عصرِ حاضر میں سائنس کی ترقی عروج پر ہے جس کے باعث کُرّہءِ ارض ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ گھر بیٹھے یا جہاں کہیں بھی ہو آدمی دو چار بار انگلیاں ہلا کر پوری دنیا کے حالات سے واقف ہو سکتا ہے ۔ معلوماتی گرم بازاری (Information boom) کے نتیجہ میں فرضی حُبِ جمہوریت نے گھر گھر میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں مگر جمہوریت ہے کہ بِلک رہی ہے
کوئی تو ایسا شہر ہوتا جہاں میرا دلدار مل جاتا
ہیں آمریت کے بدلے چہرے جہاں دیکھوں جدھر جاؤں
”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے ۔ اسی لئے انسانیت کے اصولوں کو سمجھنے والوں نے اسے ابتداء ہی میں مسترد کر دیا تھا ۔
عظیم مفکّر سقراط (469 تا 399 قبل مسیح) نے کہا تھا ”جمہوریت کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ عوام کے مستقبل کو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو نہ تو علم رکھتے ہیں ۔ نہ حکمرانی کا تجربہ اور نہ وہ عدل و انصاف کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ ان کا انتخاب بھی غیرمنطقی مساوات کے تحت وہ لوگ کرتے ہیں جو خود اپنی بہتری کے عمل سے ناواقف ہوتے ہیں“۔ سقراط کے بیان پر اجارا داروں کو اپنی حکمرانی خطرے میں محسوس ہوئی اور انہوں نے سقراط کو موت کی سزا سُنا کر اس پر فوری عمل کیا ۔ اُن اجاراداروں کو آج کوئی نہیں جانتا مگر سقراط کا نام آج بھی زندہ ہے
ایک اور عظیم مفکّر ارسطو (384 تا 322 قبل مسیح) کے مطابق جمہوریت ہوتی تو عوام الناس کی حکومت ہے لیکن اکثریت کی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ صالح یا نیکوکار حکومت نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام الناس کی اکثریت صالح یا نیکوکار نہیں ہوتی
”جمہوریت“ بظاہر ایک آسان سا لفظ ہے ۔ جمہوریت طرزِ حکمرانی کے حق میں دلائل تو جتنے چاہیں مل جائیں گے کیونکہ کُرّہ ارض پر کہیں بھی چلے جائیں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور تعلیم سمیت آدمی کی ہر سہولت سرمایہ داروں کی مرہونِ منت ہے ۔ آج کے دور میں کسی شخص سے (خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ) پوچھا جائے تو وہ ”جمہوریت“ کا مطلب سمجھنے کا دعوٰی کرتا پایا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ”جمہوریت“ کا مطلب اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق بتاتے ہیں چنانچہ مختف گروہوں اور مختلف ادوار میں ”جمہوریت“ کا مطلب مختلف ہوتا ہے ۔ ہر حکمران جمہوریت کی تفصیل اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ سرماداری نظام کے حامی جمہوریت کی تاویل آزاد تجارتی نظام بیان کرتے اور آزاد جمہوریت و معاشیاتی کُلیات جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز جیسے غریب ممالک میں عوامی حکومت اور عوامی نمائندے جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو محصور کرنے کیلئے نت نئی امدادی گٹھریوں (packages) کا اعلان کیا جاتا ہے جیسے بلوچستان پیکیج ۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ جن کے خرچ ہونے کے بعد جن کیلئے تھا وہ چیخ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا
موجودہ جمہوریت کے مطابق وہ اُمیدوار منتخب ہوتا ہے جو مقابلہ میں آنے والے ہر ایک اُمیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرے ۔ اگر ایک علاقہ میں امیدوار 2 سے زیادہ ہوں تو 50 فیصد سے کم ووٹ لینے والا کامیاب ٹھہرتا ہے ۔ ایسے کامیاب اُمیدواروں کی حکومت بنے تو وہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی ۔ اگر اُمیدوار 4 یا زیادہ ہوں تو پھر کیا صورتِ حال ہو گی ؟
جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اکثریتی پارٹی حکومت بنانے کے بعد اپنی توجہ اور قوت زیادہ تر یہ ثابت کرنے پر صرف کرتی ہے کہ مخالف پارٹی حکومت کرنے کی اہل نہیں اور اس سلسلہ میں عوام کا پیسہ بے دریغ خرچ کرنے سے بھی نہیں چوکتی ۔ چھوٹے ممالک ہی میں نہیں امریکا جیسی بڑی جمہوریت کے اندر بسنے والے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں جس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے
آج کی دنیا کی بڑی قوّتیں جو اپنے تئیں ترقی یافتہ ہیں بشمول بہتاتی عالمی قوّت (World Super Power)، کے جمہوریت قائم کرنے کی دعویدار اور انسانیت سے محبت کی علمبردار بنی پھرتی ہیں ۔ عمل اِن حکومتوں کا یہ ہے کہ ”جو میں کہوں وہ درست اور جو وہ کہے وہ میری مرضی کا تابع یعنی مجھے پسند ہو تو درست ورنہ غیر اخلاقی اور بعض اوقات غیرانسانی یا دہشتگردی“۔ ایک طرف قانون کہ جو شخص ہالوکاسٹ کو غلط کُجا مبالغہ آمیز بھی کہے (جو کہ وہ ہے) تو کہنے والا امریکا اور عالمی قوّتوں کا مُجرم اور اسے سزا دینے کیلئے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا اور انہی ممالک کے سہارے پلنے والے اسرائیل کو حق حاصل کہ کہنے والے کو جہاں کہیں بھی ہو اغواء کر کے لیجا کر قتل کر دے ۔ وجہ یہ کہ یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے جبکہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف 0.19 فیصد ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا 28 فیصد سے زائد ہیں اُن کے محبوب نبی ﷺ جو کہ اللہ کے پیغمبر ہیں کی ناموسِ مبارک پر حملہ کیا جائے تو اِسے آزادیءِ اظہار کا نام دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے ملعون کی زبانی مذمت تک نہیں کی جاتی
اپنے ملک کا یہ حال ہے کہ 30 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ جس اُمیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں اس کے کردار سے واقف نہیں ہوتے اور نہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ باقی نصف ذاتی وقتی ضروریات کے حصول کی تمنا لئے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ 60 سے 70 فیصد لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے ان میں سے نصف سے زائد شاید ووٹ ڈالنے جانا ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور باقی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ سب اُمیدوار ان کے ووٹ کے اہل نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اگر 21 ستمبر 2012ء کو ملک کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور پشاور میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو جمہوریت کی کیا شکل بنتی ہے ۔ کیا یہی اُودھم مچانے والے لوگ نہیں ہیں جو ووٹ ڈالنے بھی جاتے ہیں ایک وقت پلاؤ ملنے یا ویگن پر مُفت سفر کے عوض ؟
نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حکومت بننے کے بعد جہنیں لوٹ مار میں حصہ مل جاتا ہے وہ مزے اُڑاتے ہیں اور باقی لوگ تین چار سال حکمرانوں کو کوستے ہیں اور اگلے انتخابات کے وقت پھر وہی ہوتا ہے جو پہلے ہو چکا ہوتا ہے ۔ جمہوریت ( Democracy) کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جو جمہوریت وہ دیکھتے آئے ہیں وہ دراصل جمہور کی حکمرانی نہیں بلکہ انبوہ کی حکمرانی یا انبوہ گردی (mobocracy) ہے
کیوں نا ہم اپنے دماغ کو ارفع اور اعلٰی سمجھنے کی بجائے خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں جو سب کچھ جانتا ہے اور کُل کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم عوام الناس کی بہتری کا بندوبست کریں ۔ اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے