اگر بیگم کلنٹن کے فرمان کے مطابق فیصل شہزاد واقعی طالبان کا شاگرد ہے تو ایسے نالائق شاگرد کو عاق کرنے میں طالبان کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایسا کچا کام کرنے والا نوجوان اگر واقعی طالبان کا تربیت یافتہ ہے تو افغانستان میں امریکیوں کے چھکے چھڑادینے والے مزاحمت کاروں کے نام پر بی بی کلنٹن کا یہ ہم وطن یقینا ایک بدنما داغ ہے
فیصل شہزاد کی کہانی نے چند سال پہلے لندن ٹیرر پلاٹ کے نام سے سامنے آنے والی ایک اور بودی کہانی یاد دلادی ہے۔ یہ 10 اگست 2006ء کی بات ہے جب دنیابھر کے ٹی وی چینل چیخ اٹھے تھے کہ لندن سے امریکا جانے والی بیک وقت 10 سے زائد پروازوں کو میک اپ کے سامان میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے ذریعے فضا میں تباہ کردینے کا خوفناک منصوبہ پکڑا گیا ہے جو اگر عمل میں آجاتا تو نائن الیون سے بھی زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان راشد رؤف کو اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا۔ پھر شیر خوار بچوں کی ماؤں سمیت 24 افراد اس منصوبے میں بحیثیت خود کش حملہ آور شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ۔ ان میں سے بیشتر پاکستانی تھے ۔ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جان ریڈ نے دعویٰ کیا کہ منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے تیار کیے گئے اصل افراد تک قانون کا ہاتھ پہنچ گیا ہے اور وہ حکومت کی تحویل میں ہیں۔ صدر بش نے فرمایا کہ ہمارا مقابلہ اسلامی فسطائیوں سے ہے
لیکن بہت جلد یہ حقائق سامنے آئے کہ جن لوگوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے کہ” وہ دوچار دن کے اندر امریکا جانے والے طیاروں کو دوران پرواز تباہ کرنے والے ہیں”، ان میں سے کسی کے پاس کسی ایئرلائن کا ٹکٹ نہیں ہے جبکہ کئی لوگوں نے پاسپورٹ بھی نہیں بنوا رکھے ہیں۔ انصاف پسند مغربی ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ایسا کوئی منصوبہ کسی بھی درجے میں قابل عمل ہی نہیں ہے اور اس کی حیثیت شیخ چلی کے خیالی پلاوٴ سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد راشد رؤف پر پاکستان میں اور چند دوسرے ملزمان پر برطانیہ کی عدالتوں میں مقدمات چلتے رہے۔ بالآخر راشد رؤف کو مفرور قرار دے دیا گیا اور 22 نومبر 2008ء کو شمالی وزیرستان کے ایک گھر پر ڈرون حملے میں اس کے جاں بحق ہوجانے کی خبر جاری ہوگئی جبکہ برطانوی عدالت میں چلنے والے اس مقدمے کے فیصلے سے متعلق نیویارک ٹائمز میں 8 ستمبر 2008ء کو شائع ہونے والی خبر کی سرخی کے الفاظ یہ تھے:
“No One Convicted of Terror Plot to Bomb Planes”
افغانستان اور عراق میں سامراجی مُہم جُوئی کے لیے جو جھوٹ گھڑے گئے، اب دنیا کے بہت سے لوگ ان سے باخبر ہیں۔ عراق کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے الزام کا جھوٹ ہونا تو خود امریکی حکمران بھی تسلیم کرچکے ہیں اور برطانیہ میں ٹونی بلیئر کو اس پر چلکاٹ انکوائری میں نمائشی جوابدہی بھی کرنا پڑی ہے۔ تاہم افغانستان کے خلاف گھڑے گئے جھوٹ کو اب تک دہرایا جا رہا ہے۔ چنانچہ بیگم کلنٹن نے یہ دلچسپ دعویٰ کرتے ہوئے کہ بعض پاکستانی حکام بن لادن اور ملا عمر کے ٹھکانوں سے واقف ہیں مگر امریکا کو پوری بات نہیں بتاتے، پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ نائن الیون حملوں کے ذمہ داروں کو سزا دلانے کے لیے پاکستان کو مزید تعاون کرنا ہوگا
امریکی حکمران نائن الیون کا ذمہ دار افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اس دھڑلے سے قرار دیتے ہیں گویا وہ اپنا یہ دعویٰ ثابت کرچکے ہیں جبکہ حقیقتاً اس دعوے کا کوئی واقعاتی ثبوت آج تک دنیا کے سامنے نہیں لایا جاسکا ہے۔ اس کے برعکس اس امر کے ناقابل تردید واقعاتی اور دستاویزی ثبوت ریکارڈ پر ہیں کہ نائن الیون سے بہت پہلے تیل کے کاروبار سے وابستہ امریکا کے قائدین کیسپین کے تیل کے ذخائر تک افغانستان کے راستے پہنچنے کے منصوبے بنا رہے تھے اور ان کالموں میں بھی یہ حقائق بارہا مکمل حوالوں کے ساتھ پیش کیے جاچکے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا کے بہت سے ملک اپنے مفادات کی خاطر نیٹو کی شکل میں افغانستان کے خلاف جارحیت میں امریکا کے اتحادی ہیں جبکہ مسلم دنیا کے حکمراں اپنی مصلحتوں اور بزدلی کی بناء پر اس جھوٹ کا پردہ چاک کرنے سے گریزاں ہیں
تاہم دنیا کے کئی سابق اور موجودہ حکمران اس حوالے سے اپنی گواہی ریکارڈ کراچکے ہیں۔ ان میں اٹلی کے سابق صدر فرانسسکو کوسیگا کی جانب سے ایک انٹرویو میں کہے گئے یہ الفاظ نہایت اہم ہیں کہ” اگرچہ فرض کیا جاتا ہے کہ بن لادن نے نائن الیون کے موقع پر ٹریڈ ٹاورز پر حملے کا منصوبہ بنانے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اب بخوبی جانتی ہیں کہ ان تباہ کن حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل در آمد کاکام امریکی سی آئی اے اور موساد نے صہیونی دنیا کی مدد سے انجام دیا تاکہ عرب ملکوں پر اس کا الزام تھوپا جاسکے اور مغربی طاقتوں کو عراق اور افغانستان میں مداخلت کا موقع مل سکے“۔ کوسیگا کا یہ انٹرویو 30 نومبر2007ء کو اٹلی کے سب سے بڑے اور مؤقر اخبار کوریئر ڈیلا سیرا میں شائع ہوا تھا
مسلم حکمرانوں میں صدر احمدی نژاد واحد شخص ہیں جنہوں نے نائن الیون حملوں میں افغانستان کو ملوث کرنے کو برملا فریب قرار دیا ہے ۔ ابھی چند ہفتے پہلے مارچ کے اوائل میں ایرانی صدر نے گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا پر دہشت گردوں کے حملے کو ایک بڑا جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹ اس لیے گھڑا گیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے افغانستان پر حملے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ایرانی صدر کے بقول ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوائی جہازوں سے حملہ امریکی انٹلیجنس سروسز کی درپردہ کارروائی کا نتیجہ تھا
جاپان کے رکن پارلیمنٹ یوکی ہی سا فوجیتا جن کی پارٹی اب حکومت میں ہے، اپنی پارلیمنٹ میں دوسال سے بار بار نائن الیون کی جھوٹی سرکاری امریکی کہانی کا نہایت مہارت اور خوبصورتی سے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اس موضوع پر جاپانی زبان میں امریکی پروفیسر ڈیوڈ رے گریفن کے اشتراک سے باقاعدہ مفصل کتاب لکھ چکے ہیں۔ ڈیوڈ رے گریفن نے اپنی کتاب ”ڈی بنکنگ نائن الیون ڈی بنکنگ“ میں اپنی حکومت کی فریب دہی کو اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ اس کا جواب دینا امریکی قیادت کے لیے ممکن نہیں
اس سب کے باوجود امریکی حکمران اپنے جھوٹ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور افغانستان اور عراق کے بعد امکانی طور پر پاکستان میں براہ راست فوجی مداخلت کے لیے نیویارک سازش کیس جیسی بے سروپا کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ بظاہر امریکی شہری فیصل شہزاد کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے تاہم اس نااہل نوجوان کو بم سازی میں طالبان کا شاگرد قرار دے کر ایک طرف انہوں نے اپنے عقلی دیوالیہ پن کا دلچسپ مظاہرہ کیا ہے تودوسری طرف یہ طالبان کی توہین کے مترادف ہے جس پر طالبان قیادت احتجاج کا پورا حق رکھتی ہے
تحرير : ثروت جمال اصمعی