Category Archives: سبق

کچھ سُنا آپ نے ؟

کہا جاتا ہے کہ مہنگے علاقہ کے گھروں میں رہنے والوں کو سب کچھ اُن کی دہلیز پر ملتا ہے
اسلام آباد میں سیکٹر ایف 8 اسی درجے میں آتا ہے اور سیکٹر ای 7 بننے سے قبل اسلام آباد کا سب سے بہتر معیار کا سیکٹر صرف یہی تھا
ایف 8 میں اکثر پلاٹ 2000 مربع گز کے ہیں ۔ کچھ 1000 سے 1500 مربع گز کے ہیں اور جغرافیائی وجہ سے بن جانے والے تھوڑے سے 500 مربع گز کے ہیں
اسلام آباد ہر سیکٹر کے 4 حصے ہوتے ہیں ۔ 1 ۔ 2 ۔ 3 اور 4

ہم سیکٹر ایف 8 کے حصہ 1 میں رہتے ہیں یعنی F–8/1 میں ۔ ہم پانی کی سپلائی کیلئے ہر 3 ماہ بعد 2300 روپے دیتے جو کہ باقاعدگی سے وصول کئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے علاقے میں پچھلے 3 ماہ سے پانی نہیں آ رہا

جون 2016ء تک پانی کی سپلائی کیپِٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داری تھی ۔ جون 2016ء سے قبل کبھی سالوں بعد چند دِنوں کیلئے پانی کی سپلائی بند ہوتی تھی وہ بھی صرف دو تین گلیوں کی تو سی ڈی اے میں بھاگ دوڑ اُس وقت تک لگی رہتی تھی جب تک پانی کی سپلائی بحال نہ ہو جائے

سیاستدانوں کا شور تھا کہ اسلام آباد میں بھی مُنتخب لوکل گورنمنٹ ہونا چاہیئے ۔ چنانچہ 10 ماہ قبل انتخابات ہوئے اور اسلام آباد میونسپل کارپوریشن اور مضافاتی علاقوں کی یونین کونسلز بن گئیں ۔ اسلام آباد کے مکینوں کو پانی کی سپلائی یکم جولائی 2016ء سے نو مُنتخب میونسپل کارپوریشن نے اپنی عملداری میں لے لی ۔ اب ایف 8/1 میں پانی کی سپلائی پچھلے 3 ماہ سے بند ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کو پانی مہیاء کرنے والے تینوں ٹیوب ویل بند پڑے ہیں

سیاستدان 20 فٹ اُونچی سٹیج پر کھڑے ہو کر دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کیلئے آسمان سے چاند ستارے بھی توڑکر لے آئیں گے ۔ جب کرُسی مل جاتی ہے تو شکائت کے آٹھ دس دن بعد پیش رفت معلوم کرنے جائیں تو جواب ملتا ہے ”میں پتہ کر رہا ہوں“۔

ہمارے علاقے کا ممبر میونسِپل کارپوریشن اور ایم این اے اتفاق سے دونوں تحریکِ انصاف کے ہیں ۔ ایم این اے اسد عمر کا نام تو سُنا ہی ہو گا

شاید اسی قسم کا نیا پاکستان بنانے کا بار بار وعدہ کیا جا رہا ہے

سچ کو آنچ نہیں

شاید 2005ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک بین الجامعات (inter universities) تقریری مقابلہ منعقد ہوا تھا جس میں طالب علم عدنان خان جدون کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی
اس کے بعد مئی 2006ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہی سٹوڈنٹس کنونشن منعقد ہوا جس میں مُلک کے تمام تعلیمی اداروں کے طلباء کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا ۔ اِس کنونشن کی صدارت اُس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے کی اور تمام اراکین قومی اسمبلی نے بھی اس کنونشن کو رونق بخشی تھی
اس کنونشن میں طالب علم سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی ۔ خیال رہے کہ سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر پاکستان میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا

یہ دونوں تقاریر کئی سال قبل میں علیحدہ علیحدہ شائع کر چکا ہوں ۔ کئی ماہ و سال گذر جانے کے بعد بہت سے بلاگرز اور قارئین بدل چکے ہیں ۔ اسلئے متذکرہ دونوں تقاریر پیشِ خدمت ہیں
پہلے عندنان خان جدون پھر سیّد عدنان کاکا خیل

عِلم کی طلب ؟ ؟ ؟

ایک بزرگ عالم کسی بستی میں پہنچے جہاں انہوں نے 2دن قیام فرمایا ۔ تیسرے دن صبح سویرے انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا”اپنا سامان فوراً باندھ لو ، ہمیں یہاں سے جانا ہے ابھی”
شاگرد نے پوچھا “یہاں آنے کے لئے آپ نے طویل سفر کی مشقت اٹھائی، اب یہاں سے اتنی جلدی کیوں روانہ ہونا چاہتے ہیں؟”
عالم نے فرمایا “مجھے اس بستی میں آئے 2 دن ہو گئے ہیں ۔ سب کو میرے آنے کی اطلاع بھی ہے، پھر بھی کوئی علم کا طالب میرے پاس نہیں آیا ۔ جس بستی کے لوگوں کو علم کا شوق نہ ہو وہاں عذاب الہٰی نازل ہو کر رہتا ہے۔اس لئے جلدی سے اس زمین سے دور نکل چلو”

بات ایک گورنر کی

عصرِ حاضر میں گورنر تو کیا ایک سیاستدان یا افسر کے نخرے ہی نہیں سنبھالے جاتے
جن اسلاف کے پیروکار ہونے کا ہم دعوٰی کرتے ہیں ان میں سے ایک کی جھلک
امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو دمشق (شام) کا گورنر مقرر کیا
کچھ عرصہ بعد عمر رضی اللہ عنہ نے حسبِ معمول دمشق کا دورہ کیا
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سارے علاقے کا دورہ کرایا
آخر میں امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ” ابو عبیدہ مجھے اپنے گھر نہیں لے کر جاؤ گے“۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا ”وہاں آپ کے دیکھنے کی کوئی چیز نہیں“۔
امیر المؤمنین کے اصرار پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اُنہیں شہر سے باہر ایک خیمے میں لے گئے
وہاں ایک بوریا ۔ ایک مشکیزہ اور ایک پیالہ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا
عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ” بس ۔ یہی کچھ ؟“
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا ” میں ہفتہ بھر کیلئے روٹیاں لے آتا ہوں ۔ جو کھانا ہوتی ہے ۔ اسے پیالے میں پانی ڈال کے بھگو دیتا ہوں اور کھا کر مشکیزے سے پانی پی لیتا ہوں ۔ بوریئے پر نماز پڑھتا ہوں اور اسی پر سو جاتا ہوں“۔

حاکم ۔ ایک تاریخی واقعہ

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غائب ہو جاتے ہیں
ایک روز عمر فاروق رضی اللہ عنہ چُپکے سے اُن کے پیچھے چل پڑے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چلتے چلتے مدینہ سے باہر نکل گئے اور شہر سے باہر ایک خیمہ میں داخل ہو کر کچھ دیر اندر رہنے کے بعد واپس مدینہ کی طرف چل پڑے
عمر فاروق رضی اللہ عنہ خیمے میں گئے تو وہاں ایک بُڑھیا کو پایا ۔ پوچھنے پر بڑھیا نے بتایا ”میں نابینا اور مُفلس عورت ہوں ۔ میرا اور میرے دو بچوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ آدمی روزانہ آ کر جھاڑو دیتا ہے اور کھانا بنا کر چلا جاتا ہے“۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ”اے ابو بکر ۔ تُو نے بعد والوں کو بہت مُشکل میں ڈال دیا“۔