Category Archives: سبق

قسمت اور قانون

آج سے 17 سال 4 ماہ قبل 23 مارچ 1994ء کا واقعہ ہے کہ ايک امريکی رونلڈ اَوپس نے دِل شِکنی سے مغلوب ہو کر خود کُشی کا فيصلہ کيا جس کا واضح اظہار اُس کے چھوڑے ہوئے خط ميں تھا ۔ اُس نے ايک 10 منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگائی ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے رونلڈ اَوپس نے غور نہ کيا کہ آٹھويں منزل سے نيچے عمارتی کام ہو رہا ہے اور ايک مضبوط جال لگايا گيا ہے کہ کوئی مزدور گر کر زخمی يا ہلاک نہ ہو

مزدوروں نے ديکھا کہ ايک آدمی اُوپر سے جال پر سر کے بل گرا ۔ وہ اُسے اُٹھا کر ہسپتال لے گئے جہاں اُسے مردہ بتايا گيا ۔ پوليس کے ڈاکٹر نے لاش کا معائنہ کرکے بتايا کہ اس کی موت سر ميں بندوق کی گولی لگنے سے ہوئی ہے

عمارت کی کھڑکيوں کا معائنہ کرنے پر پوليس نے ديکھا کہ نويں منزل پر ايک کھڑکی کا شيشہ گولی لگنے سے ٹوٹا ہوا ہے ۔ گولی چلنے والے کمرے ميں بوڑھے مياں بيوی رہتے تھے ۔ وقوعہ کے وقت وہ آپس ميں جھگڑ رہے تھے ۔ خاوند کے ہاتھ ميں بندوق تھی اور وہ بيوی کو مارنے کی دھمکی دے رہا تھا ۔ انہوں نے بتايا کہ يہ جھگڑا اُن کا آئے دن کا معمول ہے اور وہ اسی طرح اپنی بيوی کو دھمکی ديتا ہے اور بندوق کا گھوڑا بھی دبا ديتا ہے کيونکہ بندوق ميں کوئی کارتوس نہيں ہوتا ۔ مگر اس دن انہيں ٹھا کی آواز آئی جس پر وہ بھی حيران تھے

ہوا يہ تھا کہ بندوق سے درست نشانہ تو ليا نہیں گيا تھا اسلئے گولی اُس کی بيوی کو لگنے کی بجائے کھڑکی کا شيشہ توڑتی ہوئی رونلڈ اَوپس کے سر ميں پيوست ہو گئی ۔ اس طرح اس بوڑھے پر قتل کا مقدمہ بن گيا ۔ مقدمہ کے دوران مياں بيوی کا اٹل مؤقف تھا کہ اُنہوں نے کبھی بندوق ميں کارتوس نہيں ڈالے اور اُن کے عِلم ميں نہيں کہ بندوق ميں کارتوس کہاں سے آ گيا ۔ اس لئے رونلڈ اَوپس کی ہلاکت صرف ايک حادثہ ہے

قسمت کا چکر

پوليس نے تفتيش جاری رکھی ۔ اتفاق سے پوليس کو ايک ايسا آدمی ملا جس نے بتايا کہ اُس نے وقوعہ سے چند روز قبل بوڑھے جوڑے کے بيٹے کو بندوق ميں کاتوس ڈالتے ديکھا تھا ۔ اس بوڑھےجوڑے کا بيٹا رونلڈ اَوپس ہی تھا ۔ مزيد تفتيش سے معلوم ہوا کہ ماں نے اپنے بيٹے کی مالی امداد بند کر دی تھی ۔ بيٹا اپنے باپ کی عادت جانتا تھا کہ جب اُس کے ماں باپ جھگڑتے ہيں تو باپ خالی بندوق کی نالی اُس کی ماں کی طرف کر کے ہلاک کرنے کی اداکاری کرتا ہے ۔ وہ اپنی ماں سے بدزن تھا اور اسے ہلاک کرنے کيلئے اُس نے بندوق ميں کارتوس ڈال ديا کہ جب اُس کا باپ اگلی بار جھگڑے گا تو اس کی ماں ہلاک ہو جائے گی ۔ ليکن ايسا نہ ہوا

جب رونلڈ اَوپس نے خود کُشی کے لئے دسويں منزل سے چھلانگ لگائی تو اُسے معلوم نہ تھا کہ آٹھويں منزل پر مضبوط جال لگا ہے ۔ اگر وہ گولی سے ہلاک نہ ہوتا تو زندہ بچ جاتا ۔ دوسری صورت ميں اگر خودکشی کيلئے چھلانگ لگانے کے وقت رونلڈ اَوپس کے والدين کا جھگڑا نہ ہوتا يا نشانہ خطا نہ جاتا پھر بھی رونلڈ اَوپس زندہ رہتا

قانون

رونلڈ اَوپس نے اپنی والدہ کو قتل کرنے کی نيت سے بندوق ميں کارتوس ڈالا تھا ۔ اُس کی والدہ تو ہلاک نہ ہوئی وہ خود ہلاک ہو گيا ۔ قانون کے مطابق اگرچہ رونلڈ اَوپس نے اپنی ماں کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی مگر گولی ماں کی بجائے خود اُسے لگی اور وہ ہلاک ہو گيا ۔ چنانچہ اس کيس کو خود کُشی قرار ديا گيا

قومی حميت ابھی باقی ہے

خواجہ الطاف حسين حالی صاحب کے مندرجہ ذيل اشعار ميں نے بہت پہلے نقل کر کے مسؤدہ محفوظ کيا اور شائع کرنے کی فہرست ميں لگا ديا تھا ۔ ان کو شائع کرنے کی تاريخ آئی تو بلا وجہ خيال ہوا کہ ملتوی کيا جائے ۔ اس طرح دو بار ملتوی کيا اور بات مہينوں پر جا پڑی

پچھلے ہفتے ان کو شائع کرنے کی حتمی تاريخ 27 جولائی 2011ء مقرر کر دی ۔ سُبحان اللہ ۔ اللہ کا کرنا ديکھيئے کہ آج کا دن ان کيلئے ميرے خالق و مالک نے مُلک ميں وقوع پذير ہونے والے واقعات کے حوالے سے موزوں بنا ديا ہے ۔ سُبحان اللہ

نہیں قوم میں گرچہ کچھ جان باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ نہ اس میں وہ اسلام کی شان باقی
نہ وہ جاہ وحشمت کے سامان باقی ۔ ۔ ۔ پر اس حال میں بھی ہے اک آن باقی
بگڑنے کا گو ان کے وقت آگیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس بگڑنے میں بھی اک ادا ہے
بہت ہیں ابھی جن میں غیرت ہے باقی ۔ ۔ ۔ ۔ دلیری نہیں پر حمیت ہے باقی
فقیری میں بھی بوئے ثروت ہے باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ تہی دست ہیں پر مروت ہے باقی
مٹے پر بھی پندار ہستی وہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکاں گرم ہے آگ گو بجھ گئی ہے

سمجھتے ہیں عزت کو دولت سے بہتر ۔ ۔ ۔ فقیری کو ذات کی شہرت سے بہتر
گلیمِ قناعت کو ثروت سے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ انہیں موت ہے بارِ منت سے بہتر
سر ان کا نہیں در بدر جھکنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ خود پست ہیں پر نگاہیں ہیں بالا
مشابہ ہے قوم اس مریضِ جواں سے ۔ کیا ضعف نے جس کو مایوس جاں سے
نہ بستر سے حرکت نہ جبنش مکاں سے ۔ اجل کے ہیں آثار جس پر عیاں سے
نظر آتے ہیں سب مرض جس کے مزمن ۔ نہیں کوئی مُہلک مرض اس کو لیکن

بجا ہیں حواس اس کے اور ہوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں میل خور و نوش قائم
دماغ اور دل چشم اور گوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جونی کا پندار اور جوش قائم
کرے کوئی اس کی اگر غور کامل ۔ ۔ ۔ ۔ عجب کیا جو ہو جائے زندوں میں شامل
عیاں سب پہ احوال بیمار کا ہے ۔ کہ تیل اس میں جو کچھ تھا سب جل چکا ہے
موافق دوا ہے نہ کوئی غذا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہزالِ بدن ہے زوالِ قویٰ ہے
مگر ہے ابھی یہ دیا ٹمٹماتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجھا جو کہ ہے یاں نظر سب کو آتا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

سچی محبت ۔ نہ جسمانی نہ رُومانی

سچی محبت نہ جسمانی ہوتی ہے نہ رومانی
سچی محبت جو تھا جو ہے جو ہو گا اور جو نہيں ہو گا سب کی قبوليت ہے
ضروری نہيں کہ خوشيوں سے سرشار لوگوں کو ہر اچھی چيز ملے بلکہ وہ جو اُنہيں مل جائے وہ اسی ميں اچھائی تلاش کر ليتے ہيں

ايک بڑے ہسپتال کی ايمرجنسی استقباليہ ميں کام کرنے والا ڈاکٹر لکھتا ہے

وہ بہت مصروف صبح تھی کہ ساڑھے آٹھ بجے کے قريب ايک بوڑھا شخص جو 80 سال کا ہو گا اپنے انگوٹھے کے ٹانکے نکلوانے کيلئے آيا ۔ اُسے 9 بجے کا وقت ديا گيا تھا مگر وہ جلدی ميں تھا کہ اُسے 9 بجے کسی اور جگہ پہنچنا ہے ۔ ميں نے اہم معلومات لے ليں اور اُسے بيٹھنے کيلئے کہا کيونکہ اس کی باری آنے ميں ايک گھنٹہ سے زيادہ لگ جانے کا اندازہ تھا ۔ ميں نے ديکھا کہ وہ بار بار گھڑی پر نظر ڈال رہا ہے اور پريشان لگتا ہے ۔ اس بزرگ کی پريشانی کا خيال کرتے ہوئے ميں نے خود اس کے زخم کا معائنہ کيا تو زخم مندمل ہوا ديکھ کر ميں نے ايک ڈاکٹر سے مطلوبہ سامان لے کر خود اس کے ٹانکے نکال کر پٹی کر دی

ميں نے اسی اثناء ميں بزرگ سے پوچھا کہ “کيا اُسے کسی اور ڈاکٹر نے 9 بجے کا وقت ديا ہوا ہے کہ وہ اتنی جلدی ميں ہے ؟”
وہ بولا کہ اُس نے ايک نرسنگ ہوم جانا ہے جہاں اُس نے 9 بجے اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے
اس پر ميں نے بزرگ کی بيوی کی صحت کے بارے ميں پوچھا تو بزرگ نے بتايا کہ اس کی بيوی الزائمر بيماری کا شکار ہونے کے بعد کچھ عرصہ سے نرسنگ ہوم ميں ہے
ميں نے پوچھا کہ “اگر وہ وقت پر نہ پہنچے تو اس کی بيوی ناراض ہو گی ؟”
اُس بزرگ نے جواب ديا کہ “وہ تو پچھلے 5 سال سے مجھے پہچانتی بھی نہيں ہے”

ميں نے حيران ہو کر پوچھا “اور آپ اس کے باوجود ہر صبح اپنی بيوی کے ساتھ ناشتہ کرتے ہيں ؟ حالانکہ وہ پہچانتی بھی نہيں کہ آپ کون ہيں”
بزرگ نے مسکرا کر کہا “درست کہ وہ مجھے نہيں جانتی مگر ميں تو اُسے جانتا ہوں کہ وہ کون ہے”

يہ سن کر ميں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو روکے گو ميرا کليجہ منہ کو آ رہا تھا ۔ ميں نے سوچا “يہ ہے محبت جو ہر انسان کو چاہيئے”

ہينگ لگے نہ پھٹکری ۔ رنگ چوکھا آوے

ميں نہيں جانتا ہينگ اور پھٹکری سے رنگ کا کيا تعلق ہے ؟ يہ محاورہ ميں نے مڈل سکول ميں پڑھا تھا ۔ مطلب جو ميری سمجھ ميں آيا يہ تھا کہ جيب سے کچھ خرچ نہ ہو پھر بھی فائدہ

ہاں جناب ۔ ايک ايسا عمل ہے جس کے سبب آدمی کا نہ تو کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی نقصان ہوتا ہے مگر فائدہ ہونے کی توقع ہوتی ہے اور عام طور پر فائدہ ہوتا ہے

سکول و کالج کے زمانہ ميں ہمارے اساتذہ پڑھانے کے علاوہ کبھی کبھی خاص طور پر وقت نکال کر ہماری کردار سازی بھی غيرمحسوس طريقہ سے کيا کرتے تھے ۔ ہم آٹھويں جماعت ميں پڑھتے تھے کہ ايک استاذ صاحب نے کہا

“ديکھو ۔ اگر کسی کے ساتھ اچھا سلوک کيا جائے تو نقصان تو کچھ نہيں ہوتا مگر فائدہ ہو سکتا ہے ۔ جب کسی سے مليں تو السلام عليکم کہيں ۔ پھر اپنا مدعا بيان کريں ۔ اپنے کسی بہترين اور بے تکلف دوست سے بھی کوئی مدد لينا ہو تو از راہِ کرم يا برائے مہربانی کہہ کر بات شروع کريں اور کام ہو جانے پر شکريہ ادا کريں”

يہ بات ميں نے پلے باندھ لی اور ساری عمر اس کے بے انداز پھل سے مستفيد ہوتا رہا ہوں اور اِن شاء اللہ آخر دم تک ہوتا رہوں گا
ميں سبزی يا پھل يا گوشت يا دال يا کپڑے ۔ کچھ بھی خريدنے جاؤں
بيچنے والا دکاندار ہو يا خوانچہ والا
اُس کے کپڑے صاف ستھرے ہوں يا پھٹے پرانے
پہلے ميں “السلام عليکم” کہتا ہوں
اگر کوئی چيز پکڑ کر ديکھنا ہو تو بيچنے والے سے اس کی اجازت مؤدبانہ طريقہ سے ليتا ہوں
جب وہ تول يا ناپ کر مجھے چيز ديتا ہے تو اس کا شکريہ ادا کرتا ہوں
اگر کوئی ميری مدد کی کوشش کرے مگر کر نہ سکے پھر بھی ميں اُس کا شکريہ ادا کرتا ہوں

ميرا يہ مشاہدہ ہے کہ سوائے معمولی استثناء کے اللہ کی مہربانی اور ميرے اس رويّے کی وجہ سے مجھے فائدہ ہوتا رہتا ہے

يہ بھی پاکستانی ہيں

آج ايک پاکستانی خاندان کے متعلق کچھ حقائق جو عصرِ حاضر کی مادہ پرست دنيا ميں شايد ايک عجوبہ لگے مگر سوچنے والے کيلئے اس ميں بہت سبق ہے

يہ 1987ء کے دوسرے نصف کی بات ہے ۔ ميں اُن دنوں جنرل منيجر ايم آئی ايس تھا ۔ ايک دن کمپيوٹرائيزڈ اِنوَينٹری منيجمنٹ سسٹمز پروجيکٹ [Computerised Inventory Management Systems Project] نشو و نما اور تنفيذ [Development and implementation] پر گفت و شنيد کرنے ايک فيکٹری کے ايم ڈی صاحب کے پاس گيا ۔ انہوں نے اس پروجيکٹ کے سلسلہ ميں اپنی فيکٹری کی معلومات اکٹھا کرنے کيلئے ايک منيجر کو مقرر کيا ۔ وہ شخص آيا اور يوں اپنا تعارف کرايا

“السلام عليکم سر ۔ ميں عظيم الدين ہوں آپ کے بيٹے زکريا کے دوست انعام الحسن کا باپ”

انعام الحسن اور ميرا بڑا بيٹا زکريا اُن دنوں سر سيّد کالج واہ کينٹ ميں بارہويں جماعت ميں تھے ۔ اس ملاقات کے بعد عظيم الدين صاحب سے چند ايک بار سرکاری کام ہی کے سلسلہ ميں سرسری سی ملاقاتيں ہوئيں ۔ ميں اوائل 1988ء ميں دفتر سے گھر پہنچا ہی تھا کہ باہر کی گھنٹی بجی ۔ زکريا جو اُسی وقت کالج سے گھر پہنچا تھا ديکھنے گيا ۔ واپس آيا تو کچھ پريشان لگا

ميں نے پوچھا “کون تھا؟”

بولا “انعام تھا ۔ اُس کے والد کو ہارٹ اٹيک ہوا ہے اور راولپنڈی لے گئے ہيں ۔ وہ راولپنڈی جا رہا ہے ۔ کہنے آيا تھا کل کالج نہيں آ سکے گا”

ميں نے پوچھا “کيسے جائے گا ؟”

زکريا کہنے لگا “بس پر”

ميں نے زکريا کو بھگايا اور پيچھے اپنی کار لے کے پہنچا ۔ انعام الحسن کو آرمڈ فورسز انسٹيٹيوٹ آف کارڈيالوجی راولپنڈی لے گيا ۔ انعام الحسن ہی اُن کا سب سے بڑا بچہ تھا ۔ اس کے بعد 3 بيٹياں اور  ايک بيٹا

عظيم الدين صاحب بہار [بھارت] سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے ۔ پاکستان ميں ايک اور مہاجر خاندان ہی ميں شادی کی تھی ۔ اُن کا پاکستان ميں سوائے سسرال کے اور کوئی رشتہ دار نہ تھا ۔ نہ اپنا کوئی گھر تھا نہ زمين ۔ تنخواہ کے علاوہ اور کوئی ذريعہ معاش نہ تھا ۔ وہ ايک نہائت شريف ۔ سفيد پوش اور باعمل مسلمان شخص تھے اور دين کی ترويج و تبليغ کيلئے بھی وقت نکالتے تھے

بيماری کے چند روز بعد عظيم الدين صاحب انتقال کر گئے ۔ انگريز ايک ظالم قانون بنا گئے تھے جسے آج تک ہمارے حکمرانوں نے قائم رکھا ہوا ہے کہ دوران ملازمت وفات پر گريجوئٹی نہيں ملتی ۔ اس کی بجائے صرف 4 ماہ کی تنخواہ ملتی ہے ۔ اُن کی ملازمت کا دورانيہ بھی 30 سال سے بہت کم ہونے کے باعث پنشن بھی بہت کم بنتی تھی ۔ کمانے والے کی وفات کے بعد 6 افراد کی روٹی اور 5 بچوں کی تعليم اور معمولی پنشن ۔ اس خاندان کيلئے مشکلات کا گويا پہاڑ آ سامنے کھڑا ہوا تھا ۔ ميں ان خيالات ميں گُم اُن کے گھر پہنچا اور انعام کو گلے لگا کر دلاسہ دينے لگا تو انعام کے يہ الفاظ ميرے کانوں ميں پہنچے

“دعا کيجئے اَنکل ۔ اُن کيلئے دعا کيجئے”

نہ وہ چِلايا ۔ نہ اُس نے آنسو بہائے ۔ ميرے جسم کا ہر عضوء برملا کہہ اُٹھا “يہ ہيں اللہ کے بندے”۔ يہ تھا پہلا دن جب ہمارا عظيم الدين صاحب مرحوم کے خاندان سے تعلق پيدا ہوا

مگر بات يہيں ختم نہيں ہو جاتی ۔ اصل مشکلات تو ابھی شروع ہونے والی تھيں ۔ انعام الحسن کا بارہويں کا نتيجہ آيا ۔ راولپنڈی بورڈ ميں اُس کی چھٹی پوزيشن تھی ۔ اُسے راولپنڈی ميں فوج کے انجنيئرنگ کالج داخل کرايا گيا تاکہ وہ 4 سال ميں انجنيئر بن جائے ۔ باقی يونيورسٹيوں ميں ہڑتالوں کے باعث پانچ چھ سال لگتے تھے

ساری روئيداد لکھوں تو کتاب بن جائے گی ۔ انعام الحسن اور اس کی بہنوں نے کيا کيا پاپڑ بيلے اور کس طرح اپنی خوراک اور تعليم کے اخراجات پورے کئے يہ وہی جانتے ہيں يا اللہ جانتا ہے ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اللہ کے احکام پر عمل کی پوری کوشش کرتا ہے ۔ اللہ آگے بڑھ کر اس کی مدد کرتا ہے اور ايسے وسيلے پيدا کر ديتا ہے جو مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ کچھ نيک دل افسران نے پوری کوشش کے بعد اس خاندان کو مکان کيلئے ايک چھوٹا سا پلاٹ سرکاری قيمت پر دلا ديا ۔ ايک ٹھيکيدار نے کہا کہ وہ بغير منافع کے صرف لاگت کی بنياد پر انکا مکان تعمير کروا  دے گا اور اُس نے ايسا کر دکھايا

کسی طرح 2 کمرے بغير پلستر اور اندرونی دروازوں کے بغير تيار ہو گئے اور وہ لوگ اس ميں رہنے لگے ۔ چھوٹے دو بہن بھائی کی تعليم ابھی باقی تھی کہ اُن کے پاس پيسے ختم ہو چکے تھے ۔ اللہ نے پھر مدد فرمائی اور اُنہيں قرضِ حسنہ مل گيا ۔ ملازمت حاصل کرنے کے بعد انعام الحسن نے پہلا کام يہ کيا کہ جہاں سے قرضِ حسنہ ليا تھا وہ واپس کيا

جس خاندان کو دو وقت کی روٹی حاصل کرنا مشکل نظر آتا تھا اُس کے پانچوں بچوں نے ماشاء اللہ اعلٰی تعليم نہائت خاموشی سے حاصل کی ۔ کبھی ہم نے بيگم عظيم الدين يا اُن کے بچوں کے منہ سے بيچارگی کا لفظ نہ سُنا ۔ جب پوچھا جواب ملا ” اللہ کا کرم ہے”۔ انعام  الحسن نے ملازمت کے دوران ہی ايم ايس سی انجنئرنگ پاس کی ۔ دو بہنيں ڈاکٹر بنيں جن ميں سے ايک نے ايف سی پی ايس کيا۔ تيسری بہن نے ايم ايس سی پاس کی ۔ چھوٹے بھائی نے ايم بی اے پاس کيا ۔ يہ خاندان اب ايک گھر کا مالک بھی ہے جو کہ مکمل کيا جا چکا ہے اور سب بہن بھائيوں کی شادياں ہو چکی ہيں

عظيم الدين صاحب کے خاندان کے سب لوگ عملی طور پر پکے مسلمان ہيں ۔ انعام الحسن کی والدہ ۔ بہنيں اور دونوں بھائيوں کی بيوياں سب پردہ کرتی ہيں ۔ پچھلے 20 سال سے ہمارے ساتھ سب اپنے گھر والوں کی طرح ہيں ۔ اس کے باوجود انعام الحسن کی والدہ  سميت سب خواتين ہم سے پردہ کرتی ہيں

کيا پردہ تعليم يا ترقی کی راہ ميں رکاوٹ ہے  ؟

عظيم الدين صاحب کے متعلق ايک بات ميں نے جان بوجھ کر آخر ميں رکھی ۔ ميرے خالو جو پاکستان آرڈننس فيکٹريز سے بطور منيجر ريٹائر  ہوئے اور واہ چھاؤنی ہی ميں رہتے تھے نے رائے وِنڈ ميں تبليغی جماعت کے سالانہ اجتماع ميں شرکت کی ۔ جب وہ واپس تشريف لائے تو ميں ملنے گيا اور اس نئے تجربہ کا پوچھا ۔ اُنہوں نے پروگرام کے متعلق سرسری تفصيل بتانے کے بعد کہا کہ وہاں پہچنے والے لوگ ايک دوسرے کی خدمت کا جذبہ رکھتے تھے ليکن دو آدميوں کيلئے تو ميرے دل ميں بے پناہ احترام و عزت پيدا ہو گئی ہے جن ميں سے ايک عظيم شخص واہ کے ہيں ۔ منيجر آرٹلری ايميونيشن عظيم الدين ۔ کہنے لگے “ميں نے ديکھا کہ سارا وقت يہ دونوں حضرات لوگوں کو کھانا کھلانے ميں لگے رہتے اور جب سب کھانا کھا چکتے تو جو پليٹيں واپس آ رہی تھيں ان ميں بچا ہوا کھانا وہ کھاتے جاتے اور پليٹيں صاف کر کے رکھتے جاتے ۔ ميں نے عظيم الدين صاحب سے بات کی تو کہنے لگے کہ حلال رزق کا ايک دانہ بھی جو ضائع ہو گا اس کی ہم سے باز پُرس کی جائے گی”

وہ کس کے پاس جاتے تھے ؟

ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب (روضۃ المُحبین و نزھۃ المشتاقین) میں لکھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روزانہ صبح کی نماز کے بعد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غائب پاتے ۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز کی ادائیگی کیلئے تو باقاعدگی سے مسجد میں آتے ہیں مگر جونہی نماز ختم ہوئی وہ چپکے سے مدینہ کے مضافاتی علاقوں میں ایک دیہات کی طرف نکل جاتے ہیں ۔ کئی بار ارادہ بھی کیا کہ سبب پوچھ لیں مگر ایسا نہ کر سکے
ایک بار وہ چُپکے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل دیئے ۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ايک گاؤں میں جا کر ایک خیمے کے اندر چلے گئے ۔ کافی دیر کے بعد جب وہ باہر نکل کر واپس مدینے کی طرف لوٹ چکے تو عمر رضی اللہ عنہ اُس خیمے میں داخل ہوئے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے میں ایک اندھی بُڑھیا 2 چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھیا سے پوچھا ” اے اللہ کی بندی، تم کون ہو ؟”
بڑھیا نے جواب دیا ” میں ایک نابینا اور مفلس و نادار عورت ہوں ۔ ميرے والدین مجھے اس حال میں چھوڑ کر فوت ہو گئے کہ میرا اور اِن 2 لڑکیوں کا اللہ کے سوا کوئی اور آسرا نہیں ہے
عمر رضی اللہ عنہ نے پھر سوال کیا ” یہ شیخ کون ہے جو تمہارے گھر میں آتا ہے ؟”
بوڑھی عورت [جو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اصلیت نہیں جانتی تھی] نے جواب دیا کہ “میں اس شیخ کو جانتی تو نہیں مگر یہ روزانہ ہمارے گھر میں آکر جھاڑو دیتا ہے ۔ ہمارے لئے کھانا بناتا ہے ۔ ہماری بکریوں کا دُودھ دوہ کر ہمارے لئے رکھتا ہے اور چلا جاتا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ یہ سُن کر رو پڑے اور کہا ” اے ابو بکر ۔ تُو نے اپنے بعد کے آنے والے حکمرانوں کیلئے ایک تھکا دینے والا امتحان کھڑا کر کے رکھ دیا ہے
محمد سليم صاحب کے بلاگ پر يہ تحرير پڑھ کر ميں اشک بہائے بغير نہ رہ سکا