انگریز حکمرانوں نے جواہر لال نہرو کے ساتھ ملی بھگت کی وجہ سے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء کی بجائے 17 اگست کو کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا کر ہو گیا جہاں سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دَل کے عسکری تربیت یافتہ مسلحہ دستے جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے
موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل پٹھانکوٹ کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری
سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ راجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ 3 دن کی متواتر کوشش کے بعد بھی ہاں نہ ہو سکی اور کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے
بعد میں تمام فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغیر اطلاع عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو جموں ایئر پورٹ (ستواری) میں دھڑا دھڑ اُترنا شروع ہو گئے ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ اِن میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے
خُفیہ منصوبے کے تحت بارتی فوج کی پُشت پناہی میں راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل کے عسکری دستوں نے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کیا ۔ 4 ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947ء کی شام کو ختم ہوئے اِن مسلحہ ہندوؤں اور سِکھوں نے صوبہ جموں میں پونے دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے اور سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں ۔ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا
کچھ سال امن رہنے کے بعد بھارت کا جبر و استبداد پھر شروع ہوا جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر کے مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا اور آزادی کے نعرے لگانے شروع کئے ۔ بھارتی ریاستی ظُلم بڑھتا گیا اور مسلمانوں کا احتجاج بھی زور پکڑتا گیا ۔ 1987ء میں نیشل کانفرنس (آل انڈیا کانگرس کی شاخ) کے قومی اسمبلی میں مُنتخب نمائندے آزادی کیلئے لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ مل گئے ۔ اس کے بعد بھارتی سکیورٹی فورسز نے جموں کشمیر کے مسلمانوں کا کھُلم کھُلا قتلِ عام شروع کر دیا ۔ اُنہیں دفن کر دیا جاتا اور کسی کسی کی قبر بنائی جاتی اور اُس پر فرضی نام کی تختی لگا کر نیچے پاکستانی دہشتگرد لکھ دیا جاتا ۔ ایسی قبر جب بھی عدالتی حُکم پر کھولی گئی تو میت لاپتہ کشمیری جوان کی نکلی
امسال 8 جولائی کو بُرہان وانی کے بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں قتل کے بعد پورے جموں کشمیر میں پُر زور احتجاج شروع ہو چکا ہے اور بھارتی سکیورٹی فورسز بھی ظُلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں ۔ اس کی تفصیل سب قارئین روزانہ سُنتے ہیں ۔ متعدد وِڈیوز بھی اُپ لَوڈ ہو چکی ہیں جنہیں دیکھ کر رَونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
انسانی حقوق کے دعویدار امریکہ اور یورپ والوں کی آنکھوں پر بھارتی چشمے چڑھے ہوئے ہیں ۔ اسلئے وہ اس ظُلم و استبداد کے خلاف آواز اُٹھانا تو کیا اس کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے اور نہ اُن کا میڈیا ان حقائق کو دِکھاتا ہے