اگر آپ چاہتے ہيں کہ
آپ کے سپنے حقيقت بن جائيں
سب سے پہلا کام يہ کريں کہ
جاگ اُٹھيں
قول ۔ جے ايم پاور
اگر آپ چاہتے ہيں کہ
آپ کے سپنے حقيقت بن جائيں
سب سے پہلا کام يہ کريں کہ
جاگ اُٹھيں
قول ۔ جے ايم پاور
کہيں وسليے کی شکائت ہے تو کہيں دولت کی کمی کی ليکن اصل بات ہے ہمت اور محنت کی مگر حرام سے بچتے ہوئے ۔ پاکستان بلند ترين گليشيئروں ۔ بلند ترين پہاڑوں ۔ درميانے پہاڑوں ۔ سطح مرتفع ۔ ميدان اور صحرا کا مجموعہ ہے اور اس کے بطن ميں چٹيل پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ ۔ صحرا اور سرسبز ميدان پائے جاتے ہيں ۔ ايسے جغرافيے اور ايسی آب و ہوا والا قطع زمين ہو تو اس ميں بسنے والے ذہين اور جفاکش ہوتے ہيں ہماری خود غرضی اور نا اتفاقی نے ہميں ناکارہ بنا ديا ہے ۔ پھر بھی “ذرا نم ہو تو يہ مٹی بڑی زرخيز ہے ساقی” کے مصداق غبار ميں چھپے لعل گاہ بگاہ اپنی چمک دکھاتے رہتے ہيں
خواجہ الطاف حسين حالی صاحب نے مسلمانانِ ہِند کی حالتِ زار بيان کرنے کے بعد اُنہيں مايوس ہونے سے بچانے اور ترقی کی راہ پر چلنے کا راستہ بھی بتايا ۔ مسدسِ حالی کے اس حصہ کا نام ” ضميمہ ” ہے
بس اے نااُمیدی نہ یوں دل بُجھا تُو ۔ ۔ ۔ جھلک اے اُمید اپنی آخر دکھا تُو
ذرا نا امیدوں کی ڈھارس بندھا تو ۔ ۔ ۔ فسردہ دلوں کے دل آکر بڑھا تو
ترے دم سے مردوں میں جانیں پڑی ہیں ۔ جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں
بہت ڈوبتوں کو ترایا ہے تو نے ۔ ۔ ۔ بگڑتوں کو اکثر بنایا ہے تونے
اکھڑتے دلوں کو جمایا ہے تونے ۔ ۔ ۔ اجڑتے گھروں کو بسایا ہے تونے
بہت تونے پستوں کو بالا کیا ہے ۔ ۔ ۔ اندھیرے میں اکثر اجالا کیا ہے
نہیں فکر تو دل بڑھاتی ہے جب تک ۔ دماغوں میں بو تیری آتی ہے جب تک
یہ سچ ہے کہ حالت ہماری زبوں ہے ۔ عزیزوں کی غفلت وہی جوں کی توں ہے
جہالت وہی قوم کی رہنموں ہے ۔ ۔ ۔ تعصب کی گردن پہ ملت کا خوں ہے
مگر اے امید اک سہارا ہے تیرا ۔ ۔ ۔ کہ جلوہ یہ دنیا میں سارا ہے تیرا
یقین ۔ خود اعتمادی ۔ جہدِ مسلسل ۔ صبر و تحمل ۔ انصاف اور محبت
زندگی کے میدانِ کارزار میں حقیقی مؤثر ہتھیار اور فتح کا مُجرّب نُسخہ ہیں
میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے سوا سات سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے
سائنس کی ترقی کے باعث دنيا بہت آگے نکل گئی ہے ليکن قدم قدم پر يہ احساس ہوتا ہے کہ ہم سے پہلے والے ہم سے زيادہ باعِلم تھے ۔ ہمارے سکول کے زمانہ ميں [1953ء تک] بلکہ آج سے 4 دہائياں قبل [1972ء] تک جو طالب عِلم سبق ياد نہ کرے يا بھُول جائے اساتذہ اُسے سزا کے طور پر ايک ورزش کرنے کا حُکم ديتے تھے جو ايک سے 3 منٹ تک ہوتی تھی ۔ اب سائنس کی بہت زيادہ ترقی کے بعد معلوم ہوا ہے کہ جسے ہم سزا سمجھتے رہے وہ دراصل ايک اہم طِبی نُسخہ تھا
ميں اگر کہوں کہ ياد داشت [memory] اور اِنہماک [concentration] کو ايک سادہ ا ور آسان ورزش سے بہتر کيا جا سکتا ہے تو شايد اسے مذاق سمجھا جائے ليکن يہ مذاق نہيں بلکہ مسلمہ حقيقت ہے
يہ ورزش بالخصوص اُن لوگوں کيلئے مفيد ہے جن کی ياد داشت کمزور ہو يا وہ خود فکری [autism] يا الزائمر [Alzheimers] بيماری ميں مُبتلاء ہوں ۔ جس کی بھی ياد داشت ايسی نہ ہو جيسا کہ ہونا چاہيئے وہ اس سادہ ورزش سے مستفيد ہو سکتا ہے
ای ای جی سکينز [Electroencephalography scans] سے معلوم ہوا کہ يہ ورزش دماغ کے داہنے اور بائيں حصوں کو ہم عصر [synchronise] کر کے غور و فکر اور ياد داشت کو بہتر بناتی ہے
يہ آسان اور تيز اثر والی ورزش کمزور ياد داشت [poor memory] ۔ انہماک کی کمی[lack of concentration] ۔ اُجڈ پَن [clumsiness] اور تلوّن مزاجی [emotional instability] ميں بہتری پيدا کرتی ہے
ورزش کے اہم نقاط
کان کی لَو [ear lobe] ميں دباؤ کے نقاط [acupressure points] کے ذريعہ اعصابی [neural pathways] رويّوں کو تحريک ديتی ہے
دماغ کی کارکردگی بہتر کرنے اور قرار [calmness] کو بڑھانے کيلئے داہنے اور بائيں حصوں کو ہم عصر [Synchronise] کرتی ہے
بوڑھوں ۔ جوانوں ۔ بچوں ۔ والدين ۔ اولاد ۔ کوئی بھی کسی بھی عمر ميں ہو کی ذہانت کو تيز کرتی ہے
ايسپرجر سِنڈرَوم [, Asperger’s syndrome] ۔ خود فکری [autism] ۔ سيکھنے ميں مشکلات اور اطوار کے مسائل ميں مدد ديتی ہے
ورزش آسان اور قليل وقت ليتی ہے ۔ صرف ايک سے 3 منٹ روزانہ کافی ہوتا ہے
ورزش کا طريقہ
احتياط ۔ کھانے کے بعد 2 گھنٹے کے اندر ورزش نہ کيجئے ۔ آرام دہ کپڑے پہن ليجئے ۔ خواتين زيور وغيرہ اُتار ديں
1 ۔ دونو پاؤں کے درميان اپنے شانے کی چوڑائی جتنا فاصلہ رکھ کر سيدھے اس طرح کھڑے ہو جايئے کہ پاؤں کے انگُوٹھوں کا رُخ سامنے کی طرف ہو
2 ۔ داہنے کان کی لَو کو بائيں ہاتھ کے انگُوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کے درميان اس طرح پکڑيئے کہ انگُوٹھا سامنے کی طرف ہو
3 ۔ بائيں کان کی لَو کو داہنے ہاتھ کے انگُوٹھے اور شہادت کی اُنگلی کے درميان اس طرح پکڑيئے کہ انگُوٹھا سامنے کی طرف ہو
4 ۔ سيدھے کھڑے رہتے ہوئے جس قدر ہو سکے سانس کو اندر کھينچيئے پھر سامنے کی طرف ديکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس طرح نيچے ہوتے جايئے کہ صرف گھُٹنوں سے ٹانگيں اکٹھی ہوتی جائيں ۔ نيچے جاتے ہوئے سانس باہر نکالتے جايئے ۔ اس طرح جس قدر نيچے ہو سکيں ہو جائيے مگر رہيئے پاؤں کے بل ہی
5 ۔ سانس اندر کھينچتے ہوئے آہستہ آہستہ اُوپر اُٹھيئے اور سيدھے کھڑے ہو جايئے
6 ۔ سانس باہر نکالتے ہوئے پہلے کی طرح نيچے ہوتے جائيں ۔ اس طرح کان چھوڑے بغير اور اپنی جگہ سے ہِلے بغير اس ورزش کو 14 سے 21 بار 2 سے 3 منٹ ميں دہرايئے
3 ہفتوں ميں اس ورزش کے خاطر خواہ نتائج سامنے آنا شروع ہو جائيں گے
اس ورزش کی وڈيو اور مزيد معلومات کيلئے يہاں کلِک کيجئے
معلومات فراہم کرنے پر ميں ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب کا مشکور ہوں
1 ۔ ناشتہ نہ کرنے يا بہت دير سے کرنے سے خون ميں شکر کی سطح [blood sugar level] معمول سے کم ہو جاتی ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کو افزائشی مواد [nutrients] ميں کمی ہو جاتی اور دماغ ميں بگاڑ [brain degeneration] پيدا ہوتا ہے
2 ۔ زيادہ کھانے [overeating] سے دماغ کی شريانيں [brain arteries] سخت ہو جاتی ہيں جس کے نتيجہ ميں دماغی صلاحيت کو بيماری لاحق ہو جاتی ہے
3 ۔ تمباکو نوشی [Smoking] متعدد دماغی سُکڑاؤ [multiple brain shrinkage] پيدا کرتی ہے جس کے نتيجہ ميں الزائمر کی بيماری [Alzheimer disease] ہو سکتی ہے
4 ۔ زيادہ شکر والی خوراک کے استعمال کی زيادتی سے خون ميں شکر کی سطح مطلوب مقدار سے بڑھ جاتی ہے جو لحميات اور افزائشی مواد [proteins and nutrients] کے انجذاب [absorption] کو روکتی ہے جس سے اصل غذائيت ميں کمی [malnutrition] ہوتی ہے اور اس کا دماغ کی نشو و نما پر بُرا اثر پڑتا ہے
5 ۔ انسان کے بدن ميں دماغ باقی عضاء کی نسبت زيادہ آکسيجن ليتا ہے ۔ آلودہ ہوا ميں سانس لينے سے دماغ آکسيجن کی مطلوبہ مقدار سے محروم رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کی صلاحيت يا کارکردگی ميں کمی آتی ہے
6 ۔ مناسب نيند کرنے سے دماغ کو آرام ملتا ہے اور اس کی افزائش مناسب ہوتی ہے ۔ نہ سونا يا بہت کم سونا دماغ کے خُليئوں کے فنا ہونے ميں سُرعت پيدا کرتا ہے
7 ۔ 6 سے 8 گھنٹے رات ميں اور ايک گھنٹہ دن ميں سونا بہت ہوتا ہے ۔ زيادہ سونے سے جسم اور پھر دماغ پر چربی چڑھ جاتی ہے جو دماغ کو کمزور کرتی ہے
8 ۔ بيماری کے دوران دماغ کا زيادہ استعمال يعنی زيادہ باتيں کرنے يا کتاب پڑھتے رہنے سے دماغ کی تاثير [effectiveness] کم ہوتی ہے اور دماغ پر مزيد بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہيں
9 ۔ نشاط انگيز [stimulation] غور و فکر دماغ کی غذا ہے ۔ اس سے احتراز دماغ کو سُکيڑ ديتا ہے
مندرجہ ذيل ايک خط کا متن ہے جو ہندوستان ميں اَوکھِل چندر سَين نے صاحب گنج ڈويزنل ريلوے آفس کو 1909ء ميں لکھا تھا ۔ يہ خط نئی دہلی [بھارت] ميں ريلوے عجائب گھر ميں رکھا ہوا ہے
“I am arrive by passenger train Ahmedpur station and my belly is too much swelling with jackfruit. I am therefore went to privy. Just I doing the nuisance that guard making whistle blow for train to go off and I am running with ‘lotah’in one hand and ‘dhoti’ in the next when I am fall over and expose all my shocking to man and female women on plateform. I am got leaved at Ahmedpur station. This too much bad, if passenger go to make dung that dam guard not wait train five minutes for him. I am therefore pray your honour to make big fine on that guard for public sake. Otherwise I am making big report to papers.”
آخر اس خط کی اتنی کيا تاريخی اہميت ہے کہ عجائب گھر ميں اس کی نمائش کی گئی ہے ۔ يقينی طور پر اس کا سبب اَوکھِل چندر سَين کی کمزور انگريزی نہيں ہے ۔ اس خط نے اُس وقت کی حکومتِ برطانيہ کو جن کا ہندوستان پر راج تھا مجبور کيا کہ ٹرين کے ڈبوں کے اندر ہی بيت الخلاء بنائے جائيں کيونکہ اُس وقت تک کسی ٹرين ميں بيت الخلاء کی سہولت موجود نہ تھی
کوئی تجويز يا خيال جو ذہن ميں آئے خواہ کتنا ہی احمقانہ لگے اس کا اظہار ايک عمدہ عمل کا پيش خيمہ ہو سکتا ہے ۔ اظہار خيال کی آزادی کا يہی مطلب و مقصد ہے جو بدقستی سے دوسروں کی پگڑياں اُچھالنا سمجھ ليا گيا ہے
چنانچہ کہہ دينا چاہيئے جو دل ميں آئے بشرطيکہ اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو
شرمانا چاہيئے جہاں شرم کی بات ہو مگر اس لئے نہيں کہ “لوگ کيا کہيں گے”
جائز تکليف کا اظہار کرتے ہوئے شرم نہيں کرنا چاہيئے
جائے گا جب يہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
دو گز کفن کا ٹکڑا ۔ تيرا لباس ہو گا
يہ ٹھاٹھ باٹھ تيرا ۔ يہ آن بان تيری
رہ جائے گی يہيں پر يہ ساری شان تيری
اتنی ہی ہے مسافر بس داستان تيری
مطلب کی ہے يہ دُنيا کيا اپنے کيا پرائے
کوئی نہ ساتھ آيا ۔ کوئی نہ ساتھ جائے
دو دن کی زندگی ہے کر لے جو دل ميں آئے