یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو ”انکل ابراہیم“ کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ ۔ آئسکریم ۔ گولیاں اور ٹافیاں دستیاب تھیں
اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک 7 سالہ بچہ جاد تقریباً روزانہ انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولتا ۔ ایک دب دکان سے جاتے ہوئے جاد چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا
انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا ” جاد ۔ آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا ؟ “
انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا
جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا ” آپ اگر مجھے معاف کر دیں تو آئیندہ میں کبھی چوری نہیں کروں گا “۔
انکل ابراہیم نے جاد سے کہا ” اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا ۔ ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا “۔
اس بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا
وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا ۔ انکل ابراہیم میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے ”کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو“۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے 2 صفحے پڑھتے اور جاد کو مسئلے کا حل بتاتے ۔ جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر چلا جاتا
اس طرح 17 سال گزر گئے۔ 17 سال کے بعد جب جاد 24 سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابراہیم 67 سال کے ہوچکے تھے ۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے ۔ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی ۔ اُن کی وصیت تھی کہ اُن کے مرنے کے بعد صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے ۔ جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا کیونکہ انکل ابراہیم ہی اسکے غمگسار اور مُونس تھے۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا ۔ انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر جاد دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا ” آج انکل ہوتے تو وہ کتاب کھول کر 2 صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا”۔ جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسو نکل آئے ۔ ”کیوں نا آج میں خود کوشش کروں“۔ کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا ۔ لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ وہ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا ”مجھے یہ 2 صفحے پڑھ کر سناؤ“۔ پھر مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا ”یہ کیسی کتاب ہے ؟”
تیونسی نے کہا ” یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے“۔
جاد نے پوچھا ”مسلمان کیسے بنتے ہیں ؟“
تیونسی نے کہا ”کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں“۔
جاد نے کہا ” تو پھر سُن لو میں کہہ رہا ہوں
أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله و أَشْهَدُ اَنَّ محمد رسول الله“۔
جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے ”جاد اللہ القرآنی“ کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھُلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔ دین کو سمجھا اور دین کی تبلیغ شروع کی ۔ یورپ میں اس کے ہاتھ پر 6 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی
ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة
اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ
جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اسی کیلئے وصیت ہو۔ جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی اور یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا ۔ سوڈان ۔ یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا ۔ دعوتِ حق کیلئے ہر مشکل اور پُرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور الله تعالٰی نے اس کے ہاتھوں 60 لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا ۔ جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے 30 سال گزار دیئے۔ 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھِر کر 54 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملا
جاد اللہ کی محنت کے ثمرات اس کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک 2 سال بعد اس کی ماں نے 70 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔ جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتا تھا کہ انکل ابراہیم نے اس کے 17 سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کئے بغیر چارہ نہ تھا
آپ کے سامنے اس واقعے کے بیان کرنے کا فقط اتنا مقصد ہے کہ کیا مجھ سمیت ہم میں سے کسی مسلمان کا اخلاق و عادات و اطوار و کردار ”انکل ابراہیم“ جیسا ہے کہ کوئی غیر مسلم ”جاد“ ہم سے متاثر ہو کر ”جاداللہ القرآنی“ بن کر ہمارے مذہب اسلام کی اس عمدہ طریقے سے خدمت کر سکے
الله تعالٰی مجھ گناہ گار سمیت سب مسلمانان عالم پر رحم فرمائے اور عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے