Category Archives: سبق

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ چیونٹی چال

ہر شخص نے ہزاروں چیونٹیاں ادھر اُدھر رينگتی دیکھی ہیں ۔ اللہ نے بچپن سے ہی ہر چیز پر غور کرنے کی عادت مجھے عطا کی ۔ فارغ وقت میں چرندوں ۔ پرندوں اور زمین پر رینگتی چیونٹیوں کو ديکھتا رہتا کہ وہ کیا کرتی ہیں ۔ آج ذکر چيونٹيوں کا

پہلی چیز جو میں نے دیکھی یہ تھی کہ چیونٹی جس راستے سے آتی ہے بالکل اُسی راستے کی لکیر پر چلتی ہوئی واپس جاتی ہے ۔ اگر وہ جاتے ہوئے ایک میز پر چڑھی تھی اور دوسری طرف سے اُتری تھی تو واپسی پر بھی وہ دوسری طرف سے میز پر چڑھے گی اور واپس اس طرف اُتر کر آئے گی جس طرف سے وہ چڑھی تھی ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے یعنی چیونٹی کے دوسری طرف اُتر جانے کے بعد میز ہٹا دی جائے تو چیونٹی پریشانی میں اِدھر اُدھر بھاگ کر اپنا راستہ تلاش کرے گی ۔ میں نے بچپن میں اس کو چیونٹی چال کا نام دیا تھا

سبق

چيونٹی کی حدِ نظر بہت قليل ہوتی ہے اسلئے وہ اپنے راستہ کے نشانات مقرر کر ليتی ہے تاکہ بھٹک نہ جائے
انسان کو بھی اصول بنانا اور اُن پر کاربند رہنا چاہیئے تاکہ آگے بڑھنے کیلئے اُسے خود مشقت اُٹھانا پڑے تو اُٹھا لے لیکن دوسرں کیلئے مشکل کا باعث نہ بنے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ تنقید

کسی پر تنقید کرنے سے قبل

جس پر تنقيد کرنے کو ہيں کچھ دیر اس کے نقشِ قدم پر چل کر دیکھیئے

اس طرح آپ اُسے پہلے سے بہتر سمجھ چکے ہوں گے

اور تنقید کرنا ہوئی تو بہتر طریقہ سے کر سکیں گے

کيا معلوم اس طرح آپ تنقيد کے ناخوشگوار عمل سے بچ ہی جائيں

انسان اور درندہ

چيتا ايک جنگلی جانور ہے جسے اس کی تيز رفتاری اور اعصاب کی مضبوطی کی وجہ سے بہت خوننخوار درندہ سمجھا جاتا ہے

کمال يہ ہے کہ ہر جنگلی جانور اصولوں کا پابند ہوتا ہے چاہے وہ چيتا ہی کيوں نہ ہو مگر انسان جو اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے اسے اصولوں کا پابند بنانا بہت مُشکل ہے ۔ کيا عجب کہ اپنے آپ کو انسان سمجھنے والا خونخوار سے بڑھ کر خونخوار ہو

چيتے کی اصول پسندی کا مظاہرہ

ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی

جب میں 1953ء میں کراچی ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج میں فزکس کا پریکٹیکل کر رہا تھا۔ ہمارے ڈیمانسٹریٹر نئے تعلیم یافتہ مرزا عبدالباقی بیگ تھے یہ ذہین انسان تھے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ جانے کے منتظر تھے۔ ہم کو ورنیئر کیلیپرس [Vernier Callipers
] اور مائیکرو میٹر [Micrometer] دیئے گئے تھے کہ ان کی مدد سے دھات کی شیٹ کے ایک ٹکڑے کی موٹائی اور ایک تار کا قطر معلوم کرنا تھا۔ ہمیں سکھایا گیا تھا کہ کس طرح ان آلات کا صحیح استعمال کیا جا سکتا تھا اور صحیح طریقے سے پیمائش کی جا سکتی تھی۔عبدالباقی بیگ سامنے ٹیبل و کرسی پر بیٹھے تھے تھوڑی دیر میں ہمارے پروفیسر ڈی سوزا [De Souza] آگئے اور عبدالباقی بیگ کے سامنے بیٹھ گئے۔ انہوں نے میز پر رکھے کیلیپر اور مائیکرومیٹر کو اٹھا کر عبدالباقی بیگ سے اس کو استعمال کرنے کا طریقہ دریافت کیا ۔ عبدالباقی بیگ جواب نہ دے سکے اور نہ ہی صحیح طریقہ سے استعمال کر سکے، پروفیسر ڈی سوزا نے پھر ان کو ان آلات کے استعمال کرنے کا طریقہ کار بتایا ۔ عبدالباقی بیگ نے بعد میں امریکہ میں فزکس میں پی ایچ ڈی کی اور نیویارک کے راکیفیلر انسٹی ٹیوٹ [Rockefeller Institute] میں فزکس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ بن کر دنیا میں نام پیدا کیا ان کا کام بہت اعلیٰ تھا اور انہوں نے بہت شہرت حاصل کی ہماری بدقسمتی کہ وہ نوبل انعام حاصل نہ کر سکے اور صرف 55 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

مرحوم آغاشاہی نے 1976ء کے اواخر میں ان سے ملاقات کی تھی اور انہیں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین بننے کی پیشکش کی تھی چونکہ مرحوم وزیراعظم بھٹو منیر احمد خان کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ پروفیسر عبدالباقی بیگ زمانہ شناس اور سمجھدار تھے انہوں نے نرمی سے یہ پیشکش نامنظور کر دی او ر پاکستان نہ آئے۔

نُکتہ دانوں کيلئے ۔ اسلامی معاشرے کا ايک نمونہ

مندرجہ ذيل ای ميل محمد سلیم صاحب نے شانتو- چين سے متعدد لوگوں کو بھيجی تھی ۔ اُن کے مطابق اُنہی نے اس واقعہ کا اُردو ميں ترجمہ کيا تھا ۔ يہ ميرے سميت کئی لوگوں کو پہنچی ۔ اس ای ميل ميں درج واقعہ کے متن کو کچھ بلاگز پر شائع کيا جا چکا ہے ۔ جہاں سے ميرے علم ميں آيا کہ ان بلاگرز کو جن لوگوں نے يہ ای ميل نقل کر کے بھيجی اصل بھيجنے والے کا نام حذف کر ديا ۔ ميرا اپنے بلاگ پر اس ای ميل کو دہرانے کا بنيادی مقصد محمد سلیم صاحب کی دعا کی درخواست قارئين تک پہنچانا ہے
ميں نے ای ميل کی تھوڑی سی تدوين کر دی ہے کہ قاری کو سمجھنے ميں آسانی رہے

محمد سليم صاحب کی ای ميل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نوٹ: اس ایمیل کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں
اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہان اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔ محمد سلیم

‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ” ا ے امیر المؤمنین ۔ اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا

خود عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔ اس صورتحال پر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ” معاف کر دو اس شخص کو ”
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ” نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ” اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟”
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ” میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ ميرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔ ۔ ۔
” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔

آپکی دعاؤں کا طالب ہوں ۔ محمد سلیم/ شانتو – چائنا

دوستی

ايک شخص فارم ہاؤس پر رہتا تھا ۔ اُس نے بلی پال رکھی تھی ۔ ايک دن اُس نے ديکھا کہ ايک ہرن بلی کے پاس کھڑا ہے ۔ اس نے اس پر توجہ دينا شروع کی تو اسے معلوم ہوا کہ ہرن تقريباً روزانہ بلی کے پاس آتا ہے اور دونوں کچھ ديرکھيلتے ہيں پھر ہرن واپس چلا جا تا ہے ۔ آخر اس نے تصويريں لينے کا سوچا





چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیاب زندگی

ایک دن صبح سویرے ہی ذہن میں آیا کہ کامیاب زندگی کا راز کیا ہے ؟ سارا دن اس سوال نے پریشان کئے رکھا ۔ رات ہوئی بستر پر دراز ہوا مگر سوال نے نیند کو بھگا دیا ۔ آنکھیں پھاڑے اپنے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ کچھ دیر بعد کمرے کی ہر چیز بولتی محسوس ہوئی
چھت بولی ” ذاتیات کو چھوڑ اور میری طرح بلند ہو جا ”
پنکھا بولا “مزاج ہمیشہ ٹھنڈا رکھ”
گھڑی بولی “وقت کی قدر کو جان”
بلب بولا “اپنی روشنی سے اندھیروں کو دور کر”
کتاب بولی “مجھ سے دوستی پکی رکھ”
کیلنڈر نے کہا “ہر گذرتے دن سے سبق لے”
بٹوے نے کہا ” بُرے وقت کیلئے آج ہی بچا”
بستر نے کہا ” ہر نیا دن شروع کرنے سے پہلے مناسب آرام کر”
آئینے نے کہا ” کارگذاری کا مظہر بن”
دیوار نے کہا ” دوسروں کا بوجھ بانٹو”
کھڑکی نے کہا ” زاویہ نظر کشادہ رکھو”
دروازے نے کہا “راستہ پانے کیلئے زور لگاؤ”
فرش نے کہا ” انکساری اختیار کرو”