Category Archives: سیاست

خونخوار رشوت خور کون ؟

آج کے اخبارات ميں مندرجہ ذيل خبر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کونسا حکمران ہے جو رشوت نہ ملے تو بندے مروا ديتا ہے

فرانس میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان کو اگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔گزشتہ سال فرانس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 1995ء میں پاکستان کو آگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں غیر قانونی طور پر کمیشن دیا گیا تھا اور 2002ء میں کراچی کے ایک ہوٹل کے باہر فرانسیسی انجینئروں پر خود کش بم حملہ پاکستان اور فرانس کے اعلیٰ حکام کے درمیان کمیشن کی ادائیگی پر اختلافات کے بعد کیا گیا تھا ۔ پیرس کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وکیل صفائی اولیور مورس نے کہا کہ جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آبدوزوں کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔ کراچی بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آبدوزوں کی خریداری میں رشوت کی 8کروڑ ڈالر سے زائد رقم مبینہ طور پرپاکستانی سیاستدانوں اور فوجی افسروں کو اداکی گئی

اسرائیل ۔ حقائق کیا ہیں ؟

دورِ حاضر پروپیگنڈہ کا دور ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی معاندانہ پروپیگنڈہ اس قدر اور اتنے شد و مد کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ حقائق ذہنوں سے محو ہو جاتے ہیں ۔ ایسے مسلمان اور پاکستانی بھی ہیں جو اسرائیل کی دہشتگردی کو اُس کے دفاع کی جنگ کہتے ہیں

حُسنِ اتفاق کہ آدھی صدی سے زائد عرصہ سے ظُلم اور دہشتگردی کا شکار رہنے والی دونوں ریاستوں فلسطین اور جموں کشمیر سے میرے خاندان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔ مختصر یہ کہ میں ۔ میری دو بہنیں دادا دادی اور پھوپھی جموں کشمیر سے نومبر دسمبر 1947ء میں نکالے جانے پر ہجرت کر کے پاکستان آئے اور میرے والدین مع میرے دو چھوٹے بھائیوں جن میں سے ایک 8 ماہ کا تھا نے مجبور ہو کر فلسطین سے ہجرت کی اور جنوری 1948ء میں پاکستان پہنچے ۔ چنانچہ ان دونوں علاقوں کی تاریخ کا مطالع اور ان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر گہری نظر رکھنا میرے لئے ایک فطری عمل تھا ۔ میں نے اس سلسلہ میں سالہا سال مطالعہ کیا ۔ جو حقائق سامنے آئے ان کو مختصر طور پر انشاء اللہ قسط وار قارئین کی نذر کرنے کا ارادہ ہے ۔ آجکل چونکہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بے مثال دہشتگردی جاری ہے اسلئے پہلی ترجیح فلسطین کو ۔ میری اس سلسلہ وار تحریر کا ماخذ موجود تاریخی و دیگر دستاویزات ۔ انٹرنیٹ پر موجود درجن سے زائد تاریخی دستاویزات اور آدھی صدی پر محیط عرصہ میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات ہیں

اسرائیلی فوج کی دہشتگردی کی چند مثالیں
اسرائیل کا موقف ہے کہ حماس اسرائیل پر حملے کرتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 2008ء کو ختم ہونے والے 10 سال میں غزہ یا اس کے ارد گرد صرف 20 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ اسرائیلی فوج جو بیہیمانہ قتلِ عام کیا ان میں سے چند مشہور واقعات یہ ہیں

پچھلے دو ہفتوں میں 800 سے زیادہ فلسطینی جن میں بھاری اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی ہلاک ہو چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 3250 سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ سکول پر بمباری کی جس میں 40 مہاجرین ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد اسرائیلی بری فوج نے 100 فلسطینی ایک شیلٹر میں اکٹھے کئے اور پھر ان پر گولہ باری کر کے سب کو ہلاک کر دیا

سن 2006ء میں اس بنیاد پر کہ میں حذب اللہ نے 2 دو اسرائیلی پکڑ لئے تھے اسرائیلی نے بمباری کر کے 1000 شہری ہلاک کر دیئے ۔ اسی سال میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک گاؤں مرواہن کے رہنے والوں کو حُکم دیا کہ وہ گاؤں خالی کر دیں ۔ جب لوگ گھروں سے باہر نکل آئے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے قریب آ کر اُن کو براہِ راست نشانہ بنایا جس کے نتیجہ میں 1000 میں سوائے دو کے باقی سب ہلاک ہو گئے ۔ دو اس وجہ سے بچ گئے کہ وہ زمین پر گر کر مردہ بن گئے تھے

اسرائیل نے 1996ء میں اقوامِ متحدہ کی بیس [Base] قانا پر گولہ باری کی جس میں 106 مہاجرین ہلاک ہوئے

لبنان پر 1982ء میں حملہ کر کے 17500 فلسطینی مہاجرین ہلاک کیا جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی تھی
اسرائیلی فوج نے 1982ء میں فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس کی مدد سے دو تین دنوں میں وہاں مقیم 4000 نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حُکم پر کی گئی تھی جو اُن دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا

يہ تحرير ميں نے 10 جنوری 2009ء کو لکھی تھی ۔ اس کے بعد آج تک يعنی 17 ماہ ميں جو کچھ ہوا وہ شايد سب کے ذہنوں پر ہو گا

امريکا ميں آزادی اظہارِ رائے ؟؟؟

ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور
يا
صريح منافقت

اور يہ بھی ديکھئے کہ واشنگٹن پوسٹ اس منافقت کو کس طرح جائز قرار ديتا ہے

وائٹ ہاوس کی سینئرترین رپورٹر 89 سالہ خاتون صحافی ہیلن تھامس جو امریکی صدرجان ایف کینیڈی کے دورِ صدارت سے وائٹ ہاؤس کی صحافتی ٹیم میں شامل تھيں کو اسرائیل مخالف بیان دینے پر سخت تنقید کے بعد اچانک ريٹائرڈ کر دیا گیا ۔ ہیلن نے غزہ جانے والے ترکی اور آئرلینڈ کے امدادی بحری بیڑوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اورسخت رویہ اختیارکرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فلسطین چھوڑدیں ۔ انہوں نے مشوردیا تھا کہ اسرائیلی ان ممالک کو لوٹ جائیں جہاں سے آئے تھے يعنی وہ جرمنی ، پولینڈ اور امریکا میں اپنے گھروں کو چلیں جائیں

ہیلن تھامس طویل عرصے تک وائٹ ہاؤس کے یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کی نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں اور آج کل ایک اخبار کے لئے کالم بھی لکھ رہی ہیں

امريکا خود اپنا دُشمن ہے

یہ سوال اب زبان زد عام ہے کہ اگر پاکستان نیوی کی طرف سے بین الاقوامی سمندری حدود میں کسی تجارتی یا امدادی بحری جہاز پر غلطی سے حملہ کردیا جاتا اور حملے میں دو تین مغربی باشندے مارے جاتے تو امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پاکستان کا کیا حشر کرتے؟

بدھ کی شب سینیٹر چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر لو لاؤ ہوئی کے اعزاز میں الوداعی عشائیے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں سفارت کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ پاکستانی سیاستدان اور صحافی مغربی سفارتکاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن سے پوچھ رہے تھے کہ ” 31مئی کو فریڈم فلوٹیلا نامی بحری جہاز پر حملہ کرنے والے فوجیوں کا تعلق اسرائیل کی بجائے پاکستان ، ایران یا ترکی کے ساتھ ہوتا تو کیا مغربی ممالک کی حکومتیں صرف ہلکے پھلکے مذمتی بیانات تک محدود رہتیں یا اقوام متحدہ کے ذریعہ ذمہ دار ملک پر حملے کی تیاری مکمل کرچکی ہوتیں؟”

اس عشائیے میں موجود فلسطین کے سفیر جناب ابو شناب بار بار مجھے کہہ رہے تھے کہ میں مغربی سفارت کاروں کو وہ آنکھوں دیکھے واقعات بتاؤں جب اسرائیلی نیوی نے غزہ کے ساحل پر فلسطینی مچھیروں کی کشتیوں پر بمباری کی۔ فلسطینی سفیر کے ا صرار پر میں نے کئی سفارت کاروں کو بتایا کہ پچھلے سال جنوری میں جب اسرائیل نے غزہ پر حملے کئے تو میں مصر کے راستے سے غزہ میں داخل %D

طالبان کا نالائق شاگرد

اگر بیگم کلنٹن کے فرمان کے مطابق فیصل شہزاد واقعی طالبان کا شاگرد ہے تو ایسے نالائق شاگرد کو عاق کرنے میں طالبان کو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ نیویارک کے ٹائمز اسکوائر میں ایسا کچا کام کرنے والا نوجوان اگر واقعی طالبان کا تربیت یافتہ ہے تو افغانستان میں امریکیوں کے چھکے چھڑادینے والے مزاحمت کاروں کے نام پر بی بی کلنٹن کا یہ ہم وطن یقینا ایک بدنما داغ ہے

فیصل شہزاد کی کہانی نے چند سال پہلے لندن ٹیرر پلاٹ کے نام سے سامنے آنے والی ایک اور بودی کہانی یاد دلادی ہے۔ یہ 10 اگست 2006ء کی بات ہے جب دنیابھر کے ٹی وی چینل چیخ اٹھے تھے کہ لندن سے امریکا جانے والی بیک وقت 10 سے زائد پروازوں کو میک اپ کے سامان میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے ذریعے فضا میں تباہ کردینے کا خوفناک منصوبہ پکڑا گیا ہے جو اگر عمل میں آجاتا تو نائن الیون سے بھی زیادہ جانی نقصان ہوتا۔ پاکستانی نژاد برطانوی نوجوان راشد رؤف کو اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا۔ پھر شیر خوار بچوں کی ماؤں سمیت 24 افراد اس منصوبے میں بحیثیت خود کش حملہ آور شامل ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے ۔ ان میں سے بیشتر پاکستانی تھے ۔ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جان ریڈ نے دعویٰ کیا کہ منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے تیار کیے گئے اصل افراد تک قانون کا ہاتھ پہنچ گیا ہے اور وہ حکومت کی تحویل میں ہیں۔ صدر بش نے فرمایا کہ ہمارا مقابلہ اسلامی فسطائیوں سے ہے

لیکن بہت جلد یہ حقائق سامنے آئے کہ جن لوگوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے کہ” وہ دوچار دن کے اندر امریکا جانے والے طیاروں کو دوران پرواز تباہ کرنے والے ہیں”، ان میں سے کسی کے پاس کسی ایئرلائن کا ٹکٹ نہیں ہے جبکہ کئی لوگوں نے پاسپورٹ بھی نہیں بنوا رکھے ہیں۔ انصاف پسند مغربی ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ایسا کوئی منصوبہ کسی بھی درجے میں قابل عمل ہی نہیں ہے اور اس کی حیثیت شیخ چلی کے خیالی پلاوٴ سے زیادہ نہیں۔ اس کے بعد راشد رؤف پر پاکستان میں اور چند دوسرے ملزمان پر برطانیہ کی عدالتوں میں مقدمات چلتے رہے۔ بالآخر راشد رؤف کو مفرور قرار دے دیا گیا اور 22 نومبر 2008ء کو شمالی وزیرستان کے ایک گھر پر ڈرون حملے میں اس کے جاں بحق ہوجانے کی خبر جاری ہوگئی جبکہ برطانوی عدالت میں چلنے والے اس مقدمے کے فیصلے سے متعلق نیویارک ٹائمز میں 8 ستمبر 2008ء کو شائع ہونے والی خبر کی سرخی کے الفاظ یہ تھے:
“No One Convicted of Terror Plot to Bomb Planes”

افغانستان اور عراق میں سامراجی مُہم جُوئی کے لیے جو جھوٹ گھڑے گئے، اب دنیا کے بہت سے لوگ ان سے باخبر ہیں۔ عراق کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے الزام کا جھوٹ ہونا تو خود امریکی حکمران بھی تسلیم کرچکے ہیں اور برطانیہ میں ٹونی بلیئر کو اس پر چلکاٹ انکوائری میں نمائشی جوابدہی بھی کرنا پڑی ہے۔ تاہم افغانستان کے خلاف گھڑے گئے جھوٹ کو اب تک دہرایا جا رہا ہے۔ چنانچہ بیگم کلنٹن نے یہ دلچسپ دعویٰ کرتے ہوئے کہ بعض پاکستانی حکام بن لادن اور ملا عمر کے ٹھکانوں سے واقف ہیں مگر امریکا کو پوری بات نہیں بتاتے، پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ نائن الیون حملوں کے ذمہ داروں کو سزا دلانے کے لیے پاکستان کو مزید تعاون کرنا ہوگا

امریکی حکمران نائن الیون کا ذمہ دار افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کو اس دھڑلے سے قرار دیتے ہیں گویا وہ اپنا یہ دعویٰ ثابت کرچکے ہیں جبکہ حقیقتاً اس دعوے کا کوئی واقعاتی ثبوت آج تک دنیا کے سامنے نہیں لایا جاسکا ہے۔ اس کے برعکس اس امر کے ناقابل تردید واقعاتی اور دستاویزی ثبوت ریکارڈ پر ہیں کہ نائن الیون سے بہت پہلے تیل کے کاروبار سے وابستہ امریکا کے قائدین کیسپین کے تیل کے ذخائر تک افغانستان کے راستے پہنچنے کے منصوبے بنا رہے تھے اور ان کالموں میں بھی یہ حقائق بارہا مکمل حوالوں کے ساتھ پیش کیے جاچکے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا کے بہت سے ملک اپنے مفادات کی خاطر نیٹو کی شکل میں افغانستان کے خلاف جارحیت میں امریکا کے اتحادی ہیں جبکہ مسلم دنیا کے حکمراں اپنی مصلحتوں اور بزدلی کی بناء پر اس جھوٹ کا پردہ چاک کرنے سے گریزاں ہیں

تاہم دنیا کے کئی سابق اور موجودہ حکمران اس حوالے سے اپنی گواہی ریکارڈ کراچکے ہیں۔ ان میں اٹلی کے سابق صدر فرانسسکو کوسیگا کی جانب سے ایک انٹرویو میں کہے گئے یہ الفاظ نہایت اہم ہیں کہ” اگرچہ فرض کیا جاتا ہے کہ بن لادن نے نائن الیون کے موقع پر ٹریڈ ٹاورز پر حملے کا منصوبہ بنانے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے مگر امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اب بخوبی جانتی ہیں کہ ان تباہ کن حملوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل در آمد کاکام امریکی سی آئی اے اور موساد نے صہیونی دنیا کی مدد سے انجام دیا تاکہ عرب ملکوں پر اس کا الزام تھوپا جاسکے اور مغربی طاقتوں کو عراق اور افغانستان میں مداخلت کا موقع مل سکے“۔ کوسیگا کا یہ انٹرویو 30 نومبر2007ء کو اٹلی کے سب سے بڑے اور مؤقر اخبار کوریئر ڈیلا سیرا میں شائع ہوا تھا

مسلم حکمرانوں میں صدر احمدی نژاد واحد شخص ہیں جنہوں نے نائن الیون حملوں میں افغانستان کو ملوث کرنے کو برملا فریب قرار دیا ہے ۔ ابھی چند ہفتے پہلے مارچ کے اوائل میں ایرانی صدر نے گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا پر دہشت گردوں کے حملے کو ایک بڑا جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جھوٹ اس لیے گھڑا گیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے افغانستان پر حملے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ ایرانی صدر کے بقول ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہوائی جہازوں سے حملہ امریکی انٹلیجنس سروسز کی درپردہ کارروائی کا نتیجہ تھا

جاپان کے رکن پارلیمنٹ یوکی ہی سا فوجیتا جن کی پارٹی اب حکومت میں ہے، اپنی پارلیمنٹ میں دوسال سے بار بار نائن الیون کی جھوٹی سرکاری امریکی کہانی کا نہایت مہارت اور خوبصورتی سے پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد اس موضوع پر جاپانی زبان میں امریکی پروفیسر ڈیوڈ رے گریفن کے اشتراک سے باقاعدہ مفصل کتاب لکھ چکے ہیں۔ ڈیوڈ رے گریفن نے اپنی کتاب ”ڈی بنکنگ نائن الیون ڈی بنکنگ“ میں اپنی حکومت کی فریب دہی کو اس طرح بے نقاب کیا ہے کہ اس کا جواب دینا امریکی قیادت کے لیے ممکن نہیں

اس سب کے باوجود امریکی حکمران اپنے جھوٹ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور افغانستان اور عراق کے بعد امکانی طور پر پاکستان میں براہ راست فوجی مداخلت کے لیے نیویارک سازش کیس جیسی بے سروپا کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ بظاہر امریکی شہری فیصل شہزاد کو اسی مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے تاہم اس نااہل نوجوان کو بم سازی میں طالبان کا شاگرد قرار دے کر ایک طرف انہوں نے اپنے عقلی دیوالیہ پن کا دلچسپ مظاہرہ کیا ہے تودوسری طرف یہ طالبان کی توہین کے مترادف ہے جس پر طالبان قیادت احتجاج کا پورا حق رکھتی ہے

تحرير : ثروت جمال اصمعی

صيہونی بمقابلہ نازی

نام نہاد ہالوکاسٹ کا راگ الاپنے والے صيہونیوں نے نازيوں سے بچ نکلنے کے بعد جن اولادوں کو جنم ديا اُنہوں نے فلسطينيوں کے ساتھ پچھلے 62 سال سے جو ظُلم روا رکھا ہے اگر آج ہٹلر دوبارہ پيدا ہو جائے تو يہ مناظر ديکھ کر اپنا سر پيٹے کہ اس قوم کی وہ نسل کُشی کر ہی ديتا تو دنيا امن و سکون سے رہتی
اسرائيل کا ظُلم فلسطينيوں پر ۔ ۔ ۔ نازيوں کا ظُلم يورپی يہوديوں پر

نيچے بائيں طرف کی تصوير ميں يہوديوں نے دکھايا ہے کہ نازی بچہ يہوديوں کا مذاق اُڑاتا تھا جبکہ داہنی تصوير ميں يہودی اسرائيلی بچوں کو دعوت دی گئی کہ وہ فلسطينيوں پر چلائے جانے کيلئے تيار گولوں پر اپنے پيغامات لکھيں

نيچے کی دو تصاوير ميں بائيں طرف والی ايک ہی تصوير ہے ۔ يہ تصوير پورے امريکہ اور کئی يورپی ممالک کی تاريخ کی کتابوں ۔ انسائيکلوپيڈيا ۔ لائبريريوں اور عجائب گھروں ميں ديکھنے کو ملتی ہے کہ نازيوں نے يہودی بچے کو بھی ہينڈز اَپ کرايا ۔ اس ايک تصوير کے مقابلہ ميں داہنی طرف دو مختلف فلسطينی بچوں کی تصاوير ہيں جن ميں اسرائيل کا گھناؤنا کردار واضح ہے

اگر يہ حقيقت ہے ۔ ۔ ۔

بينظير بھٹو نے 24 ستمبر 1990ء کو ايک خط امريکی سنيٹر پیٹر گلبرائتھ کو بھيجا تھا جس کا اُردو ترجمہ اور عکس پيشِ خدمت ہے

عزیز پیٹر گلبرائتھ

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کے اُن احسانات کا کس طرح شکریہ ادا کروں جو آپ نے مجھ پر اور میرے خاندان پر کرے ۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ میری حکومت کی برطرفی کے احکامات جی ایچ کیو میں لکھے گئے اور میرے لئے فوج سے ٹکر لینا ممکن نہیں تھا تو وہ میری حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو گئے

میں پہلے ہی کانگریس میں موجود دوستوں بالخصوص اسٹیفن سولاران سے درخواست کر چکی ہوں کہ وہ صدر بش کہ ذریعے صدر اسحاق اور پاکستانی فوج پر بھرپور دباؤ ڈلوائیں کہ وہ لوگ مجھے نا اہل قرار نہ دیں کیونکہ یہ بہت ناانصافی ہو گی بلکہ جمہوری اُصولوں کی بھی منافی ہو گا جن کے لئۓ ہم نے بہت جدوجہد کری ہے

جب تک میں حکومت میں تھی تو میں نے نیوکلیَر ہھتیاروں پر کڑی نظر رکھی پر اب مجھے اس حکومت کے ارادوں کا اندازہ نہیں

یہ بہت بہتر ہو گا کہ پاکستان کو دی جانے والی دفاعی اور معاشی امداد روک دی جائے اور تمام عالمی ادارے جیسے ورلڈ بینک ، آئی ایم ایف کو ہدایت دی جائے کہ پاکستانی حکومت کو ہر طرف سے ڈرایا جائے اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کو دی جانے والی تمام امداد روک دی جائے تاکہ عام پاکستانی کی زندگی مکمل طور پر رُک جائے

ایف ۔ 16 طیاروں اور اُن کے فاضل پرزہ جات کی رسد کی روک تھام بھی فوج کی عقل ٹھکانے لے آئے گی

عزیز پیٹر بھارتی وزیرِ اعظم پر بھی اپنا اثر استعمال کر کے پاکستانی فوج کو سرحد پر پھنسانے کی کوشش کریں تاکہ فوج میرے راستے میں رکاوٹ نہ ڈال سکے ۔ کاش راجیو گاندھی بھارت کے وزیرِاعظم ہوتے تو بہت سے کام آسان ہو جاتے

شکريہ ۔ پُرشوق تسليمات کے ساتھ

آپ کی مخلص

بے نظیر بھٹو