Category Archives: سیاست

دیکھیئے اور سوچیئے

یہاں کلِک کر کے وِڈیو میں ذرا غور سے دیکھیئے کہ اس میں کون لوگ ہیں ؟
وڈیو لگانے والے کا دعوٰی ہے کہ پاکستانی طالبان اور اُن کے ساتھی ہیں

یہ تصویر ہے امریکی شہریت رکھنے والے ایک مسلمان لڑکے کی جسے اسرائیلی فوجیوں نے مار مار کے حشر کیاامریکی جسے اسرائلیون نے مارا
اس پر امریکہ نے اسرائیل سے صرف احتجاج کیا ہے
اگر یہ واقعہ کسی مسلمان مُلک میں ہوا ہوتا تو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اب تک اُس ملک پر معاشی پابندیاں عائد کر چکی ہوتی
اور ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے والے ممالک کو امریکہ وارننگ بھی دے چکا ہوتا

اور یہاں کلِک کر کے وِڈیو میں دیکھیئے کہ اسرائیلی فوجی کیا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں
وہ اسرائیل جسے امریکہ ہر سال 3 ارب ڈالر امداد بلکہ خیرات دیتا ہے
وہ اسرائیل مسلمان عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے
اور پھر امریکی حکومت کا دعوٰی ہے کہ اسرائیل بہترین جمہوریت ہے

خواہشیں ایسی ۔ ۔ ۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

ہم اسے شاعر کی تفننِ طبع ہی سمجھتے رہے
کون جانتا تھا کہ ایسا دور بھی آئے گا کہ بلند بانگ دعوے کرنے اور اپنے آپ کو مُلک کا بہت بڑا لٰیڈر سمجھنے والے اس شعر کو سچ کر دکھائیں گے ۔ بڑے کرّ و فر اور تیاریوں کے بعد لیڈرِ مُلک گیر نے 27 مئی کو پٹارے سے اژدہا کے نام سے جو نکالا وہ یہ ہے

میاں نواز شریف بتائیں
1 ۔ 11 مئی کو رات 11 بج کر 25 منٹ پر وِکٹری تقریر کس نے کرائی
2 ۔ الیکشن میں سابق چیف جسٹس اور نگران حکومت کا کیا کردار تھا
3 ۔ 35 حلقوں میں کس کے حُکم پر ووٹ مسترد ہوئے
4 ۔ تحریک انصاف 2013ء کے الیکشن کو نہیں مانتی

دوسرے تیسرے اور چوتھے مطالبہ کا نواز شریف سے سر کے بال کی موٹائی جتنا بھی تعلق نہیں ۔ پہلے مطالبہ کا صرف اتنا تعلق ہے کہ نواز شریف نے کچھ کہا ۔ میں 11 اور 12 مئی 2013ء کی درمیانی رات ساڑھے بارہ بجے تک مختلف چینلز سے الیکش کے نتائج سُنتا رہا تھا اور ساتھ ساتھ جو گنتی مکمل ہو جاتی اس کا نتیجہ بھی لکھتا جا رہا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سوا گیارہ بجے کے لگ بھگ کئی ٹی وی چینلز نے خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف اور وفاقی حکومت میں مسلم لیگ ن کو فاتح قرار دے دیا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں تحریکِ انصاف جیتی وہاں دھاندلی نہیں ہوئی مگر جہاں مسلم لیگ ن جیتی وہ دھاندلی ہو گئی

مجھے لڑکپن کی یاد آئی جب راولپنڈی میں ہمارے محلہ کے کچھ لڑکے سڑک کے کنارے گولیاں (بانٹے یا ماربل) کھیل رہے تھے ۔ دوسرے محلہ کے ایک لڑکے نے اُن سے کہا ”مجھے کھلاؤ“۔ اُنہوں نے انکار کیا تو اُس لڑکے نے کھُتی (زمین میں جو سوراخ بنایا ہوتا ہے) میں پیشاب کر کے کہا ”نہ کھیڈساں نہ کھیڈن دیساں ۔ کھُتی وچ مُتری چھوڑساں“۔ (نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے کھیلنے والے سوراخ میں پیشاب کر دیں گے)

پھر دعوٰی ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جا رہا ہے

محبت میں ؟ یا ۔ سیاست میں ؟

سُنا تھا کہ ” محبت اور جنگ“ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے (All is fair in love and war)لیکن عملی طور پر دیکھا یہ ہے کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے ۔ زیرِ نظر ہیں 2 نو آموز سیاستدان ۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سابق کمانڈو اور عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان ۔ پہلے بات عمران خان کی

عمران خان فرماتے ہیں کہ نواز شریف ۔ الیکشن کمیشن ۔ اعلٰی عدالتوں اور جنگ جیو گروپ نے دھاندلی کر کے 11 مئی 2013ء کو ہونے والے الیکشن میں عمران خان کو ہرا دیا

کچھ غیر سیاسی لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کو تو اپنی جیت کا جشن منانا چاہیئے کہ اُنہوں نے قومی اسمبلی میں ملک کی تیسری بڑی پارٹی کی حیثیت حاصل کر لی ۔ جن نشتوں سے ہارے ہیں اگر وہاں دھاندلی ہوئی تھی تو وہاں دھاندلی کیوں نہ ہوئی جہاں تحریکِ انصاف جیتی ؟ عجب بات یہ ہے کہ ملک میں حکومت تو پیپلز پارٹی کی تھی تو دھاندلی نواز شریف نے نواز شریف نے کیسے کی ؟ اور جس کی حکومت تھی اُس کی زیادہ تر نشستیں تو عمران خان لے گیا

کیا 11 مئی 2014ء کو ڈی چوک کے پاس تیرہ چودہ ہزار کا جلسہ کرنے سے یہ مبینہ دھاندلی ختم ہو جائے گی یا اس سے موجودہ حکومت بھاگ جائے گی یا بھگا دی جائے گی ؟ اس جلسے پر تحریکِ انصاف کی اور حکومت کی وساطت سے عوام کا جو روپیہ خرچ ہوا کیا وہ قومی نقصان نہیں ؟

عمران خان شاید سیاست ۔ میڈیا ۔ الیکشن کمیشن اور اعلٰی عدالتوں کو اُسی طرح چلانا چاہتے ہیں جس طرح کرکٹ چلاتے تھے کہ جب جاوید میانداد دو ورلڈ ریکارڈ بنانے کو تھا تو بغیر وجہ میچ ڈکلیئر کر دیا اور پھر جب جاوید میانداد کا کھیل عروج پر تھا اُسے ٹیم سے علیحدہ کر دیا ۔ کہیں عمران خان کی کپتانی میں فرق نہ آ جائے

اب بات سابق آمر پرویز مشرف کی ۔ ملک سے بھاگنے کیلئے عارضہ قلب کا بہانہ کارساز نہ ہونے کے بعد 6 مئی کو جو میڈیکل رپورٹ منظرِ عام پر لائی گئی ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے
” پرویز مشرف کی ریڑھ کی ہڈی کے دو مُہروں میں فریکچر ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں اور صرف دبئی ۔ شمالی امریکہ اور یورپ میں ممکن ہے ۔ اسلئے سندھ ہائیکورٹ پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے“۔

1 ۔ رپورٹ میں سرِ فہرست اور سب سے سِنیئر ہیں دبئی کے ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ریڑھ کی ہڈی کے ماہر مانے جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ملک سے باہر جانا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر امتیاز ہاشمی ہفتے میں 3 دن دبئی میں اور 3 دن کراچی میں علاج اور آپریشن وغیرہ کرتے ہیں ۔ چنانچہ پرویز مشرف ڈاکٹر امتیاز ہاشمی سےکراچی میں علاج اور آپریشن کروا سکتے ہیں ۔
حال ہی میں میرے ایک قریبی عزیز کی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ڈاکٹر امتیاز ہاشمی نے کراچی میں کیا تھا ۔ مریض کو لاہور میں ڈاکٹروں نے ڈاکٹر امتیاز ہاشمی سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ مریض وقت لینے کے بعد لاہور سے کراچی پہنچا تھا

2 ۔ اگر ریڑھ کی ہڈی کا کوئی آپریشن ممکن ہے تو پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے ۔ کیوں ؟ آگے پڑھیئے

مجھے 2001ء یا 2002ء میں کمر میں شدید درد اُٹھا ۔ میں نے عام ڈاکٹر کو دکھایا ۔ اُس نے درد کی گولیاں کھانے کو اور بیلاڈونا پلاسٹر کمر پر لگانے کا کہا ۔ میں 6 ماہ سے زائد یہ علاج کرتا رہا اور مُڑنے ۔ بیٹھنے اور اُٹھنے میں بہت احتیاط شروع کر دی ۔ میں 2004ء میں کراچی چلا گیا ۔ 10 جنوری 2005ء کو اچانک میری کمر اور ٹانگ میں شدید درد شروع ہوا جو ناقابلِ برداشت تھا ۔ مجھے آغا خان ہسپتال لیجایا گیا جہاں درد کو کم کرنے کا ٹیکہ ہر گھنٹہ بعد لگایا جاتا رہا اور ایم آر آئی کرایا گیا ۔ وہاں کے ڈاکٹر کا خیال تھا کہ آپریشن کیا جائے ۔ میں مزید 2 اچھے نیورولوجِسٹس (Neurologists) کی رائے لینا چاہتا تھا ۔ سو ہسپتال سے فارغ ہونے کے کچھ دن بعد مجھے کراچی کے مشہور نیورو فزیشن کے پاس لیجایا گیا جو اُن دنوں پی ای سی ایچ ایس میں کلنک کرتے تھے ۔ اُنہوں نے آپریشن نہ کرانے کا کہا اور درد کم ہونے کے بعد کچھ ورزشیں کرنے کا کہا جو میں آج تک کرتا ہوں

میں نے 20 فروری 2005ء کو درد کم ہوتا محسوس کیا تو اُسی دن اسلام آباد پہنچ گیا ۔ میری بڑی بہن اور سب سے چھوٹا بھائی ڈاکٹر ہیں ۔ بہن پیتھالوجسٹ اور بھائی سرجن ہے ۔ بھائی اپنے ایک ساتھی نیوروسرجن جو راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر اور ہیڈ آف نیورولوجی ڈیپارٹمنٹ تھے اور راولپنڈی اسلام آباد میں بہترین نیوروسرجن سمجھے جاتے تھے کے پاس لے گیا ۔ اُس نے ایم آر آئی کا مطالعہ کر کے کہا
” بھائی جان ۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپریشن نہیں کرایا ۔ آپ کی ریڑھ کی ہڈی کا ایک مُہرا کبھی فریکچر ہوا ہو گا جس کے درست ہونے پر اُس کے اندر باہر کیلسیم (Calcium) جم گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے آپ کی سپائینل کورڈ (Spinal cord) دب رہی ہے جو درد کی وجہ ہے ۔ آپ کو آئیندہ کچھ احتیاطیں کرنا ہیں ۔ نیوروفزیشن کی بتائی ہوئی ورزشیں کریں اور میتھی کوبال 500 (Methycobal 500) ایک گولی دن میں 3 بار کھاتے رہیں ۔ اس سے آپ کے اعصاب (nerves) مضبوط ہوں گے اور درد کم ہو گا”۔

اس نیوروسرجن کے مطابق مہرہ فتیکچر ہونے کی صورت میں ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن انتہائی خطرناک ہوتا ہے ۔ آپریشن کے بعد بہتری کی اُمید 40 فیصد بھی نہیں ہوتی البتہ ٹانگیں بے کار ہونے کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر فریکچر ہونے کے فوراً بعد بھی پتا چل جاتا تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا صرف احتیاط کرنے سے صورتِ حال آج سے بہتر ہو سکتی تھی

میں باقاعدہ میتھی کوبال کھا رہا ہوں اور ورزش بھی کرتا ہوں جو فرش پر لیٹ کر کرنا ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر کی ہدائت کے مطابق سونے کیلئے میں نے ارتھوپیڑِک گدیلہ اور تکیہ (orthopaedic mattress and pillow) کراچی ہی میں خرید لیا تھا پھر فروری میں اسلام آباد آنے پر یہاں بھی خرید لئے تھے
انگوٹھے کے سوا میرا داہنا پاؤں ہر وقت سُن (numb) رہتا ہے ۔ اگر میری داہنی ٹانگ پر وزن پڑے تو میں گِر جاتا ہوں ۔ کبھی انگوٹھا بھی اور ٹانگ کا نیچلا حصہ سُن ہو جاتا ہے ۔ کبھی کبھار پوری ٹانگ اور کمر میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے لیکن ناقابلِ برداشت نہیں ہوتا ۔ میں ایسی صورت میں فرش پر لیٹ جاتا ہوں اور ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ایک خاص ورزش کرتا ہوں ساتھ درد کم کرنے کی کوئی اچھی دوائی بھی کھاتا ہوں
اس حال میں 9 سال اور 4 ماہ گذر گئے ہیں ۔ اللہ کا شکر گذار ہوں کہ بہتوں سے بہتر حال میں ہوں

پرویز مشرف ۔ قابلِ رحم یا قابلِ ملامت

ملک میں پہلی بار کسی کو ملک کا آئین ملیامیٹ کرنے کی پاداش میں عدالت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس پر کچھ لوگ سراپا احتجاج ہیں جن کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف دیانتدار اور ملک و قوم کا خیر خواہ تھا اُس کے ساتھ ظُلم ہو رہا ہے ۔ مُلک و قوم کے ساتھ اُس نے جو کیا اُس کا خمیازہ تو ملک و قوم یہی نہیں کہ صرف دہشتگردی ۔ ڈرون حملوں ۔ بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت میں بھگت رہے ہیں بلکہ مستقبل میں خدا نخواستہ قحط کی صورت میں بھی بھگتنے کا بندوبست کرنے میں پرویز مشرف نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی

پرویز مشرف کی مالی دیانتداری (لُوٹ مار) کی جھلک بعد میں ۔ پہلے پرویز مشرف کے جھوٹ ۔ قوم و مُلک کو داؤ پر لگانے والی خودغرضی ۔ وسیع اور دیر پا قومی نقصانات پہنچانے کے چند نمونے

حکومت پر قبضہ کے وقت پرویز مشرف نے یہ تاثر دیا تھا کہ وہ کشمیر آزاد کرانا چاہتا تھا اور نوازشریف نے کشمیر کا سودا کردیا ۔ اسلئے نوازشریف کو حکومت سے نکالا گیا ۔ لیکن خود عباس سرفراز خان نامی شخص کو وزیر امور کشمیر بنا دیا جس کے کاروباری مفادات بھارت سے وابستہ تھے

” آپ تینوں میں سے ہر ایک انفرادی طور پر اس بات کا مجاز ہو گا کہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے احکامات جاری کرے۔ میں آپ تینوں کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں، جنرل محمود، جنرل عزیز اور شاہد عزیز آپ“۔ جنرل مشرف نے میٹنگ ختم کرتے ہوئے ہمیں اس سلسلے میں با اختیار کیا اور ذمہ دار ٹھہرایا
”یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں آپ لوگوں کا رابطہ نہ ہو سکے یا کوئی دشواری پیش آجائے تو پھر بھی کارروائی میں رُکاوٹ نہ پڑے“۔
یہ کہہ کر وہ (مشرف) کھڑے ہو گئے۔ شاید یہ بات اس لئے بھی کہی ہو کہ کوئی ایک شخص آخری وقت پر پیچھے ہٹنا چاہے تو بھی کارروائی نہ رکے۔ ہم سب نے انہیں الوداع کہا اور اپنے گھروں کو لوٹ آئے
(مشرف کی) سری لنکا جانے سے پہلے یہ آخری ملاقات تھی۔ فیصلہ یہ تھا کہ اگر اُن (مشرف) کی غیر موجودگی میں نواز شریف صاحب اُنہیں فوج کے سربراہ کی کرسی سے ہٹانے کی کارروائی کریں تو فوری طور پر حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ کئی دنوں سے اُن (مشرف) کے گھر پر اس سلسلے کی ملاقاتیں جاری تھیں۔ ان ملاقاتوں میں میرے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل محمود، کمانڈر 10 کور ۔ لیفٹیننٹ جنرل عزیز خان، سی جی ایس (بعد میں جنرل بنے)۔ میجر جنرل احسان، ڈی جی ایم آئی (بعد میں جنرل بنے)۔ بریگیڈئیر راشد قریشی، ڈی جی آئی ایس پی آر اور چیف کے پرنسپل سٹاف افسر موجود ہوتے

مندرجہ بالا اقتباسات جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ سے لئے گئے جو یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کا مارشل لاء اپنی نوکری بچانے کے لئے لگایا تھا

دراصل پرویز مشرف جموں کشمیر کو کسی ذاتی فائدے کی خاطر پکا بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا ۔ پرویز مشرف نے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے پاکستان کو بھی داؤ پر لگا دیا تھا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ”۔

پرویز مشرف نے مزید بتایا تھا کہ اسمبلیاں برقرار ہیں اورپارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی آجائے گی لیکن خود وردی والا چیف ایگزیکٹِو بن بیٹھا اور اسمبلیاں برخواست کردیں

پرویز مشرف کے وزیر خارجہ عبدالستار نے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کی حمایت شروع کردی ۔ جس سے ثابت ہوا کہ پرویز مشرف دراصل امریکہ کا ایجنٹ ہے اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام بند کرنا چاہتا تھا

پرویز مشرف نے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پاک فوج اور پاک سر زمین کو نہتے افغان مسلمانوں پر حملہ کے لئے امریکہ اور نیٹو افواج کو پیش کر دیا

پرویز مشرف نے بغیر آرمی کمانڈرز کے مشورہ کے امریکی ڈرونز کو پاکستان میں جاسوسی کی خاطر اُڑنے اور میزائل حملوں کی اجازت دی

اپنے امریکی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے پرویز مشرف نے بغیر آرمی کمانڈرز سے مشاورت کے ایف بی آئی اور سی آئی اے کے جاسوسوں کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی

آرمی کمانڈرز کے مشورے کے بغیر پرویز مشرف نے سینکڑوں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا

پرویز مشرف کی شہ پر امریکیوں نے باجوڑ کے علاقہ میں واقع ایک مدرسہ پر حملہ کیا جس میں 85 بچے شہید کر دیئے گئے۔ اس پر جنرل مشرف نے کہا کہ یہ حملہ پاکستان آرمی نے کیا ۔ اس طرح پرویز مشرف نے امریکیوں کی نمک حلالی تو کر دی مگر یہ کہہ کر کہ یہ حملہ پاک فوج نے کیا، اپنی فوج کے خلاف نفرت کا بیج بو دیا ۔ پرویز مشرف کے اس بیان کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد پاکستان کی فوج پر اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کی طرف سے پہلا حملہ درگئی میں ہوا جہاں ایک خود کش دھماکہ کے نتیجے میں 40 فوجی جوان شہید ہوئے

پرویز مشرف نے اگست 2006ء میں بلوچستان کے بگٹی قبیلے کے سردار اکبر بگٹی کو جو گورنر بھی رہ چکا تھا ہلاک کروا کر بلوچستان میں بغاوت کی بنیاد ڈالی

پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ذاتی عناد کی بناء پر کراچی میں 12 مئی 2007ء کو خون کی ہولی کِھلوائی جہاں درجنوں معصوموں کو شہید کیا گیا ۔ بجائے شرمندگی کے اُسی رات پرویز مشرف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک سیاسی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مُکے لہراتے ہوئے کہا ”دنیا نے میری طاقت کا اظہار دیکھ لیا“۔

پرویز مشرف نے جی ایچ کیو کے ملٹری آپریشن جیسے اہم ترین ادارہ سے مشاورت کئے بغیر لال مسجد پر پاک فوج کے کمانڈوز کو آپریشن کرنے کا حکم دیا جہاں ہلاک ہونے والی بچیوں میں سے زیادہ کا تعلق مالاکنڈ اور دوسرے قبائلی علاقہ سے تھا چنانچہ اس کے بعد خودکش دھماکوں اور فوج پر حملوں کا ایک ایسا سلسلہ چل نکلا کہ اب تک ہمارے ہزاروں فوجی جوان اور افسر اپنے ہی لوگوں کی دہشتگری کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں

ایک بار پھر آئین کو پامال کرتے ہوئے 3 نومبر 2007ءکو پرویز مشرف نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو اس لئے نکال باہر کیا اوراُنہیں اُن کے گھروں میں بچوں سمیت قید کر دیا کیونکہ اُس وقت سپریم کورٹ کا ایک لارج بنچ جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کی پیٹیشن پر مشرف کے وردی میں صدارت کا الیکشن لڑنے کے خلاف فیصلہ دینے والا تھا ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے اس خلافِ آئین اقدام میں پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کی تفصیل

اب پرویز مشرف کی مالی دیانتداری (لُوٹ مار) کی ایک ہلکی سی جھلک

اکتوبر 1999ء میں نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹ کر کاروبار سمیٹنے کے بعد پرویز مشرف نے اپنے اساسوں کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق پرویز مشرف کی ملکیت کچھ پلاٹ تھے ۔ نقد رقم قابلِ ذکر نہ تھی ۔ اپنی کتاب ”In The Line of Fire” میں پرویز مشرف نے اپنی خاندانی خاکساری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ملازمت شروع کرنے کے وقت اُس کے پاس دولت نہ تھی

اب صورتِ حال یہ ہے کہ صرف پاکستان میں پرویز مشرف اپنے ذاتی ملازمین کو ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ روپے ادا کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ اس کے اپنے شاہانہ رہائشی اور سفری اخراجات کہیں زیادہ ہیں

پرویز مشرف کی ذاتی غیر منقولہ جائیداد میں چک شہزاد (اسلام آباد) کا وسیع قلعہ نما محل ۔ متحدہ عرب امارات اور لندن میں مکانات سرِ فہرست ہیں ۔ مزید مکانات اور کئی پلاٹ بھی ہیں

2013ء میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے اقرار نامہ میں پرویز مشرف نے لکھا تھا کہ اُس کے صافی (Net) اثاثہ جات پچھلے سال کے 51 کروڑ 60 لاکھ 9 ہزار ایک سو 72 (516009172) روپے سے بڑھ کر 64 کروڑ 50 لاکھ 11 ہزار 4 سو 65 (645011465) روپے ہو گئے ہیں ۔ صرف ایک سال میں صافی آمدن میں اس 12 کروڑ 90 لاکھ 2 ہزار 2 سو 93 (129002293) روپے اضافہ کا ذریعہ نہیں بتایا گیا

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ایف بی آر کے مطابق پرویز مشرف کی سالانہ آمدنی 15 لاکھ روپے ہے ۔ پھر ایک سال میں صافی اثاثہ جات میں تقریباً 13 کروڑ کا اضافہ کیسے ہوا ؟ مزید یہ کہ 2013ء تک 4 سال میں پرویز مشرف نے کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا ۔ ریٹائر ہونے سے قبل یعنی ملازمت کے دوران پرویز مشرف کا صرف تنخواہ میں سے انکم ٹیکس کٹتا رہا جو کہ زیادہ نہ تھا

پرویز مشرف کے مقامی بنکوں میں اکاؤنٹس کی جو فہرست سٹیٹ بنک آف پاکستان کی وساطت سے عدالت میں جمع کرائی گئی تھی کے مطابق بنک الفلاح ۔ حبیب میٹروپولٹن بنک ۔ مسلم کمرشل بنک ۔ الائیڈ بنک ۔ نیشنل بنک آف پاکستان اور میٹروپولٹن بنک میں 8 کروڑ روپے کے علاوہ ایک لاکھ 90 ہزار ڈالر بھی ہیں

غیر ممالک کے بنکوں میں جمع کرائی گئی تمام دولت کا تو پرویز مشرف ہی جانتا ہو گا ۔ صرف متحدہ عرب امارات میں پرویز مشرف کے جو اکاؤنٹ منظرِ عام پر آ چکے ہیں اُن کی تفصیل درج ذیل ہے

۔ ۔ ۔ بنک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکاؤنٹ نمبر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکاؤنٹ کا ٹائٹل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رقم
ایم ایم اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے وی 77777 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی ڈالر 16 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4002000315 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ امریکی ڈالر 5 لاکھ 35 ہزر 3 سو 25
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006722 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ امریکی ڈالر 80 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ ۔ امریکی ڈالر 13 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4002000304 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم ایک کروڑ 70 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006700 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم 76 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006711 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درہم 80 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006733 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم 80 لاکھ
یونین نیشنل بنک ۔ ۔ 4003006744 ۔ ۔ مسٹر پرویز مشرف و مسز صہباء مشرف ۔ ۔ درہم 80 لاکھ

یعنی بنکوں میں کل نقد رقم درج ذیل ہوئی

۔ ۔ ۔ ۔ کرنسی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رقم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مساوی پاکستانی روپے
امریکی ڈالر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک کروڑ 16 لاکھ 25 ہزار 3 سو 25 ۔ ۔ ایک ارب 16 کروڑ 25 لاکھ 32 ہزار 5 سو
یو اے ای درھم ۔ ۔ 4 کروڑ 86 لاکھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ارب 36 کروڑ 8 لاکھ
پاکستانی روپیہ ۔ ۔ 8 کروڑ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 کروڑ

معلوم بنک اکاؤنٹس میں کل نقد رقم ۔ ۔ ۔ 2 ارب 52 کروڑ 33 لاکھ 32 ہزار 5 سو پاکستانی روپے کے برابر
غیر منقولہ جائیداد اور منقولہ جائیداد میں سے زیورات اور فرنیچر اس کے علاوہ ہیں

پرویز مشرف نے 8 سال حکومت کی اور اس کے بعد پاکستان سے باہر مہنگے ممالک میں رہائش رکھی جبکہ ایوب خان نے 10 سال اور ضیاء الحق نے 11 سال حکومت کی تھی ۔ ضیاء الحق تو دورانِ حکمرانی ہلاک ہو گیا ۔ ایوب خان نے حکومت چھوڑنے کے بعد باقی زندگی اسلام آباد میں اپنی ذاتی رہائشگاہ میں گذاری ۔ ایوب خان یا ضیاء الحق کے پاس پرویز مشرف کی متذکرہ بالا دولت کا 10 فیصد بھی نہیں رہا ہو گا

پرویز مشرف نے ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ پاک فوج جس کو دیکھ کر عوام کے سر فخر سے بلند ہو جاتے تھے، وہ عوام کا سامنا کرنے سے کترانے لگے ۔ جنرل شاہد عزیز کے الفاظ میں ’’پھر مشرف صاحب کے آخری دنوں میں فوج کو وہ وقت بھی دیکھنا پڑا کہ فوجی منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ گھر سے سول کپڑے پہن کر نکلتے اور وردی دفتر میں جا کر پہنتے۔ محفل میں تعارف کراتے تو اپنا عہدہ چھپاتے۔ نہ جانے یہ کالک ہمارے منہ سے کب دھلے گی“۔

پرویز مشرف نے قومی اداروں کو اپنی ذات کے لئے بار بار استعمال کیا اُسے پاک فوج سے تشبیہ دینا پاک فوج کی توہین ہے ۔ دراصل پرویز مشرف پاک فوج کے اُجلے نام پر ایک بدنما دھبہ تھا
ایسے شخص کو پاک آرمی کی عزت اور اَنا کا کیسے نشان سمجھا جا سکتا ہے ؟
ایسے شخص کا احتساب ہماری افواج کا احتساب کیسے ہو سکتا ہے ؟
جس نے مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمنوں کی مدد کی ۔ اپنے ملک کی خودمختاری کو بیچا ۔ بلوچستان میں آگ لگائی ۔ پاکستان اور پاکستان آرمی کو بے انتہا نقصان پہنچایا ۔ اس ملک کی گلی گلی میں آگ و خون کا کھیل شروع کرایا ۔ خود بھی لوٹ مار کی اور اپنی ذات کی خاطر اربوں کی کرپشن کرنے والوں کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کیا ۔ بار بار آئین شکنی کا مرتکب ہوا

سیاسی بصیرت کی ایک مثال

آج 23 مارچ ہے ۔ 74 سال قبل آج کی تاریخ ایک قرارداد لاہور کے اُس میدان میں پیش کی گئی تھی جہاں اب مینارِ پاکستان کھڑا ہے ۔ یہ قراداد پاکستان قائم ہونے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوئی ۔ اُس زمانہ کے سیاستدانوں کی کامیا بی کا سبب کیا تھا ۔ اس سلسلے میں ایک کتاب
’’آزادی کی کہانی۔ میری زبانی‘‘ سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں ۔ یہ کتاب تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشتر کی سوانح ہے جسے آغاز مسعود حسین نے تالیف کیا تھااور شاید 56۔1955ء میں شائع ہوئی

سردار عبدالرب نشتر قائد اعظم کے قریبی اور معتمد ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ماؤنٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مسلم لیگ کے وزیر تھے اور بعدازاں قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ کے رکن اور پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ اعلیٰ پائے کے مقرر، مخلص لیڈر اور صاف ستھرے انسان تھے۔ اسی لئے قائد اعظم انہیں پسند کرتے تھے۔ ان چند اقتباسات ہی کا مطالعہ ایک ذی شعور انسان کو سردار صاحب مر حوم کی بصیرت ، دور رس نگاہ اور دردمندی کی داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے اور محسوس ہوتا جیسے موجودہ سیاستدان اور حکمران سردار صاحب کی قدآور شخصیت کے سامنے طفلان مکتب ہیں یا شاید طفلان مکتب بھی نہیں ۔ سردار صاحب نے جن خطرات کا اظہار 54/1953ء میں کیا تھا وہ بعد ازاں کس طرح صحیح اور سچ ثابت ہوئے اور ہماری کوتاہیوں نے کیا گل کھلائے

کتاب کے صفحہ نمبر 182 پرسردار صاحب فرماتے ہیں ”پاکستان میں ایک اور مرض قیام پاکستان کے بعد سے نمایاں ہوگیا ہے وہ تعصب کا مرض ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے درمیان گہرے تعصبات موجود ہیں حالانکہ تعصب خالصتاً ہندو مزاج ہے۔ پاکستان ایک ملت ہے اور ایک ملت میں لسانی یا مذہبی تعصبات نہیں ہوتے۔ مشرقی پاکستان میں محرومی کااحساس بڑھ رہا ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ بنگلہ زبان کو پاکستان کی واحد قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا لیکن ان کا یہ اعتراض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان اس لئے بنایا ہے کہ یہ دونوں بازوں کے درمیان رابطے کی اوربول چال کی زبان ہے۔ قائد اعظم نے نہ بنگلہ زبان کے استعمال اور لکھنے پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے نہ اس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے قیام پاکستان کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور انہیں شکایت ہے کہ مغربی پاکستان ان کا معاشی استحصال کررہا ہے۔ مغربی پاکستان کے رہنمائوں کو ان سے فراخدلانہ سلوک کرنا چاہئے اور ان کی شکایتوں کا ازالہ کرنا چاہئے ، ان کے دلوں اور ذہنوں سے یہ احساس ختم کردینا چاہئے اگر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رہنما مل کر مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں سے ہر قسم کی مایوسیوں کو دور نہیں کرسکے تو ایک دن یہ خلیج طبعی اور جغرافیہ کی خلیج بن جائے گی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دونوں صوبوں کے درمیان محبتوں کے مضبوط پل تعمیر کریں تاکہ کوئی دشمن ہم دونوں کو جدا نہ کرسکے“۔

(یاد رہے کہ بنگالی مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان جبکہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ دستورساز اسمبلی کا تھا جسے بنگالی اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے فیصلے کی نمائندگی کرتے رہے اور حمایت کرتے رہے)

بدقسمتی سے سردار عبدالرب نشتر کی دردمندانہ تجاویز ، اندیشوں اور گزارشات پر عمل نہ کیا گیا اور پھر 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا

سردار صاحب مرحوم مزید فرماتے ہیں”مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں یعنی سرحد بلوچستان میں بھی معاشی ناہمواریوں کی شکایتیں پائی جاتی ہیں۔ ان صوبوں کے رہنمائوں کو پنجاب سے شکایت ہے کہ یہاں کی افسر شاہی چھوٹے صوبوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے کو تیار نہیں۔ اس صوبے (پنجاب) کا مزاج جاگیردارانہ ہے۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے رہنماؤں کو آپس میں مل بیٹھ کر ایک متحدہ معاشی و سیاسی پروگرام بنانا چاہیئے تاکہ وہ ایک طرف جاگیرداروں اور افسر شاہی کے ملاپ کو کمزور کرسکیں تو دوسری طرف عوام کے اتحاد کو مضبوط بنائیں‘‘۔

جو نقشہ سردار صاحب نے ساٹھ برس قبل کھینچا تھا وہ صورتحال تقریباً آج بھی اسی طرح موجود ہے اور ہم مسلسل زوال اور انتشار کی راہ پر چل رہے ہیں۔ یوں تو سردار صاحب نے قومی زندگی کے سبھی شعبوں پر اظہار خیال کیا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے لیکن آخر میں میں آپ کو اس کہانی کا فقط ایک کردار اور ایک منظر دکھا رہا ہوں جو نہایت دردناک اور عبرت ناک ہے۔ اس منظر میں بیان کئے گئے سردار صاحب کے خدشات کس طرح حقیقت بنے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے ساتھی حالات کو سمجھنے ، بھانپنے اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے تھے کیونکہ وہ سیاستدان تھے، سیاسی جدوجہد نے ان کی سیاسی تربیت کی تھی، ان کے دل اقتدار اور دولت کی ہوس سے پاک تھے۔ یاد رکھئے کہ صرف وہ نگاہ دور رس ا ور دور بین ہوتی ہے جو ہر قسم کی ہوس سے پاک ہو، جس کے پیچھے روشن دماغ ہو اور خلوص نیت ہو

سردار صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ ”پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی فوج پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے ا ن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مغربی ممالک کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دیا ہے لیکن اپنی آزادی اور خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ پاکستان کی فوج کو بھی چاہیئے کہ وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پڑوس میں بھارت ، افغانستان اور روس ہیں جن کے تعلقات روز اول ہی سے خراب ہیں۔ پاکستان کی فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے ……. مجھے شبہ ہے کہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ ایوب خان سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے کئی جگہوں پر کہا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نہیں چلا سکتے۔ ایوب خان کی یہ سوچ نادانی پر مبنی ہے ، اسے معلوم نہیں کہ وہ آج جو کچھ بھی ہے محض پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان عوام نے اپنے خون سے حاصل کیا ہے……. میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی فوج نے کبھی بھی سیاست میں آنے کی کوشش کی تو اسی دن سے پاکستان کی فوج اور ملک کا زوال شروع ہوجائے گا۔ ملک کے پیچیدہ معاملات فوجی افسر نہیں چلا سکتے۔ ان کی تربیت زندگی کی شاہراہ پر نہیں ہوتی، وہ ایک مخصوص ماحول میں سویلین سے دور اپنی ذہنی اور جسمانی تربیت حاصل کرتے ہیں …….جس دن فوج سیاست میں داخل ہوگئی، بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا، فوج عوام کی نظروں میں بدنام ہوجائے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہوجائے گا……. میں تو اس تصوّر ہی سے ڈر جاتا ہوں کہ پاکستان کی فوج سیاست میں ملوث ہو………. فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سیاستدانوں کا کام نظریاتی و تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ………. اگر کسی ایک نے دونوں کام اپنے ذمے لے لئے تو پھر وہ دونوں کام انجام نہیں دے سکے گا “۔

سردار صاحب نے پنجاب کے جاگیرداروں اور نوکر شاہی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ انہوں نے چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی پر تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی یہ احساس محرومی آج بلوچستان میں استحکام پاکستان کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ سردار صاحب نے فوجی جرنیلوں کے جن عزائم پر اضطراب اور خوف کا اظہار کیا تھا وہ 1958ء میں حقیقت بن گئے اور ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے نہ ہی صرف فوجی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا بلکہ پاکستان کے ٹوٹنے کی بھی بنیاد رکھ دی ۔ آج تقریباً وہی صورتحال ہے جو سردار صاحب کی چشم تصور نے ساٹھ برس قبل دیکھی تھی اسے کہتے ہیں سیاسی بصیرت

بجلی چور ہوشیار باش

صدر ممنون حسین نے ایک آرڈیننس کی منظوری دی ہے جس کے تحت پورے ملک میں گھریلو اور تجارتی صارفین کو بجلی چوری کے الزام میں 10 لاکھ سے ایک کروڑ (ایک ملین سے 10 ملین) روپے جرمانہ اور 2 سے 7سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی ۔ آرڈیننس کا مسودہ وزارت پانی و بجلی نے تیار کیا تھا۔ صدر نے وزیراعظم کی ایڈوائس پر آرڈیننس کی منظوری دی ہے ۔ ملک میں بجلی چوروں کو سزا دینے کے لئے پہلی بار قانون نافذ کیا گیا ہے

ہم سا ہو تو سامنے آئے

ساری عمر سُنتے آئے تھے
نئیں رِیساں شہر لاہور دِیاں
ایہہ کندھاں کہن پشور دیاں

لیکن پشور (پشاور) نے تو وہ کر دیا ہے جو کیا لاہور کیا کراچی کیا کوئٹہ نہ کر سکا ہے نہ کرنے کا سوچ سکتا ہے ۔ عمران خان صاحب کی تائید کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ایک خط وزیرِ اعظم کو اور دوسرا وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف کو لکھے ہیں کہ بجلی کی پیداوار ۔ ترسیل اور تقسیم (Generation, Transmission and Distribution) کا مکمل کنٹرول خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کیا جائے جس کی (ہماری من پسند) 11 شرائط ہوں گی
ان شرائط کا ترجمہ نیچے لکھ رہا ہوں (مکمل متن یہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے)
خلاصہ یہ ہے کہ پچھلا اور آئیندہ 7 سال تک ہونے والا نقصان اور قرضے وفاقی حکومت ادا کرے ۔ منافع خیبر پختونخوا کی حکومت لے اور جو چاہے سو کرے

1 ۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کے ذمہ اس وقت جتنے قرضے و دیگر واجبات ہیں وہ وفاقی حکومت ادا کرے اور اگر ماضی میں کوئی اس کی ترقی میں کوئی کمی رہی ہے تو اسے بھی پورا کرے
2 ۔ خیبر پختونخوا کی حکومت جب تک پیسکو کے موجودہ 56 فیصد نقصانات کو 18 فیصد تک کم نہیں کرتی جس میں کم از کم 5 سال لگیں گے تمام نقصابات وفاقی حکومت برداشت کرے
3 ۔ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں بجلی کی پیداوار کرنے والے تمام پلانٹ فوری طور پر بین الاقوامی معیار کے مطابق بہتر بنائے
4 ۔ اس وقت چلنے والے تمام توسیعی منصوبوں کے موجودہ اور مستقبل کے تمام اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے
5 ۔ سردیوں میں پن بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کم از کم 7 سال تک دوسرے ذرائع سے بننے والی کم از کم 1000 میگا واٹ بجلی وفاقی حکومت مہیاء کرے
6 ۔ تھرمل ذرائع سے بجلی بنانا شروع کرنے کیلئے وفاقی حکومت فوری طور پر یومیہ 200000000 سٹینڈرڈ مکعب فٹ گیس مہیاء کرے
7 ۔ ماضی میں خیبرپختونخوا میں بجلی کے سیکٹر میں جو مالی کمی رہی اُسے وفاقی حکومت اگلے 5 سال تک پورا کرے
8 ۔ بجلی کے پیداوار ۔ ترسیل اور تقسیم کرنے والے اداروں کو چلانے میں خیبرپختونخوا کی حکومت کو مکمل آزادی ہو ۔ جسے چاہے ملازم رکھے جسے چاہے فارغ کر دے اور جو ملازمین فارغ کئے جائیں اُنہیں وفاقی حکومت متبال نوکریاں خیبرپختونخوا سے باہر مہیاء کرے
9 ۔ بجلی کے سلسلے میں خیبرپختونخوا میں نیپرا کا عمل دخل بالکل ختم کر دیا جائے
10 ۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کو بجلی کا مکمل اختیار دینے کیلئے قوانین میں تبدیلیاں کی جائیں
11 ۔ این ایف ۔ سی سی آئی وغیرہ نے جو سفارشات کی ہوں وہ تمام رقوم خیبرپختونخوا کی حکومت کو فوری طور پر ادا کی جائیں