Category Archives: سیاست

روحانی بيٹا

يکم دسمبر جمعرات کو سپریم کورٹ کی طرف سے میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کیلئے کمیشن کی تشکیل کے فیصلے سے پیدا شدہ صورتحال اور اپنی حکومت کو لاحق خطرات پر صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے اتحادیوں سے ہنگامی رابطے کئے اور کہا کہ “بھٹو کا روحانی بیٹا اور بینظیر کا بااعتماد ساتھی ہوں ۔ قوم شہید بینظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھی پر اعتبار کرے”

ماضی پر ايک نظر

آصف علی زرداری بينظير بھٹو کے دورِ حکومت ميں مِسٹر ٹين پرسينٹ [10 percent] کے نام سے جانا جاتا تھا

بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی وزیرِ اعظم بے نظیر سے کہا تھا کہ
“میر مرتضیٰ بھٹو کے دو مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی میں انتخابات کرائے جائيں اور دوسرا یہ کہ حکومت کو بدترین کرپشن سے پاک صاف کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات درست ہیں اور اُنہیں تسلیم کیا جائے”
اس دوٹوک اعلان کے بعد ستمبر 1996ء ميں 70 کلفٹن کے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو گولیوں سے بھون دیئے گئے کیونکہ وہ جناب آصف زرداری اور بے نظیر کے اقتدار کو چیلنج کر رہے تھے

بیگم نصرت بھٹو پر مرتضٰے بھٹو کی ہلاکت کا بہت اثر ہوا ۔ اُسے دبئی لے جا کر وہيں رکھا گيا اور نيند کے ٹيکے سالہا سال لگائے جاتے رہے بالآخر وہ اکتوبر 2010ء ميں اس دنيا کو چھوڑ کر سُکھی ہوئی

نومبر 1996ء ميں بينظير بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی اور آصف علی زرداری کو گرفتار کر ليا گيا ۔ آصف زرداری پر مرتضٰے بھٹو کے قتل اور کرپشن سميت 8 مختلف مقدمات تھے

نومبر 2004ء ميں آصف زرداری نے فوجی آمر جنرل پرويز مشرف کے ساتھ کچھ مُک مُکا کيا اور اُسے ضمانت پر رہا کر ديا گيا
اُنہی دنوں خبر پھيلی تھی کہ آصف علی زرداری اور بينظير بھٹو کے درميان ناچاقی [separation] ہو چکی ہے
چاہيئے تھا کہ آصف علی زرداری رہا ہو کر اپنے بيوی بچوں کے پاس جا کر رہتے مگر وہ امريکہ چلے گئے جس سے اس بات کو تقويت ملی کہ بينظير بھٹو اور آصف علی زرداری کے درميان عليحدگی ہو چکی ہے

نومبر 2007ء ميں بينظير بھٹو کو ہلاک کر ديا گيا ۔ اس قتل کی نہ تو آصف زرداری نے ايف آئی آر درج کرائی اور نہ کسی قسم کا ملکی عدالت ميں مقدمہ دائر کيا ۔ اُلٹا معاملہ کو طويل دينے اور عوام کو بيوقوف بنانے کی خاطر ايک بے معنی تفتيش اقوامِ متحدہ کے حوالے کر کے عوام کا لاکھوں ڈالر برباد کيا ۔ 4 سال ہونے کو ہيں جن ميں پونے 4 سال پيپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے اور ساڑھے 3 سال خود آصف علی زرداری صدر رہے ہيں مگر بينظير کے قاتلوں کی مناسب نشاندہی کيلئے کچھ نہيں کيا گيا

ذولفقار علی بھٹو کی چھوٹی بيٹی صنم بھٹو باپ کی جائيداد سے محروم پرديس ميں بيٹھی بمشکل اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات پورے کر رہی ہے

ذولفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو اور پوتا ذوالفقار جونيئر دادا کی ہر قسم کی وراثت سے محروم خوف ميں زندگی بسر کر رہے ہيں

کيا يہ حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہيں کہ آصف علی زرداری روحانی بيٹا ہيں ذوالفقار علی بھٹو کا ؟

کيا کوئی کسر باقی ہے ؟

قومی اسمبلی کے اکتوبر 2011ء کے آخری اجلاس میں پیش کی گئی آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2010ء-2011ء کی رپورٹ کے مطابق

نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ شروع ہوتے ہی 29 کروڑ روپے کی لگژری گاڑیاں خرید لی گئیں
ملک میں بجلی کی مانگ پوری کرنے کیلئے کرایہ کے بجلی گھروں کے 15 منصوبوں کی منظوری دی گئی جن سے 2700 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں آنا تھی لیکن سسٹم میں صرف 60 میگاواٹ بجلی آئی ۔ کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ حکومت نے اس سودے میں 16 ارب 62 کروڑ روپے پیشگی ادا کئے تھے
مُلک ميں بالخصوص کراچی میں کُنڈا سسٹم اور دوسرے ذریعے بجلی چوری ہو 32 فيصد ہے
فاٹا اور بلوچستان میں بجلی بلوں کی عدم ادائیگی ايک عام بات ہے
واپڈا میں 90 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیاں موجود ہیں
گزشتہ سال واپڈا کی مختلف بجلی کمپنیوں میں 5 کروڑ 10 لاکھ روپے کی چوریاں ہوئیں
گزشتہ سال کے دوران ملک گیر مہم میں 20 ہزار بجلی چوروں کے خلاف مقدمے درج کر لئے گئے مگر ؟

سال 2009ء-2010ء میں وزارت خارجہ میں 70 کروڑ روپے کی بدعنوانیوں کی نشاندہی کی گئی

دفاعی بجٹ میں 5 ارب 10 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں ۔ بُلٹ پروف جیکٹس خریدنے کا کام ایف ڈبلیو او [Frontier Works Organization] کو دیا گیا اس میں 42 کروڑ روپے سے زیادہ کا گھپلا ہوا
2007ء میں فوج کیلئے 27 ہزار میٹرک ٹن دال چنا کی خریداری کا ٹھیکہ ایسی جعلی فرم کو دیدیا گیا جس کا مالک جعل سازی کی وجہ سے
اُس وقت جیل میں بند تھا
1987ء میں پی اے ایف کی 2 خصوصی پروازیں فرانس اور امریکا سے بحریہ کا سامان لانے کی غرض سے بھیجی گئیں اس سودے میں پی اے ایف کو 25 لاکھ روپے کمیشن ادا کئے گئے تھے۔ 20 لاکھ روپے فلائٹ لیفٹیننٹ غلام عباس نے خورد برد کر لئے اور وہ مفرور ہیں

پی آئی اے کو مجموعی طور پر 28 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔ وزارت دفاع میں 18 سال سے ایک انکوائری چل رہی ہے اور فیصلہ
نہیں ہو رہا ۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے صرف سعودی عرب کے دفتر ميں پچھلے سال 15 کروڑ روپے کا غبن ہوا جس ميں ملوّث افسران کے خلاف انضباتی کاروائی کرنے کی بجائے اُنہيں ترقياں دے کر زيادہ اہم عہدوں پر فائز کر ديا گيا

سوئی ناردرن گیس کمپنی میں 20 ارب روپے کی لاگت سے 14 ہزار کلومیٹر گیس پائپ لائنز مقررہ حد تک نہیں بچھائی گئیں اور اس رقم سے حاصل 56 کروڑ 10 لاکھ روپے کا منافع اوگرا کو دیدیا گیا
سیندک میٹلز کو 7 کروڑ 30 لاکھ روپے کی رقم ایڈوانس دی گئی مگر کام نہیں ہوا
ایک کیس میں 1994ء [بينظير بھٹو کے دوسرا دور] میں آسٹریلوی کمپنی کو او جی ڈی سی نے 17 ملین ڈالر ایڈوانس دے کر ٹھیکہ دیدیا بعد میں او جی ڈی سی نے معاہدہ منسوخ کر دیا۔ صرف 6 ملین ڈالر کی رقم واپس آئی۔ 11 ملین ڈالر ڈوب گئے۔ اس کرپشن کا ریکارڈ نیب سے غائب کر دیا گیا
1995ء [بينظير بھٹو کے دوسرا دور] میں امریکی کمپنی پرائنڈ لے برانٹ کو تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کیلئے کسی بولی کے بغیر کام دے دیا گیا۔ 22 لاکھ 36 ہزار ڈالر خرچ ہوئے حاصل وصول کچھ نہ ہوا ۔ کیس نیب کے پاس گیا جو اب ریکارڈ ہی ميں موجود نہیں ہے
بدعنوانیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر پٹرولیم سے منسلک کمپنیوں کا گردشی قرضہ 344 ارب روپے تک پہنچ گیا جس میں پی ایس او کے 160 ارب روپے شامل ہیں

پاکستان میں کام کرنے والی موبائل فون کمپنیوں سے 40 ارب روپے کی ریکوری گزشتہ 15 سال سے زیرالتوا پڑی ہوئی ہے

صرف 8 برسوں میں سوئی ناردرن گیس کمپنی کا خسارہ ساڑھے 3 ارب روپے سے بڑھ کر 15 ارب روپے تک جا پہنچا جبکہ اس عرصے میں 62 ارب روپے کی گیس چوری کر لی گئی

نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے طورخم، جلال آباد شاہراہ کی تعمیر کیلئے حکومت سے ایک ارب روپے حاصل کئے تاہم اس روڈ کی تعمیر پر کوئی اخراجات نہیں کئے گئے

مشرف دور میں کراچی میں 22 کروڑ روپے کی لاگت سے سمندر میں فوارہ لگایا گیا جس کی لاگت 15 کروڑ روپے سے زائد نہ تھی بعد میں یہ فوارہ بھی چوری ہو گیا

پشاور اسلام آباد موٹروے کے دونوں جانب 40 کروڑ روپے کی خاردار تار چوری کر لی گئی جبکہ خار دار تار کا ایک ٹرک بھی چوری ہو گیا

صحت کے شعبے میں کروڑوں روپے کے بدعنوانیوں کی تحقیقات سرد خانے میں پڑی ہوئی ہیں ۔ آئين ميں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ شعبہ صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے اس لئے صحت کے شعبے میں کرپشن کی تحقیقات روک دی گئی ہے
پولی کلینک اسلام آباد میں 3 کروڑ 41 لاکھ روپے کی ادویات کی خریداری میں کرپشن کی گئی۔ نیب کے پاس کیس موجود ہے
مشرف دور کے صحت کے وزیر مملکت حامد یار ہراج نے پبلک اکاؤنٹس کميٹی میں انکشاف کیا تھا کہ 2002ء میں ناقص پولیو ویکسین بچوں کوفراہم کی گئی جس سے پولیو کی بیماری بڑھ گئی اور پولیو خاتمے کی مہم کامیاب نہ ہوسکی

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی 7 رپورٹس میں کرپشن کے 5499 کیسز کی تفصیلات موجود ہیں

اسلام آباد کی 100 ارب روپے مالیت کی 20 ہزار ایکڑ زمین قبضہ مافیا ميں چلی گئی
ریلوے کی 4231 ایکڑ اراضی قبضہ مافیا سے واگزار کرانے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں
حال میں ریلوے کے 3 پل چوری کر لئے گئے
واپڈا، ریلوے میں ملازمین کی ملی بھگت سے چوریاں ہو رہی ہیں
وزیراعظم گیلانی کے آبائی شہر میں سياسی ملتان پیکیج کیلئے ریلوے کی ایک ارب روپے مالیت کی 13.70 ایکڑ اراضی پر قبضہ کرلیا گیا

پارلیمانی احتساب میں 4 ارب روپے کے اين ايل سی [National Logistic Cell] سکینڈل میں ملوث 3 ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی ہوئی اور اب معاملہ جی ایچ کیو کے پاس ہے

ٹرانسپرنسی کی مداخلت پر کراچی، حیدرآباد موٹروے کی تعمیر سے متعلق کارکنوں کے بڑھاپے کی سکیم ای او بی آئی [Employees Old-age Benefit Institution] اور این ایچ اے کے درمیان 100 ارب روپے کی ڈیل روک دی گئی

2008ء-2009ء میں محکمہ ڈاک میں 85 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں
یہ سکینڈل بھی ریکارڈ پر ہے کہ ملازمین کی پنشن سے 10 کروڑ روپے ایک سال میں خورد برد کئے گئے تھے

1990ء میں پاسکو نے گندم ذخیرہ گودام کی رقوم لاہور کے پرتعیش ڈیفنس اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں رہائشی پلاٹ خریدنے پر خرچ کر ڈالی اور 6 رہائشی پلاٹ 42 کروڑ میں خریدے گئے

شعبہ ہاؤسنگ میں صرف اسلام آباد میں 703 سرکاری گھروں پرغیرقانونی قبضہ ہے
قومی اسمبلی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ذریعے غریب ملازمین کی جمع شدہ پونجی کے 2 ارب 78 کروڑ 69 لاکھ روپے کا خورد برد کیا گیا اور ملوث افراد کارروائی سے بچ گئے

ارکان پارلیمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں پر ایک کروڑ روپے کے منصوبے پر 30 سے 40 لاکھ روپے رشوت لی جاتی ہے

اس سال پاکستان سٹیل کا خسارہ بھی 104 ارب روپے تک ہے

کرپشن روکنے کیلئے نیب کا ادارہ بنایا گیا تھا۔ نيب نے بینظیر بھٹو کے خلاف بیرون ملک ذاتی مقدمات پر عوام پر ٹيکس سے حاصل کئے گئے 29 کروڑ روپے خرچ کئے اور نتیجہ صفر رہا۔ بیرونی ممالک میں قانونی فرموں کو لاکھوں ڈالر اور پاؤنڈ سٹرلنگ ادا کئے گئے مگر ریکارڈ دستیاب نہیں جن غیرملکیوں کو رقوم ادا کی گئیں ان کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں ہے

موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد نومبر 2009ء میں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین کی سربراہی میں کرپشن کے خاتمے کیلئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جسے 4 ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کیلئے کہا گیا تھا ۔ رپورٹ وزیراعظم کے احکامات کی منتظر ان کے دفتر میں 2 سال سے پڑی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کرپشن میں کچھ مگرمچھ ملوث ہیں جو کرپشن کر کے ملک کا پیسہ باہر بھیج رہے ہیں ان بڑے مگر مچھوں کو قابو کرنا ضروری ہے ۔ انتظامیہ اور بیورو کریسی کی وجہ سے کرپشن ختم نہیں کی جا سکتی ۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی تھی کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے آڈیٹر جنرل کو مکمل بااختیار بنانا ہوگا

پاکستان میں بدعنوانیوں اور کرپشن کے خاتمے کیلئے وفاقی سطح پر 7 ادارے کام کر رہے ہیں ان میں پارلیمانی احتساب کا سب سے بڑا ادارہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان، وفاقی محتسب اور وفاقی ٹیکس محتسب آئینی ادارے ہیں ۔ ان کے علاوہ پرائم منسٹر انسپکشن کمیشن اور ایف آئی اے جبکہ صوبوں میں انسداد بدعنوانی کے ادارے کام کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود کرپشن کا عفریت قابو نہیں آ رہا

سپریم کورٹ اور حکومت کے پاس یہ اطلاعات موجود ہیں کہ ملک کے 300 اہم سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے این آر او کے تحت 165 ارب
روپے کی بدعنوانیوں ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور غبن کے کیسز معاف کروا کر خود کو ”پاک“ کروایا۔ یہ سیاستدان اور بیورو کریٹس 5700 سے زائد افراد کی اس فہرست کا حصہ ہیں جو وزارت قانون نے چاروں صوبوں سے موصول ہونے کے بعد وزیراعظم گیلانی کو بھجوائی تھی

پرویز مشرف کی جانب سے اکتوبر 2007 میں این آر او جاری ہونے سے قبل 2121 کرپشن کیسز عدالتوں میں زیرسماعت تھے جبکہ نیب نے 368 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے تھے ۔ یہ وارنٹ واپس لینے کے ساتھ 394 سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کے خلاف تحقیقات ختم کر دی گئی اور اس کے بعد نیب کو بھی بے اختیار بنا دیا گیا

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں یہ بات کہی گئی کہ اگر ہمیں يہ پیسے مل جائیں تو معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے اور
ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں

بجلی کی کمی کيوں ؟

تين صوبوں ۔ سندھ [بشمول کراچی] ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اليکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات 30 سے 40 فیصد ہيں جس کی بڑی وجہ بجلی کی چوری ہے
صرف اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا الیکٹرک سپلائی کمپنیاں منافع میں جا رہی ہیں
اس طرح ملک میں بجلی سے متعلقہ مجموعی نقصان 20 سے 25 فیصد ہے جو اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا کی الیکٹرک سپلائی کمپنیوں سے بجلی حاصل کرنے والوں کو بلا قصور برداشت کرنا پڑ رہا ہے

گیس پر چلنے والے بجلی گھر [Power Plants] جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 1000 میگا واٹ سے زائد ہے وہ کام نہیں کر رہے ۔ فیصل آباد میں 210 میگا واٹ کا ایک پلانٹ گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑا ہے ۔ مظفرگڑھ ۔ گدو اور کوٹ ادُو میں واقع گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس گیس کی عدم دستیابی اور فاضل پُرزے [Spare Parts] نہ ملنے کی وجہ سے پوری صلاحیت کے مطابق نہیں چل رہے
رقم [cick-backs] کے ملوث ہونے کی وجہ سے رقوم [Funds] اور گیس، رینٹل پاور پلانٹس [Rental Power Plants] اور آئی پی پیز [Independent Power Producing Companies (IPPs)] کو فراہم کی جا رہی ہے
تیل پر چلنے والے دیگر پاور پلانٹس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے
حکمران سرکاری بڑے بجلی گھروں کو غيرمعياری [Sub-standard] ایندھن کی فراہمی میں ملوث ہیں اور معیاری ایندھن فراہم نہ کرنے سے مافیا بڑی رقم بنا رہا ہے

متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفے میں ملنے والا 200 میگا واٹ صلاحیت کا پلانٹ حکومت کی عدم دلچسپی اور رشوت [Kick-backs] کے مسائل کے باعث 2009ء سے اب تک فیصل آباد میں نصب نہیں ہو سکا

975 میگا واٹ بجلی کی صلاحیت والے 2 پاور پلانٹ 2008ء میں پی سی ون [P C-1] کی منظوری اور چینی کمپنی کو پیشگی 6 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود چیچو کی ملیاں اور نندی پور میں نصب نہیں کئے جا سکے جس کی وجہ سرکاری بجلی گھروں [Power Plants] کو رقم [Funds] کی عدم فراہمی ہے ۔ نندی پور منصوبہ کی مشینری 18 ماہ سے بے مقصد پڑی ہے جس کی وجہ سے منصوبہ کی قيمت بڑھتی جا رہی ہے ۔ چیچو کی ملیاں منصوبے کی مشینری تاحال درآمد نہیں کی گئی ۔ اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے تو ان سے پیداہونے والی بجلی آئی پیز پیز سے سستی ہوتی

حکومت گزشتہ ساڑھے 3 سالوں میں قومی گرِڈ میں صرف 122 میگا واٹ کرائے کی بجلی [Rental Power Plants] کا اضافہ کر سکی ہے
بہت سے قومی بجلی گھر [Public Sector Power Plants] جو گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑے ہیں رقم [Funds] کی کمی کے باعث کسی دوسرے ایندھن [Feul] پر بھی منتقل نہیں ہو سکتے

وفاقی حکومت نے 56 کروڑ 40 لاکھ ڈالر يعنی تقريباً 48 ارب روپے زرِ مبادلہ کے سرمائے سے کرائے کے بجلی گھر لئے ۔ متعلقہ 8 کمپنیوں کو موبیلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 25 ارب روپے ديئے گئے۔ 3 کمپنیوں سے عدالت نے 5 ارب روپے واپس دلوائے جبکہ 5 کمپنیوں سے ابھی بھی 20 ارب روپے واپس لینا باقی ہیں

کرائے کے بجلی گھروں کے سلسلے ميں عدالتِ عظمٰی ميں ہونے والی کاروائی يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

مزيد پھُرتياں

کے ای ایس سی نے 33 لاکھ روپے واجبات کی عدم ادائیگی پر قصر ناز اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کی بجلی منقطع کر دی
بعدازاں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے عملے نے غیر قانونی طور پر از خود بجلی بحال کرلی
ان دونوں مقامات سے کے ای ایس سی کو گزشتہ سال سے بل کی ادائیگی نہیں کی جارہی تھی
قصر ناز پر 22 لاکھ روپے اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پر 11لاکھ روپے کے واجبات ہیں

وزيرِ خارجہ حنا ربانی کھر کے خاوند فيروز گلزار نے اپنے کارخانے گليکسی ٹيکسٹائل ملز واقع جھنگ مادھوکی روڈ کا بجلی کا بل مبلغ 7 کروڑ روپيہ جون 2011ء سے ادا نہيں کيا ہوا تھا تو واپڈا نے ستمبر 2011ء ميں بجلی کاٹ دی جو کہ شديد سياسی دباؤ کے تحت 12 گھنٹے کے اندر بحال کر دی گئی

کامياب منصوبہ بندی

ہماری عوام دوست حکومت کی کامياب منصوبہ بندی کی چند جھلکياں

يکم جنوری 2011ء سے 30 ستمبر 2011ء تک 9 ماہ ميں 2400 افراد نے غُربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر خُود کُشی کی کوشش کی
ان 2400 ميں سے 800 افراد کو بچا ليا گيا مگر 1600 افراد جان سے ہاتھ دھو بيٹھے
يعنی اوسط روزانہ 6 افراد
51 فيصد شہری غُربت کا شکار ہيں
جس دن کنڈیارو [سندھ] کے راجا خان نے غُربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر اسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے اپنی جان دی اور ریلوے کے 68 سالہ محمود خان نے 4 ہزار 8 سو روپے کی پینشن کا دو ماہ تک انتظار کرنے کے بعد لاہور کی سڑک پر اپنی جان دی ۔ اسی روز پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئين ميں اٹھارويں ترميم کے تحت وزارتيں کم کرنے کی بجائے اس کی صريح خلاف ورزی کرتے ہوئے 4 نئی وزارتوں کی تشکیل کا اعلان کیا

سچائی ؟ ؟ ؟

ديکھيئے قبل اس کے کہ ويب سائٹ سے ہٹا دی جائے

1۔ لبيا پر قابض موجودہ حکمرانوں کا دعوٰی کہ معمر قذافی مقابلے ميں مارا گيا ۔
2 ۔ اتحادی فوجوں کے ترجمان کا دعوٰی کہ ہم نے قافلے کو نشانہ بنايا تھا ۔ ہميں عِلم نہيں تھا کہ اس ميں قذافی بھی ہے

گو مندرجہ بالا دعوے متضاد ہيں نيچے ديئے ربط پر وِڈيو سے معلوم ہوتا کہ دونوں دعوے غلط بھی ہيں
http://gawker.com/5851757/gaddafis-last-moments-caught-on-video

ايک قيدی کو ہلاک کرنا دُنيا کے کس قانون يا کس اخلاقی معيار کے مطابق درست ہے ؟

معمر قذافی کی منظر عام پر آنے والی نئی ویڈیو نے گذشتہ روز عبوری کونسل کے اس بیان کو تو یکسر غلط ثابت کردیا ہے کہ یہ لوگ دوران لڑائی مارے گئے۔ معمر قذافی کی گرفتاری کے فورا بعد کی ویڈیو کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ یہ ویڈیو ایک امریکی ویب سائٹ نے اپ لوڈ کی ہے

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح قذافی کو مارتے ہوئے لے جایا جا رہا ہے ۔ انہیں لاتیں اور گھونسے مارے جا رہے ہیں ۔ کچھ لوگ آوازیں بھی لگا رہے ہیں کہ جان سے نہ مارنا ۔ لیکن بالآخر قذافی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

اصل دُشمن

قساد بازاری کيوں ؟
ہم ہر روز بلاناغہ 3 ارب روپے کے نوٹ چھاپ رہے ہيں يعنی سال کے 365 دنوں ميں 10 کھرب 95 ارب [1095000000000] روپے کے نوٹ ۔ اس کا اثر يہ ہوتا ہے کہ روپے کی قدر کم ہوتی جاتی ہے اور عام استعمال کی اشياء مہنگی ہوتی چلی جاتی ہيں ۔ تو قساد بازاری [inflation] کيوں نہ ہو ؟ گيلپ پاکستان 27 جنوری 2011ء کے مطابق پاکستان کی کُل آبادی کے تين چوتھائی کی روزانہ آمدن 200 روپے يا اس سے کم ہے ۔ درميانے درجے کے لوگ غريب اور غريب غريب تر ہوتے چلے جاتے ہيں
يہ نوٹ کون چھپواتا ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

لوڈ شيڈنگ کيوں ؟
ہمارے قومی پاور کنٹرول سينٹر کے مطابق ملک ميں بجلی پيدا کرنے کی صلاحيت 18167 ميگا واٹ ہے جو کے ملک کی کُل طلب سے 10 فيصد زيادہ ہے ۔ چنانچہ مسئلہ بجلی پيدا کرنے کا نہيں بلکہ يہ ہے کہ پيپکو کا 2 کھرب 50 ارب [250000000000] روپيہ وفاقی حکومت ۔ فاٹا ۔ کے ای ايس ای ۔ حکومتِ بلوچستان و سندھ اور نجی اداروں کے ذمہ واجب الادا ہے ۔ اور پيپکو کے ذمہ واپڈا ۔ آئی پی پيز اور تيل اور گيس کے اداروں کا 1 کھرب 40 ارب [140000000000] روپيہ واجب الادا ہے ۔ ان واجبات کی عدم ادائيگی بجلی کمپنيوں کو پيداروار کم کرنے پر مجبور کرتی ہے اور پھر دھڑا دھڑ لوڈ شيڈنگ ہوتی ہے ۔ مُلکی صنعت تباہ ہوتی ہے اور مُلک مزيد خسارے ميں جاتا ہے
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کردہ سال 09-2010 کی رپورٹ کے مطابق واپڈا میں ایک سال کے دوران 90 ارب [90000000000] سے زائد کی کرپشن ہوئی اور 60 کروڑ [600000000] روپے سے زائد رقم قواعد و ضوابط کے برعکس خرچ ہوئی ۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے آڈٹ کئے بغیر ٹھیکے میں ايک ارب 17 کروڑ [1170000000] روپے سے زائد رقم ادا کی گئی ۔ 29 کروڑ [290000000] روپے کی لگژری گاڑیاں خریدی گئیں جن کی اصل قيمت سے 17 کروڑ [170000000] زائد خرچ کئے گئے ۔ ٹھیکیدارکو قواعد کے برعکس انشورنس کی مد میں 22 کروڑ [220000000] کی ادائیگی کی گئی
اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

پاکستان ريلوے کا حال
1 ۔ کُل 540 ڈيزل انجن ہيں جن ميں سے 384 چلنے کے قابل نہيں
2 ۔ کُل 16433 بوگياں ہيں جن ميں سے 8005 چلنے کے قابل نہيں
3 ۔ امريکا نے150 انجن خريد کرنے کيلئے 40 کروڑ ڈالر يعنی لگ بھگ ساڑھے 35 ارب روپے کی پيشکش کی ہے مگر ريلوے کے وزير غلام احمد بلور نے 50 انجن بھارت سے کرايہ پر لينے کا فيصلہ کيا ہے
4 ۔ پاکستان ريلوے کا خسارہ 40 ارب روپيہ ہے
اس گڑبڑ کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

پی آئی اے کا حال
1 ۔ فنی خرابی کے باعث 39 ميں سے 10 ہوائی جہاز اُڑنے کے قابل نہيں
2 ۔ مجموعی نقصان ايک کھرب [100000000000] روپے کو پہنچ رہا ہے
اس نا اہلی کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

حکومتی کارکردگی کا ايک اور سنگِ ميل
مختلف حکومتوں نے 1947ء سے 2008ء تک کُل 60 کھرب [6000000000000] روپے قرضہ ليا جبکہ موجودہ حکومت نے 2008ء سے شروع کر کے 3 سالوں ميں قرضہ 60 کھرب [6000000000000] روپے سے بڑھا کر 120 کھرب [12000000000000] تک پہنچا ديا ہے ۔ يعنی اس وقت پاکستان کا ہر مرد ۔ ہر عورت ۔ ہر بچہ اور ہر بچی 61000 روپے کا مقروض ہے ذرا سوچئے کہ اگر حکومتِ پاکستان اسی طرح قرض ليتی رہی تو نتيجہ کيا ہو گا ؟
اس عياشی کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی اصل دُشمن ہے

ماخذ ۔ ڈاکٹر فرخ سليم کا مضمون Enemy within و ديگر

واويلا اور حقيقت

دورِ جديد واويلے کا دور ہے ۔ جتنا زيادہ اور جتنا بلند آواز واويلا کيا جائے اتنا ہی کامياب رہتا ہے ۔ عصرِ حاضر کا تعليم يافتہ آدمی جو کمپيوٹر کے ذريعہ دنيا بھر کی تمام معلومات رکھنے کا اپنے تئيں بھرم رکھتا ہے وہ بھی اس واويلے کے سامنے ڈھير ہو جاتا ہے اور وہی آوازيں لگانا شروع کر ديتا ہے ۔ سياسيات تو ايک طرف اس واويلے سے ادارے اور عدالتيں بھی محفوظ نہيں

اگست 2010ء ميں صوبہ پنجاب کے شہر سيالکوٹ ميں دو بھائيوں مغيث اور منيب کو بر سرِ عام زد و کوب کيا گيا تھا جس کے نتيجہ ميں دونوں ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس پر صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے واويلا شروع ہوا جو سارے سندھ ميں پھيلنے کے بعد اسلام آباد ميں بھڑک اُٹھا تھا ۔ اسلام آباد کے ہلکارے اسے لے کر پنجاب کے شہر شہر ميں بھی تقسيم کرتے رہے تھے ۔ “اپنی مثال آپ” قائد نے تو فوجی کاروائی کا سنديسہ بھی دے ديا تھا

سيالکوٹ ميں مغيث اور منيب کی ہلاکت کے مقدمہ ميں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا جس کے مطابق 7 ملزموں کو چار چار بار سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ 6 ملزموں کو چار چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ سابق ڈی پی او وقار چوہان ۔ سابق ایس ایچ او رانا الیاس اور دیگر 7 اہلکاروں کو تین تین سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے ۔ کُل 28 ملزموں میں سے 22 کوسزا سنائی گئی ہے، 5 ملزم بری کئے گئے ہیں جبکہ ایک ملزم کی چند دن قبل دوران حراست طبعی موت واقع ہو گئی تھی

دوسری طرف صوبہ سندھ کے شہر کراچی ميں امن و امان کی حالت دِگرگُوں تھی اور سال بھر اُس وقت تک دِگرگُوں رہی جب تک عدالتِ عظمٰی کراچی ہی ميں نہ بيٹھ گئی مگر مُجرموں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی عمل ميں نہيں لائی گئی اور عدالتِ عظمٰی کے سامنے ٹسوے بہانے کئے جا رہے ہيں

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی ٹارگیٹ کلنگ ازخود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ بھتہ مافیا اب بھی سرگرم ہے ۔ عدالت میں ایس ایچ او کی روز مرہ کی تیار کردہ رپورٹ پیش کی جا رہی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہمیں نتیجہ خیز رپورٹ چاہيئے ۔ عدالت کو وہ رپورٹس نہیں چاہئیں جو آرمی میں سِک رپورٹس [Sick Reports] کہلاتی ہیں ۔ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ کتنے ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں ؟ اور کتنوں کو جیل بھیجا گیا ؟ اور کتنے مقدمات میں پیشرفت ہوئی ہے ؟ پولیس تمام سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے ۔ ہمیں اس طرح کی تفتیش چاہيئے جیسے سانحہ سیالکوٹ میں کی گئی ۔ 85 فیصد مقدمات میں درست خطوط پر تفتیش نہ ہونے کے باعث ملزمان بچ جاتے ہیں پولیس میں بھرتیوں کے عمل کو شفاف بنایا جائے