میں ہوتا آیا ہے اُس کے متعلق میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہا ہوں اور اِن شاء اللہ جلد پوری صورتِ حال کا مختصر جائزہ اپنے مشاہدات کی روشنی میں لکھوں گا ۔ جو بات میری سمجھ میں نہیں آتی یہ ہے کہ الطاف حسین اور اُس کے چیلوں کو صوبہ سرحد اور پنجاب کی فکر کھائے جا رہی ہے لیکن جہاں اُس کا ایک چیلا گورنر اور باقی چیلے وزراء ہیں اور رہائش پذیر ہین وہا حالات ابتر ہیں ۔ اور کراچی کو طالبان نے گھیر لیا کا شور مچا کر سمجھ لیا جاتا ہے کہ کسی نے نہ دیکھا اور نہ سُنا ۔

یہ میں نہیں کہتا ۔ کل سارے کراچی میں شور تھا جو میرے کانوں تک بھی پہنچا جس کا خلاصہ یہ ہے

سہیل ظاہر خٹک جمعہ کی شام گاڑی کھاتہ کے علاقے میں واقع ایک پرنٹنگ پریس کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم مسلح افراد نے اس پر فائرنگ کر دی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔ اُسے فوری طور پر سول اسپتال لے جایا گیا جہاں بعدازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ اسپتال کے سینئر ایم ایل او ڈاکٹر آفتاب چنڑکے مطابق مقتول کے سر میں گولی لگی تھی۔ مرحوم سلطان آباد کا رہائشی تھا۔ ذرائع کے مطابق سہیل پر حملے کی خبر پھیلتے ہی تقریباً 3 سے 4 سو افراد سول اسپتال پہنچ گئے جنہوں نے وہاں شدید توڑ پھوڑ کی۔ ڈاکٹرز کو مارا پیٹا جس سے وہ خوفزدہ ہو کر ایمرجنسی وارڈ چھوڑ چلے گئے

پی ایس ایف کے مذکورہ کارکن کی ہلاکت کے بعد لیاری، لی مارکیٹ، کھارادر، کھڈا مارکیٹ، سلطان آباد، آرام باغ، ایم اے جناح روڈ، بولٹن مارکیٹ، مائی کلاچی، روڈ، سلطان آباد اور دیگر علاقوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ جلاؤ گھیراؤ کا سلسلہ شروع کر دیا، فائرنگ کی زد میں آکر بہار کالونی میں حمید اللہ، رنچھوڑ لائن میں حبیب اور کھڈا مارکیٹ میں مستان شاہ نامی شخص زخمی ہوگئے۔ جبکہ ہنگامے کے سبب متاثرہ علاقوں میں رات گئے تک کھلنے والے بازار اور دکانیں بند ہوگئیں۔ جبکہ لوگ خوفزدہ ہو کر اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔

ایک تبصرہ

میں نے “اصل خطرہ پاکستان” کے عنوان سے جو بی بی سی کی خبر نقل کی تھی اُس پر ایک قاری کا اس تبصرہ اُمید ہے کہ باقی قارئین بھی مستفید ہوں گے

اسرائیل کے بڑوں نے تبھی ہی سے ہمیں اپنا پکے والا دشمن قرار دے دیا تھا جب اقوام متحدہ کا رُکن ہونے کے ناطے پاکستان نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیلی ریاست کے قیام کی شد و مد سے مخالفت کی تھی۔ پاکستان کے شمال اور مشرقی سرحدوں پہ ہونے والی “گریٹ گیم” میں امریکہ ، بھارت اور افغانستان کے ساتھ ساتھ اسرائیل بھی شروع دن سے اپنا لُچ تل رہا ہے۔ خاصکر بھارت کے قبضے میں کشمیر کی وجہ سے آجکل “انڈیا اسرائیل ہنی مون” میں ممبئی دہشت گردی جیسے واقعات میں اضافہ ہونے کی وجہ سے انڈیا نے اسرائیل کے سامنے مکمل طور پہ گھُٹنے ٹیک دئیے ہیں اور اسرائیل بھارت کا دوسرا بڑا اسلحے کا سپلائیر ہے

ویسے بھی برھمن اور یہودی فطرت ایک جیسی ہے بلکہ یہود بڑے کی افرادی طاقت بہت کم ہونے کی وجہ سے ایک عرصے تک یہود ھنود کو موسٰی علیہ السلام کے دور میں اپنا گمشدہ قبیلہ قرار دیتے رہے ہیں جس میں ھنود کا سبزی خور ہونا ایک بڑی دلیل گردانتے رہے ہیں ۔ بقول یہود کے جب مذکورہ قبیلہ موسٰی علیۃ والسلام سے بد عہدی اور نافرمانی کی وجہ سے صحرا میں گم ہو گیا تھا تو اس وقت بنی اسرائیل پہ گوشت حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ بھارت کی آزادی کے شروع ادوار میں موہن داس کرم چند گاندھی (جسے ھندو مہاتماکہتے ہیں) اور تب کے کانگریسی رہنماؤں نے معروف “چانکیہ اصولِ سیاست” کے تحت اسرائیلی قیام کی حمایت نہیں کی تھی کیونکہ تب ایک نیا عالم تعمیر ہو رہا تھا جس میں نئی نئی آزاد ہوتی قومیں اور ممالک اسرائیل کے قیام کے سخت مخالف تھے ۔ اس لئے اسرائیل کے گمشدہ قبیلے والا قصہ تب اپنے انجام کو نہ پہنچ سکا ۔ مگر اس کے باوجود اسرائیل نے بھارت سے ایک قدیم یہودی قبیلہ ڈھونڈ نکالا تھا اور یہ سب کو علم ہے کہ وہاں یہود تعطیلات کے نام پہ گلچھڑے اُڑانے جاتے ہیں۔ جس میں شراب و شباب دونوں کا بند وبست ہوتا ہے

اسرائیلی وزیرِ خارجہ افِگدور لِبر مین [Avigdor Liberman] روسی یہودی ہے اور یہ سابقہ سویت یونین مولداویا میں پیدا ہوا اور یہ 1978ء میں روس سے اسرائیل منتقل ہوا۔ روسی یہودی مسلمانوں کے بارے میں انتہائی گھٹیا خیالات رکھتے ہیں۔ لِبرمین انتہائی دائیں بازو کا کٹڑ انتہا پسند ہے اور اس نے اپنے موجودہ الیکشن کمپین [election campaign] میں اسرائیل کے دس لاکھ سے زیادہ عرب اسرائیلی شہریوں کو اسرائیل سے باہر نکال دینے کا انتخابی نعرہ لگایا تھا اور یہ اس کے پارٹی منشور کا حصہ ہے۔ بہر حال یہ فیشن سا بن گیا ہے کہ کہ کمزور اقلیتوں کو دبانے کے نام پہ الیکشن جیتا جائےاور یہی بھارت کے الیکشن میں ہوتا رہا ہے اور یورپ اور امریکہ میں بھی مسلمانوں کا میڈیا ٹرائیل[media trial] بھی صرف اپنے آڈِئینس [audience] میں اضافے کیلئے کیا جاتا ہے کہ یہ آسان اور کم قیمت نسخہ رہا ہے مگر ان ممالک کے عام عوام کو بھی اس بات کا ادارک ہو چلا ہے کہ یہ صرف الیکشن جیتنے کا ایک مسکینی طریقہ ہے۔ یا اپنے ریڈیو ٹی وی کے ناظرین بڑھانے کا ایک نہائت گھٹیا اور اخلاق سے گرا حربہ ہے۔ اس لئے لِبرمین کی یہ باتیں اور شوشے اپنے ووٹروں اور یہودیوں کے لئے ہیں۔ اس کے اس بیان سے پاکستان کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا

لِبر مین کے پورے بیان میں صرف ایک بات نئی ہے جس پہ ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار کو زیادہ غور کرنا چاہیئےکہ اس دفعہ اسرائیل نے پاکستان پہ طالبان کے تخیّلاتی قبضے کے پروپیگنڈے کے پس منظر میں پاکستان کے دیرینہ دوست ملک چین کے ناخوش ہونے کی بات کی ہے۔ جو ایک نئی بات ہے۔ کیا یہ لِبر مین کی لن ترانیوں میں سے ایک ہے یا اس بیان کے پیچھے چین کی تحفظات کی کوئی سنجیدہ صورت ہے ؟ یہ جاننا اور اس کا سدِباب ہمارے ذمہ دار لوگوں کو ابھی سے کرلینا چاہیئے۔ اس پہلے کہ پاکستان مخالف مختلف لابیاں پاکستان کی مخالفت اور چین کی حمایت میں تصوارتی خطرات کے پروپیگنڈا کا آسمان سر پہ اٹھا لیں۔ بھارت اور اسرائیل ۔ ھندو مہاجن اور یہودی کارباری فطری حلیف ہیں۔ اس میں ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اپنے دفاع کی اپنی سی تیاری ہمیشہ رکھنی چاہیئے اور اپنے گھر میں ہر طرف لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا بندوبست بدستور کرتے رہنا چاہیئے

خیراندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

ایک بات جو جاوید گوندل صاحب نے نہیں لکھی یہ ہے کہ جب سیّدنا موسٰی علیہ السلام کسی وجہ سے اپنے علاقہ سے باہر گئے ہوئے تھے تو یہودیوں نے گائے کی پوجا شروع کر دی تھی جس کا مکمل ذکر قرآن شریف میں ہے ۔ ہندو گائے کی پوجا کرتے ہیں

میاں نواز شریف نے 28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے سے پہلے امریکہ کے صدر کو کیا لکھا تھا ؟ پہلی دفعہ منظرِ عام پر آتا ہے ۔ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے