Category Archives: سیاست

امن کی آشا اور بھارت

پاکستانی لوگ معدودے چند بھارتی صحافيوں کو ساتھ ملا کر جتنا چاہے “امن کی آشا” کا پرچار کر ليں جب تک بھارتی حکومت يا بھارتيوں کی اکثريت ظُلم کی دو دھاری تلوار ميان ميں نہيں ڈالے گی “امن” بھارت اور پاکستان ميں انجان کا خواب ہی رہے گا

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا سولہواں اجلاس [28 فروری سے 25 مارچ 2011ء] جنیوا ميں جاری ہے جس ميں ساری دنيا سے انسانی حقوق کے کئی نمائندے شريک ہيں ۔ کانفرنس کے ايک اجلاس ميں ایک افریقی انسانی حقوق کارکن مچیلن ڈجوما نے ايک 17 سالہ کشمیری لڑکی انیسہ نبی کو پيش کيا کہ وہ جموں کشمير ميں اپنے پر بيتی روداد سنائے

انیسہ نبی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے اپنے والدین کے ساتھ ظلم و زیادتی کی روداد سنائی تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں موجود سفارتکار اور کارکن اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ انیسہ نبی نے سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرائی ۔ اس موقع پر ایک کشمیری این جی او ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئرز(کے ایچ اے) کے نمائندے بھی پیلس آف نیشنز، جنیوا میں سفارتکاروں میں لابنگ کررہے تھے ۔کے ایچ اے کے پروگرام ڈائرکٹر الطاف حسین وانی نے کہا کہ انیسہ ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ ہے لیکن آج اس نے ہم سب کو رونے پر مجبور کردیا

اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی تصویروں کی ایک نمائش بھی ہوئی جس نے انیسہ کے کیس کو مزید موثر اور مضبوط کردیا

انیسہ نبی نے اپنی تقریر نارمل انداز میں شروع کی لیکن جب اس نے اپنے والد کا تذکرہ کیا تو اس کی آواز گھٹنے لگی۔ اس کے والد کو 24 جولائی 1996ء کو بھارتی اہلکار اغوا کرکے لے گئے تھے لیکن آج تک اس کا پتہ نہیں چلا۔ اس وقت انیسہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کی والدہ نے انیسہ کے والد کی تلاش کے لئے مہم چلائی اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں اس کی بازیابی کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ انیسہ کی والدہ کو بدترین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں

انیسہ کی و الدہ کو اس کی سزا یہ ملی کہ 2003ء میں بھارتی فوجیوں نے گھر میں گھس کر اس پر گولیاں چلائیں اور انہیں شہید کردیا ۔ اس وقت انیسہ کی والدہ انیسہ کے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھائے ہوئے تھیں۔ بھارتی فوجیوں نے ان کی گود میں اس بچے کی پروا بھی نہیں کی اور وہ شدید زخمی ہوا ۔ اگرچہ اس کی زندگی بچ گئی لیکن گولیوں سے اس کی ایک ٹانگ معذ ور ہوگئی

جب انیسہ نبی تقریر کے دوران اس واقعہ کے تذکرے پر پہنچی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انیسہ نے جب اپنی گفتگو شروع کی تو ہال میں انتہائی خاموشی تھی حالانکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سائڈ لائن سمیناروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا

انیسہ نبی کی کہانی سن کر ایک بھارتی سفارتکار جو وہاں موجود تھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اٹھ کر چلا گیا ۔ ایک بھارتی اسکالر ڈاکٹر کرشنا اہوجا نے جو ایک کشمیری ہندو ہیں انیسہ کو اپنی بیٹی کی طرح آغوش میں لے کر تھپکا ۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر افسر نے انیسہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کو انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کے ہر فورم میں آواز اٹھائیں گے

دِل کے پھپھولے جل اُٹھے ۔ ۔ ۔ ۔

دِل کے پھپھولے جل اُٹھے سِينے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جل کے دل خاک ہوا آنکھ سے رويا نہ گيا

ملک کے حُکمران بالخصوص پی پی پی اور ايم کيو ايم ڈرامہ ڈرامہ کھيل رہے ہيں اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہيں اور 12 گاڑیاں جلادی گئی ہیں۔ شہر میں گزشتہ شب سے فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اب تک متعدد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی ۔ فائرنگ کے واقعات کے نتیجے میں شہر کے مختلف علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔لیاری،اورنگی ٹاؤن،کھارادر،گلستان جوہر،شانتی نگر اور قریبی علاقوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آئے جبکہ آٓئی آئی چندریگر روڈ ،ایم اے جناح روڈ، اور اس سے متصل شاہراہوں پر رات گئے دیر تک کھلے رہنے والے چائے کے ہوٹل اور دکانیں بھی بند کروادی گئیں ۔ شہر کی کشیدہ صورتحال کے باعث وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق نے آج تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جامعہ کراچی کے رجسٹرار نے اعلان کیا ہے کہ جامعہ کراچی کے تحت آج ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں، انھوں نے کہا کہ نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا

40 سال پرانے ريمنڈ ڈيوس کی گواہی

امریکی شہری رابرٹ اینڈرسن تقریبا ًچالیس سال پہلے لاوٴس میں اپنے ملک کے لیے وہی خدمات انجام دیا کرتے تھے جن کے لیے ریمنڈ ڈیوس اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کو پاکستان میں تعینات کیا گیا ہے۔لہٰذا پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور ان کے ساتھیوں کے کھیل کو سمجھنے کے لیے لاوٴس میں اینڈرسن کی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں سے آگاہی انتہائی کارگر ثابت ہوسکتی ہے

خوش قسمتی سے رابرٹ اینڈرسن اپنی کہانی خود ہی منظر عام پر لے آئے ہیں ۔ معروف آن لائن امریکی نیوز میگزین کاوٴنٹر پنچ سمیت ان کی یہ تازہ ترین تحریر متعدد ویب سائٹوں پر موجود ہے ۔رابرٹ کی خواہش ہے کہ ان کی حکومت دوسرے ملکوں میں ایسی حرکتیں چھوڑ دے کیونکہ امریکی قوم کو اس کی قیمت اپنی ساکھ اور اعتبار سے محرومی کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے

کئی دہائياں پہلے لاوٴس میں امریکی جاسوس کا کردار ادا کرنے والے اس امریکی شہری کا کہنا ہے کہ ” ریمنڈ ڈیوس ایک امریکی ہے جو پاکستان میں ہمارے سفارت خانے سے باہر سفارت کار کے روپ میں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ اس واقعے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بیرونی ممالک ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے اور پورے مشرق وسطیٰ میں لوگ بڑے شیطان کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں”

[رابرٹ اینڈرسن کا مکمل مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے]

اس کے بعد رابرٹ اینڈرسن ماضی کے لاوٴس اور آج کے پاکستان میں پائی جانے والی مماثلت یوں واضح کرتے ہیں ” ویت نام کی جنگ میں لاوٴس کا ملک ویسے ہی جیو اسٹرے ٹیجک مقام کا حامل تھاجیسے آج افغانستان کے حوالے سے پاکستان ہے۔ ہمارے ملک نے پاکستان ہی کی طرح لاوٴس میں بھی سی آئی اے کو استعمال کرتے ہوئے ایک خود مختار قوم کے خلاف خفیہ فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا“

اس تمہید کے بعد رابرٹ اینڈرسن اپنی روداد کا آغاز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”میں امريکی فضائیہ میں ایک ڈیمالیشن ٹیکنیشین تھاجسے سی آئی اے کے ساتھ لاوٴس میں امریکی آپریشنوں کے لیے ازسرنو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ فوجی شناختی کارڈوں اور وردیوں کی جگہ ہمیں وزارت خارجہ کی جانب سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے اور ہم نیلی جینز میں ملبوس ہوگئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر ہم زندہ پکڑے جائیں تو سفارتی استثنیٰ کا مطالبہ کریں۔ ہم نے لاوٴس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام تمام ملکوں میں روزانہ کی بنیاد پر فوجی مشن انجام دینے کا کام کیا۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اگر ہم مارے یا پکڑے گئے تو شاید ہمیں تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جائے گی اور وطن میں ہمارے گھروالوں سے کہہ دیا جائے گا کہ ہم تھائی لینڈ میں کسی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں اور ہماری لاشیں دستیاب نہیں ہوسکی ہیں“

اس سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے رابرٹ اینڈرسن انکشاف کرتے ہیں کہ ”ہماری ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار یا بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے آنے والے ہوں تو ہمیں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چھپ جانا چاہیے تاکہ ہم سے سوالات نہ کیے جاسکیں“

اس سابق امریکی جاسوس کے بقول عشروں پہلے” امریکی سفارت خانے سے باہر، امریکی فوج اور سفارت کاروں کو استعمال کرتے ہوئے کِیا جانے والا یہ ایک نہایت منظم آپریشن تھا۔ 1968 کی فوجی مہم Tet Offensive کے دوران جب میں وہاں تھا، شروع ہونے والی یہ کارروائی لمبی مدت تک جاری رہی، یہاں تک یہ پوری جنگ ناکامی پر ختم ہوگئی“

اس کہانی کا انتہائی معلومات افزاء حصہ، جس کی روشنی میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور اس کے ساتھیوں کے مشن کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے، وہ ہے جس میں رابرٹ اینڈرسن نے لاوٴس میں اپنی ذاتی سرگرمیوں کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کے بعض اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں

رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں ” لاوٴس میں جس پروگرام سے میں وابستہ تھا،وہ ان لوگوں کا منظم قتل تھا جو امریکی اہداف و مقاصد سے وفادار نہ
ہونے کے حوالے سے شناخت کیے گئے ہوں۔ اس پروگرام کو Phoenix پروگرام کہا جاتا تھا، اور اس کے تحت انڈو چائنا کے علاقے میں ساٹھ ہزار افراد کو ٹھکانے لگایا گیا“

مگر اس درندگی اور سفاکی کا نتیجہ کیا نکلا؟ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے ”ہم نے ملک کے شہری انفرا اسٹرکچر کو حیرت انگیز پیمانے پر تباہی سے دوچار کیا، اس کے باوجود جنگ ہار گئے“

رابرٹ اینڈرسن امریکی سامراج کے انسانیت سوز جرائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتاتے ہیں : “کرائے کے فوجیوں کی ایک ٹیم کو، جسے میں تربیت دے رہا تھا،اُن مردہ شہریوں کے کانوں کا تھیلا لاکر دکھانے کا حکم دیا گیا جو ان کے ہاتھوں قتل ہوئے ہوں۔ اس طرح وہ ثبوت مہیا کرتے تھے کہ ہمارے لیے انہوں نے کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ تاہم بعد میں یہ طریق کار تبدیل کردیا گیا اور کرائے کے قاتلوں سے کہا گیا کہ وہ مرنے والوں کے کان کاٹ کر لانے کے بجائے ․صرف ان کی تصاویر کھینچ کر فراہم کردیا کریں”

یقینی طور پر اسی طریق کار پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو اپنی بندوق سے قتل کرنے کے بعد ریمنڈ ڈیوس نے بھی اپنے موبائل فون سے ان کی تصویریں بنائی تھیں

اس کہانی کے اگلے حصے میں رابرٹ اینڈرسن بتاتے ہیں کہ لاوٴس اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں ان بہیمانہ کارروائیوں پر مبنی فلم” ایئر امریکا “کے نام سے Mel Gibson نے بنائی تھی۔ اس مووی میں منشیات کے اس کاروبار کا احاطہ بھی کیا گیا ہے جس کا اہتمام امریکی سی آئی اے ان آپریشنوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کرتی تھی کیونکہ ،رابرٹ اینڈرسن کے بقول کانگریس نے ان کاموں کے لیے جو ہم کررہے تھے، فنڈز کے منظوری نہیں دی تھی۔ رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ میں نے ڈرگ آپریشن بھی براہ راست دیکھے ہیں اور ان کی ساری تفصیل الفرڈ مک کائے کی کتاب”دی پالی ٹیکس آف ہیروئین ان ساوٴتھ ایشیا“ میں موجود ہے۔“ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملات کو اس وقت تک ایک دوسرے سے مربوط نہیں کرتے تھے جب تک ایران کونٹرا کیس میں اولیور نارتھ اس سلسلے میں جوابدہی کے لیے عدالت میں پیش نہیں ہوا کیونکہ وہ لاوٴس آپریشن کا ایک لیڈر تھا اور رابرٹ کو اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی

سابق امریکی جاسوسرابرٹ اینڈرسن معترف ہے کہ اس کا ملک دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے اس قسم کی مجرمانہ اور انسانیت دشمن کارروائیوں میں ملوث چلا آرہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس طرح ہم جرمن نازیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ہم ان جرائم کو سرد جنگ کے دوران جائز قرار دیتے رہے۔ اس نوعیت کی پہلی کارروائی 1953ء میں صدر روزویلٹ کے دور میں تیل کے کنووں پر تسلط کے لیے ایران کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر کی گئی

سی آئی اے کی ایسی دیگر خفیہ مجرمانہ کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جنہیں امریکی شہریوں سے بھی چھپایا جاتا رہا، رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ اگر ہم نے ماضی میں اس طریقے کے بجائے جس میں نہ اپنے لوگوں پر اعتماد کیا جاتا ہے نہ دوسرے ملکوں کے لوگوں پر ، اس کے بجائے انہیں بے دریغ قتل کیا جاتا ہے، اپنے مسائل کے حل کے لیے مختلف طریق کار اپنایا ہوتا تو ہمارا ملک ان مشکلات سے دوچار نہ ہوتا جو آج پوری دنیا میں اسے درپیش ہیں

کہانی کے آخری حصے میں اس انسانیت سوز کھیل میں اپنی شرکت کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ ویت نام کی جنگ کے ان دنوں میں، وہ نوعمر اور بیوقوف تھے اور ایک چھوٹے علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلندڑے لڑکے کی حیثیت سے اس خفیہ مشن سے وابستگی ان کے لیے بڑی چیز تھی۔ مگر اب وہ پہلے سے بہت زیادہ ہوش مند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کرتوتوں کے نتائج بہت دور رس اور تباہ کن ہوتے ہیں اور انہیں فوری طور پر بند ہوجانا چاہیے

لیکن ان کے بقول، پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت دنیا کے لوگوں کو جھٹلانے کے اپنے پرانے طریقے پر آج بھی کاربند ہے جبکہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ۔ رابرٹ پوچھتے ہیں ”یہ منافقانہ حماقت کب ختم ہوگی؟ ہمارے سیاستدان اس بارے میں کب زبان کھولیں گے ؟ وہ جھوٹی باتوں اور چالوں کا ساتھ دینا کب چھوڑیں گے؟ مزید کتنے ہمارے اور دوسرے لوگ ان احمقانہ منصوبوں کی بھینٹ چڑھیں گے؟“

اس کے بعد وہ امریکا کی موجودہ پوزیشن کو مشرق وسطیٰ اور ڈیوس کے معاملے کے تناظر میں واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ریمنڈ ڈیوس اب برے حال میں ہے کیونکہ دنیا کے بیشتر لوگ ، جیسا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں دیکھ رہے ہیں، اب ہمارے جھوٹ سے واقف ہیں اور ہم پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں․․․ افسوس کہ اس سب کے باوجود صدر اوباما اب بھی جھوٹ کو دہرارہے ہیں“

ماضی کے ریمنڈ ڈیوس کا یہ اعترافِ حقیقت بہت بروقت اور لائق تحسین ہے ۔ یہ ایسی گواہی ہے جو ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے امریکی حکام کے لیے روسیاہی کا سبب اور پاکستان کے قومی موقف کے درست ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے

بشکريہ ۔ جنگ

شہباز بھٹی کا قاتل کون ہے ؟ امريکا يا طالبان ؟

جذبات اور جنون نہیں، جنابِ والا، حکمت و دانش اور تحمل و تدبّر ۔ میر صاحب نے کہا تھا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کی مخالفت ، مذمت اور مزاحمت بجامگر یہ کیسے طے ہوا کہ شہباز بھٹی کے قاتل لازماً وہی ہیں؟

قابلِ اعتماد ذرائع یہ کہتے ہیں کہ پنجابی طالبان کے نام سے پمفلٹ واردات کے بعد گرائے گئے، اسی وقت نہیں ۔ ان پر کلمہ طیبہ اور اللہ کے آخری رسول کا اسم گرامی لکھا ہے۔ طالبان ایسا کیوں کرتے؟ گھنی آبادی والا یہ ایسا علاقہ ہے ، جہاں سے طالبان کے لیے بھاگ نکلنا آسان نہ ہوتا کہ چاروں طرف ناکے ہیں۔ پھر ان کا انداز یہ کبھی نہیں رہا۔ وہ ڈرائیور کو بچا لینے کے لیے کیوں فکر مند ہوتے

شہباز بھٹی کے قتل کا ماتم ہی کیا جانا چاہئے ۔ اس میں دو آراء نہیں لیکن مغربی ممالک اور ان کا پریس اس سانحہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اس قدر بے تاب کیوں ہے؟

اس وقت تو موضوع ریمنڈ ڈیوس ہے اور وہ عوامل ، جس نے اس قماش کی مخلوق کے لیے پاکستان کو چراگاہ بنا ڈالا ہے۔ امریکی قاتل کے قضیے میں اگر کوئی گہرا تاریک راز پوشیدہ نہیں تو صدر اوباما تک کو جھوٹ کیوں بولنا پڑا کہ وہ ایک سفارت کار ہے ؟ امریکی قونصل خانے کے کار تلے کچل کر ہلاک کرنے والوں کو تفتیش سے بچانے کا ایسا فولادی عزم کیوں تھا؟ ریمنڈ ڈیوس کا اصل نام تک کیوں چھپایا گیا؟ کیا اس لیے کہ وہ بے نقاب ہوا تو خطرناک بھید کھل جائیں گے

1979ء سے 1989ء تک دس سالہ افغان جنگ میں ، جو تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ (Covert) جنگ تھی، سی آئی اے کے پچاس سے زیادہ اہلکار اس سر زمین پر کبھی نہ تھے، اب سینکڑوں کی ضرورت کیوں ہے؟ براہمداغ بگٹی کیا امریکی اجازت کے بغیر ہی افغانستان میں پناہ گزین رہا؟ امریکی اخبارات کو اور تو سبھی کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن پاک افغان سرحد کے ساتھ پھیلے بھارتی قونصل خانوں کی قطار کیوں نہیں؟ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے انکل سام کو پاکستانی تعاون کی کسی بھی چیز سے زیادہ ضرورت ہے پھر افغان سر زمین پر بھارت کی نازبرداری ؟

پھر ٹھیک انہی ایام میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے سے دھڑا دھڑ ویزے کیوں جاری ہوتے رہے۔ ہمیشہ چوکس اور مستعد رہنے والے حسین حقانی کی نگراں آنکھوں تلے ، جو پاکستان کے نہیں ، صدر زرداری کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔

امریکی شہریوں کے نام کیسا دلچسپ پیغام جاری ہوا ہے: پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر وہ پاکستان نہ آئیں۔ کیا کبھی کوئی سفری دستاویزات کے بغیر دوسرے ملک میں داخل ہوا کرتا ہے ؟ اگر اس سے پہلے امریکی شہری ویزے کے بغیر نہیں آئے تو اب اس اعلان کی ضرورت کیا تھی

يہ چند اقتباسات ہيں ۔ پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

میں خود کُش حملہ آور ہوں

“اس وقت میں ایک عجیب سی کیفیت سے دوچار ہو گیا تھا جب اس شخص نے اپنی منزل پر اُترنے سے پہلے مجھے کہا “میں خودکُش حملہ آور ہوں”۔ آصف نے اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کہا ۔ “اکتوبر 2005ء کی ایک ڈھلتی شام تھی اور میں تنہا اسلام آباد ہائی وے سے ہوتا ہوا مری روڈ کی طرف آ رہا تھا ۔ مری روڈ فیض آباد کے قریب کھڑے ایک چالیس پنتالیس سالہ شخص نے مجھے روکا اور کہنے لگا کہ مجھے پیر ودھائی موڑ جانا ہے ۔ کرایہ طے کرنے کے بعد ہماری منزل پیر ودھائی موڑ تھی ۔ میں سٹیڈیم روڈ سے ہوتا ہوا پیر ودھائی موڑ کی طرف جا رہا تھا ۔ میرا ہم سفر ایک خاموش طبع اور ٹھنڈے مزاج کا شخص لگ رہا تھا ۔ میں ہمیشہ ڈرائیونگ کے دوران ہم سفر سے بات چیت کرتا ہوں ۔ اس طرح سفر کا پتہ نہیں چلتا ۔ دوسرا یہ کہ مسافر کی باتوں سے کچھ نا کچھ سیکھ لیتا ہوں ۔ یہ شخص ہاتھ میں تسبیح کا ورد کر رہا تھا ۔ اسی مناسبت سے میں نے اس سے کہا کہ کوئی دین کی بات بتائیں ۔ وہ شخص ‘صرف اور صرف اللہ تعالٰی کی برتری کو ماننا ‘ کہہ کر چُپ کر گیا ۔

“پھر کچھ دیر بعد کہنے لگا ‘ہماری مائیں ۔ بہنیں اور بیٹیاں سر پر اسلحہ رکھ کر رات کی تاریکی میں انتہائی دُشوار گذار راستوں پر چل کر جنگ کے محاذ پر پہنچائیں ۔ ہم خود سوکھی اور باسی روٹیاں کھاتے ۔ اگلے محاذ پر جہاد سے واپسی پر کبھی کبھی ہم اُبلا ہوا خُشک گوشت جو کہ پتھروں میں امانتاً رکھتے تھے کھا لیا کرتے تھے ۔ ہم افغانوں نے روس کو شکست سے دوچار کیا ۔ امریکا کے دیئے ہوئے اسلحہ سے ہم نے اس جنگ میں حصہ لیا لیکن اس جنگ کے بعد دنیا نے ہمیں نظرانداز کیا اور ہمیں دہشتگرد قرار دیا گیا ۔ ایک ایسی لڑائی جس میں لاکھوں افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں ہجرت کرنا پڑی اور ان لاکھوں انسانوں پر جن میں مرد ۔ عورتیں ۔ بچے اور بوڑھے شامل تھے مصائب اور مشکلات کا ایک پہاڑ گرا ۔ لاکھوں لوگ جنگ میں مارے گئے ۔ پورا مُلک تباہ و برباد ہو گیا ۔ کیا آج ان ممالک کے ضمیر مُردہ ہو چکے ہیں جن کی افواج ہمارے مُلک افغانستان میں آگ اور خُون کا کھیل کھیل رہی ہیں ؟ یہ ہم پر جتنی مرضی بمباری کر لیں ہم اتنی ہی شدت سے انتہاء پسند ہوں گے ۔ یہ ہمارے مُلک میں ہیں لیکن ہماری سوچ پر قبضہ نہیں کر سکتے ۔ آج دنیا کے جدید ترین ہتھیار ہونے کے باوجود بھی یہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے ۔ ہم انہیں خُودکُش حملوں کے ذریعے ناکامیوں کی طرف دھکیل دیں گے اور دُنیا کو اس بارے میں ضرور سوچنا پڑے گا کہ کسی انسان یا مُلک کو ٹِشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کی پالیسی ترک کرنا ہو گی ۔ یہاں پاکستان میں میری والدہ ہے جو بیمار تھی اور میں اُس کی تیمارداری کیلئے آیا تھا ۔ اب میں واپس افغانستان جا رہا ہوں ۔ تاریخ یہ ثابت کرے گی کہ ہم افغان فاتح ہوں گے ۔ میں اپنا نام رجسٹر کروا چکا ہوں ۔ میں خُودکُش حملہ آور ہوں’ ”

ٹیکسی ڈرائیور آصف حسین شاہ کی آپ بیتی پر مُشتمل کتاب “فار ہائر” سے اقتباس

يہ گندگی کون صاف کرے گا ؟

“ننگِ قوم” سُن تو بچپن سے رکھا ہے مگر جيسے کرتب موجودہ اور اس سے پہلے والے حُکمرانوں نے دِکھائے ہيں شايد ہی کسی نے قوم کے ساتھ ايسی غداری کی ہو گی

گاہے بگاہے مختلف حقائق سامنے آتے رہتے ہيں ۔ آج گفتگو صرف اس حوالے سے کہ لاہور ميں دو جوانوں کے قاتل ريمنڈ ڈيوِس جيسے لوگ کہاں سے پيدا ہوئے يا کہاں سے آئے ؟

آج اربابِ اختيار ميں سے کوئی بھی نہيں بتا سکتا کہ امريکی ايف بی آئی اور سی آئی اے کے کتنے غيرمُلکی اور مقامی ايجنٹ پاکستان ميں گھوم پھر رہے ہيں اور کيا کر رہے ہيں ؟

صرف پرويز مشرف ہی نے نہيں موجودہ وفاقی حکومت نے بھی امريکی سی آئی اے اور ايف بی آئی کو نہ صرف مقامی ايجنٹ رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ بلا روک ٹوک وہ جہاں چاہيں جا سکتے ہيں اور جو چاہيں کر سکتے ہيں

ايک اور ناقابلِ يقين سہولت جو پچھلی حکومت نے امريکيوں کو دی اور موجودہ حکومت نے برقرار رکھی يہ ہے کہ امريکا سے پاکستان آنے اور واپس جانے پر اُن کی کوئی چيکنگ نہيں ہوتی تھی ۔ وہ پاکستان آنے اور جانے کيلئے اسلام آباد ايئرپورٹ پر وہ راستہ استعمال کرتے رہے جس راستہ سے جہاز پر کھانے پينے کا سامان بھيجا جاتا ہے اس طرح کچھ پتہ نہيں چلتا کہ کون آيا اور کون گيا اور نہ پتہ چلتا تھا کہ امريکی کيا پاکستان ميں لے کر آئے اور کيا پاکستان سے لے کر چلے گئے ۔ وزارتِ دفاع کی مداخلت پر اکتوبر 2009ء ميں اس سہولت ميں کچھ تخفيف کی گئی مگر اس وقت تک بہت نقصان ہو چکا تھا يعنی پاکستان ميں اميرکی سيکريٹ ايجنسيز اور اسلحہ کا نيٹ ورک پھيل چکا تھا

ايک امريکی اخبار “واشنگٹن ٹائمز” نے بھی کچھ سال قبل لکھا تھا کہ امريکی ايف بی آئی نے پاکستان ميں “سپائيڈر گروپ” کے نام سے ايک گروہ ترتيب ديا ہے جس ميں پاکستان کی مسلحہ افواج کے ريٹائرڈ افسران اور دوسرے لوگوں کو بھرتی کيا ہے ۔ اس کا مقصد پاکستان سے امريکا کيلئے معلومات حاصل کرنا ہے ۔ گروپ ميں عيسائی اور مسلمان دونوں شامل ہيں جنہيں ايف بی آئی نے تربيت دی ہے اور مسلحہ بھی کيا ہے

يہ بھی خبر ہے کہ ايک صوبائی سيکرٹ ايجنسی کا سربراہ اور درجن بھر اور لوگ امريکی سی آئی اے کو معلومات فراہم کرتے رہے جس پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے اس سربراہ کو ملازمت سے سبکدوش کر ديا تھا ۔ يہ بھی خبر آئی تھی کہ نجی سيکيورٹی کمپنيوں کے ملازمين کی بڑی تعداد امريکی سی آئی اے کيلئے کام کرتی ہے

ايک مقامی صحافی اعزاز سيّد نے انکشاف کيا کہ چند سال قبل اُس نے امريکی ايف بی آئی کيلئے بھرتی کا ايک بين الاقوامی اشتہار ديکھا ۔ اُس نے اسلام آباد ميں امريکی سفارتخانے کے ليگل سيکشن سے اس خيال سے رابطہ کيا تاکہ وہ ايک انويسٹیگيٹو سٹوری لکھ سکے ۔ اُس نے اپنے آپ کو طالبان کے خلاف خفيہ معلومات حاصل کرنے کيلئے ملازمت چاہی ۔ انٹرويو کرنے والے امريکی نے اُسے کہا کہ “تمہيں [طالبان نہيں] پاکستان کی سول بيوروکريسی کے متعلق معلومات مہياء کرنا ہوں گی جس کا اچھا معاوضہ ديا جائے گا”۔

پچھلی حکومت نے بغير پائلٹ کے جہازوں [ڈرون] کو پاکستان کی فضا ميں پرواز کرنے کی اجازت دی جو موجودہ حکومت نے برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ يہ جہاز راڈار پر نظر نہيں آتے چنانچہ يہ قبائلی علاقہ کے علاوہ دوسرے علاقوں کی بھی سروِلنس کرتے رہتے ہيں جو کہ ملک کے مفاد ميں نہيں
[قارئين کو ياد ہو گا کہ جولائی 2007ء ميں کاروائی کے دوران لال مسجد اسلام آباد کے اُوپر امريکی بغير پائلٹ کا ہوائی جہاز اُڑتا رہا تھا ۔ يہ بغير حکومتِ وقت کی اجازت کے کيسے ممکن تھا ؟]

موجودہ حکومت بجائے غلط طور پر دی گئی مراعات واپس ليتی اُلٹا اپنے مُلک کو خطرہ ميں ڈالتے ہوئے امريکيوں کيلئے ويزہ کے اجراء سے قبل ہونے والی انويسٹيگيشن کو ہی ختم کر ديا اور امريکا ميں پاکستانی سفارت خانے کو حُکم ديا کہ امريکيوں کو بلا توقف ويزے ديئے جائيں ۔ ايک خبر کے مطابق وسط 2010ء ميں موجودہ حکومت نے امريکا ميں پاکستان کے سفارتخانے کو لکھا کہ بغير کسی قسم کی تحقيقات اور تاخير کے امريکيوں کو ويزے جاری کئے جائيں جس کے نتيجہ ميں 500 امريکيوں کو چھٹی کے دن سفارتخانہ کھول کر 2 دنوں ميں ويزے جاری کئے گئے

سابقہ امريکی سفير اينی پيٹرسن نے وزيرِ داخلہ رحمٰن ملک کو خط لکھا کہ “انتر رِسک کے مقامی شراکت دار ڈئين کارپوريشن کو ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس ديئے جائيں”۔ اس کے بعد اس نے وزارتِ داخلہ کے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا جس ميں لائسنسوں کی 3 اقساط کی واضح ڈيڈ لائينز بھی دی گئيں جس کی وزير موصوف نے تابعداری کی ۔ 7 مئی 2009ء کو امريکی سفارتخانہ کے چارج ڈی افيئرز جيرالڈ ايم فِيئرشٹائن نے وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کو لکھا کہ “134 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنس انٹر رسک کيلئے ديئے جائيں ۔ 50 لائسنس فوری طور پر پھر 50 جون 2009ء ميں اور 34 جولائی 2009ء ميں

ايک ہفتہ کے اندر وزيرِ مملکت تسنيم قريشی کے پرسنل سيکرٹری نے ايک ٹاپ پرائی آريٹی [Top Priority] حکم نامہ جاری کيا کہ انٹر رسک کيلئے 50 ممنوعہ اسلحہ کے لائسنسوں کی منظوری وزير موصوف نے دے دی ہے ۔ يہ لائسنس 20 مئی تک جاری کئے جائيں

دريں اثناء ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو پوليٹيکل ايجنٹ بنوں کا ايک سرکاری خط ملا کہ 50 ويپنز ملک خانزادہ خان وزير نے تحفہ ديا ہے ۔ ظاہر ہے کہ يہ ويپنز امريکی سفارتخانے نے انٹر رسک کو ديئے تھے ۔ حکومت پاکستان کے کسی اہلکار کو معلوم نہيں کہ يہ ويپنز کہاں سے آ رہے ہيں

دہشتگرد صرف مسلمان ہوتے ہيں ۔ امريکا

زبان سے امريکی حکمران کچھ بھی کہتے رہيں اُن کا عمل پُکار پُکار کر کہہ رہا ہے کہ دہشتگرد قرار ديئے جانے کی پہلی اور سب سے اہم شرط مسلمان ہونا ہے

اگر کوئی غير مسلم شخص فائرنگ کر کے درجن بھر بے قصور انسانوں جن ميں کمسن بچے بھی ہوں کو ہلاک کر دے تو امريکا کے حکمران ہی نہيں عدالتيں بھی اُسے صرف ايکيلا واقعہ اور درجن بھر انسانوں کے قتل کو قاتل ذاتی اور وقتی فعل قرار ديتی ہيں

اگر کسی مسلمان کی فائرنگ سے کوئی امريکی مر جائے تو حقائق معلوم کئے بغير فوری طور فائرنگ کرنے والے کو دہشتگرد قرار ديا جاتا ہے اور اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ ديا جاتا ہے

تفصيل پڑھنے کيلئے مندرجہ ذيل موضوع پر کلک کيجئے

What makes Arizona’s killer just a loner, not a terrorist?