Category Archives: سیاست

کونسی جماعت زیادہ مقبول ہے ؟

معروف ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ کے سروے کے مطابق صورتِ حال کچھ یوں ہے

فروری مارچ 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 فیصد ۔ ۔ ۔ 27 فیصد ۔ ۔ ۔ 31 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ 41 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 33 فیصد
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 فیصد ۔ ۔ ۔ 6 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 15 فیصد ۔ ۔ ۔ 9 فیصد
خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 8 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 49 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 فیصد
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 11 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 35 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 6 فیصد

جولائی اگست 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 فیصد ۔ ۔ ۔ 28 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 25 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 7 فیصد ۔ ۔ ۔ 43 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 27 فیصد

کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے

عصرِ حاضر میں سائنس کی ترقی عروج پر ہے جس کے باعث کُرّہءِ ارض ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ گھر بیٹھے یا جہاں کہیں بھی ہو آدمی دو چار بار انگلیاں ہلا کر پوری دنیا کے حالات سے واقف ہو سکتا ہے ۔ معلوماتی گرم بازاری (Information boom) کے نتیجہ میں فرضی حُبِ جمہوریت نے گھر گھر میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں مگر جمہوریت ہے کہ بِلک رہی ہے

کوئی تو ایسا شہر ہوتا جہاں میرا دلدار مل جاتا
ہیں آمریت کے بدلے چہرے جہاں دیکھوں جدھر جاؤں

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے ۔ اسی لئے انسانیت کے اصولوں کو سمجھنے والوں نے اسے ابتداء ہی میں مسترد کر دیا تھا ۔

عظیم مفکّر سقراط (469 تا 399 قبل مسیح) نے کہا تھا ”جمہوریت کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ عوام کے مستقبل کو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو نہ تو علم رکھتے ہیں ۔ نہ حکمرانی کا تجربہ اور نہ وہ عدل و انصاف کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ ان کا انتخاب بھی غیرمنطقی مساوات کے تحت وہ لوگ کرتے ہیں جو خود اپنی بہتری کے عمل سے ناواقف ہوتے ہیں“۔ سقراط کے بیان پر اجارا داروں کو اپنی حکمرانی خطرے میں محسوس ہوئی اور انہوں نے سقراط کو موت کی سزا سُنا کر اس پر فوری عمل کیا ۔ اُن اجاراداروں کو آج کوئی نہیں جانتا مگر سقراط کا نام آج بھی زندہ ہے

ایک اور عظیم مفکّر ارسطو (384 تا 322 قبل مسیح) کے مطابق جمہوریت ہوتی تو عوام الناس کی حکومت ہے لیکن اکثریت کی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ صالح یا نیکوکار حکومت نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام الناس کی اکثریت صالح یا نیکوکار نہیں ہوتی

”جمہوریت“ بظاہر ایک آسان سا لفظ ہے ۔ جمہوریت طرزِ حکمرانی کے حق میں دلائل تو جتنے چاہیں مل جائیں گے کیونکہ کُرّہ ارض پر کہیں بھی چلے جائیں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور تعلیم سمیت آدمی کی ہر سہولت سرمایہ داروں کی مرہونِ منت ہے ۔ آج کے دور میں کسی شخص سے (خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ) پوچھا جائے تو وہ ”جمہوریت“ کا مطلب سمجھنے کا دعوٰی کرتا پایا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ”جمہوریت“ کا مطلب اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق بتاتے ہیں چنانچہ مختف گروہوں اور مختلف ادوار میں ”جمہوریت“ کا مطلب مختلف ہوتا ہے ۔ ہر حکمران جمہوریت کی تفصیل اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ سرماداری نظام کے حامی جمہوریت کی تاویل آزاد تجارتی نظام بیان کرتے اور آزاد جمہوریت و معاشیاتی کُلیات جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز جیسے غریب ممالک میں عوامی حکومت اور عوامی نمائندے جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو محصور کرنے کیلئے نت نئی امدادی گٹھریوں (packages) کا اعلان کیا جاتا ہے جیسے بلوچستان پیکیج ۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ جن کے خرچ ہونے کے بعد جن کیلئے تھا وہ چیخ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا

موجودہ جمہوریت کے مطابق وہ اُمیدوار منتخب ہوتا ہے جو مقابلہ میں آنے والے ہر ایک اُمیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرے ۔ اگر ایک علاقہ میں امیدوار 2 سے زیادہ ہوں تو 50 فیصد سے کم ووٹ لینے والا کامیاب ٹھہرتا ہے ۔ ایسے کامیاب اُمیدواروں کی حکومت بنے تو وہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی ۔ اگر اُمیدوار 4 یا زیادہ ہوں تو پھر کیا صورتِ حال ہو گی ؟

جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اکثریتی پارٹی حکومت بنانے کے بعد اپنی توجہ اور قوت زیادہ تر یہ ثابت کرنے پر صرف کرتی ہے کہ مخالف پارٹی حکومت کرنے کی اہل نہیں اور اس سلسلہ میں عوام کا پیسہ بے دریغ خرچ کرنے سے بھی نہیں چوکتی ۔ چھوٹے ممالک ہی میں نہیں امریکا جیسی بڑی جمہوریت کے اندر بسنے والے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں جس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے

آج کی دنیا کی بڑی قوّتیں جو اپنے تئیں ترقی یافتہ ہیں بشمول بہتاتی عالمی قوّت (World Super Power)، کے جمہوریت قائم کرنے کی دعویدار اور انسانیت سے محبت کی علمبردار بنی پھرتی ہیں ۔ عمل اِن حکومتوں کا یہ ہے کہ ”جو میں کہوں وہ درست اور جو وہ کہے وہ میری مرضی کا تابع یعنی مجھے پسند ہو تو درست ورنہ غیر اخلاقی اور بعض اوقات غیرانسانی یا دہشتگردی“۔ ایک طرف قانون کہ جو شخص ہالوکاسٹ کو غلط کُجا مبالغہ آمیز بھی کہے (جو کہ وہ ہے) تو کہنے والا امریکا اور عالمی قوّتوں کا مُجرم اور اسے سزا دینے کیلئے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا اور انہی ممالک کے سہارے پلنے والے اسرائیل کو حق حاصل کہ کہنے والے کو جہاں کہیں بھی ہو اغواء کر کے لیجا کر قتل کر دے ۔ وجہ یہ کہ یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے جبکہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف 0.19 فیصد ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا 28 فیصد سے زائد ہیں اُن کے محبوب نبی ﷺ جو کہ اللہ کے پیغمبر ہیں کی ناموسِ مبارک پر حملہ کیا جائے تو اِسے آزادیءِ اظہار کا نام دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے ملعون کی زبانی مذمت تک نہیں کی جاتی

اپنے ملک کا یہ حال ہے کہ 30 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ جس اُمیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں اس کے کردار سے واقف نہیں ہوتے اور نہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ باقی نصف ذاتی وقتی ضروریات کے حصول کی تمنا لئے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ 60 سے 70 فیصد لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے ان میں سے نصف سے زائد شاید ووٹ ڈالنے جانا ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور باقی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ سب اُمیدوار ان کے ووٹ کے اہل نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اگر 21 ستمبر 2012ء کو ملک کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور پشاور میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو جمہوریت کی کیا شکل بنتی ہے ۔ کیا یہی اُودھم مچانے والے لوگ نہیں ہیں جو ووٹ ڈالنے بھی جاتے ہیں ایک وقت پلاؤ ملنے یا ویگن پر مُفت سفر کے عوض ؟

نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حکومت بننے کے بعد جہنیں لوٹ مار میں حصہ مل جاتا ہے وہ مزے اُڑاتے ہیں اور باقی لوگ تین چار سال حکمرانوں کو کوستے ہیں اور اگلے انتخابات کے وقت پھر وہی ہوتا ہے جو پہلے ہو چکا ہوتا ہے ۔ جمہوریت ( Democracy) کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جو جمہوریت وہ دیکھتے آئے ہیں وہ دراصل جمہور کی حکمرانی نہیں بلکہ انبوہ کی حکمرانی یا انبوہ گردی (mobocracy) ہے

کیوں نا ہم اپنے دماغ کو ارفع اور اعلٰی سمجھنے کی بجائے خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں جو سب کچھ جانتا ہے اور کُل کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم عوام الناس کی بہتری کا بندوبست کریں ۔ اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

سوچتا ہوں ۔ ۔ ۔

جب اعداد و شمار دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں سوچتا ہی رہتا ہوں
کیا کوئی سیاسی سونامی آ کر
لے جائے گا اس گند کو بہا کر
یا اس بے ہنگم لُوٹ کا ختم ہونا
ہے صرف قیامت کا برپا ہونا

میں لکھ چکا ہوں کہ صرف ایک سال میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی 9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اور یہ نقصان بے قصور صارفین کے بل بڑھا کر پورا کیا جاتا ہے ۔ سوئی سدرن والے ”سمجھدار“ ہیں وہ اپنے اعداد و شمار کو ہوا نہیں لگنے دیتے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اعداد و شمار ہوشرُبا ہیں

ایسے وقت کہ جب سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیاں بڑھے ہوئے نرخوں کو مزید بڑھانے پر زور دے رہی ہیں ، مُسلم لیگ ن کی رُکن قومی اسمبلی شریں ارشد خان کے مطالبے پر پیر 3 ستمبر کو وزیر اعظم کے مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق 313 کمپنیوں اور اداروں میں سے ہر ایک سوئی سدرن یا سوئی نادرن کا کم از کم ایک کروڑ روپے کا نا دہندہ ہے ۔ ان میں بڑی نجی انڈسٹریل کمپنیاں ۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ۔ سی این جی سٹیشنز ۔پاکستان ریلوے ۔ فوج کے ماتحت ادارے ۔ واپڈا ۔ پارلیمنٹ ہاؤس وغیرہ شامل ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل صرف 41 ادارے اور کمپنیاں 75 ارب 81 کروڑ 19 لاکھ 45 ہزار روپے کے نا دہندہ ہیں

پاکستان ریلوے ۔ 11 کروڑ 20 لاکھ 91 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ۔ 8 ارب 78 کروڑ 21 لاکھ 83 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ٹاؤنشپ ڈیپارٹمنٹ ۔ ایک کروڑ 74 لاکھ 69 ہزار روپے
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ۔ 4141 ارب 80 کروڑ 51 لاکھ 33 ہزار روپے
کے ای ایس سی / کے ٹی پی ایس رہائشی کمپلیکس ۔ 3 کروڑ 67 لاکھ 86 ہزار
واپڈا (جامشورو ۔ کوٹری ۔ سکھر ۔ کوئٹہ) ۔ 2222 ارب 2 کروڑ 39 لاکھ 87 ہزار روپے
سینٹرل جیل کراچی ۔ 2 کروڑ 82 لاکھ 63 ہزار روپے
سینٹرل جیل حیدر آباد ۔ ایک کروڑ 41 لاکھ 72 ہزار
ڈپٹی ڈائریکٹر مکینیکل ڈویژن ۔ 1 سی ڈی اے برائے وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 56 لاکھ 35 ہزار روپے
ڈپٹی ڈائریکٹر ایئر کنڈیشننگ ۔ سی ڈی اے سیکرٹیریئٹ بلڈنگ ایم بلاک ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 5 لاکھ 80 ہزار
اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجیئر ۔ سٹور ورکشاپ انجنیئرنگ ڈویژن پاک پی ڈبلیو ڈی ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 80 ہزار روپے
پولیس ٹریننگ کالج سہالا ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 85 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ سی ڈی اے برائے پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 5 کروڑ 68 لاکھ 28 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 4 کروڑ 48 لاکھ 45 ہزار روپے

ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ 3 کروڑ 11 لاکھ 36 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی احسان شامی روڈ ۔ 2 کروڑ 99 لاکھ 49 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی تنصیل روڈ ۔ 2 کروڑ 43 لاکھ 9 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی عابد مجید روڈ ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 95 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ شامی روڈ ۔ ایک کروڑ 15 لاکھ 93 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ طفیل روڈ ۔ 2 کروڑ 22 لاکھ 78 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ ایسٹ بینک روڈ ۔ راولپنڈی برائے جی ایچ کیو ۔ ایک کروڑ 30 لاکھ 72 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 35 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ بلال کالونی ۔ ایک کروڑ 93 لاکھ 62 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ مانکی چوک ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 53 لاکھ 22 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ ایم ای ایس ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 55 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 46 لاکھ 14 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ اٹک ۔ ایک کروڑ 27 لاکھ 26 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ رسالپور ۔ ایک کروڑ 20 لاکھ 8 ہزار روپے
کماڈنٹ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ۔ راولپنڈی ۔ ایک کروڑ 44 لاکھ 85 ہزار روپے
چھاؤنی 47 آرٹلری بریگیڈ ۔ سرگودھا چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 22 لاکھ 86 ہزار روپے
پی ایم اے ۔ کاکول (اندرونی علاقہ) ۔ ایبٹ آباد ۔ ایک کروڑ 4 ہزار روپے

حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی شیخ مدینہ ۔ کوئٹہ ۔ ایک ارب 32 کروڑ ایک لاکھ 12 ہزار روپے
لکی انرجی (پرائیویٹ ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 27 کروڑ 41 لاکھ 95 ہزار روپے
ٹاٹا انرجی لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 83 لاکھ 7 ہزار روپے
عدنان پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 3 کروڑ 95 لاکھ 92 ہزار روپے
اولمپیا پاور جنریشن ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 30 لاکھ 50 ہزار روپے
نو ڈیرو پاور پلانٹ ۔ لاڑکانہ ۔ 16 کروڑ 24 لاکھ 48 ہزار
گلستان پاور ۔ کوٹری ۔ 13 کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار روپے
ندیم پاور جنریشن ۔ کوٹری ۔ 10 کروڑ 30 لاکھ 35 ہزار روپے
بھنیرو انرجی لمیٹڈ ۔ کوٹری ۔ 8 کروڑ 39 لاکھ 8 ہزار روپے

خُوشبُو آ نہیں سکتی ۔ ۔ ۔

میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا جب میں نے پہلی بار یہ شعر سنا تھا

سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

اس کے ساتھ ہی ایک ضرب المثل یاد آئی ۔ ”بدبُودار کیچڑ میں اُگی سبزی بھی بدبُودار ہوتی ہے“۔ اس کا عملی ثبوت چند ماہ قبل کراچی سے ملا جہاں گندھے نالے کے پانی سے سیراب شدہ سبزیوں کی تاثیر پر بہت واویلا کیا گیا تھا

موجودہ حکومت نے پچھلے 4 سال سے احتساب کے نئے قانون کی رٹ لگا رکھی ہے اور کہا جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نیا قانون نہیں بننے دیتی ۔ جب کاغذ کے پھولوں پر چھِڑکی گئی خُوشبُو ختم ہوئی تو احتساب قانون کی کونپل کو لگے گندے پانی کی بدبُو نمودار ہو گئی ہے

مجوّزہ احتساب قانون کی جھلکیاں

1۔ کسی ایسے پارلیمنٹرین یا سرکاری ملازم کیخلاف کرپشن کا کیس نہیں بنایا جائے گا جسے سرکاری آفس یا پارلیمنٹ چھوڑے 7 سال گزرچکے ہوں

2۔ نیک نیتی سے کی جانیوالی کسی بھی قسم کی کرپشن کو جُرم نہیں مانا جائیگا بلکہ اسے غلطی کہا جائیگا جس کی کوئی سزا نہیں ہوگی
(زبردست ۔ کل کو یہ قانون بننے کی راہ ہموار ہو گی کہ کسی نے نیک نیّتی سے زنا کیا تو اسے زنا نہیں سمجھا جائے گااور غلطی کہہ کر معاف کر دیا جائے گا)

3۔ جس دن احتساب بل کو قانون کی حیثیت ملے گی وہ اسی دن سے نافذ العمل ہوگا
(یعنی اس سے قبل کا سب معاف)

4 ۔ نئے احتساب بل کے تحت بننے والا کمیشن بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی غیر ملکی دولت اور کالے دھن کی تحقیقات نہیں کرسکے گا

5۔ تاحال رائج قانون کے مطابق کرپشن ثابت ہونے پر سزا 14 سال ہے ۔ مجوّزہ قانون میں 7 سال

قوم و مُلک کے دُشمن ؟؟؟

میں بجلی کے متعلق مصدقہ مختلف حقائق لکھ چکا ہوں جن میں سے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں
پڑھیئے اور سوچئے
بجلی کا بل زیادہ کیوں ؟
بجلی کی کمی کیوں
بجلی کہاں جاتی ہے ؟

مگر اِسے کیا کہیئے گا ؟
یہاں کلِک کر کے ایک خبر پڑھیئے اور بتایئے کہ کیا حُکمرانوں کو قوم و مُلک کے دُشمن کے سوا کچھ اور خطاب دے سکتے ہیں ؟

دعوے اور حقیقت

سندھ حکومت بالخصوص کراچی والوں کا سدا یہ دعوٰی رہا ہے کہ سندھ آمدن زیادہ کر کے دیتا ہے اسلئے اسے اپنی پوری آمدن اخراجات کیلئے دی جائے ۔ سندھ حکومت اور کراچی والوں کا یہ بھی دعوٰی رہا ہے کہ پنجاب کو اس کی آمدن سے زیادہ حصہ دیا جاتا ہے یعنی جو سندھ کماتا ہے اس میں سے پنجاب کو دیا جاتا ہے

قدرت کا اصول ہے کہ نہ جھوٹ زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ سچ زیادہ دیر چھُپا رہتا ہے ۔ وفاقی حکومت نے پچھلے مالی سال (یکم جولائی 2011ء تا 30 جون 2012ء) کے اعداد و شمار شائع کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے ۔ غور سے دیکھ لیجئے کہ مظلوم کون ہے اور مظلومیت کے نعرے کون لگاتا ہے ۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت اُنہی سیاسی جماعتوں پر مُشتمل ہے جو سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر حکمران ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ تفصیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان
کُل ریوینیو وصولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 93 ارب ۔ ۔ 3 کھرب 88 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 22 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
مقررہ قابلِ تقسیم ریوینیو ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 8 ارب ۔ ۔ ۔2کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔ ۔
ریوینیو جو صوبے کے پاس رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 ارب ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 50 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 19 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
ٹیکس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب
اخراجات کیلئے جو بچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 27 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 10 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 25 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب
خسارہ جو صوبے نے ظاہر کیا۔ ۔ ۔ ۔ 8.9 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سال کے کُل اخراجات ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 35.9 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 28 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب

غور کیجئے ۔ ۔ ۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے ۔ پھر سندھ ۔ پھر خیبر پختونخوا ۔ پھر بلوچستان ۔ پنجاب کی آبادی مُلک کی آبادی کا 65 فیصد ہے اور باقی 3 صوبوں کی کُل آبادی 35 فیصد ہے

پنجاب نے 5 کھرب 93 ارب روپیہ کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 85 ارب روپیہ پنجاب کو دیا یعنی 12.33 فیصد
سندھ نے 3 کھرب 88 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 1 کھرب 50 ارب روپیہ سندھ کو دیا یعنی 36.66 فیصد
خیبر پختونخوا نے 2 کھرب 22 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 2 کھرب 19 ارب روپیہ خیبر پختونخوا کو دیا یعنی 98.65 فیصد
بلوچستان نے 1 کھرب 51 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے سارا یعنی 1 کھرب 51 ارب روپیہ بلوچستان کو دیا یعنی 100.00 فیصد

اس کے باوجود
پنجاب کا خسارہ 9 ارب روپیہ
سندھ کا خسارہ 28 ارب روپیہ
خیبر پختونخوا کا خسارہ 3 ارب روپیہ
اخراجات سب سے کم پنجاب نے کئے ۔ اس سے زیادہ بلوچستان نے ۔ اس سے زیادہ خیبر پختونخوا نے اور سب سے زیادہ سندھ نے
یعنی سندھ حکومت کے اخراجات پنجاب حکومت کے اخراجات سے 75.13 فیصد زیادہ ہوئے

تیری سادگی پہ نہ مر جائے کوئی

سندھ کے موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے 30 جولائی 2012ء کو پریس کانفرنس میں نیچے درج انکشافات کئے جو درحقیقت انکشافات نہیں تھے کیونکہ یہی سب کچھ ان سے قبل اُس وقت کی وزیر اطلاعات شازیہ مری نے وسط جنوری 2012ء میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا جس کا خلاصہ راقم الحروف نے شائع بھی کیا تھا

شازیہ مری کے بیان کے بعد شرجیل انعام میمن کے بیان دینے تک 6 ماہ گذر چکے تھے اور اب 7 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
آج تک اس کی اصلاح کیوں نہیں کی گئی ؟
یا ان چھ سات ماہ میں درستگی کیلئے کیا اقدامات بروئے کار لائے گئے ؟
کیا یہ ہیرا پھیریاں اور غلط کاریاں بار بار سنسنی خیزی طاری کر کے بیان دینے سے از خود ختم ہو جائیں گی ؟
درستگی میں آخر کونسی چیز آڑے آ رہی ہے ؟ جبکہ صوبہ سندھ اور مرکز دونوں میں ایک ہی جماعت کی حکومت ہے اور شرجیل انعام میمن صاحب اسی جماعت کے پُرجوش اور منہ زور رُکن ہیں

شرجیل انعام میمن کی پریس کانفرنس کا خلاصہ
صوبہ سندھ میں کُل 401000 سرکاری ملازمین ہیں جن میں سے صرف 328000 کے پاس کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہیں
بقیہ 73000 ملازمین کے شناختی کارڈوں مین بے قاعدگیاں پائی جاتی ہیں
21438 ملازمین کا ریکارڈ ہی موجود نہیں
338 سرکاری ملازمین مر چکے ہیں لیکن اُنہیں 12 سال سے متواتر تنخواہیں دی جا رہی ہیں
12ہ46 ایسے ملازمین ہیں جو دو دو تنخواہیں وصول کر رہے ہیں یعنی ایک ہی وقت میں دو دو سرکاری دفاتر میں کام کر رہے ہیں