Category Archives: سیاست

حیف وہ قوم

“خلیل جبران کی روح سے معذرت کے ساتھ اور موجودہ حالات کے حوالے سے میں خلیل جبران کی نظم “حیف وہ قوم (Pity The Nation)” میں مندرجہ ذیل اضافہ کروں گا” ۔ ۔ ۔ یہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالتِ عظمٰی کے تفصیلی فیصلہ میں تعارفی جملہ ہے بند 3 کا جو جسٹس آصف کھوسہ کی 6 صفحات پر مشتمل اضافی تحریر کا حصہ ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے بقایا بند 3 کا ترجمہ ۔ مکمل اضافی تحریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور عدالتِ عظمٰی کے پورے بنچ کا فیصلہ یہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

حیف وہ قوم جو مذہب کے نام پر قومیت حاصل کرے لیکن مذہب کی بنیاد سچ ۔ دیانتداری اور احتساب کو اہمیت نہ دے

حیف وہ قوم جو جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دے لیکن اسے صرف ووٹ ڈالنے کیلئے قطار لگانے تک محدود رکھے اور جمہوری اقدار کی حوصلہ شکنی کرے

حیف وہ قوم جس کی تعظیم کا معیار حصولِ مقصد اور اعلٰی عہدہ و اختیار ہو

حیف وہ قوم جو اخلاقی معیار کو حقارت سے نطر انداز کرے اور دنیاوی مفاد کی پرورش کرے

حیف وہ قوم جو مُجرم کو غازی اور مہذب آدمی کو کمزور سمجھے

حیف وہ قوم جو دانا آدمی کو بیوقوف سمجھے اور مکّار آدمی کی تعظیم کرے

حیف وہ قوم جو آئین تو منظور کرے لیکن سیاسی مفاد کو آئینی ترجیحات پر بھاری رکھے

حیف وہ قوم جو سب کیلئے انصاف کا مطالبہ تو کرے لیکن جب انصاف اُس کی سیاسی وابستگی پر اثرانداز ہو تو طیش میں آ جائے

حیف وہ قوم جس کے ملازم اپنے آئینی حلف کو صرف عہدہ سنبھالنے کا ذریعہ سمجھیں

حیف وہ قوم جو اپنے رہنما کا انتخاب بطور نجات دہندہ کرے لیکن توقع رکھے کہ وہ تمام قوانین کو اپنے حواریوں کی خاطر توڑے مروڑے

حیف وہ قوم جس کے رہنما قانون کی حکمرانی کی خاطر قربانی دینے کی بجائے عدالت کی حُکم عدولی کر کے شہید بننا چاہیں

حیف وہ قوم جس کے رہنما جُرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں

حیف وہ قوم جس کی رہنمائی قانون کا مذاق اُڑانے والے کریں اور اُنہیں احساس نہ ہو کہ بالآخر قانون اُن پر ہنسے گا

حیف وہ قوم جو قانون کی حُکمرانی کیلئے تحریک تو چلائے لیکن جب اس کے بڑے قانون کی گرفت میں آنے لگیں غُل غپاڑہ مچائے

حیف وہ قوم جو عدالت کے فیصلے سیاسی عینک سے دیکھے اور عدالت کی بجائے عدالت سے باہر وکالت کے جوہر دکھائے

حیف وہ قوم جو کمزور اور غریب کو سزا دے لیکن اپنے طاقتور اور بلند مرتبہ لوگوں کا حساب لینے سے شرمائے

حیف وہ قوم جو قانون کے سامنے مساوات کیلئے شور مچائے لیکن مفاد پرستانہ فیصلے اُنہیں محبوب ہوں

حیف وہ قوم جو دماغ کی بجائے دل سے رہنمائی لے

واقعی حیف وہ قوم جو بد معاشی یا کمینگی اور عالی مَنشی میں امتیاز نہ کر سکے

سرائیکی صوبہ ۔ حقیقت یا فریب کاری ؟

صدر ۔ وزیر اعظم صاحب اور اُن کے حواریوں نے سرائیکی صوبہ کا واویلا اس قدر مچا رکھا ہے جیسے سرائیکی صوبہ بننے سے پاکستانیوں کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی ۔ بجلی دُور دراز ہر گاؤں کو ملنے لگے گی ۔ بجلی ۔ پٹرول ۔ گیس اور دیگر اشیاء ضروریہ اتنی ارزاں ہو جائیں گی کہ غریب مزدور بھی نہال ہو جائیں گے

البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسا صوبہ جس کیلئے اُس علاقے کے مکینوں نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی وہ ان صاحبان کا محبوب کیوں بن گیا ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ اس شور شرابے سے عوام کی توجہ اپنی نا اہلی اور بدعنوانیوں سے ہٹانے کی کوششِ لاحاصل کر رہے ہیں ۔ ہزارہ صوبہ جس کیلئے وہاں کے مکینوں نے جلوس نکالے اور کراچی تک جا کر جلسے بھی کئے اُس کا نام نہیں لیا جا رہا ۔ یا پھر ان کے پاس پنجاب حکومت کے خلاف کچھ اور نہیں رہ گیا تو یہی سہی

اگر انتظامی بہتری کیلئے چھوٹے صوبے بنانا ضروری ہوں تو الگ بات ہے لیکن لسانی بنیادوں پر ایک نیا صوبہ اگر بنا دیا گیا تو پھر مزید صوبوں کیلئے اُٹھنے والی آوازوں کو کون روکے گا ؟ مزید یہ کہ سرائیکی بولنے والے صرف صوبہ پنجاب میں نہیں رہتے بلکہ خیبر پختونخوامیں ڈیرہ اسمٰعیل خان اور صوبہ سندھ میں پنجاب کی سرحد سے شکارپور تک سرائیکی علاقہ ہے ۔ اگر بنیاد سرائیکی ہے تو پھر ڈیرہ اسمٰعیل خان اور شکار پور تک کا سارا علاقہ بھی اس نئے صوبے میں شامل ہونا چاہیئے

اگر تاریخی حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بہاولپور کا علاقہ پاکستان بننے سے قبل ایک علیحدہ ریاست تھی جس کے پاکستان میں شامل ہونے کے وقت اس علاقے کا علیحدہ تشخص قائم رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا ۔ بہاولپور کا علاقہ 19 اپریل 1951ء کو ایک صوبہ قرار دیا گیا ۔ 1952ء میں وہاں اسی بنیاد پر انتخابات ہوئے اور صوبائی حکومت قائم ہوئی ۔ پاکستان کے آئین کا جو مسؤدہ 1954ء میں تیار ہوا اُس میں بھی بہاولپور کو ایک علیحدہ صوبہ دکھایا گیا تھا ۔ 1955ء میں وَن یونٹ (One Unit) کا اعلان کر کے بہاولپور کو مغربی پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا مگر اُس وقت بھی بہاولپور کو ایک وفاقی اکائی (Federal Unit) ظاہر کیا گیا تھا ۔ 1970ء میں فوجی آمر نے سیاسی رہنماؤں بشمول ذوالفقار علی بھٹو کے دباؤ میں آکر مغربی پاکستان کے 4 صوبے بنائے اور بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنا دیا ۔ اس کے بعد سے وہاں کے مکین گاہے بگاہے علیحدہ صوبہ بہاولپور کیلئے آواز اُٹھاتے رہے ہیں مگر وہ پنجاب سے علیحدہ ہو کر بہاولپور کی بجائے کسی اور صوبے کا حصہ نہیں بننا چاہتے

صدر ۔ وزیر اعظم اور پی پی پی کے وزراء بار بار آئین کی حکمرانی کا دعوٰی کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 239 (4) کے مطابق کسی صوبے کی حدود بدلنے کیلئے لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی کم از کم دو تہائی اکثریت مجوزہ تبدیلی کی منظوری دے ۔ متعلقہ صوبہ پنجاب ہے جہاں پی پی پٌی کے پاس ایک تہائی نشستیں بھی نہیں ہیں ۔ پی پی پی کے بڑے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی سرائیکی صوبے کا شور مچائے جا رہے ہیں ۔ اس طرح مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟

سرائیکی لوگوں نے جو ابھی تک سرائیکی علاقہ میں مقیم ہیں بتایا کہ اگر سرائیکی علاقہ کے مکینوں کی رائے لی جائے تو علیحدہ صوبے کے حق میں بہت ہی کم رائے آئے گی ۔ جو چند لوگ سرائیکی صوبے کا راگ الاپ رہے ہیں اُس کا سبب یہ ہے کہ پچھلی آدھی صدی میں رُکن اسمبلی یا وزیر بن کر جتنا وہ لوٹتے رہے ہیں وزیر اعلٰی اور گورنر بن کر اور زیادہ لوٹنے کے خواہشمند ہیں اور عوام کو اپنا غلام بنانے کی سوچ رہے ہیں

زمینی حقائق کے مطابق مجوزہ سرائیکی صوبہ میں قدرتی وسائل بہت کم ہوں گے ۔ صنعت مفقود ہے ۔ اس کی آمدن صرف زرعی پیداوار ہو گی جو کہ بہت کم ہے ۔ چنانچہ اس مجوزہ صوبے کے عوام خوشحال ہونے کی بجائے مزید بدحال ہو جائیں گے ۔ آخر کیا بات ہے کہ حکمرانی کے 4 سال گذرنے کے بعد زرداری کو اچانک یہ صوبہ بنانے کا خیال آیا ؟ اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں

1 ۔ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی جنہوں نے زرداری کو گدی نشین کیا ۔ اُنہوں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعد کراچی کا حال تو خراب کر ہی رکھا ہے ۔ اب پنجاب باقی رہتا ہے جو ہے بھی اصل خطرے کا سبب کیونکہ ایٹم بم اور فوجی ہیڈ کوارٹر دونوں پنجاب میں ہیں

2 ۔ تاریخ کی ستم ظریفی کے تحت مجوزہ صوبہ کے لوگوں کی خصلت میں وڈیروں کی تابعداری شامل ہو چکی ہے چنانچہ چند وڈیروں کو فائدہ پہنچا کر یہاں کی آبادی کو غلام بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد معاشی بدحالی کو دُور کرنے کا لالچ دے کر مجوزہ صوبے کو صوبہ سندھ کے ساتھ ملا کر دریائے سندھ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ راوی ۔ چناب اور جہلم پر پچھلی حکومت کی مہربانی سے بھارت کئی ڈیم بنا چکا ہے اور ایک اور بڑا ڈیم (بگلیہار) موجودہ حکومت کی مہربانی سے تیار ہونے کو ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پنجاب پانی سے محروم ہو کر دوسرے صوبوں کے سامنے بھکاری بن سکتا ہے ۔ گیلانی جیسے رہنما جو مُلک سے زیادہ آقا کے خیر خواہ ہیں کی موجودگی میں یہ عمل بہت آسان ہو گا

3 ۔ ایم کیو ایم زرداری اینڈ کمپنی کے پاؤں میں چُبھنے والا ایسا کانٹا ہے جسے فی الوقت نکالنا خطرناک ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مجوزہ صوبہ کو صوبہ سندھ میں شامل کر کے ایم کیو ایم کی حیثیت اقلیتی بنائی جا سکتی ہے اور اس کانٹے کو نکال پھینکا جا سکتا ہے

مندرجہ بالا منصوبہ پر عمل کرنے کے بعد زرداری قائدِ سندھ بن سکتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد گدی نشین ہو سکتی ہے

(مندرجہ بالا مضمون اس سلسلے میں شائع ہونے والے متعدد تجزیوں کا خلاصہ ہے)

اللہ وہ وقت نہ لائے کیونکہ وہ وقت محبِ وطن پاکستانیوں بالخصوص پنجابیوں اور مہاجروں کیلئے بہت بُرا دن ہو گا اور سب سے بڑھ کر اس مُلک پاکستان کیلئے بُرا ہو گا جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے جان و مال کی بے بہا قربانیاں دیں تھیں اور ہم لوگ لُٹے پُٹے قافلوں میں اپنے گھروں اور اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو پیچھے چھوڑ کر اس وطن کو آباد کرنے آئے تھے

زندہ رہے گا پاکستان تو زندہ رہے گا
اِن شاء اللہ پاکستان زندہ رہے گا
یہ مُلک پاکستان جو کُل کائنات کو پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے والے اللہ وحدہُ لا شریک لہ نے ہمیں عطا کیا تھا وہی اس کی حفاظت کرے گا

بلی کھمبا نہيں نوچتی

ایک نہایت اہم خبر جس کا تعلق ڈاکٹر سلیم اختر سے ہے جنہیں بلی نے کاٹ لیا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے ۔ اردو کے ممتاز نقاد ۔ ماہر اقبالیات ۔ افسانہ نگار اور اردو کی مختصر ترین تاریخ کے مؤلف ۔ انہوں نے مجھے فون پر بتایا کہ ایک کالی بلی ان کے گھر میں گھس آئی اور اس نے ان کے باورچی خانے کو اپنا باورچی خانہ سمجھنا شروع کردیا چنانچہ اسے پکڑنے کے لئے ساری کھڑکیاں دروازے بند کردئیے گئے اور آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ جب سارے راستے مسدود کردئیے جائیں تو بلی پنجہ تومارتی ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب اگرچہ بلی کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے مگر اس نے جاتے جاتے موصوف کی انگلیاں فگار کرڈالیں ۔ سو آج کل ڈاکٹر صاحب ٹیکے لگوارہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی احساس ہونا چاہئے تھا کہ اب ان کی عمر”بلیوں“ کے پیچھے بھاگنے کی نہیں، اللہ اللہ کرنے کی ہے لیکن وہ غلطی کر بیٹھے اور اب کسی کو بتاتے بھی نہیں ۔ صرف مجھے بتایا کہ جانتے ہیں کہ میں اس طرح کی بات آگے نہیں کیا کرتا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد از جلد صحت یاب کرے تاہم ڈاکٹر صاحب کو چاہئے کہ اگر بلی کو بھی ٹیکوں کی ضرورت ہے تو اپنی جان کے صدقے میں اسے بھی لگوادیں ،رام بھلی کرے گا

یہ جو خبر میں نے آپ کو سنائی ہے اس سے ایک نتیجہ بھی نکلتا ہے اور وہ یہ کہ بلی کی طرح کسی سیاسی جماعت کو بھی اتنا زچ نہیں کردینا چاہئے کہ وہ پنجہ مارنے پر مجبور ہوجائے ۔ امید ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ اس نکتے پر ضرور غور کرے گی

عمران خان اور ان کے دوستوں کو ایک مفت مشورہ ضرور دینا چاہتا ہوں جس پر عمل کرنے سے انہیں ثواب دارین حاصل ہوگا اور وہ یہ کہ عمران خان کے کسی بھی اقدام کا موازنہ کسی بھی صورت اور کسی بھی شکل میں اللہ کے آخری رسول اور صحابہ کرام کے کسی عمل کے ساتھ نہ کیا جائے کہ ”چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک”

دوسرا مشورہ(یہ بھی سنّت ہے) کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال نہ کریں کہ یہ ہسپتال قوم نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہے ۔ چنانچہ بار بار اس کے تذکرہ سے اس اعلیٰ درجے کے فلاحی کام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ نیز کل کلاں ڈاکٹر امجد ثاقب بھی میدان میں آجائیں گے جو غریب عوام کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کے لئے اپنی تنظیم کی طرف سے ابھی تک ایک ارب روپے تقسیم کرچکے ہیں ۔ جنرل(ر) مقبول میر بھی سیاست میں آنے کی سوچیں گے کہ جن کے فائیو اسٹار سطح کے سکول میں رکشہ ڈرائیوروں ۔ مالیوں اور گھریلو ملازموں کے بچے ایچی سن کالج ایسے ماحول میں نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ انہیں اعلیٰ درجے کا یونیفارم اور کتابیں بھی مفت دی جاتی ہیں ۔ ان جیسے سینکڑوں اور بھی پاکستانی ہیں جنہوں نے اس طرح کی نیکیاں کرکے دریا میں ڈال دی ہیں اور اس کا اجر اقتدار کی صورت میں نہیں صرف روز حساب نجات کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں

ایک مشورہ اور…اور وہ یہ کہ پاکستان کے لئے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو سلام لیکن اس سلام کے کچھ بچے کھچے حصے ان کھلاڑیوں میں بھی راہ مولا نذر حسین تقسیم کردیں جو اس جیت میں برابر کے شریک تھے ۔ اسی طرح شارجہ کے میدان میں آخری بال پر جاوید میاں داد کے چھکے کو بھی یاد رکھیں اور کبھی کبھی اس کی داد بھی دے دیا کریں کہ کہیں ایک دن جاوید میاں داد بھی اس چھکے کے صدقے میں اقتدار کا طالب نظر نہ آئے

اور آخر میں صرف ایک مشورہ اور…اور وہ یہ کہ اگر کوئی مجھ ایسا بے وقوف اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی کسی جماعت سے اختلاف کرے اور لوگوں کو خبردار کرنے کی کوشش کرے تو اسے برداشت کرلیا کریں اور اس پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع نہ کریں

یہ درخواست محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے علاوہ عرفان صدیقی ، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، مہر بخاری، ثناءبُچہ، حامد میر، جاوید چودھری، ابصار عالم، سلیم صافی اور دوسرے اینکر پرسنز کی طرف سے بھی ہے کہ یقین رکھیں یہ سب لوگ بھی ملک و قوم کی خیر خواہی میں جس بات کو صحیح سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں…اور وہ لوگ بھی ملک و قوم کے خیر خواہ ہیں جو تحریک انصاف اور اس کے لیڈر کو پاکستانی قوم کا نجات دہندہ سمجھ کر دامے درمے سخنے اس کی مدد کررہے ہیں، سوائے اسٹیبلشمنٹ کے کہ پاکستان میں کوئی مقبول سیاسی جماعت انہیں”وارا“ نہیں کھاتی اور وہ ان کا زور توڑنے میں لگی رہتی ہے

تحرير ۔ عطا الحق قاسمی

مقتدر کون اور استثنٰی کس کو ہے ؟

کچھ عرصہ سے حکمران کہہ رہے ہيں کہ پارليمنٹ مقتدر [sovereign] ہے ۔ جواز يہ پيش کيا جاتا ہے کہ آئين کی تشکيل اور ترميم پارليمنٹ کرتی ہے ۔ مطلب يہ ہوا کہ سب کو پارليمنٹ کی اطاعت يا تابعداری کرنا ہو گی

اس تصور يا بيان کی عملی صورت پر غور کيا جائے تو بات يوں بنتی ہے کہ پارليمنٹ يعنی اس کے ارکان کی اکثريت جو فيصلہ کر دے وہ اٹل ہے اور سب اس فيصلے پر عمل کے پابند ہوں گے ۔ گويا پارليمنٹ اگر کوئی فيصلہ ملک يا عوام کے خلاف بھی کر دے تو عوام اُسے ماننے کے پابند ہوں گے ۔ کيا يہ عقل ميں سمو سکتا ہے ؟

دوسری بات جو کہی جا رہی ہے يہ ہے کہ صدر کسی بھی معاملہ ميں کسی بھی عدالت کو جواب دہ نہيں ہے يعنی وہ کوئی بھی جرم کرے اُس کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہيں کی جا سکتی

گويا صدر چاہے ڈاکہ ڈالے يا قتل کرے تو بھی اُسے کچھ نہ کہا جائے ۔ پھر پرانے زمانہ کی بادشاہت اور دورِ حاضر کی جمہوريت ميں کيا فرق ہے ؟

آئين کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آئين ميں کچھ باب ايسے ہيں کہ جنہيں پوری پارليمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کيا ہوا ہے ۔ يہ باب آئين کی بنياد يا اساس ہيں اور انہيں تبديل نہيں کيا جا سکتا ۔ ان ميں سے چند شقات درج ذيل ہيں

آئين کی تابعداری ہر شخص [خواہ وہ وزيرِ اعظم يا صدر ہی ہو] کی ناقابلِ خلاف ورزی ذمہ داری ہے [شق 5 ۔ 1 ]

5. Loyalty to State and obedience to Constitution and law.
(1) Loyalty to the State is the basic duty of every citizen.
(2) Obedience to the Constitution and law is the inviolable obligation of every citizen wherever he may be and of every other person for the time being within Pakistan.

اردو کيلئے ديکھيئے صفحہ 4 کا عکس

باب اول ۔ بنيادی ۔ آئين کی شق 25 [1] کے تحت تمام شہری قانون کی نظر ميں برابر ہيں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہيں ۔

25. Equality of citizens.
(1) All citizens are equal before law and are entitled to equal protection of law.

[اُردو کيلئے ديکھيئے صفحہ 15کا عکس]

آئين کی شق 2 الف بھی ناقابلِ خلاف ورزی ہے جس ميں قرار دادِ مقاصد کو آئين کا بنيادی جزو بتايا گيا ہے ۔ اس کے مطابق تمام قوانين اور طرزِ زندگی اللہ کے احکام کے تابع قرار ديا گيا ہے ۔ [اُردو کيلئے نيچے ديکھيئے صفحات 1 ۔ 2 اور 3 کے عکس]

2A. The Objective Resolution to form part of substantive provisions.
The principles and provisions set out in the Objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly.

ANNEX [Article 2(A)] The Objectives Resolution

Whereas sovereignty over the entire universe belongs to Allah Almighty alone and the authority which He has delegated to the State of Pakistan, through its people for being exercised within the limits prescribed by Him is a sacred trust;

This Constituent Assembly representing the people of Pakistan resolves to frame a Constitution for the sovereign independent State of Pakistan;

Wherein the State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice as enunciated by Islam shall be fully observed;

Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and the Sunnah;

Wherein adequate provision shall be made for the minorities to profess and practice their religions and develop their cultures;
Wherein the territories now included in or in accession with Pakistan and such other territories as may hereafter be included in or accede to Pakistan shall form a Federation wherein the units will be autonomous with such boundaries and limitations on their powers and authority as may be prescribed;

Wherein shall be guaranteed fundamental rights including equality of status, of opportunity and before law, social, economic and political justice, and freedom of thought, expression, belief, faith, worship and association, subject to law and public morality;

Wherein adequate provisions shall be made to safeguard the legitimate interests of minorities and backward and depressed classes;

Wherein the independence of the Judiciary shall be fully secured;

Wherein the integrity of the territories of the Federation, its independence and all its rights includ-ing its sovereign rights on land, sea and air shall be safeguarded;

So that the people of Pakistan may prosper and attain their rightful and honored place amongst the nations of the World and make their full contribution towards international peace and progress and happiness of humanity.



يہ بھی پڑھ ليجئے “صدارتی عہدے کی اہليت کے متعلق درخواست ۔ عدالت نے امريکی صدر اوبامہ کو طلب کر ليا

مسٹر کلِين ؟ ؟ ؟

جنرل ريٹائرڈ پرویز مشرف پاکستان کے مسٹر کلین [دیانتدار شخص] ہونے کے دعویدار ہیں ۔ ريٹائر ہونے سے کچھ پہلے پرویز مشرف نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیا تھا کہ ان کا تعلق ایک غریب خاندان سے تھا ۔ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کے چند ماہ بعد پرویز مشرف نے اپنے اثاثے ظاہر کئے تھے جن کے مطابق ان کے پاس بمشکل ہی نقد رقم اور ملک کے مختلف حصوں میں چند پلاٹ تھے

اب پرویز مشرف پاکستان میں موجود اپنے ذاتی ملازمین کو کم از کم 500000 روپے ماہانہ تنخواہ ادا کر رہے ہیں

مزيد پرویز مشرف نے غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹس کے علاوہ غير ممالک میں سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔ پرویز مشرف اور صہبا مشرف کے 8 مشترکہ اکاؤنٹ ہيں جن میں علی الترتيب
17000000 اماراتی درہم
535000 امريکی ڈالر
7600000 اماراتی درہم
8000000 اماراتی درہم
8000000 امريکی ڈالر
8000000 اماراتی درہم
8000000 اماراتی درہم
اور 130000 امريکی ڈالر موجود ہيں

مزيد دبئی کی ایک آن لائن ٹریڈنگ سروس میں پرویز مشرف نے گزشتہ سال کے وسط میں 1600000 ڈالر کی سرمایہ کاری کی

يہ عِلم ميں آنے والے اثاثے صرف متحدہ عرب امارات ميں ہيں
پاکستان ۔ امريکا ۔ برطانيہ يا دوسرے ممالک کے اثاثے اس کے علاوہ ہوں گے
پاکستان اور دوسرے ممالک ميں عالی شان مکانات بھی ہيں

تفصيلات يہاں اور يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہيں

پيپلز پارٹی اور نصرت بھٹو

ايک کھلنڈرا نوجوان قائدِ عوام کيسے بنا ؟
پيپلز پارٹی کس کا تخيل تھا ؟
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پيپلز پارٹی کيونکر قائم رہی ؟
بينظير کو سياست کس نے سکھائی ؟
مرتضٰے بھٹو کيوں قتل ہوا ؟

ميں اپنی پرانی ڈائريوں سے اس پر حقائق کافی حد تک جمع کر چکا تھا کہ ايک مختصر مگر جامع مضمون اسی کے متعلق شائع ہو گيا جو ميری معلومات سے ملتا جُلتا ہے ۔ ملاحظہ فرمايئے

میرا اُن کی شخصیت کے ساتھ پہلا تعارف روزنامہ مساوات میں کام کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کی وساطت سے ہوا۔ وہ اُن دنوں اس ادارے کی چیئرپرسن تھیں اور اُس کے معاملات میں دلچسپی لیتی تھیں۔ ایک روز میں نے اپنے ایک واقفِ کار سے جواسی اخبار میں کام کرتے تھے ۔ بیگم صاحبہ کے مزاج اُن کے رویوں کے بارے میں پوچھا تو اُس نے میری توقع کے بالکل برعکس اُن کی تعریف و توصیف شروع کر دی ۔ مجھے اُن کی باتیں سن کر حیرت انگیز خوشی ہوئی اور میں نے بیگم صاحبہ کی شخصیت کا بھٹو صاحب کی شخصیت سے ہٹ کر مطالعہ شروع کر دیا

اصفہان میں نصرت ایک امیر تاجر کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ اُن کے والد کراچی منتقل ہونے کے بعد صابن سازی کا کارخانہ چلانے لگے۔ ایران کے حوالے سے اس خاندان کے تعلقات اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید سے قائم ہوئے جنہوں نے آگے چل کر نصرت اور بھٹو کو شادی کے بندھن میں پرو دیا ۔ اس طرح جوان سال بھٹو جو امریکہ سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان آئے اُن کے بیگم نصرت بھٹو کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں صدر اسکندر مرزا سے مراسم پیدا ہوئے جن کی بدولت وہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد میں شامل کر لیے گئے۔

نصرت بھٹو اپنے شوہر کو سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار کر رہی تھیں۔ صدر اسکندر مرزا کے ذریعے مسٹر بھٹو جنرل ایوب خان سے متعارف ہوئے۔ جب اکتوبر 1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو وہ لندن میں تھے۔ انہیں کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت آئی تو نصرت بھٹو نے اُنہیں یہ دعوت قبول کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ اُنہی کے اصرار پر وہ کابینہ میں شامل ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے میں اُن کی اہلیہ نے ایک خاموش مگر انتہائی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا جبکہ وہ خود تاریخ کی آنکھ سے چھپی رہی تھیں۔ مسٹر بھٹو ایوب خان کے دور میں وزیرِ خارجہ بنے اور بڑی شہرت پائی۔

اس دوران عائلی زندگی میں کئی نشیب و فراز لیکن نصرت بھٹو نے بڑی دانائی اور فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کیا نہ اپنی جداگانہ شخصیت کا امیج بنانے کی ذرہ برابر کوشش کی۔ ان کی تمام تر توجہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر مرکوز رہی اور اُن کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بھٹو صاحب عالمی سطح پر بلند پایہ لیڈر کے طور پر پہچانے جائیں اور پھر معاہدہٴ تاشقند کا سخت مرحلہ پیش آیا اور آخر کار صدر ایوب خان اور وزیرِ خارجہ زیڈ اے بھٹو کے راستے جدا ہو گئے اور وہ کابینہ سے نکال دیے گئے۔

آٹھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد اُن کے لیے یہ ایک سخت جاں مرحلہ تھا جس میں بیگم نصرت بھٹو نے اُنہیں دلاسہ دیا اور بدلتے ہوئے ملکی حالات کے پیشِ نظر اپنی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا چنانچہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور تین سال کے اندر
پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد ازاں وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہونے میں کامیاب رہے۔

بیگم نصرت بھٹو کا پیپلز پارٹی کی تشکیل میں سب سے قابلِ قدر کارنامہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اس میں خواتین کا ونگ قائم کیا تحصیل اور ضلع کی سطح پر انتخابات کرائے اور کارکنوں نے اُنہیں قومی سطح پر باقاعدہ منتخب کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں جمہوریت کی علمبردار اور اسے سیاسی جماعتوں کے اندر نچلی سطح تک رائج کرنے کی زبردست حامی تھیں۔ اسی ونگ کے ذریعے اُنہوں نے بہت سا فلاحی کام کیااور عام لوگوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا کی۔ اُن کے ہاں محبت اور خیر خواہی کا جذبہ گہرا اور ہمہ گیر تھا۔ وہ 1973ء سے 1977ء تک پاکستان کی خاتونِ اوّل رہیں مگر خود نمائی سے پرہیز کیا اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ وہ ہر صبح ناشتے کی میز پر مسٹر بھٹو سے ملکی اور عالمی حالات پر تبادلہٴ خیال کرتیں لیکن امورِ ریاست میں مداخلت سے پرہیز کرتی رہیں۔

وہ اپنے شوہر کو سیاسی تقویت پہنچانے کے ساتھ ساتھ اب اپنی بیٹی بے نظیر کی تعلیمی اور ذہنی تربیت پر توجہ دے رہی تھیں جو مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم تھیں۔

1977ء میں حالات نے ایک بہت بڑا پلٹا اُن کے شوہر کی حکومت ختم ہو گئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ مسٹر بھٹو گرفتار کر لیے گئے اور پیپلز پارٹی کو کڑی آزمائش نے آ لیا۔ اس انتہائی نازک موقع پر بیگم نصرت بھٹو نے غیر معمولی تدبر تحمل اور فولادی عزم کا ثبوت دیا۔ اُن کی چھپی ہوئی صلاحیتیں بے پناہ توانائیوں کے ساتھ اُجاگر ہوئیں اور اُنہوں نے ظلم اور جبر کا ہر وار بڑی بہادری اور مردانگی سے برداشت کیا اور لازوال جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کی شمع روشن رکھی۔ مسٹر بھٹو پر جب قتل کا مقدمہ چلنا شروع تو بیگم صاحبہ نے عدالتوں میں بھی
بڑے حوصلہ مندی سے جنگ لڑی اور سیاسی میدان میں ایک شیر کی طرح غاصبوں پر جھپٹی رہیں۔ اُنہوں نے قائدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا اور عوام کے ساتھ اُنہوں نے جو ایک گہرا تعلق پہلے سے پیدا کر رکھا تھا اس کے ذریعے کارکنوں کے اندر مزاحمت کی روح پھونکی اور اُنہیں فوجی آمریت کے مدمقابل ایک مضبوط سیاسی قوت میں ڈھال دیا۔ مسٹر بھٹو کی پھانسی کا صدمہ بھی اُنہوں نے اس طرح برداشت کیا جیسے وہ ہمت و عزیمت کی ایک ناقابلِ تسخیر چٹان ہوں۔

اُن کی فہم و فراست کا سب سے بڑا شاہکار یہ تھا کہ اُنہوں نے اُن تمام عناصر کو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں اپنے ساتھ شامل کیا جنہوں نے پی این اے میں مسٹر بھٹو کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ اُنہیں سرطان کا مرض لاحق ہو چکا تھا اس کے باوجود اُنہوں نے تحریکِ مزاحمت کی قیادت کی۔ سندھ میں ایم آر ڈی ناکام رہیلیکن جنرل ضیاء الحق پر اس قدر دباوٴ بڑھا کہ انہیں انتخابات کرانا پڑے اور یہی انتخابات آگے چل کر 1988ء کے انتخابات پر منتج ہوئے جس میں پیپلز پارٹی نے قومی سطح پر واضح کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی بیگم نصرت بھٹو کی رہینِ منت تھی مگر اُنہوں نے اقتدار کا تاج اپنی بیٹی بے نظیر کے سر پر رکھا اور خود سینئر وزیر بننے پر اکتفا کیا۔

اُن کا خلوص اور اُن کا ایثارآگے چل کر اقتدار کی کشمکش میں اُن کے لیے بڑی اذیت کا باعث بنا۔ 1993ء میں انتخابات ہوئے تو ماں نے بیٹی سے کہا کہ میرا اصل جان نشین میرا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو ہے جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے اسے پاکستان میں آنے اور انتخابات میں آنے کی اجازت دی جائے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اسے سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب ملنا چاہیے مگر وزیرِ اعظم بے نظیر
نے اس خیال کی مخالفت کی تاہم بڑی رودکد کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان آگئے اور وہ عظیم اور بیدار مغز ماں جس نے بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں لانے کے لیے راہ ہموار کی وہ اپنی بیٹی کی کرپٹ حکومت سے بیزار ہوتی گئی اور وہ اپنے بڑے بیٹے کی سیاسی حمایت میں اسی طرح سرگرم ہوگئیں جس طرح اُنہوں نے اپنے شوہر کی جان بچانے اور پیپلز پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے تگ و دو کی تھی۔

بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی وزیرِ اعظم بے نظیر سے کہا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے دو مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی میں انتخابات کرائے جائیں
اور دوسرا یہ کہ حکومت کو بدترین کرپشن سے پاک صاف کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات درست ہیں اور اُنہیں تسلیم کیا جائے۔ اس دوٹوک اعلان کے بعد 70 کلفٹن کے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو گولیوں سے بھون دیئے گئے کیونکہ وہ جناب آصف زرداری اور بے نظیر کے اقتدار کو چیلنج کر رہے تھے