بحرانی حالات ميں
دُشمن کے تُند و تيز جملے تکليف نہيں ديتے
تکليف دہ دراصل اس پر دوستوں کی خاموشی ہوتی ہے
بحرانی حالات ميں
دُشمن کے تُند و تيز جملے تکليف نہيں ديتے
تکليف دہ دراصل اس پر دوستوں کی خاموشی ہوتی ہے
پچھلے دنوں نعيم اکرم ملک صاحب نے علی الصبح کا ايک خوشگوار نظارہ لکھا تھا ۔ بات چل نکلی ہے تو اس سلسلہ ميں کچھ مزيد معلومات سپُردِ قلم کر رہا ہوں تاکہ کہيں کوئی يہ نہ سمجھ بيٹھے کہ يہ مُلک لُٹيروں اور اٹھائی گيروں کی حکمرانی کے نتيجہ ميں چل رہا ہے ۔ پہلے نعيم اکرم ملک صاحب کی تحرير پر ميرے تبصرہ کی تلخيص
بہت اچھا کيا آپ نے لکھ کر ۔ ميں سوچتا ہی رہا کہ لکھوں لکھوں ۔ آپ نے جس ريستوراں کا حوالاديا ہے وہ زين ہُوئی يا ضيافت ہے جہاں آپ 2 اور 3 سو روپے کے درميان اچھا کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ضيافت کے مالکان غُرباء کو صبح ناشتہ مُفت دينے کے ساتھ ساتھ دن ميں جو کھانا بچ جاتا ہے رات کو غرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ ريستوراں رات 10 بجے بند کر ديا جاتا ہے ۔ کراچی ميں عالمگير ٹرسٹ والے غريبوں کو بالخصوص رمضان کے مہينے ميں مفت کھانا کھلاتے تھے ۔ لاہور ميں تاجر لوگ يہ کام مختلف جگہوں پر کر رہے ہيں ۔ 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ کے بعد مجھے بيہوشی ميں لاہور جنرل ہسپتال پہنچا ديا گيا تھا ۔ 2 دن بعد ميں ہوش ميں آيا تو ميری بيٹی نے نرس سے کہا “ابو نے 2 دن سے کچھ نہيں کھايا ۔ کيفيٹيريا کہاں ہے ؟” نرس نے کہا “ان کيلئے ابھی ناشتہ آ رہا ہے”۔ ناشتہ ميں اُبلا انڈا کيک ۔ دودھ کی ڈبيہ اور چائے تھی ۔ بيٹی نے پوچھا “يہ سب ہسپتال والے ديتے ہيں ؟” تو نرس نے کہا “نہيں ۔ يہ مخيّر حضرات لاتے ہيں ۔ ايک صبح سب مريضوں کو ناشتہ ديتا ہے ۔ ايک دوپہر کا کھانا اور ايک رات کا کھانا”۔ جو لوگ دور دراز سے مريضوں کے ساتھ آتے ہيں وہ کھُلے ميدان ميں پڑے رہتے تھے ۔ پنجاب حکومت نے اُن کيلئے بند برآمدے بنا ديئے ہيں اور لوگ ديگيں پکا کر اُن کيلئے دے جاتے ہيں ۔ گورمے والے رات کو جو کچھ بچتا ہے اپنے چھوٹے ملازمين اور غُرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ يہی راولپنڈی اور اسلام آباد ميں راحت بيکرز والے کرتے ہيں ۔ بحريہ ٹاؤن والے بھی ايک ہسپتال ميں دوپہر کا کھانا ديتے ہيں
ايک صحافی اور رُکن قومی اسمبلی کی حيرت کا سبب
ڈاکٹرزکی ہڑتال کے دوران میں نے میو اسپتال کا دورہ کیا اور جب میں اسپتال کے باورچی خانے میں جا نکلا تو جو کچھ دیکھا وہ معجزے سے کم نہ تھا۔ باورچی خانہ مکمل صاف ستھرا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ 2002ء سے لے کر اب تک اسپتال کے تمام وارڈز میں موجود مریضوں، جن کی تعداد 1600 سے 1700 تک ہوتی ہے، کو کھانا مفت دیا جاتا ہے اور اُس کا اہتمام عوام کی طرف سے دیئے جانے والے عطیات سے کیا جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ ناقص خوراک ہو گی مگر جب میں نے اُس دن دوپہر کو دیئے جانے والے پالک گوشت کو چکھا تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی۔ میرے ساتھ موجود نوجوان ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کھانے کا معیار ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا یہاں آنا کوئی طے شدہ پروگرام نہ تھا اور نہ ہی میں کوئی لاٹ صاحب تھا کہ جس کے لئے کوئی اہتمام کیا جاتا۔ ناشتہ اس باورچی خانے میں تیار کیا جاتا ہے اور تمام اسپتال جو پاکستان یا شاید جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا اسپتال ہے، کے وارڈز میں تقسیم کیا جاتاہے۔ ہر روز ڈبل روٹی ”ونڈر بریڈ “ کی طرف سے مفت آتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے لئے گوشت ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے آتا ہے۔ مگر ہر روز تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد کے لئے وحدت روڈ کے ایک شخص کی طرف سے آتا ہے جو گمنام رہنا پسند کرتا ہے
جتنا زیادہ میں اس معاملے کو جانتا گیا، میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیلانی پلاسٹک جن کا رنگ روڈ پر کہیں پلانٹ ہے ہر ماہ 300,000 روپے ۔ فیصل آباد کے گوہر اعجاز 165,000 روپے ۔ بادامی باغ اسپئر پارٹس مارکیٹ کے مدثر مسعود 50,000 روپے اور برانڈ رتھ روڈ کے شاہد صدیق 25,000 روپے باقاعدگی سے بھیجتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور بھی ہوں گے مگر میں معذرت خواہ ہوں کہ اُن کے نام سے ناواقف ہوں۔ کچھ اور بھی ہیں جو گاہے بگاہے عطیات بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اب کی ہے مگر 2002ء سے لیکر 2008ء تک کھانے کا تمام بل ایل جی الیکٹرانکس والے ادا کرتے تھے۔ پھر بعض وجوہات کی بنا پر اُن کی طرف سے سلسلہ جاری نہ رہ سکا تو بحران نے دیگر امکانات پیدا کر دیئے۔ 2010ء میں سیٹھ عابد نے ایک کروڑ روپے دیئے اور یوں یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن جو ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے الحاق رکھتا ہے، بھی عوام کے چندے پر چل رہا ہے۔ عمران خان کا شوکت خانم کینسر اسپتال بھی عطیات پر چل رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب لوگوں کو یقین ہو کہ اُن کا روپیہ خورد برد نہیں ہو گا تو وہ دل کھول کے دیتے ہیں
ہم اپنی ترجیحات کا درست تعین کیوں نہیں کر سکتے؟
ہمارا حکمران طبقہ سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگتا ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی توانائی اسکول اور اسپتال بنانے میں لگائیں
بلاگر کی گذارش
اب بھی وقت ہے کہ ہم کھوکھلی تقارير کرنے اور شور مچانے کی بجائے خاموشی سے ملک کی تعمير ميں حصہ ليں اور ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی سنورايں ۔ يہ کوئی مشکل کام نہيں ہے ۔ تھوڑا سا وقت نکال کر کسی بھی سرکاری ہسپتال ميں جائيں اور انجمن بہبود مريضاں [Patients Welfare Commitee] جو کم از کم پنجاب کے ہر سرکاری ہسپتال ميں ڈاکٹروں اور نرسوں نے بنائی ہوئی ہيں کا پتہ کريں کہ کس طرح غريب مريضوں کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ پھر چرغے اور پِزّے کھانے بند کر کے رقم بچائيں اور اپنی عاقبت بنائيں
اسی کام کی تعليم کے سلسلہ ميں بھی ضرورت ہے ۔ باقی صوبوں کا مجھے علم نہيں ۔ پنجاب ميں ايک ايجوکيشن فاؤنديشن اس سلسلہ ميں اچھی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اس کے زيادہ تر اراکين نيک دل تاجر لوگ ہيں ۔ تعليم ميں حصہ ڈالنے کيلئے ان سے رابطہ کيجئے
پھر آپ فخر سے سينہ تان کر گا سکيں گے
ہم ہيں پاکستانی ہم تو جيتيں گے
ایک 85 سالہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے بڑے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے پاس آ کر شور مچایا
باپ کو نجانے کیا سوجھی اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا “بیٹے یہ کیا چیز ہے ؟”
بیٹے نے جواب دیا “یہ کوّا ہے”
یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ کُچھ دیر بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس آیا اور پوچھا “بیٹے ۔ یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا “یہ کوّا ہے”
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا “ابا جی یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے”
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا۔ نہایت اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے اُس نے کہا “کیا بات ہے آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا ؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہيں ۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے ۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی سمجھ نہيں آرہا ہے يا آپ کو سُنائی دے رہا ہے ؟”
اس کے بعد باپ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد باپ واپس آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے ۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے ۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا “بیٹے ۔ دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے ؟”
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا ۔لکھا تھا
“آج میرے بیٹے کی عمر 3 سال ہو گئی ہے ۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے ۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہو رہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے ۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے ۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال 23 بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے 23 بار ہی جواب دیا ہے ۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں ۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں
اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ سورت ۔ 17 ۔بنٓی اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23
وَقَضَی رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ كِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
ترجمہ ۔ اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
تحرير ۔ محمد سليم ۔ بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ يہاں اس سلسلہ ميں ميرا ايک ذاتی تجربہ
شايد 1951ء کی بات ہے جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ميں کسی سلسلہ ميں راولپنڈی سے لاہور روانہ ہوا ۔ ٹرين 8 بجے صبح روانہ ہوئی ۔ ہفتہ کے درميانی دن تھے اسلئے ٹرين ميں بھيڑ نہ تھی ۔ 4 سواريوں کی نشست پر ميں ايک بزرگ اور ايک تين ساڑھے تين سال کا بچہ بيٹھے تھے ۔ بچہ بزرگوار کا پوتا تھا ۔ جونہی ٹرين روانہ ہو کر پليٹ فارم سے باہر نکلی بچہ کھڑکی سے باہر ديکھنے لگ گيا
ايک کھمبہ نظر آيا تو دادا سے پوچھا “يہ کيا ہے ؟”
دادا نے بڑے پيار سے مسکرا کر کہا “يہ کھمبا ہے”
سب جانتے ہيں کہ ريلوے لائن کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھمبے ہوتے ہيں
بچہ ہر دوسرے تيسرے کھمبے کی طرف اشارہ کر کے کہتا “يہ کيا ہے ؟”
اور دادا اُسی طرح پيار سے مسکرا کر کہتے “يہ کھمبا ہے”
غرضيکہ جہلم تک جب بچہ تھک کر سو گيا تو ميرے حساب سے وہ يہ سوال ساٹھ ستّر بار دہرا چکا تھا اور بزرگوار نے اُسی طرح پيار سے اور مسکرا کر جواب ديا تھا
بچے کے سونے کے بعد ميں نے بزرگوار سے کہا “آپ کی ہمت ہے کہ آپ متواتر اتنے پيار سے جواب ديتے گئے ۔ آپ تھک گئے ہوں گے ؟”
وہ بزرگ بولے “اب سو گيا ہے ۔ ميں آرام کر لوں گا”
ميں مسکرائے بغير نہ رہ سکا کيونکہ بچہ اُن کی گود ميں سويا ہوا تھا ۔ وہ کيسے آرام کر سکتے تھے
1 ۔ جب غصہ يا غم ميں ہوں تو کسی بات يا کام کا فيصلہ نہ کيجئے
2 ۔ جب بہت خوش ہوں تو کسی سے کوئی وعدہ نہ کيجئے
يہ دو اصول ياد رہيں تو آدمی کبھی خطا نہيں کھاتا
میری ساری زندگی غموں اور دُکھوں سے بھری تھی ۔
کوئی حل بھی تو نظر نہیں آتا تھا ۔ بس خود کشی کا ہی ایک راستہ باقی تھا کہ چھلانگ لگاؤں یا نہ لگاؤں؟ ميں کيا کرتی ۔ بالآخر میں نے واقعی دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی
۔
۔
۔
۔
۔
۔
نویں منزل
ارے یہ تو وہ دونوں میاں بیوی ہیں جن کی آٓپس کی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کی ہماری عمارت میں مثال دی جاتی تھی ۔ یہ تو آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ گويا یہ کبھی خوش و خرم نہیں تھے
۔
۔
آٹھویں منزل
یہ تو ہماری عمارت کا مشہور ہنس مُکھ نوجوان ہے جو روتے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا ۔ یہ تو خود بیٹھا رو رہا ہے
۔
۔
۔
ساتویں منزل
کیا یہ ہماری بلڈنگ کی وہ عورت نہیں جو اپنی شوخی، چنچل پن اور چستی و چالاکی کی وجہ سے مشہور تھی ۔ یہ تو اسکا مختلف رُخ دکھائی دے رہا ہے ۔ اتنی ساری دوائیں ؟ یہ تو دوائیوں کے سہارے زندہ ہے ۔ بیچاری اتنی زیادہ بیمار ہے کیا ؟
۔
۔
چھٹی منزل
یہ تو ہمارا انجینیئر ہمسایہ لگتا ہے ۔ بیچارے نے 5 سال قبل انجیئرنگ مکمل کی تھی اور تب سے روزانہ اخبار خرید کر ملازمت کیلئے اشتہارات دیکھتا رہتا ہے بے چارہ
۔
۔
۔
۔
پانچویں منزل
یہ ہمارا بوڑھا ہمسایہ ہے ۔ بیچارہ انتظار میں ہی رہتا ہے کہ کوئی آ کر اسکا حال ہی پوچھ لے ۔ اپنے شادی شدہ بیٹے اور بیٹیوں کے انتظار میں رہتا ہے لیکن کبھی بھی کسی نے اس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ۔ کتنا اُداس دکھائی دے رہا ہے بیچارہ
۔
چوتھی منزل
ارے یہ تو ہماری وہ خوبصورت اور ہنستی مسکراتی ہمسائی ہے ۔ بیچاری کے خاوند کو مرے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں ۔ سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ اسکے زخم مندمل ہو چکے مگر یہ تو ابھی بھی اپنے مرحوم خاوند کی تصویر اٹھائے رو رہی ہے
دسویں منزل سے کودنے سے پہلے تو میں نے یہی سمجھا تھا کہ میں ہی اس دنیا کی سب سے غمگین اور اُداس آدمی ہوں ۔ یہ تو مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہاں ہر کسی کے اپنے مسائل اور اپنی پریشانیاں ہیں اُفوہ ۔ میرے مسائل تو اتنے گمبھیر نہ تھے
کُودنے کے بعد زمین کی طرف آتے ہوئے، جن لوگوں کو میں دیکھتے ہوئے آئی تھی وہ اب مجھے دیکھ رہے ہیں ——>
کاش ہر شخص یہی سوچ لے کہ دوسروں پر پڑی ہوئی مصیبتیں اور پریشانیاں اُن مصیبتوں اور پریشانیوں سے کہیں زیادہ اور بڑی ہیں جن سے وہ گزر رہا ہے تو وہ کس قدر خوشی سے اپنی زندگی گزارے اور ہمیشہ اپنے رب کا شکر گزار رہے
مایوس نہ ہوا کریں کہ یہ دنیا فانی ہے ۔ اس دنیا میں موجود ہر شۓ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی اور جان لیجئے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
بشکريہ ۔ محمد سليم صاحب ۔ شانتو ۔ چين
امريکا کے ايک جنگل ميں آگ لگ گئی ۔ کئی دن بعد آگ بجھا لی گئی تو فاريسٹ رينجر نقصان کا اندازہ لگانے کيلئے گئے ۔ ايک جگہ فارسٹ گارڈ نے ديکھا کہ ايک پرندہ زمين پر پر پھيلائے جل کر کوئلہ ہو چکا ہے ۔ بے خيالی ميں اُس نے اپنی چھڑی سے جلے ہوئے پرندے کو ٹھوکر ماری ۔ وہ ايک دم حيران رہ گيا جب اُس کے نيچے سے پرندے کے ننھے چوزے بھاگتے ہوئے نکلے
رينجر تڑپ کر رہ گيا کہ ماں جل گئی مگر اپنے بچوں کو آخر وقت تک تحفظ ديا ۔ وہ پرندہ اُڑ کر اپنی جان بچا سکتا تھا مگر اُس نے اپنے بچوں کا جلنا گوارہ نہ کيا ۔ کمال يہ ہے کہ ماں آگ سے جلتی رہی مگر سب تکليف برداشت کرتے ہوئے ذرا سی جُنبش نہ کی کہ مبادا اس کے بچوں تک آگ پہنچ جائے
ماواں ٹھنڈيا چھاواں
زندگی کے میدانِ کارزار میں حقیقی مؤثر ہتھیار اور فتحِ کا مجرب نسخہ
یقین ۔ خود اعتمادی ۔ جہدِ مسلسل ۔ صبر و تحمل ۔ انصاف اور محبت
میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک اور کچھ خوبصورت پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے