Category Archives: سیاست

بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام

تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو افشا ہوتا ہے کہ امن پسندی کا شور مچانے والے ہی دراصل دہشتگرد ہیں ۔ اسرائیلی افواج فلسطین میں ہوں یا بھارتی افواج جموں کشمیر میں یا امریکی افواج عراق افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و استبداد کی داستان طویل ہے ۔ اسی سلسلے میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم بھارتی رضاکاروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 22 سال سے جاری کاروائی میں فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے 500 افسروں اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں

فرضی جھڑپوں ، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے 214 معاملات میں 235 فوجی اہلکاروں ، 123 نیم فوجی اہلکاروں ، 111 مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ 31 سابقہ عسکریت پسندوں کو ملوث پایا گیا ہے

ان کارروائیوں ملوث اہلکاروں میں شامل ہیں
فوج کے 2 میجر جنرل ، 3 بریگیڈیئر ، 9کرنل ، 3 لیفٹننٹ کرنل ، 78 میجر اور 25 کیپٹن
نیم فوجی اداروں کے 37 سینیئر افسر
مقامی پولیس کے ایک انسپکٹر جنرل اور ایک ریٹائرڈ سربراہ

رپورٹ کی تفصیلات کا بیشتر حصہ اْن دستاویزات اور معلومات پر مشتمل ہے جو بھارت میں انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ”کولیشن آف سول سوسائٹیز (Coalition of Civil Societies)“ اور کشمیر کی سرکردہ تنظیم اے پی ڈی پی (Association of Parents of Disappeared People ۔ لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم) اور نجی طور پر بنائے گئے ”بین الاقوامی مسند عدالت (International Tribunal)“نے حکومت سے حقِ اطلاع (Right to Information) کے قانون کے تحت طلب کی ہیں ۔ کولیشن آف سول سوسائٹیز اور اے پی ڈی پی طویل عرصے سے کشمیر میں گم شدہ نوجوانوں اور وہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے معصوم کشمیریوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں

ڈھائی لاکھ کا مقروض ہو گیا ۔ بچاؤ

اچھی طرح تحقیق یا تفتیش کر لیجئے میں نے ساری زندگی کبھی کسی سے قرض نہیں لیا لیکن کل یعنی 15 نومبر 2012ء کو مجھے معلوم ہوا کہ میں 242683 روپے کا مقروض ہوں یعنی میری بیوی ۔ بیٹی اور مجھ پر فی کس 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے ۔ کیا یہ ظُلم نہیں ؟

آپ کیوں بغلیں بجا رہے ہیں ؟ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ پر بھی 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے اور آپ کے گھر کے ہر فرد پر بھی اتنا ہی اور ہاں اتنا ہی ہر بچے پر بھی خواہ وہ ایک دن کا ہو

پاکستان کی اگست 1947ء میں آزادی سے لے کر جون 2008ء تک یعنی پیپلز پارٹی کی رواں حکومت بننے سے پہلے 60 برس میں مجموعی قرضے اور واجبات 6691 ارب روپے تھے جو پیپلز پارٹی کے موجودہ 4 سالہ دور میں بڑھ کر 14561 ارب روپے ہو گئے ہیں ۔ مطلب حکمران پیپلز پارٹی کے رواں دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 7870 ارب روپے کا اضافہ ہوا

ان اعداد و شمارکی روشنی میں پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی جس میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں کا ہر فرد 80894 روپے کا مقروض ہے۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے موجودہ دور سے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37172 روپے فی کس تھا

ایک ایسا ملک جہاں خود حکومت کی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح آبادی کا 58 فیصد ہو گئی ہے اور اسے خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔ یہ مزید بوجھ ملک کی آئیندہ نسلوں کیلئے مصائب اور مشکلات میں مزید اضافہ کردیگا۔ حکومت جو روزانہ کی بنیاد پر بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ مجموعی قرضے اور واجبات 16000 ارب روپے سے تجاوز کرجائیں گے۔ گزشتہ مالی سال 12۔2011 کے دوران حکومت نے 2000 ارب روپے کے قرضے لئے جو یومیہ 5.5 ارب روپے بنتے ہیں

ان 14561 ارب روپوں میں سے حکومت کا مقامی روپوں میں قرضہ 7638 ارب روپے اور بیرونی یعنی زرِ مبادلہ کا قرضہ 4365ارب روپے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ 694 ارب روپے ۔ بیرونی واجبات 227 ارب روپے ۔ نجی شعبے میں بیرونی واجبات 575 ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز بیرونی قرضہ 144ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز مقامی قرضہ 281ارب روپے اور کموڈٹی آپریشنز 438 ارب روپے ہیں

ماہرین کے خیال میں کرپشن ۔ خراب حکمرانی ۔ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور ناقص اقتصادی طرزِ عمل کی وجہ سے موجودہ دور حکومت میں قوم پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ پڑا

رواں مالی سال کیلئے حکومت نے وفاقی بجٹ میں صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 926 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ سود کی یہ رقم مالی سال کے اختتام تک بڑھ کر 1100 ارب روپے تک پہنچ جائے گی

ماخذ ۔ اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا خلاصہ

وقت کے بوجھ تلے دبے حقائق

میرا حافظہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد بہت مجروح ہو چکا ہے ۔ کچھ عمر کا تقاضہ بھی ہو سکتا ہے ۔ پھر بھی کچھ خاص واقعات ایسے ہوتے ہیں جو ذہن پر کبھی کبھی اُبھرتے رہتے ہیں

ایوب خان جب سیاسی جماعتوں کے مطالبات مان چکے تھے تو اصغر خان نے مجیب الرحمٰن (جو اگرتلہ سازش کیس میں قید کاٹ رہا تھا) کو رہا کرنے کی ضد کی ۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اگرتلہ سازش ایک حقیقت تھی

دسمبر 1970ء کے انتخابات میں مجیب الرحمٰن کی جماعت نے اکثریت حاصل کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے قبول نہ کیا ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں منعقد ہونے کی مخالفت ان الفاظ میں کی ”جو ڈھاکہ جائے گا ہم اُس کی ٹانگیں تو ڑ دیں گے“۔ پھر ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے کہا ”اُدھر تُم اِدھر ہم“۔

بھارت کے پاکستان پر حملے کے دوران 12 دسمبر 1971ء کو اعلان ہوا کہ صدر محمد یحیٰ خان قوم سے خطاب کریں گے ۔ یہ تقریر نشر نہ ہوئی ۔ 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل ہونے کے بعد یحیٰ خان کی ایک تقریر نشر کی گئی جس کا زمینی حقائق کے ساتھ کوئی ربط نہ تھا ۔ اگر متذکرہ تقریر 12 دسمبر کو نشر ہوتی تو بامعنی قرار دی جاتی ۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”ہم خون کا آخری قطرہ بہنے تک لڑیں گے”۔ اس وقت تک سارے ملک کی اعلٰی سطح پر تشویش پھیل چکی تھی کہ ”یحیٰ خان کہاں ہے ۔ 12 دسمبر کے بعد نہ کسی نے اُسے دیکھا اور نہ وہ اپنا ٹیلیفون اُٹھاتا ہے ۔ اس کی بجائے کوئی عورت غیرملکی لہجہ میں انگریزی میں جواب دیتی ہے کہ صدر مصروف ہیں“۔

ابھی بھارتی فوج ڈھاکہ میں داخل نہیں ہوئی تھی کہ پولینڈ نے سوویٹ یونین کی ایماء پر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں جنگ بندی کرانے اور فوجوں کے اپنی اپنی سرحدوں کے اندر واپس جانے کی قرارداد پیش کی ۔ مقتدر طاقت نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کو سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھیجا ۔ بھٹو صاحب امریکا پہنچ کر زکام کے بہانے ہوٹل میں رہے اور اجلاس میں شرکت کیلئے مشرقی پاکستان پر بھارت کا قبضہ ہو جانے کے بعد پہنچے اور ایک بے ربط جذباتی تقریر کر کے اپنے کچھ کاغذات پھاڑ کر غُصہ دکھاتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے

صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں 7 دسمبر 1970ء کو ہونے والے انتخابات میں پی پی پی کا ایک آدھ نمائندہ منتخب ہوا تھا ۔ بعد میں وہاں کی منتخب حکومت کو ختم کر کے پی پی پی کی حکومت بنا دی گئی اور حیات محمد شیر پاؤ کو وزیرِ اعلٰی بنا دیا گیا جو بعد میں بم دھماکے میں ہلاک ہوئے ۔ سُنا گیا تھا کہ حیات محمد شیر پاؤ کا ذوالفقار علی بھٹو سے کچھ ذاتی اختلاف ہوا تھا جس کے نتیجے میں جان سے ہاتھ دھونا پڑے

29 مئی 1988ء کو محمد خان جونیجو کی حکومت بلا جواز توڑ دی گئی تھی جس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی تھی ۔ اس کا فیصلہ محمد خان جونیجو کے حق میں دیا گیا لیکن جونیجو کی حکومت کو بحال نہ کیا گیا جو ناقابلِ فہم تھا

17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی ہوائی حادثہ میں موت کے وقت آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے وہی کردار ادا کیا تھا جو بینظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر رحمٰن ملک نے 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے وقت ادا کیا

1988ء کے انتخابات کے بعد آئین کے مطابق قومی اسمبلی نے پہلے سپیکر کا انتخاب کرنا تھا پھر مُنتخب سپیکر نے وزیر اعظم کا انتخاب کرانا تھا مگر سپیکر کا انتخاب کرانے سے قبل ہی بینظیر بھٹو کو وزیر اعظم نامزد کر کے کامیاب کرایا گیا جبکہ پی پی پی کے پاس اکثریت نہ تھی ۔ اکثریت بنانے کیلئے ایم کیو ایم اور فاٹا کے اراکین کو ساتھ ملایا گیا

بھارت کے وزیر اعظم راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں اسلام آباد کا دورہ کیا ۔ جس کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں جہاں کہیں بھی جموں کشمیر لکھا تھا وہ مٹا دیا گیا یا بورڈ ہی اُتار یا اُکھاڑ دیا گیا حتٰی کہ کشمیر ہاؤس اور منسٹری آف کشمیر افیئرز کے بورڈ بھی اُکھاڑ کر چھپا دیئے گئے ۔ یہی نہیں ۔ راجِیو گاندھی نے بینظیر بھٹو کے پہلو میں بیٹھے پریس کانفرنس کی جس میں ایک صحافی کے جموں کشمیر کے متعلق سوال پوچھنے پر راجِیو گاندھی نے بہت غُصے میں کہا کہ ”جموں کشمیر نام کا کوئی اِیشو نہیں ہے اور کسی کو اس کے متعلق بات کرنے کا کوئی حق نہیں“ ۔ اس دوران بینظیر بھٹو اپنا چہرہ دوسری طرف کر کے ہنستی رہی

راجِیو گاندھی کے اِسی دورے کے دوران بینظیر بھٹو نے اُسے یقین دہانی کرائی کہ یورینیم کی افسودگی روک دی جائے گی اور بینظیر بھٹو کی حکومت خالصہ تحریک کے خلاف بھارت کی مدد کرے گی ۔ چنانچہ یورینیم کی آسودگی روک دی گئی تھی اور خالصہ تحریک کے سینکڑوں رہنماؤں کی فہرست ایک وزیر کے ہاتھ بھارت بھیجی گئی ۔ بھارت نے چُن چُن کر سکھ راہنما ہلاک کرنے کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمانوں پر ظُلم و استبداد کے پہاڑ توڑنے شروع کئے

جنگ بندی لائین جسے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے بھارت اور امریکا کی اِیماء پر لائین آف کنٹرول مان لیا تھا مقبوضہ جموں کشمیر میں رہنے والے اسے پار کر کے اپنے رشتہ داروں کو ملنے آزاد جموں کشمیر آیا کرتے تھے ۔ سُننے میں آیاتھا کہ بینظیر حکومت نے اُن راستوں کی اطلاع بھارتی حکومت کو دے دی تھی جس کے نتیجہ میں بھارتی فوج نے 1989ء میں 500 سو کے قریب کشمیری ہلاک کئے

بینظیر بھٹو نے اپنے پہلے دورِ حکومت (1988ء تا 1990ء) میں جنرل اسلم بیگ کو ”تمغہ جمہوریت“ سے نوازا تھا

آئی جے آئی کی تخلیق 1988ء میں ہوئی تھی ۔ اس کے سربراہ غلام مصطفٰی جتوئی تھے جو 1988ء میں منتخب نہ ہوئے ۔ 1989ء میں پنجاب میں ایک نشست خالی کرا کے اسے جتوا کر قومی اسمبلی میں لایا گیا حالانکہ اس کا تعلق اور رہائش صوبہ سندھ کی تھی

وسط 1990ء میں اپوزیشن کی طرف سے بینظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد آنے کی خبر تھی لیکن حکومت ختم کر دی گئی اور غلام مصطفٰی جتوئی کو نگران وزیرِ اعظم بنا دیا گیا تھا

آجکل جسے مہران بنک سکینڈل کہا جا رہا ہے وہ دراصل حبیب بنک سکینڈل ہے ۔ 1990ء میں تو مہران بنک کہیں کاغذوں میں بھی نہیں آیا تھا ۔ البتہ اس کا مجرم یونس حبیب ہی ہے جو بعد میں وقوع پذیر ہونے والے مہران بنک سکینڈل میں بھی ملوّث تھا

غلام مصطفٰی جتوئی نے نگران وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود انتخابات کے عمل میں حصہ لیا ۔ راولپنڈی سے ایک جلوس کی سربراہی کی جو ملتان جانا تھا مگر جلوس لاہور کے قریب پہنچنے پر نواز شریف کے نعرے لگنے شروع ہو گئے اور جتوئی جلوس سے الگ ہو گئے ۔ عوام نے کھیل بگاڑ دیا اور نواز شریف وزیرِ اعظم بن گئے

جو واقعہ کئی ذہنوں نے قبول نہ کیا یا اس پر ذہن حیران تھے وہ جام صادق کا وزیرِ اعلٰی سندھ بننا تھا کیونکہ اُسے کسی لحاظ سے بھی نواز شریف کا ساتھی نہیں کہا جا سکتا تھا

کراچی میں ستمبر 1991ء کے آخری حصے میں گورنر سٹیٹ بنک کا بیٹا دفتر اور گھر کے راستے میں اغواء ہو گیا ۔ انگلیاں جام صادق کی طرف اُٹھیں مگر بغیر آواز کیونکہ وہ اس کا خطرناک ماہر سمجھا جاتا تھا

جام صادق علی کے (جبری) حکم سے گورنر سٹیٹ بنک نے یونس حبیب کو مہران بنک کا لائسنس 1992ء کے اوائل میں جاری کر دیا

نواز شریف نے اسلم بیگ کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے کئی ماہ قبل ہی آصف نواز جنجوعہ کی بطور چیف آف آرمی سٹاف تقرری کا اعلان کر دیا تھا

مہران بنک جسے بنانے کا لائسنس یونس حبیب کو 1992ء میں ملا تھا کچھ ہی سال بعد دیوالیہ ہو گیا تھا ۔ ستمبر 1992ء اور جون 1993ء کے درمیان مہران بنک سے 59 کروڑ روپے نکلوا کر متعلقہ افسران اور ان کے لواحقین میں تقسیم کئے گئے تھے ۔ پھر مہران بنک کے اربوں روپے نواز شریف کی جماعت کے وزیرِ اعلٰی صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) پیر صابر شاہ کی حکومت گرانے کیلئے استعمال کئے گئے ۔ خبر تھی کہ 10 کروڑ آفتاب شیر پاؤ کو دیئے گئے تھے

جب 1993ء میں نواز شریف کی حکومت مع اسمبلی توڑ دی گئی تو اس کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت اور اسمبلی بحال کر دی مگر طاقت رکھنے والوں نے چلتا کر دیا اور غلام اسحاق خان کو بھی فارغ کر دیا

جب 1996ء میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور حکومت کے درمیان چپقلش ہوئی تو اصغر خان نے نصیر اللہ بابر کے اخباری بیانات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ۔ یہ کیس اکتوبر 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے تک چلتا رہا ۔ اس کے بعد نہ پرویز مشرف کی حکومت نے اور نہ موجودہ حکومت نے اس کیس کی خبر لی مگر پچھلے سال سے پی پی پی نے اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اب تک جاری ہے

اصغر خان نے دسمبر 2011ء میں تحریکِ استقلال کو عمران خان کی تحریکِ انصاف میں ضم کر دیا تھا

کیا پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اسلامی نہیں ؟

پاکستان میں نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک مسلم ریاست بنانا چاہتے تھے اسلامی نہیں ۔ اس سلسلہ میں محمد آصف بھلّی صاحب کی تحریر جو نوائے وقت مورخہ 29 اگست 2012ء میں شائع ہوئی تھی کے اقتباسات

جن نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کی مُٹھی بھر تعداد کو پاکستان کا اسلامی تشخص ہضم نہیں ہوتا، وہ کبھی کبھار اس طرح کا شگوفہ بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا، ایک اسلامی ریاست کے طور پر نہیں اور قائداعظم کا منشاء و منصوبہ بھی ایک مسلم ریاست کا قیام تھا۔ سیکولر ازم کے علمبردار طبقہ کی فتنہ انگیزی اور عیاری دیکھیئے کہ جب انہیں پاکستان میں سیکولر ازم کی دال گلتی نظر نہیں آتی تو وہ اسلامی ریاست سے خوفزدہ ہو کر اپنے پاس سے مسلم ریاست کا نظریہ گھڑ لیتے ہیں حالانکہ جس ریاست میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہوگی وہاں یقینا قانون سازی اور دستور سازی کرتے ہوئے دین اسلام کو پیش نظر رکھا جائے گا۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ اگر ایک آزاد مسلم ریاست میں مسلمانوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو اسلام کے مطابق بسر کرنے کا اہتمام نہیں کرنا اور اسلامی قوانین کا نفاذ عمل میں نہیں لانا تو پھر وہ مسلم ریاست کیوں کر کہلائے گی؟ کیا قائداعظم نے صرف ایک برائے نام مسلم ریاست کی سُرخی استعمال کرنے کیلئے پاکستان بنایا تھا ؟ میرے خیال میں پاکستان کا بطور ایک اسلامی ریاست کے جتنا واضح اور صاف تصوّر قائداعظم کے ذہن میں موجود تھا۔ اتنا واضح تصوّر اُس دور کے کسی بڑے عالم دین کے ذہن میں بھی نہیں تھا۔ علامہ اقبال نے بھی بار بار اپنے خطبہ الہ آباد میں اسلامی ریاست کے الفاظ استعمال کئے تھے، مسلم ریاست کے نہیں

اب بانیءِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا بھی تصوّر اسلام دیکھیئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ

”اسلامی حکومت کے تصوّر کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیئے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہوگی“

اب اگر قائداعظم کے ارشاد کے مطابق پاکستان میں صدر، وزیراعظم، پارلیمنٹ اور دیگرادارے قرآن کے اصول و احکام کے پابند بنا دیئے جائیں اور افراد کی بجائے قرآن کی حکمرانی تسلیم کرلی جائے تو یہ ایک اسلامی ریاست ہوگی یا محض نمائشی مسلم ریاست ؟ قائداعظم نے 1945ء میں اپنے پیغام عید میں ایسے سخت الفاظ استعمال کئے کہ شاید ہی انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے سخت الفاظ بولے ہوں۔ یہ الفاظ انہوں نے کن لوگوں کے بارے میں استعمال کئے۔ آپ کو قائداعظم کا پیغام عید پڑھ کر خود ہی معلوم ہو جائے گا
پاکستان کے لئے سیکولر ریاست کے بارے بار بار الفاظ استعمال کرنے والے گمراہ طبقہ کو بھی قائداعظم کی یہ تقریر یاد رکھنی چاہئے کہ

”جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمانوں کا ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات ہے۔ قرآن محض دینیات نہیں بلکہ سول اور تعزیری قوانین کی بھی بنیاد ہے۔ وہ قوانین جن سے بنی نوع انسان کے اعمال اور حقوق کی حدبندی ہوتی ہے۔ وہ بھی اللہ کے نہ تبدیل ہونے والے احکام سے متعین ہوتے ہیں“

اب جو لوگ اپنا شمار جاہلوں میں نہیں کرنا چاہتے، انہیں قرآن کو ایک ہمہ گیر ضابطہءِ حیات تسلیم کرنا ہوگا۔ قرآن کی تعلیمات ہمارے مذہبی، سماجی، سیاسی، معاشی، فوجی، سول، عدالتی اور قانونی تمام معاملات زندگی پر محیط ہے۔ قرآن حکیم میں سیرت رسول کے حوالے سے ایک انتہائی مختصر اور جامع حکم ہے کہ ”یقیناً تمہارے واسطے اللہ کے رسول میں زندگی کا بہترین نمونہ ہے“۔

قرآن کے اس ارشاد کی روشنی میں اب سبی دربار بلوچستان سے قائداعظم کے خطاب کا ایک مشہور اقتباس پڑھئے

”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہءِحیات پر عمل کرنا ہے جو ہمارے قانون دینے والے عظیم پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہمارے لئے قائم کر رکھا ہے، ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے طے کیا کرو“

قائداعظم نے جمہوریت کا سبق اسلام اور قرآن سے لیا تھا۔ ان کے نزدیک اسلام صرف چند رسوم، روایات اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے سیاسی، اقتصادی اور دیگر مسائل کی راہبری کے لئے اسلام ایک مکمل ضابطہ ءِ حیات تھا۔ انہوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار متعدد بار بڑے بڑے عوامی جلسوں میں کیا، اس کے باوجود اگر کچھ لوگ پاکستان کے اسلامی تشخص کے منکر ہیں تو یہ ان کی اپنی عقل کا قصور ہے ورنہ قائداعظم کے تصورات میں تو کہیں ابہام موجود نہیں

قائداعظم نے فروری 1948ءمیں امریکی نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ

”پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی حقیقی شکل کیا ہوگی
لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہو گا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسلامی اصولوں کا اطلاق ہماری آج کی عملی زندگی پر بھی ویسے ہی ہوسکتا ہے جس طرح 1300 سال قبل یہ اصول قابل عمل تھے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئیندہ دستور کے معمار کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے اچھی طرح آگاہ ہیں“

قائداعظم کے ان فرمودات کے مطالعہ کے بعد بھی اگر کوئی مخصوص گروہ پھر بھی یہ اصرار کرتا ہے کہ قائداعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے تو میں ان کی خدمت میں صرف یہی عرض کروں گاکہ جھوٹ بولتے ہوئے کچھ تو شرم محسوس کرو ۔ تمہارے نظریات اور تمہاری گمراہی تمہیں مبارک لیکن یہ قوم تمہیں قائداعظم کے افکار و تعلیمات اور قیام پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنے کا تمہارا خواب کبھی پورا نہیں ہو گا

قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے؟

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ قائداعظم کی دیگر سینکڑوں تقاریر جو شاید انہوں نے پڑھی نہیں میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کی بنیاد اسلام کو ہی بتایا گیا ہے ۔ متذکرہ تقریر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب تھا ۔ یہ تقریر (پوری تقریر اس مضمون کے آخر میں منقول ہے) نہ تو لکھی ہوئی تھی اور نہ تیار کردہ بلکہ فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے کہا تھا

ہمیں اسی لگن کے ساتھ کام کا آغاز کرنا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کی حصہ داری ، ہندو طبقہ اور مسلم طبقہ کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی شیعہ سُنّی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن وشنواس کھتری اور بنگالی مدراسی وغیرہ ختم ہو جائیں گے ۔ درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں، یہ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے ۔ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو خاص کر 400 ملین نفوس کو محکومیت میں نہیں رکھ سکتی ۔ نہ کوئی قوم آپ کو زیر کر سکتی تھی اور نہ مغلوب رکھ سکتی تھی سوائے متذکرہ گروہ بندی کے ۔ اسلئے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے ۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے

بتایئے اس میں سے سیکولر کیسے اخذ کیا گیا ؟ قائد اعظم نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل اسلامی تعلیمات کا ہی ایک جزو ہے ۔ خیال رہے کہ پاکستان کی پہلی کابینہ میں چودھری ظفر اللہ خان (مرزائی) اور جوگندر ناتھ منڈل (ہندو) موجود تھے

قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل لگ بھگ 100 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد 14 بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور ملکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ انہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں

جنرل اکبر کے مطابق قائداعظم سے ملاقات میں اُس (جنرل اکبر) نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن بکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے بکس کو کھول کر چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے کھولا اور فرمایا ”جنرل یہ قرآن مجید ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے عرض کیا کہ ”آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو مُتنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے“۔ قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ ”کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا ؟“ سٹینو کو بُلایا گیا اور قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حکم جاری کر دیا کہ جس پر میری (جنرل اکبر کی) ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہے

قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب ہونے پر دستور ساز اسمبلی سے پہلے خطاب کا متن

Mr. President, Ladies and Gentlemen!

I cordially thank you, with the utmost sincerity, for the honour you have conferred upon me – the greatest honour that is possible to confer – by electing me as your first President. I also thank those leaders who have spoken in appreciation of my services and their personal references to me. I sincerely hope that with your support and your co-operation we shall make this Constituent Assembly an example to the world. The Constituent Assembly has got two main functions to perform. The first is the very onerous and responsible task of framing the future constitution of Pakistan and the second of functioning as a full and complete sovereign body as the Federal Legislature of Pakistan. We have to do the best we can in adopting a provisional constitution for the Federal Legislature of Pakistan. You know really that not only we ourselves are wondering but, I think, the whole world is wondering at this unprecedented cyclonic revolution which has brought about the clan of creating and establishing two independent sovereign Dominions in this sub-continent. As it is, it has been unprecedented; there is no parallel in the history of the world. This mighty sub-continent with all kinds of inhabitants has been brought under a plan which is titanic, unknown, unparalleled. And what is very important with regards to it is that we have achieved it peacefully and by means of an evolution of the greatest possible character.

Dealing with our first function in this Assembly, I cannot make any well-considered pronouncement at this moment, but I shall say a few things as they occur to me. The first and the foremost thing that I would like to emphasize is this: remember that you are now a sovereign legislative body and you have got all the powers. It, therefore, places on you the gravest responsibility as to how you should take your decisions. The first observation that I would like to make is this: You will no doubt agree with me that the first duty of a government is to maintain law and order, so that the life, property and religious beliefs of its subjects are fully protected by the State.

The second thing that occurs to me is this: One of the biggest curses from which India is suffering – I do not say that other countries are free from it, but, I think our condition is much worse – is bribery and corruption. That really is a poison. We must put that down with an iron hand and I hope that you will take adequate measures as soon as it is possible for this Assembly to do so.

Black-marketing is another curse. Well, I know that blackmarketeers are frequently caught and punished. Judicial sentences are passed or sometimes fines only are imposed. Now you have to tackle this monster, which today is a colossal crime against society, in our distressed conditions, when we constantly face shortage of food and other essential commodities of life. A citizen who does black-marketing commits, I think, a greater crime than the biggest and most grievous of crimes. These blackmarketeers are really knowing, intelligent and ordinarily responsible people, and when they indulge in black-marketing, I think they ought to be very severely punished, because the entire system of control and regulation of foodstuffs and essential commodities, and cause wholesale starvation and want and even death.

The next thing that strikes me is this: Here again it is a legacy which has been passed on to us. Along with many other things, good and bad, has arrived this great evil, the evil of nepotism and jobbery. I want to make it quite clear that I shall never tolerate any kind of jobbery, nepotism or any influence directly or indirectly brought to bear upon me. Whenever I will find that such a practice is in vogue or is continuing anywhere, low or high, I shall certainly not countenance it.

I know there are people who do not quite agree with the division of India and the partition of the Punjab and Bengal. Much has been said against it, but now that it has been accepted, it is the duty of everyone of us to loyally abide by it and honourably act according to the agreement which is now final and binding on all. But you must remember, as I have said, that this mighty revolution that has taken place is unprecedented. One can quite understand the feeling that exists between the two communities wherever one community is in majority and the other is in minority. But the question is, whether it was possible or practicable to act otherwise than what has been done, A division had to take place. On both sides, in Hindustan and Pakistan, there are sections of people who may not agree with it, who may not like it, but in my judgement there was no other solution and I am sure future history will record is verdict in favour of it. And what is more, it will be proved by actual experience as we go on that was the only solution of India’s constitutional problem. Any idea of a united India could never have worked and in my judgement it would have led us to terrific disaster. Maybe that view is correct; maybe it is not; that remains to be seen. All the same, in this division it was impossible to avoid the question of minorities being in one Dominion or the other. Now that was unavoidable. There is no other solution. Now what shall we do? Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his colour, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges, and obligations, there will be no end to the progress you will make.

I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place or worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.

Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

Well, gentlemen, I do not wish to take up any more of your time and thank you again for the honour you have done to me. I shall always be guided by the principles of justice and fairplay without any, as is put in the political language, prejudice or ill-will, in other words, partiality or favouritism. My guiding principle will be justice and complete impartiality, and I am sure that with your support and co-operation, I can look forward to Pakistan becoming one of the greatest nations of the world.

I have received a message from the United States of America addressed to me. It reads:
I have the honour to communicate to you, in Your Excellency’s capacity as President of the Constituent Assembly of Pakistan, the following message which I have just received from the Secretary of State of the United States:
On the occasion of of the first meeting of the Constituent Assembly for Pakistan, I extend to you and to the members of the Assembly, the best wishes of the Government and the people of the United States for the successful conclusion of the great work you are about to undertake.

کیا یہ سچ ہے ؟

میں نے بھی کہا تھا ۔ کیا یہ سچ ہے ؟
جی ہاں ۔ جب تک چھان بین نہ کی جائے دماغ میں یہی خیال اُٹھتا ہے

اب آپ خود بھی دیکھ لیجئے اور بتایئے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ۔ کمال یہ ہے کہ کسی کو خبر ہی نہ ہوئی
وفاقی وزیرِ داخلہ جو سب کچھ معلوم ہونے کا دعوٰی آئے دن کرتے رہتے ہیں نہ اُنہوں نے کچھ بتایا
اور نہ ہمارے ذرائع ابلاغ نے کچھ کہا ۔ وہ ذرائع ابلاغ جن کے دانشور آنے والے واقعات کی مہینوں پہلے پیشگوئی کرنے کے دعویدار ہیں

ملالہ کی اعلٰی امریکی حکام سے ملاقاتیں

ایک وِڈیو جو نیو یارک ٹائمز کی ویب سائٹ پر موجود ہے

جمہوریت کی بھیانک خصوصیت

میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اللہ مجھ پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنے کا میں مُستحق ہوں ۔ شاید اللہ ہی میرے ذہن میں وہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ جس میں مجھے جلد ہی سُرخرُو کرنا ہوتا ہے ۔ اللہ کی اللہ ہی جانے ۔ آتے ہیں موضوع کی طرف

میں نے صرف 15 دن قبل ” کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے“ کے عنوان کے تحت لکھا تھا

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے

جمہوریت کی جو بھیانک خصوصیات میرے استدلال کی بنیاد تھیں ان میں سے ایک کا ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مہیاء کر دیا ہے ۔ پیر مورخہ 8 اکتوبر کو حکومت نے ”قومی احتساب کمیشن کے قیام کے قانون“ کا مسؤدہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جو لُٹیروں کے احتساب سے زیادہ اُن کے تحفط پر دلالت کرتا ہے ۔ متذکرہ مسودے کے اقتباسات میں دیکھیئے کہ کس طرح حکمران سادہ اکثریت کے بل بولتے مجرموں اور اپنے جرائم کے تحفظ کیلئے قانون بنانے کی کوشش میں ہیں ۔ اے این پی جو کی حکومت کا حصہ ہے نے اس قانون کی مخالفت کر دی ہے لیکن پی پی پی اپنے دوسرے حواریوں ایم کیو ایم ۔ ق لیگ ۔ فاٹا وغیرہ کے تعاون سے یہ قانون بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے

کمیشن کے سربراہ کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے صدر نامزد کرے گا
اگر اتفاق رائے نہ ہو تو وزیر اعظم 2 نام قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھیجے گا جو ایک نام تجویز کرے گی
اگر یہ کمیٹی بھی فیصلہ نہیں کر پاتی تو وزیر اعظم 2 میں سے جو نام سرِ فہرست ہو گا اسے منظوری کیلئے صدر کو بھیج دے گا

احتساب عدالتوں کے ججوں کا تقرر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے سے صدر کرے گا

اگر صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنر ۔ وزیر اعلٰی ۔ وفاقی یا صوبائی وزیر ۔ سنیٹر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی نیک نیّتی سے جُرم کرے تو اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی

اگر کرپشن کا ارتکاب کئے 10 سال ہو چکے ہوں تو متعلقہ شخص کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی

ثبوت ہونے کے باوجود کرپشن میں ملوث فرد اگر انکوائری کیلئے تیار ہو تو اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔ عدالت میں جُرم ثابت ہونے کے باوجود مُجرم لُوٹی ہوئی دولت واپس نہ کرے تو 7 سال کی قید کی سزا ہو گی ۔ اگر وہ سیاستدان ہے تو 5 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا ۔ اگر سرکاری ملازم ہے تو نوکری سے نکال دیا جائے گا

عدالت میں جُرم ثابت ہونے پر اگر مُجرم لوٹی ہوئی دولت سودے بازی () کے مطابق واپس کر دے تو 3 سال قید ہو گی ۔ اگر وہ صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنر ۔ وزیر اعلٰی ۔ وفاقی یا صوبائی وزیر ۔ سنیٹر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی ہو تو اس کی سزا صرف یہ ہو گی کہ وہ 2 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا

Under international cooperation and requests for mutual legal assistance, the federal government or the commission can only do the following as per new law;

a) have evidence taken, documents, articles, assets or proceeds produced and

b) Transferred to Pakistan any such evidence, documents, articles, assets or proceeds realised from the disposal of such articles or assets.

Whereas, according to the existing clause for international cooperation and requests for mutual legal assistance, much more can be done. The Section 21 of the NAB Ordinance reads as 21.

The NAB chairman or any officer authorised by the federal government may request a foreign state to do [any or all of] the following acts in accordance with the law of such state:—

(a) have evidence taken, or documents or other articles produced;

(b) obtain and execute search warrants or other lawful instruments authorising search for things relevant to investigation or proceedings in Pakistan believed to be located in that state, and if found, seize them;

(c) Freeze of assets by whatever processes are lawfully available in that state, to the extent to which the assets are believed on reasonable grounds to be situated in that state;

(d) Confiscate articles and forfeit assets to the extent to which the articles or assets, as the case may be, are believed to be located in that state;

(e) Transfer to Pakistan any such evidence, documents, things articles, assets or proceeds realised from the disposal of such articles or assets.

(f) Transfer in custody to Pakistan a person detained in that state who consents to assist Pakistan in the relevant investigation or proceedings.

(g) Notwithstanding anything contained in the Qanun-e-Shahadat Order 1984 (PO 10 of 1984) or any other law for the time being in force all evidence, documents or any other material transferred to Pakistan by a foreign government shall be receivable as evidence in legal proceedings under this Ordinance 2[and] 3

(h) notwithstanding anything to the contrary contained hereinabove, the NAB chairman may, on such terms and conditions as he deems fit, employ any person or organisation, whether in Pakistan or abroad, for detecting, tracing or identifying assets acquired by an accused in connection with an offence under this ordinance, and secreted or hoarded abroad, or for repatriation to Pakistan of such assets.