تقریباً 7 سال قبل صدر پرویز مشرف نے سی آئی اے کی این سی ایس کے ساتھ بغیر پائلٹ طیاروں کے ذریعے اہم انسانی اہداف کو نشانہ بنانے کا معاہدہ کیا، 18 جون 2004ء کو این سی ایس کے خصوصی سرگرمی ڈویژن (ایس اے ڈی) کے زیراستعمال بغیر پائلٹ طیارے نے جنوبی وزیرستان میں پہلا انسانی ہدف شکار کیا
صدر پرویز مشرف نے ایک اور بھی معاہدہ کیا جس کے تحت خصوصی سرگرمی ڈویژن (ایس اے ڈی) کے سپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کو پاکستان کے ایس ایس جی کمانڈوز کی تربیت کیلئے پاکستان آنے کی اجازت دی گئی
2005ء ۔ 2006ء ۔ 2007ء ۔ 2008ء اور 2009ء میں بالترتیب ایک ۔ 3 ۔ 5 ۔ 35 اور 53 ڈرون حملے ہوئے ۔ 2010ء میں 117 ڈرون حملے ہوئے جن میں سے 104 شمالی وزیرستان میں ہوئے
2004ء سے 2011 کے دوران حافظ گل بہادر کے علاقے کو 70 بار ۔ حقانی نیٹ ورک کو 56 بار ۔ ابوکاشہ العراقی کو 35 بار ۔ مُلا نذیر کے علاقے کو 30 بار اور محسود کے علاقے کو 29 بار نشانہ بنایا گیا
2010ء کے وسط تک سی آئی اے کے ایس اے ڈی اور ایس او جی نے امریکا کی ایس او سی (سپیشل آپریشنز کمانڈ) کے عناصر کے ساتھ مل کر سینکڑوں اضافی ایجنٹ بھیجنے شروع کردیئے ۔ سی آئی اے کے ان تمام ایجنٹوں نے پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں اور پاکستان کی جوہری تنصیبات کا سراغ لگانے کی سرگرمیاں شروع کردیں
2010ء کے آخر سے اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں شدید رسہ کشی جاری ہے ۔ 27 جنوری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس نے 2 پاکستانیوں کو قتل کردیا اور آئی ایس آئی نے واقعہ کو بڑی مہارت کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی شرائط دوبارہ طے کرنے کیلئے استعمال کیا
23 فروری 2011ء کو امريکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن افغانستان میں ایساف کمانڈر جنرل پیٹرس ۔ کمانڈر سپیشل آپریشنز کمانڈ ایڈمرل اولسن نے اومان میں آرمی چیف جنرل کیانی ۔ ڈی جی ایم او میجر جنرل جاوید اقبال (ان کو اب لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا ہے) سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں کچھ امور پھر سے طے ہوئے کیونکہ اس ملاقات کے ایک ہفتے کے اندر پاکستان میں تقریباً 30 سی آئی اے ایجنٹوں نے اپنی سرگرمیاں معطل کردیں ۔ 16 مارچ 2011ء کو ڈیوس کو رہا کردیا گیا اور یہ خبریں ہیں کہ 2 ہفتوں کے اندر 331 سی آئی اے ایجنٹ پاکستان چھوڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں
7 اپریل 2011ء کو میرین کور کے جنرل جیمز میٹس نے کچھ مزید امور طے کرنے کیلئے آرمی چیف سے ملاقات کی اور 4 روز بعد غالباً شراکت داری کے کچھ نئے ضوابط طے کرنے کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے سی آئی اے کے سربراہ لیون پینیٹا اور ایڈمرل مولن کے ساتھ ظہرانہ کیا ۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ یہ مذاکراتی عمل اچھا نہیں جا رہا ۔ آئی ایس آئی اس بات پر مصر ہے کہ 1979ء تا 1989ء والے ریگن دور کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے ۔ جس کے تحت سی آئی اے نے سعودی ادارے المخبرات الاماہ کے ذريعہ جنگ کیلئے مالی مدد دی اور آئی ایس آئی نے اس جنگ کا انتظام و انصرام کیا جبکہ دوسری طرف سی آئی اے کو آئی ایس آئی پر اب اعتماد نہیں رہا اور اسی پر ڈیڈ لاک ہے
واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی مرکز برائے امن و سٹرٹیجک سٹیڈیز کے پروفیسر کرسٹائن فیئر کے مطابق ”ان [پاکستان] کو انڈیا سے مقابلے اور معیشت کیلئے ہماری رقم اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے“ اور ”ہمیں ان [پاکستان] کے جوہری ہتھیاروں ۔ عسکریت پسندوں اور ان دونوں ميں باہمی ربط کی بنا پر ان کی ضرورت ہے“
تحرير ۔ ڈاکٹر فرخ سلیم
ڈاکتر فرخ سليم مرکز برائے تحقيق و تحفظاتی مطالعہ ۔ سياسی اور معاشی تحفظ مقامی و ماحولياتی مسائل کے ايگزيکٹِو ڈائريکٹر ہيں