Category Archives: سیاست

غریبوں کو کیوں مروایا جا رہا ہے ؟

کراچی میں 36 گھنٹوں میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 12 ہوگئی جبکہ 15 افراد زخمی ہیں۔ اورنگی ٹاؤن اور قصبہ کالونی سے متصل علاقوں میں جمعہ کی رات سے شروع ہونے والا فائرنگ کا سلسلہ تاحال وقفے وقفے سے جاری ہے۔پولیس کے مطابق قصبہ کالونی میں جمعہ کی شب نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک سیاسی جماعت کے کارکن سمیت 2 افراد کو ہلاک کر دیا تھا ۔ جس کے بعد حالات کشیدہ ہوئے اور علاقے میں شدید فائرنگ کی گئی۔ جس کی زد میں آکر 8 افرادزخمی ہو گئے ۔ ہنگامہ آرائی کا سلسلہ ہفتے کو بھی جاری رہا ۔ جس میں اورنگی ٹاؤن ۔ سلطان آباد ۔ منگھو پیر ۔ پاپوش نگر اور نارتھ ناظم آباد میں ڈینٹل کالج کے قریب فائرنگ کے واقعات میں مزید 8 افراد ہلاک ہو گئے ۔ اس دوران نامعلوم افراد نے اورنگی ٹاؤن اور مومن آباد میں ایک بس سمیت دو گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا ۔ نارتھ ناظم آباد میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو ہلاک کردیا جبکہ شریف آباد میں فائرنگ کے نتیجے میں ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ان واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ جبکہ آئی جی سندھ صلاح الدین بابر خٹک نے ان واقعات کو سیاسی جماعتوں میں تصادم قرار دیا

حزبِ مخالف کی حکومت

ہمارے ملک میں بہت سے عجائبات میں سے ایک عجوبہ ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہیں ۔ ان کے عمل اور بیان میں فرق تو ہوتا ہی ہے لیکن کچھ جماعتوں میں ایک خاص خُوبی پائی جاتی ہے کہ ان کے راہنماؤں کی تربیت اور ذہنی بالیدگی بطور حزبِ مخالف کے ہوئی ہے ۔ اس لئے جب وہ حسبِ مخالف میں ہوتے ہیں تو چھا جاتے ہیں اور حکومت میں ہوتے ہیں تو کچھ عوام کو ہنسانے اور باقیوں کو پریشان کرنے کا کردار ادا کرتے ہیں

جے یو آئی [ف] کے سربراہ فضل الرحمٰن حکومت میں شامل ہوتے ہوئے عام طور پر جو بیانات داغتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حزبِ اختلاف میں ہیں اسلئے حکومت کے خلاف بیان دے رہے ہیں

ان کے بعد باری آتی ہے پی پی پی کی جس نے کبھی پاکستان کی حکومت کو مانا ہی نہیں کیونکہ پی پی پی جب حکومت ہوتی ہے تو اس کے سب راہنما پی پی کی حکومت کی رُٹ لگائے ہوتے ہیں اور جب مخمہ میں تقریر کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف حزبِ اختلاف میں ہیں ۔ حالیہ مثال وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ نے مطالبہ کیا کہ “اگر سیاستدانوں کا احتساب کرنا ہے تو جرنیلوں اور ججوں کا بھی کیا جائے”
کوئی پوچھے کہ بھلے آدمی آپ کی حکومت ہے شروع کریں احتساب سب کا کِس نے روکا ہے ؟

اس عمل میں ایم کیو ایم بھی پیچھے نہیں ۔ باوجود مرکز اور صوبہ سندھ کی حکومتوں میں شامل ہونے کے حزبِ اختلاف کی طرح بیان داغے جاتے ہیں ۔ حالیہ مثال الطاف حسین کا بیان کہ “کراچی میں عاشورہ کے روز بم دھماکہ اور بعد میں ہونے والے واقعات کی تحقیقات اعلٰی عدلیہ سے کرائی جائے”
بھلے آدمی مرکز اور صوبہ سندھ میں آپ حکومت میں شامل ہیں اور کراچی میں ضلعی حکومت بھی آپ کی ہے ۔ آپ کو کس نے روکا ہے اعلٰی عدالتی تحقیقات سے ؟

کون یقین دلائے اِن حضرات کو کہ جناب حکومت آپ کی ہے الیکشن کمپین [Election campaign ] والی تقریریں چھوڑیئے اور کچھ کام کر کے دکھایئے تاکہ اگلے الیکشن میں پٹنے کی بجائے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سیاسی اقدار

اُس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے حُکم پر جنرل محمد ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 604 افراد کو برطرف کر دیا گیا

جنرل آغا محمد یحیٰ خاں صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا تو ایک قانون بنا جس کے تحت بد دیانتی کی پہچان [Reputation of dishonesty] رکھنے والے کہہ کر 303 افراد کو برطرف کر دیا گیا

پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی تو وہ صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گیا اور بغیر کوئی قانون بنائے 1600 افراد کو برطرف کر دیا گیا

مندرجہ بالا جو افراد برطرف کئے گئے ان کے خلاف کوئی مقدمہ کسی بھی عدالت میں دائر نہیں کیا گیا تھا

اب پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے دور میں 8014 افراد کے خلاف بد دیانتی کے مقدمات مختلف عدالتوں میں قائم ہیں جن میں سے 7793 کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے ۔ ان 8014 افراد میں سے 34 سیاستدان ہیں جن کی اکثریت حکومت میں شامل ہے ۔ آصف علی زرداری نے پُرزور الفاظ میں کہا ہے کہ “ان الزامات کی وجہ سے کوئی مستعفی نہیں ہو گا”

دنیا تیرے رنگ نیا رے
سچ کہا تھا سقراط نے “اگر جاہلوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جائے تو حکمران بدمعاش ہی بنیں گے”
میرے خیال کے مطابق جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے

جمہوریت ۔ کتابی اورعملی

جدھر جائیں جمہوریت کی صدا لگائی جا رہی ہوتی ہے ۔ زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سب خوابی دنیا میں بس رہے ہیں ۔ ایک محفل میں پڑھے لکھے لوگ بیٹھے تھے اور بحث ہو رہی تھی کہ نظامِ حکومت کونسا اچھا ہے ؟ ایک صاحب بولے اسلامی ۔ اس پر دوسرے صاحب بولے “اسلامی خلافت چار خُلفاء سے آگے نہ جا سکی”۔ آگے چلنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ خلافت کا نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نافذ کیا ۔ اُن کے وصال کے بعد ابو بکر صدیق ۔ عمر ابن الخطاب ۔ عثمان ابن عفان اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہم نے بھی مکمل طور پر اسلامی ۔ انسانی اور فلاحی مملکت قائم رکھی ۔ یہ دور آدھی صدی پر محیط تھا ۔ اس کے بعد پانچویں خلیفہ راشد ہیں عمر ابن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ

جب اعتراض کرنے والے صاحب سے پوچھا گیا کہ “کونسا ایسا نظام ہے جو خُلفائے راشدین کے دور سے زیادہ چلا اور اچھا بھی ہے ؟” جواب ملا “جمہوریت”

اول تو جمہوریت کی بھی ابھی تک کوئی انسان دوست عملی مثال سامنے نہیں آئی پھر بھی دیکھتے ہیں کہ جمہوریت عملی طور پر کس مُلک میں ہے ۔ آگے بڑھنے سے پہلے لازم ہے کہ معلوم ہو جمہوریت ہوتی کیا ہے ؟

جمہوریت ہوتی ہے عوام کی حکومت عوام کے نمائندوں کے ذریعے عوام کے لئے

بہت دیانت داری سے بھی ایسی حکومت بنائی جائے تو جو لوگ انتخابی عمل سے گذر کر حکومت کا حصہ بنتے ہیں وہ تمام عوام کے نمائندہ تو کسی صورت میں نہیں ہوتے لیکن یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ عوام کی اکثریت کے نمائندہ ہو ۔ اگر ہر حلقہ میں دو سے زیادہ اُمیدوار انتخاب میں حصہ لیں تو جو شخص انتخاب جیتے گا وہ عام طور پر اس حلقے کے عوام کی اقلیت کا نمائندہ ہو گا چنانچہ جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ مُلک میں صرف دو سیاسی جماعتیں ہوں ۔ جن ممالک میں ایسا ہے وہاں جمہوریت چل رہی ہے لیکن پھر بھی غریب اور کمزور کو اس کا حق نہیں ملتا ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا غریب آدمی کے بس کی بات نہیں اور عام طور پر شریف آدمی کے بھی بس کی بات نہیں ہوتی

جب حکومت بن جاتی ہے تو اسے عوام کے تمام فیصلے کرنے کا اختیار مل جاتا ہے ۔ پھر عوام پر ٹیکس لگا کر وصول کی گئی دولت دوسرے ممالک پر حملوں میں استعمال کی جاتی ہے اور اپنے اللے تللوں پر بھی جس کا عوام نے اُنہیں حق نہیں دیا ہوتا ۔ یہی جمہوریت کی عملی شکل ہے

انتخابات جیتنے کیلئے دولت کا بے دھڑک استعمال کیا جاتا ہے ۔ کیوں ؟ کیا یہ دولت منافع کے ساتھ واپس وصول نہیں کی جاتی ؟ درست کہ چند جمہوری ممالک میں اپنے اُمیدوار کو جتانے کیلئے چندہ جمع کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے ہیں کیا وہ تجارت نہیں کر رہے ہوتے کہ اگر ان کا اُمیدوار جیت گيا تو ان کے کچھ خصوصی کام کروا دے گا ؟ اس طرح غریب اور شریف آدمی کا حق مارا جاتا ہے

امریکہ جو اسرائیل کو ہر سال تین ارب ڈالر ناقابلِ واپسی امداد دیتا ہے اور اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں ہونے دیتا ۔ کیا اس کی وجہ یہی نہیں ہے کہ امریکا کا ہر صدر یہودیوں کی دولت کے بل بوتے پر منتخب ہوتا ہے ؟ ایک جان ایف کینڈی تھا جو اُن کے چُنگل میں نہیں آيا تھا تو اُس کا انجام کیا ہوا ؟

حقیقت یہی ہے کہ جمہوریت جس کا نام ہے وہ دولتمند اور طاقتور کے ہاتھ کا کھلونا ہے جس سے جس طرح چاہے وہ کھیلے

سچائی ۔ تلخ ہوتی ہے اور خوفناک بھی

پرویز مشرف دور میں پاکستانی فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے انکشاف کیا ہے کہ 11ستمبر 2001ء کے بعد کئی اہم فیصلے کورکمانڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر کئے گئے۔ پرویز مشرف نے پاکستان کے فوجی اڈے امریکہ کو دینے اور ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا فیصلہ بھی خود ہی کرلیا تھا ۔ شاہد عزیز کہتے ہیں کہ بطور چیف آف اسٹاف جیکب آباد اور پسنی ایئر بیس امریکیوں کے حوالے کرنے کے بارے میں وہ بالکل بے خبر تھے

یہ دونوں اڈے بدستور امریکہ کے پاس ہیں

ذرا سوچئے کہ ان دونوں اڈوں پر اترنے والے ہوائی جہازوں کے مسافروں کو کسی ویزے کی ضرورت نہیں
وہ ایئرپورٹ سے کالے شیشوں والی گاڑیوں میں بیٹھ کر کہیں بھی جاسکتے ہیں اور ہماری فوج یا پولیس ان کی کسی گاڑی کو روک کر ان سے ویزا طلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتی
پرویز مشرف دور کے یہی وہ فیصلے ہیں جن کے باعث آج پاکستان دنیا کے غیر محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے

تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھیئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کڑوی کسَیلی

سُنا ہے کہ صدر کا لباس پاکستان کے خزانے سے خریدا جاتا ہے
سُنا ہے کہ اسی لئے صدر نے 106 سوٹ اپنے لئے غیرممالک سے درآمد کئے ہیں
یہ تو سب جانتے ہیں کہ خزانے میں دولت پاکستان کے عوام سے ٹیکس وصول کر کے جمع کی جاتی ہے
سُنا ہے کہ صدر کے غیرملکی حسابات میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ دولت ہے اور غیرمنقولہ جائیداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے
مگر پھر بھی قوم کا ہمدرد صدر ایک سال میں 106 سوٹ درآمد کرتا ہے جبکہ آدھی قوم کو سال میں ایک نیا مقامی سوٹ بھی میسّر نہیں

سُنا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر امریکا کے کئی اڈے ہیں جن میں سے دو ہوائی اڈے جیکب آباد اور پسنی میں ہیں
سُنا ہے کہ ان اڈوں میں کوئی پاکستانی داخل نہیں ہو سکتا خواہ وہ کتنے ہی اعلٰی عہدے پر فائز ہو
وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ امریکا کا اس سلسلہ میں پاکستان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور یہ اڈے پچھلی حکومت نے دیئے تھے
یہ حقیقت تو منظرِ عام پر آ ہی چکی ہے کہ امریکیوں کی گاڑیوں کے پاکستان کے قانون کے خلاف شیشے کالے ہوتے ہیں اور ان کی چیکنگ کی کسی کو اجازت نہیں
یہ بھی اطلاعِ عام ہے کہ امريکی سفارتخانہ کی مقرر کردہ ایک سکیورٹی کمپنی کے قبضہ سے چوکھا ناجائز اسلحہ بھی براآمد ہوا

سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت یہ اڈے ختم کیوں نہیں کرتی ؟
اور بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کیا حکومتِ پاکستان کی دسترس سے باہر انہی خُفیہ اڈوں میں ہو رہی ہے ؟

دینِ جمہور

میرے کچھ قارئین کا استدلال ہے کہ ہر شخص کا مذہب ہوتا ہے ۔ کہتے وہ درست ہیں ۔ ہر شخص کا کوئی نا کوئی عقیدہ ہوتا ہے اور اسی کا نام مذہب ہے ۔ اگر مذہب کا ترجمہ دیکھا جائے یعنی فرقہ تو بھی یہ استدلال درست نظر آتا ہے ۔ اللہ کا تفویض کردہ دین اسلام ہے جو ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر لحاظ سے اللہ کی تابعداری واجب [compulsory] ہے ۔ تمام نبیوں کا دین اسلام ہی تھا کیونکہ وہ اللہ کے مُسلِم یعنی تابعدار تھے [سورت 2 ۔البقرہ آیت127 ، 128 ۔ 131تا 133 ۔ سورت 3 آلِ عمران آیت 19 ، 67 ، 102 ۔ سورت 5 المآئدہ آیت 3 ، 44 سورت 10 یونس آیت 72 ، 84 ۔ سورت 27 النمل آیت 91 ، 92 ۔ سورت 42 الشورٰی آیت 13 ۔ مزید کچھ اور بھی ہیں]۔ سیکولر ازم کی وضاحت کیلئے یہاں کلِک کیجئے اور اس کے اثرات کا ایک پہلو دیکھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

میرے متذکرہ قارئین کرام Secularism کا ترجمہ “دینِ جمہور” کرتے ہیں ۔ ایک قاری ‘طاہر سلیم مغل” صاحب نے “دینِ جمہور” کی تشریح کچھ اس طرح سے کی ہے
d8b3db8cdaa9d988d984d8b1-d8a7d8b2d985