Category Archives: سبق

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ قابلِ غور

کوشش ترک کرنے سے قبل ضرور غور کیجئے

کہ آپ اتنا عرصہ اس کی دُھن میں کیوں لگے رہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔ ” گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ بالخصوص پڑھیئے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا کیا پھڈا ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دل

کسی ایسے آدمی کی خاطر
* * * * * اپنا آپ نہ کھویئے

جسے * * * * * * * * * *
آپ کے کھو جانے کی فکر نہ ہو

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ تلاش

گڈ مڈ ہجوم میں سے سادگی تلاش کیجئے
اور
بے آہنگی میں سے مطابقت تلاش کیجئے

یاد رکھیئے کہ
بہترین موقع یا مناسب وقت مشکلات ہی کے دوران ملتا ہے

جذباتی نعروں اور دوسروں کی عیب جوئی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا

کیا نیکی ابھی بھی زندہ ہے ؟

آدمی کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے واقعات ہوتے ہیں جو بظاہر معمولی اور لمحہ بھر کیلئے ہوتے ہیں مگر یاد رہ جاتے ہیں

واقعہ
دس بارہ سال قبل میں اور چھوٹا بھائی راولپنڈی میں کچھ سودا سلف لینے گئے ۔ پرانی سبزی منڈی کے باہر بازار تلواڑاں میں ہم نے کار کھڑی کی اور پرانی سبزی منڈی میں داخل ہوئے ۔ ہم جا رہے تھے کہ ایک کار پیچھے سے آئی ۔ سب حیران ہو کر دیکھ رہے تھے کہ کار کیوں اس بھیڑ والے بازار میں آئی ہے ۔ چھابڑی والوں کو مشکل پڑی تھی ۔ چلانے والا نوجوان تھا اور گو آہستہ مگر کار کو دھنساتا ہی چلا جا رہا تھا ۔ میں ایک دم ایک طرف ہوا مگر اس نے خیال نہ کیا اور پہیہ میری ٹانگ سے ٹکرایا ۔ دوسری طرف چھابڑی تھی جس سے میری ٹانگ زخمی ہو گئی ۔ میں ٹانگ کو دیکھ رہا تھا کہ نوجوان نے کار کا شیشہ کھول کر کہا “اندھے ہو ۔ نظر نہیں آتا”۔ میں نے اس کے گال پر تھپڑ جڑ دیا ۔ کچھ دیر بعد ایک سفید ڈاڑھی والے صاحب نے آ میرا راستہ روکا اور بولے ” تم کون ہوتے ہو میرے بیٹے کو تھپڑ مارنے والے ۔ میں تمہیں مزا چکھاتا ہوں”۔ میرا بھائی بیچ میں آ گیا ۔ کچھ لوگ جوشاہد تھے وہ بھی بیچ میں آ گئے تو میں بچ گیا

وہاں سے ہم دوسرے بازار میں چلے گئے اور ایک دکان سے خریداری کر رہے تھے کہ وہی سفید داڑھی والے صاحب آئے اور معافی مانگتے ہوئے بولے ” مجھ سے غلطی ہوئی ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے بیٹے کی گاڑی نے آپ کو ٹکر ماری تھی ۔ میں نے بیٹے سے پوچھا کہ ” اُنہوں نے تمہیں کیوں تھپڑ مارا ؟ تواس نے بتایا ۔ مجھے معاف کر دیجئے ۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا”۔

واپسی پر ہم دونوں بھائی کہہ رہے تھے کہ نیکی ابھی زندہ ہے

بہتر کون ؟

آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے

لیکن

سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے شاید ایسے لوگوں کو پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ نظر رکھیئے

My Id Pak

اپنے خیالات پر نظر رکھیئے کہ یہ الفاظ کو جنم دیتے ہیں
اپنے الفاظ پر نظر رکھیئے کہ یہ فعل یا عمل کو جنم دیتے ہیں
اپنے فعل یا عمل پر نظر رکھیئے کہ یہ عادت بنتے ہیں
اپنی عادات پر نظر رکھیئے کہ یہ آپ کے کردار کی نشانی بنتی ہیں
اپنے کردار پر نظر رکھیئے کہ یہ آپ کا مقدّر یا نصیب بنتا ہے

آپ کے مقدّر یا نصیب میں 11 مئی کو آپ کے کردار کا بھی حصہ ہے
اسلئے ووٹ ضرور دیجئے اور ایسے اُمیدوار کو دیجئے کہ بعد میں پچھتانے کا کوئی خدشہ نہ رہے
فرشتے تلاش نہ کیجئے جو ملیں گے نہیں اور آپ گھر بیٹھے رہیں گے
نتیجہ یہ ہو گا کہ ووٹروں کی کُل تعداد کے 20 سے 30 فیصد ووٹ لینے والا آدمی کامیاب ہو جائے گا جو نہائت بُرا ہو سکتا ہے اور اس کے آپ ذمہ دار ہوں گے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ راستہ اور منزل

My Id Pak

اگر راستہ خوبصورت ہے تو معلوم کیجئے کہ کس منزل کو جاتا ہے
اگر منزل خوبصورت ہو تو راستہ کی پرواہ مت کیجئے

کیونکہ خوبصورت منزل مل جانے پر راستہ کی دُشواریوں کا احساس ختم ہو جاتا ہے
لیکن منزل خوبصورت نہ ہو تو آدمی کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہ جاتا

آج سے 20 دن بعد مُلک میں انتخابات ہوں گے ۔ اگر میرے ہموطن خوبصورت منزل کو بھُول کر سیاستدانوں کے خوبصورت وعدوں کے پیچھے لگ گئے تو اگلے 5 سال روتے ہوئے ہی گذاریں گے

نہ فرشتے اُمیدوار ہیں اور نہ نبی ۔ اسلئے اُن کی تلاش چھوڑ دیجئے
ووٹ ضرور ڈالیئے مگر اُسے جو باقی سب سے اچھا ہو ۔ باتوں یا شکل میں نہیں ۔ عمل میں اچھا