Category Archives: سیاست

آج مجھے کہنے دیں

میرے اس بلاگ کا عنوان ہے “میں کیا ہوں”۔ مطلب یہ کہ ہم سب کیا ہیں ؟My Id Pak
تبدیلی اگر لانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلنا لازم ہے ۔
ہم ہیں کیا ؟ پوری دیگ میں سے صرف چند چاول
اور ہاں یہ اَن پڑھ یا مُفلس عوام کی باتیں نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے سُوٹِڈ بُوٹِڈ لوگوں کی جن میں مُلکی نظامِ تعلیم کو حقیر سمجھنے والے بھی شامل ہیں

میں جرمنی ۔ برطانیہ ۔ ہالینڈ ۔ بیلجیم ۔ فرانس ۔ ترکی ۔ لبیا ۔ امریکہ ۔سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات وغیرہ ممالک میں رہا ہوں

متذکرہ ممالک میں بنک ہو یا کوئی اور دفتر حتٰی کہ بس یا ٹرام کے انتظار میں سب لوگ آرام سے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں قطار میں کھڑا ہونا شاید جاہلیت کی علامت سمجھا جاتا ہے

متذکرہ ممالک میں کسی کو سلام کریں تو وہ مسکرا کر جواب دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں سلام کرنا شاید غریب یا چھوٹے آدمی کا فرض سمجھا جاتا ہے

متذکرہ ممالک میں کسی مقامی کو مُلک کے خلاف بولتے نہیں سُنا
ہمارے ہاں لوگ کماتے کھاتے اسی مُلک سے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔

متذکرہ ممالک میں ٹریفک پولیس والا موجود ہو یا نہ ہو ۔ دن ہو یا رات ہو کوئی گاڑی والا سُرخ بتی کراس نہیں کرتا خواہ دوسری طرف سے کوئی گاڑی نہ آ رہی ہو ۔
ہمارے ہاں ۔ ٹریفک پولیس والا نہ ہو تو گاڑی چلانے والے سُرخ بتی پر نہیں رُکتے چاہے کسی اور گاڑی والے کو رُکنے پر مجبور ہونا پڑے

متذکرہ ممالک میں سڑک کے کنارے کوئی ضعیف آدمی یا عورت سڑک پار کرنے کے انتظار میں دیکھیں تو گاڑیوں والے گاڑیاں روک کر اُنہیں گذرنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔
ہمارے ہاں گاڑی والوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی پیدل شخص خواہ کتنا ہی ضعیف ہو سڑک پار کرنے کی گُستاخی نہ کرے

متذکرہ ممالک میں جب کوئی گاڑی والا اپنی قطار سے دوسری قطار میں جانے لگتا ہے تو اشارہ دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں بغیر اشارہ دیئے دوسری قطار میں جاتی گاڑی کے سامنے زبردستی گھُس جانا شاید بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا ہے

کوئی عام دعوت ہو یا شادی کی دعوت متذکرہ ممالک میں لوگ بڑے تحمل سے اُٹھتے ہیں اور بڑی عمر کے لوگوں اور عورتوں کو آگے جانے کی درخواست کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کھانا کھُلتے ہی زیادہ تر لوگ اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے باہر دانہ ڈال کر چوزوں کا ڈربہ کھولا جائے تو سب گرتے پڑتے ایک دوسرے کو دھکیلتے دانے پر پہنچتے ہیں

فہرست اتنی طویل ہے کہ شاید لکھتے لکھتے میرا وقت ختم ہو جائے

سب سے پہلے اپنے اوصاف تو درست کیجئے پھر لگایئے نعرہ تبدیلی کا
تبدیلی اگر لانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلنا لازم ہے

سیانے لوگ جانتے ہیں کہ اگر جنگلی جھاڑی بڑی ہو جائے تو اُس کی اُوپر سے ٹہنیاں کاٹنے سے وہ ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ پھیل جاتی ہے ۔ جنگلی گھاس اُگ کر بڑھ جائے تو اسے تلف کرنے کیلئے ایک فٹ گہرائی تک کھدائی کر کے ساری گھاس ایک طرف کر کے جلا دی جاتی ہے ۔ پھر نئی مٹی ڈال کر اچھی گھاس لگا کر سالہا سال اس کی حفاظت کی جاتی ہے

کہاں جنگلی جھاڑی یا جنگلی گھاس کی طرح پلے آدمی جو جھاڑی یا گھاس کی طرح ساکن نہیں ہوتے بلکہ دوڑتے پھرتے ہیں ۔

جب تک آدمی انسان نہیں بن جاتے لیٰڈر یا جماعتیں تبدیل کرنے سے کچھ نہ ہو گا

بہتری کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے جو سب سے زیادہ دیانت دار یا یوں کہہ لیجئے کہ جو سب سے کم بد دیانت ہو اور جس کے ماضی کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہو کہ وہ باقیوں کی نسبت زیادہ اچھا کام کرے گا اُسے کامیاب کرایئے ۔ پارٹیوں کو بھول جایئے اور پارٹیوں کے سربراہوں کو بھی بھول جایئے ۔ کام آپ کیلئے آپ کے علاقہ سے منتخب ہونے والے نے کرنا ہے اور اسی کو آپ پکڑ بھی سکتے ہیں ۔ پارٹی کے سربراہ کو تو آپ صرف ٹی وی پر دیکھ سکیں گے

میں کانپ گیا

کچھ دنوں سے مجھے ماضی بعید میں پی ٹی وی پر دکھایا جانے والا رائٹر پروڈیوسر فاروق قیصر کا پروگرام”انکل سرگم“ یاد آ رہا ہے ۔ انکل سرگم کہا کرتا تھا ”سمال کراکری ۔ چھوٹا پانڈا“۔

گریٹ کرکٹ کیپٹن کے تقریری سٹائل نے انکل سرگم کی یاد دلائی ہے

عمران خان ایک بال سے 2 وکٹیں لینے سے شروع ہوا
پھر کہا “بلّے سے چھکّا ہی نہیں ۔ پھینٹی بھی لگائیں گے
پھر اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے نواز شریف پر تابڑ توڑ ذاتی حملے کرنا شروع کئے

مگر میں اُس وقت کانپ گیا جب بہاولپور کے جلسے میں عمران خان نے بڑی لہر میں آتے ہوئے کہا

(میرے اللہ ۔ تیرا یہ بندہ افتخار اجمل بھوپال دست بستہ عرض کرتا ہے کہ عمران خان کے بیہودہ بیان کو نقل کرنے کی جسارت کرنے پر مجھے معاف کر دینا)

عمران خان نے کہا ” اللہ نے سُوئَو مَوٹَو نوٹس لے لیا ہے“۔

یہ بھی پڑھیئے ” کہاں ہیں وہ مَور پنکھ ؟ “۔

بدنامِ زمانہ شیخ رشید کے ساتھ سپورٹ کا معاہدہ کرنا ہی کم نہ تھا کہ ٹیکسلا کے بدنام قبضہ مافیا کے سردار ” غلام سرور خان“ کو عمران خان نے ٹکٹ دے دیا

تبدیلی ؟ کیسے ؟

آجکل تبدیلی کا بہت غُوغا ہے ۔ ہر سمت سے تبدیلی کے آوازے سُنائی دے رہے ہیں ۔ My Id Pak
بڑے بڑے جلسوں میں تبدیلی کا دعوٰی کیا جاتا ہے ۔ کہیں سونامی سونامی کیا جا رہا ہے ۔ کیا ماضی قریب میں آنے والے سونامی کو تباہی مچاتے نہیں دیکھا یا یہ کہ بہتری کی بجائے تباہی لانے والی تبدیلی لانا چاہتے ہیں

کیا ہی اچھا ہوتا اگر کہتے ”ہم جہالت کے خلاف جہاد کر کے خلفائے رسول اللہ ﷺ کا دور واپس لائیں گے

تبدیلی کا نعرہ لگانے والے شاید خود بھی نہیں جانتے کہ تبدیلی کیسے لانا ہے اور اس کیلئے کیا کرنا پڑے گا

دیکھا جائے تو تبدیلی کا آغاز تو 2007ء میں ہو گیا تھا ۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ اپنی منازل طے کر رہی ہے
ضرورت ہے اس تبدیلی کو جاری رکھنے کی اور اس کی رفتار قدرے تیز کرنے کی

کیا پہلے کبھی گدی پر بیٹھے پاکستان کے وزیر اعظم کو عدالت نے 5 سال کیلئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا ؟
کیا کبھی پاکستان کے وزیر اور پھر وزیر اعظم بننے والے پر کرپشن کے مقدمات چلائے گئے تھے ؟
کیا کبھی جعلی ڈگری پیش کرنے پر اسمبلیوں کے اراکین یا سینیٹرز کو جیل بھیجا گیا تھا ؟

تبدیلی نعروں سے کبھی نہیں آئی اور نہ آئے گی ۔ اس کیلئے تحمل کے ساتھ پُرخلوص لگاتار محنت کی ضرورت ہوتی ہے

تبدیلی لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ
ہر ووٹر پچھلی غلطیوں پر نادم ہو اور آئیندہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی عوامل سے اپنے آپ کو بچائے رکھے
ووٹ ایسے اُمید وار کو دے جو موجود اُمیدواروں میں سب سے زیادہ دیانتدار اور سچا ہو
لیکن ووٹ ضرور دے ۔ یہ سوچ کر نہ بیٹھا رہے کہ سب چور ہیں ۔ فرشتے الیکشن لڑنے نہیں آئیں گے ۔ اسلئے اُمیدواروں میں جو سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دے
یہ خیال بھی رہے کہ ووٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کو نہیں دینا بلکہ اپنے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے ایک کو دینا ہے اسلئے اس کی دیانت اور سچائی کو دیکھیئے نہ کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی

وقتِ عمل

میں 6 ماہ قبل یہ پیغام شائع کر چکا ہوں ۔ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئیMy Id Pak

نہ تو پہلی تصویر میں کھڑے آدمی کی طرح بے فکر بنیئے یعنی سب چور ہیں کہہ کر گھر نہ بیٹھے رہیئے ۔ بُروں میں سے جو اُمیدوار باقیوں سے بہتر ہے اُسے ووٹ دیجئے
اور
نہ دوسری تصویر میں دکھایا گیا راستہ اختیار کیجئے

وقتِ عمل ہے اور سوچ سمجھ کر عمل کیجئے تاکہ مستقبل سکون سے گذار سکیں

11 مئی 2013ء کو آپ کا فیصلہ ہی آپ کے مستقبل کو اچھا یا بُرا بنائے گا ۔ جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر عقل اور تجربے سے کام لے کر فیصلہ کیجئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ غَلَطی

My Id Pak

کوئی شخص ایک ہی غَلَطی دو بار نہیں کرتا
کیونکہ
دوسری بار غلطی نہیں ہوتی بلکہ انتخاب ہوتا ہے

اب بھی سنبھل جائیں تو سب کچھ درست ہو سکتا ہے

عقلمندی کا ثبوت دیجئے اور 11 مئی کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات میں پچھلی غلطی نہ دہراتے ہوئے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفاد سے مبرّا ہو کر صرف مُلک کی بہتری کیلئے ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دیجئے جنہوں نے آپ کی اپنی نظر میں پچھلے کم از کم 5 سال میں دیانتدار ہونے کا ثبوت دیا ہو اور قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں

مُفلِسی کیوں ؟

بجٹ 2012ء ۔ 2013ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 32 کھرب (3200000000000) روپے ہیں
جبکہ کُل متوقع آمدن 23 کھرب روپے ہے
چنانچہ 9 کھرب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اُدھار ۔ خیرات یا ڈاکہ ضروری ہے
عوام کی یلغار سے بچنے کیلئے اس کمی کو 3 ارب (3000000000) روپے مالیت کے نوٹ روزانہ پورا سال چھاپے جاتے ہیں

متذکرہ نقصان کا کم از کم آدھا حصہ سرکاری ادارے مُفت کا مال سمجھ کر اُڑا رہے ہیں جن کے سربراہان کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ یہ لوگ سارا سال روزانہ ڈیڑھ ارب (1500000000) روپیہ کے حساب سے دولت اُڑا رہے ہیں

پچھلے لگ بھگ 5 سال میں حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو 7 کھرب (700000000000) روپے کی ٹیکس کی معافی دی
جبکہ آئی ایم ایف سے 6 کھرب (600000000000) روپیہ ادھار لیا
یعنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ غیر منصفانہ چھوٹ نہ دی جاتی تو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی

حکومتی پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے انکشاف کیا کہ اسمبلیوں کے اراکین کو دیئے جانے والے ڈویلوپمنٹ فنڈ کے ایک کروڑ (10000000) روپیہ میں سے 60 لاکھ یعنی 60 فیصد کمیشن ہوتا ہے
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد 1100 ہے ۔ باقی حساب خود لگا لیجئے

بجلی کے محکمہ میں نقصان ایک ارب (1000000000) روپیہ روزانہ ہے یعنی سال میں 3 کھرب 65 ارب (365000000000) روپے سالانہ
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ملکیت 3 بجلی کمپنیوں سے 26 ارب (26000000000) روپے مالیت کا فرنس آئل چوری ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹرانسفارمر اور کیبلز چوری ہوتے ہیں جو کہ بڑے شہروں میں سستے داموں بیچے جاتے ہیں
لائین لاسز (Line losses) 40 فیصد تک پہنچ چکی ہیں جن میں سے اصل لائن لاسز 6 سے 7 فیصد ہوں گی باقی بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والوں کو حکمرانوں کی پُشت پناہی حاصل ہے

حکومت کے حساب میں بجلی کے محکمہ کو حکومت 360 ارب یا زیادہ امداد (subsidy) دیتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت چوری ۔ ہیرا پھیری اور لُوٹ مار کی امداد کر رہی ہے

وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ کا روزانہ خرچ 2008ء میں 6 لاکھ 41 ہزار 3 سو 6 (641306) روپے تھا جو 2012ء ۔ 2013ء کے بجٹ میں 19 لاکھ 52 ہزار 2 سو 22 (1952222) روپے ہو گیا ہے یعنی 3 گُنا سے بھی زیادہ ۔ اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کا روزانہ خرچ 2008ء میں 40 لاکھ (4000000) روپے تھا جو اب بڑھ کر 80 لاکھ (8000000) روپے روزانہ ہو گیا ہے یعنی 2 گُنا

حال ہی میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی بیوی بیٹے بہو اور دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ 4 دن کے دورے پر برطانیہ گئے تھے ۔ یہ سب لوگ لندن کے علاقہ نائٹس برِج میں واقع برکلی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں 6 کمرے فی کمرہ 1200 پاؤنڈ روزانہ اور 20 کمرے فی کمرہ 800 پاؤنڈ روزانہ پر حاصل کئے گئے ۔ اس طرح صرف ہوٹل کا کرایہ ایک کروڑ 46 لاکھ (14600000) روپیہ ادا کیا گیا ۔ مزید یہ کہ کرایہ پر لی گئی 28 مرسڈیز بینز گاڑیاں استعمال کی گئیں جن پر خرچ اس کے علاوہ تھا ۔ کھانوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہ کیا ہو گا ۔ یہ سب گُلچھڑے عوام سے نچوڑے ٹیکسوں کے پیسے پر اُڑائے گئے

ایوانِ صدر کے اخراجات معلوم نہیں ہو سکے ۔ شاید اُنہیں دیکھنے کیلئے پہلے مقویِ قلب ٹیکہ لگوانا پڑے گا

غریبوں اور شہیدوں کی سیاست کرنے والی حکمران جماعت کا ایک اور کرشمہ یہ ہے کہ 2008ء میں اِن کی حکومت قائم ہونے سے قبل مُلک کا ہر فرد (یعنی میں اور آپ سب بشمول بوڑھے جوان اور چند گھنٹوں کی عمر والے بچوں کے) 30000 روپے کا مقروض تھا مگر یکم فروری 2013ء کو ہر ایک 76000 روپے کا مقروض ہو گیا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 30 جون 2013ء تک ہر ایک 83000 روپے کا مقروض ہو جائے گا ۔ یہ رقم اُس قرض کے علاوہ ہے جو کسی نے ذاتی طور پر اپنے کار و بار یا گھریلو اخراجات کیلئے لیا ہوا ہے

یومِ یکجہتیءِ کشمیر

انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا

کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ

“جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں”
یا
“سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”

جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
راہِ حق میں جد و جہد کرنے والوں کو موت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی

اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے ۔ بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے

اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے

جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے