قومی اسمبلی کے اکتوبر 2011ء کے آخری اجلاس میں پیش کی گئی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2010ء-2011ء کی رپورٹ کے مطابق
نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ شروع ہوتے ہی 29 کروڑ روپے کی لگژری گاڑیاں خرید لی گئیں
ملک میں بجلی کی مانگ پوری کرنے کیلئے کرایہ کے بجلی گھروں کے 15 منصوبوں کی منظوری دی گئی جن سے 2700 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں آنا تھی لیکن سسٹم میں صرف 60 میگاواٹ بجلی آئی ۔ کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ حکومت نے اس سودے میں 16 ارب 62 کروڑ روپے پیشگی ادا کئے تھے
مُلک ميں بالخصوص کراچی میں کُنڈا سسٹم اور دوسرے ذریعے بجلی چوری ہو 32 فيصد ہے
فاٹا اور بلوچستان میں بجلی بلوں کی عدم ادائیگی ايک عام بات ہے
واپڈا میں 90 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں موجود ہیں
گزشتہ سال واپڈا کی مختلف بجلی کمپنیوں میں 5 کروڑ 10 لاکھ روپے کی چوریاں ہوئیں
گزشتہ سال کے دوران ملک گیر مہم میں 20 ہزار بجلی چوروں کے خلاف مقدمے درج کر لئے گئے مگر ؟
سال 2009ء-2010ء میں وزارت خارجہ میں 70 کروڑ روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی
دفاعی بجٹ میں 5 ارب 10 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں ۔ بُلٹ پروف جیکٹس خریدنے کا کام ایف ڈبلیو او [Frontier Works Organization] کو دیا گیا اس میں 42 کروڑ روپے سے زیادہ کا گھپلا ہوا
2007ء میں فوج کیلئے 27 ہزار میٹرک ٹن دال چنا کی خریداری کا ٹھیکہ ایسی جعلی فرم کو دیدیا گیا جس کا مالک جعل سازی کی وجہ سے
اُس وقت جیل میں بند تھا
1987ء میں پی اے ایف کی 2 خصوصی پروازیں فرانس اور امریکا سے بحریہ کا سامان لانے کی غرض سے بھیجی گئیں اس سودے میں پی اے ایف کو 25 لاکھ روپے کمیشن ادا کئے گئے تھے۔ 20 لاکھ روپے فلائٹ لیفٹیننٹ غلام عباس نے خورد برد کر لئے اور وہ مفرور ہیں
پی آئی اے کو مجموعی طور پر 28 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔ وزارت دفاع میں 18 سال سے ایک انکوائری چل رہی ہے اور فیصلہ
نہیں ہو رہا ۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے صرف سعودی عرب کے دفتر ميں پچھلے سال 15 کروڑ روپے کا غبن ہوا جس ميں ملوّث افسران کے خلاف انضباتی کاروائی کرنے کی بجائے اُنہيں ترقياں دے کر زيادہ اہم عہدوں پر فائز کر ديا گيا
سوئی ناردرن گیس کمپنی میں 20 ارب روپے کی لاگت سے 14 ہزار کلومیٹر گیس پائپ لائنز مقررہ حد تک نہیں بچھائی گئیں اور اس رقم سے حاصل 56 کروڑ 10 لاکھ روپے کا منافع اوگرا کو دیدیا گیا
سیندک میٹلز کو 7 کروڑ 30 لاکھ روپے کی رقم ایڈوانس دی گئی مگر کام نہیں ہوا
ایک کیس میں 1994ء [بينظير بھٹو کے دوسرا دور] میں آسٹریلوی کمپنی کو او جی ڈی سی نے 17 ملین ڈالر ایڈوانس دے کر ٹھیکہ دیدیا بعد میں او جی ڈی سی نے معاہدہ منسوخ کر دیا۔ صرف 6 ملین ڈالر کی رقم واپس آئی۔ 11 ملین ڈالر ڈوب گئے۔ اس کرپشن کا ریکارڈ نیب سے غائب کر دیا گیا
1995ء [بينظير بھٹو کے دوسرا دور] میں امریکی کمپنی پرائنڈ لے برانٹ کو تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کیلئے کسی بولی کے بغیر کام دے دیا گیا۔ 22 لاکھ 36 ہزار ڈالر خرچ ہوئے حاصل وصول کچھ نہ ہوا ۔ کیس نیب کے پاس گیا جو اب ریکارڈ ہی ميں موجود نہیں ہے
بدعنوانیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر پٹرولیم سے منسلک کمپنیوں کا گردشی قرضہ 344 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں پی ایس او کے 160 ارب روپے شامل ہیں
پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیوں سے 40 ارب روپے کی ریکوری گزشتہ 15 سال سے زیرالتوا پڑی ہوئی ہے
صرف 8 برسوں میں سوئی ناردرن گیس کمپنی کا خسارہ ساڑھے 3 ارب روپے سے بڑھ کر 15 ارب روپے تک جا پہنچا جبکہ اس عرصے میں 62 ارب روپے کی گیس چوری کر لی گئی
نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے طورخم، جلال آباد شاہراہ کی تعمیر کیلئے حکومت سے ایک ارب روپے حاصل کئے تاہم اس روڈ کی تعمیر پر کوئی اخراجات نہیں کئے گئے
مشرف دور میں کراچی میں 22 کروڑ روپے کی لاگت سے سمندر میں فوارہ لگایا گیا جس کی لاگت 15 کروڑ روپے سے زائد نہ تھی بعد میں یہ فوارہ بھی چوری ہو گیا
پشاور اسلام آباد موٹروے کے دونوں جانب 40 کروڑ روپے کی خاردار تار چوری کر لی گئی جبکہ خار دار تار کا ایک ٹرک بھی چوری ہو گیا
صحت کے شعبے میں کروڑوں روپے کے بدعنوانیوں کی تحقیقات سرد خانے میں پڑی ہوئی ہیں ۔ آئين ميں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے اس لئے صحت کے شعبے میں کرپشن کی تحقیقات روک دی گئی ہے
پولی کلینک اسلام آباد میں 3 کروڑ 41 لاکھ روپے کی ادویات کی خریداری میں کرپشن کی گئی۔ نیب کے پاس کیس موجود ہے
مشرف دور کے صحت کے وزیر مملکت حامد یار ہراج نے پبلک اکاؤنٹس کميٹی میں انکشاف کیا تھا کہ 2002ء میں ناقص پولیو ویکسین بچوں کوفراہم کی گئی جس سے پولیو کی بیماری بڑھ گئی اور پولیو خاتمے کی مہم کامیاب نہ ہوسکی
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی 7 رپورٹس میں کرپشن کے 5499 کیسز کی تفصیلات موجود ہیں
اسلام آباد کی 100 ارب روپے مالیت کی 20 ہزار ایکڑ زمین قبضہ مافیا ميں چلی گئی
ریلوے کی 4231 ایکڑ اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کرانے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں
حال میں ریلوے کے 3 پل چوری کر لئے گئے
واپڈا، ریلوے میں ملازمین کی ملی بھگت سے چوریاں ہو رہی ہیں
وزیراعظم گیلانی کے آبائی شہر میں سياسی ملتان پیکیج کیلئے ریلوے کی ایک ارب روپے مالیت کی 13.70 ایکڑ اراضی پر قبضہ کرلیا گیا
پارلیمانی احتساب میں 4 ارب روپے کے اين ايل سی [National Logistic Cell] سکینڈل میں ملوث 3 ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہوئی اور اب معاملہ جی ایچ کیو کے پاس ہے
ٹرانسپرنسی کی مداخلت پر کراچی، حیدرآباد موٹروے کی تعمیر سے متعلق کارکنوں کے بڑھاپے کی سکیم ای او بی آئی [Employees Old-age Benefit Institution] اور این ایچ اے کے درمیان 100 ارب روپے کی ڈیل روک دی گئی
2008ء-2009ء میں محکمہ ڈاک میں 85 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں
یہ سکینڈل بھی ریکارڈ پر ہے کہ ملازمین کی پنشن سے 10 کروڑ روپے ایک سال میں خورد برد کئے گئے تھے
1990ء میں پاسکو نے گندم ذخیرہ گودام کی رقوم لاہور کے پرتعیش ڈیفنس اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہائشی پلاٹ خریدنے پر خرچ کر ڈالی اور 6 رہائشی پلاٹ 42 کروڑ میں خریدے گئے
شعبہ ہاؤسنگ میں صرف اسلام آباد میں 703 سرکاری گھروں پرغیرقانونی قبضہ ہے
قومی اسمبلی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذریعے غریب ملازمین کی جمع شدہ پونجی کے 2 ارب 78 کروڑ 69 لاکھ روپے کا خورد برد کیا گیا اور ملوث افراد کارروائی سے بچ گئے
ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک کروڑ روپے کے منصوبے پر 30 سے 40 لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے
اس سال پاکستان سٹیل کا خسارہ بھی 104 ارب روپے تک ہے
کرپشن روکنے کیلئے نیب کا ادارہ بنایا گیا تھا۔ نيب نے بینظیر بھٹو کے خلاف بیرون ملک ذاتی مقدمات پر عوام پر ٹيکس سے حاصل کئے گئے 29 کروڑ روپے خرچ کئے اور نتیجہ صفر رہا۔ بیرونی ممالک میں قانونی فرموں کو لاکھوں ڈالر اور پاؤنڈ سٹرلنگ ادا کئے گئے مگر ریکارڈ دستیاب نہیں جن غیرملکیوں کو رقوم ادا کی گئیں ان کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں ہے
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد نومبر 2009ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں کرپشن کے خاتمے کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جسے 4 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کیلئے کہا گیا تھا ۔ رپورٹ وزیراعظم کے احکامات کی منتظر ان کے دفتر میں 2 سال سے پڑی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کرپشن میں کچھ مگرمچھ ملوث ہیں جو کرپشن کر کے ملک کا پیسہ باہر بھیج رہے ہیں ان بڑے مگر مچھوں کو قابو کرنا ضروری ہے ۔ انتظامیہ اور بیورو کریسی کی وجہ سے کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے آڈیٹر جنرل کو مکمل بااختیار بنانا ہوگا
پاکستان میں بدعنوانیوں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے وفاقی سطح پر 7 ادارے کام کر رہے ہیں ان میں پارلیمانی احتساب کا سب سے بڑا ادارہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان، وفاقی محتسب اور وفاقی ٹیکس محتسب آئینی ادارے ہیں ۔ ان کے علاوہ پرائم منسٹر انسپکشن کمیشن اور ایف آئی اے جبکہ صوبوں میں انسداد بدعنوانی کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کرپشن کا عفریت قابو نہیں آ رہا
سپریم کورٹ اور حکومت کے پاس یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ملک کے 300 اہم سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے این آر او کے تحت 165 ارب
روپے کی بدعنوانیوں ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غبن کے کیسز معاف کروا کر خود کو ”پاک“ کروایا۔ یہ سیاستدان اور بیورو کریٹس 5700 سے زائد افراد کی اس فہرست کا حصہ ہیں جو وزارت قانون نے چاروں صوبوں سے موصول ہونے کے بعد وزیراعظم گیلانی کو بھجوائی تھی
پرویز مشرف کی جانب سے اکتوبر 2007 میں این آر او جاری ہونے سے قبل 2121 کرپشن کیسز عدالتوں میں زیرسماعت تھے جبکہ نیب نے 368 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے ۔ یہ وارنٹ واپس لینے کے ساتھ 394 سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف تحقیقات ختم کر دی گئی اور اس کے بعد نیب کو بھی بے اختیار بنا دیا گیا
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات کہی گئی کہ اگر ہمیں يہ پیسے مل جائیں تو معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور
ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں