Category Archives: روز و شب

جانور بھی عقل رکھتے ہیں

مجھے بچپن سے سیر و سیاحت کا شوق رہا جسے پورا کرنے کیلئے میں بڑے شہروں کی بجائے دیہات ۔ پہاڑوں اور جنگلات کا رُخ کیا کرتا تھا ۔ اس سیر سیاحت کے دوران میں جانوروں اور ان کی عادات کا مطالعہ بھی کرتا رہا ۔ اس مطالعے کے دوران ہر لمحے دل سے نکلتا رہا ”سُبحان اللہ سُبحان اللہ“ ۔ عام انسانوں کا خیال ہے کہ انسان جانور سے اسلئے افضل ہے کہ انسان عقل رکھتا ہے ۔ عملی مشاہدے سے یہ خیال غلط نظر آتا ہے

کبھی آپ نے پرندوں کو گھونسلہ بناتے متواتر دیکھا اور اُس پر غور کیا ہے ؟ خاص کر ایک چھوٹے سے پرندے بیہا کو جو اپنا گھونسلہ درخت کی ٹہنی سے لٹکا ہوا بناتا ہے ۔ یہ بیضوی شکل کا ہوتا ہے اور اس میں ایک طرف گول سوراخ ہوتا ہے
ایک چوپایا ہے جسے شاید لُدھڑ (Beaver) کہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں سے پانی کے اوپر اپنا گھر بناتا ہے ۔ چھوٹی ندیوں پر بند (dam) بنا کر پانی کی سطح بلند کرتا ہے تاکہ پانی کے بہاؤ کی رفتار کم ہو اور اسے خوراک حاصل کرنے میں بھی آسانی ہو

مندرجہ بالا پرندہ اور چوپایا تو ہر جگہ نہیں ملتے ۔ گائے تو ہر علاقے میں پائی جاتی ہے ۔ کیا آپ جانتے ہیں ۔ گائے اپنے کمرے سے باہر نکلنے کیلئے کُنڈی کیسے کھولتی ہے ؟ بجلی سے چلنے والا دروازہ کیسے کھولتی ہے ؟ پانی پینے کیلئے ہینڈ پمپ کیسے چلاتی ہے ؟
یہاں کلِک کر کے وڈیو دیکھیئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ چوہدراہٹ

ایک چیز جسے چھوڑنے کیلئے بہت کم لوگ رازی ہوتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کی خواہش ہے
آدمی کھانا پینا کم کر سکتا ہے ۔ مہنگے کپڑے پہننا چھوڑ سکتا ہے ۔ دولت کی کمی برداشت کر سکتا ہے
لیکن
اگر اُسے دوسروں کا سردار بنا دیا جائے تو اُس کا رویّہ حریفانہ ۔ دفاعی اور آرزو مندانہ ہو جائے گا

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” 6 year boy becomes MS Office professional“

میری ڈائری ۔ مصلحت

یکم جولائی 1962ء کو میری ڈائری میں لکھا ہے
کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن کا حصول ممکن ہوتا ہے لیکن مصلحت حارج ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں متعلقہ مصلحت کا جائزہ ضروری ہوتا ہے کہ اس میں خود غرضی شامل تو نہیں ۔ اگر انسان چُوک جائے اور من مانی کرے تو وہ شاہراہِ ترقی پر بہت پیچھے کی طرف پھسل جاتا ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Delhi’s Apathy over Pakistani Minor Girl’s Rape “

10 سال اور 2 دِن گذر گئے

میں نے یہ بلاگ 5 مئی 2005ء کو شروع کیا تھا ۔ الحمد و للہ آج اس بلاگ کی زندگی کے 10 سال اور 2 دن ہو گئے ہے اور پتہ بھی نہ چلا
میں اللہ کا لاکھ بار بھی شُکر بجا لاؤں تو کم ہے ۔ شُکر اُس ذاتِ اعلٰی و ارفع کا جس نے صرف مجھے ہی نہیں کُل کائنات کو پیدا کیا اور اس کا نظام چلا رہا ہے ۔ اُس قادر و کریم نے اتنی زیادہ نعمتیں دے رکھی ہیں کہ گنتے گنتے عمر بیت جائے لیکن گنتی پوری نہ ہو ۔ اُس اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے یہ بلاگ بھی بنانے کے قابل بنایا ۔ اُس رحمٰن و رحیم نے ہی مجھے تو فیق دی کہ میں اسے جاری رکھوں

جب میں نے یہ بلاگ شروع کیا تھا تو اُمید نہ تھی کہ یہ ایک سال بھی پورا کر سکے گا ۔ اور یہ بھی خیال تھا کہ میں خُشک باتیں لکھتا ہوں اسلئے شاید ہی اسے کوئی پڑھے مگر اللہ کی ذرہ نوازی دیکھیئے کہ

میں نے 10 سال میں 2205 تحاریر لکھیں
میرے بلاگ کو اس وقت تک 357809 مرد و خواتین پڑھ چکے ہیں
ایک تحریر 24551 سے زائد بار پڑھی جا چکی ہے
6 تحاریر 10000 سے 12000 بار پڑھی جاچکی ہیں
23 تحاریر 5001 سے 10000 بار پڑھی جاچکی ہیں
30 تحاریر 4001 سے 5000 بار پڑھی جا چکی ہیں
93 تحاریر 3001 سے 4000 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1901 سے 3000 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1771 سے 1900 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1570 سے 1770 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1400 سے 1569 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1256 سے 1399 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1140 سے 1255 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1000 سے 1139 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 800 سے 999 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 600 سے 799 بار پڑھی جا چکی ہیں

روئیداد مجلس بلاگراں

میں نے 14 اپریل 2015ء کو ایک درخواست شائع کی جسے پڑھ کر لاہور سے ایک صاحب نے رابطہ کیا اور اس مجلس میں شمولیت کی خواہش ظاہر کی ۔ میں نے خوش آمدَید کہا

گو 25 اپریل تک 250 سے زائد قارئین میری تحریر پڑھ چکے تھے پھر بھی سوچا کہ شاید کسی مقامی بلاگر نے میری تحریر نہ پڑھی ہو چنانچہ جن کے متعلق معلوم تھا کہ راولپنڈی یا اسلام آباد میں رہائش رکھتے ہیں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ کافی کوششوں کے بعد کل 10 حضرات سے رابطہ ہو سکا جن میں سے 4 نے آنے کا عندیہ دیا ۔ باقی بہت مصروف تھے

میں 3 مئی کو ان صاحبان کی انتظار میں پونے 5 بجے سہ پہر بیٹھ گیا ۔ 5 بج کر 20 پر سعد صاحب جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں تشریف لائے ۔ ان کے پاس ذریعہ رسل و رسائل نہیں ہے اسلئے 20 منٹ کی تاخیر معاف کر دی ۔ ویسے مجھے تو تعلیم سعد صاحب کے زیر لگتی ہے کیونکہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں آنے سے قبل وزیر اعلٰی پنجاب سے لیپ ٹاپ لیا تھا ۔ اب نامعلوم نواز شریف سے کیا لینے کا ارادہ رکھتے ہیں

خیر اب ہم دونوں باقی 3 حضرات کی انتظار میں مبتلاء ہو گئے ۔ 6 بج گئے تو ٹیلیفون کھڑکانے شروع کئے ۔ لیکن شاید تینوں صاحبان کو ہماری غریبی پر ترس آ گیا کہ کہیں موبائل ٹیلیفون کے بیلنس سے کچھ روپے کم نہ ہو جائیں اسلئے کسی نے ٹیلیفون نہیں سُنا ۔ ٹیلیفونوں کی بیچاری گھنٹیاں بجتے بجتے خاموش ہو جاتی رہیں

کہتے ہیں کہ اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے

1 ۔ تہذیب بیکرز کے چِکن ششلِک ۔ رولز ۔ کیک ۔ سموسے اور بسکٹ بلاگران کے نام پر آئے تھے جو سوائے سعد صاحب کے اور کسی کی قسمت میں نہ ہوئے ۔ سعد صاحب اور میں نے پیٹ بھر کر کھائے ۔ میری بیگم نے بھی کھائے ۔ ملازمہ کو دے کر دعائیں لیں ۔ باقی فریزر میں رکھ دیئے ۔ دو تین دن دیکھیں گے کوئی مہمان آیا تو اُسے خوش کریں گے ورنہ ہم اپنے آپ کو ایک دفعہ پھر خوش کریں گے

2 ۔ میرا ارادہ ایک اچھے ہوٹل میں انتظام کرنے کا تھا ۔ کسی خیر اندیش نے مشورہ دیا کہ ہمارے لوگ عام طور پر وقت کی پابندی نہیں کرتے اسلئےگھر پر کروں تاکہ ہوٹل میں شرمندگی سے بچ سکوں ۔ میں شرمندگی کے ساتھ بھاری خرچ سے بھی بچ گیا

3 ۔ مجھے عِلم ہو گیا کہ مجھ میں وہ چیز نہیں جس کی وجہ سے لوگ مجھے عزت بخشیں ۔ اب کبھی راہ و رسم کے بغیر کسی پر بھروسہ نہیں کروں گا ۔ غلطی میری ہے کہ ماضی کو بھول گیا کہ جسے ڈوبنے سے بچایا اُس نے میری کشتی ڈبونے کی کوشش کی

سٹرائیک کا مطلب کیا ؟

منگل بتایخ 28 اپریل قریبی مارکیٹ المعروف ”اللہ والی مارکیٹ“ تنّور (مقامی زبان میں تندور)گیا تو تنّور بلکہ پوری مارکیٹ بند ۔ پھر اپنے لئے دوائی لینے ایف 8 مرکز المعروف ”ایوب مارکیٹ“ گیا ۔ سب دکانیں بند ۔ سوچا بلیو ایریا میں دوائیوں کی دکانیں بڑی (شاہین اور ڈی واٹسن) ہیں وہاں سے لاتا ہوں ۔ وہاں پہنچا سب دکانیں بند ۔ منہ لٹکائے واپس ہوا ۔ راستہ میں سیٹَورَس کے پاس سے گذرا ۔ وہ بھی بند اور داخلے کے راستہ پر ایک بینر لگا تھا ”دُکانیں 8 بجے بند کرنا ۔ نامنظور“۔

پچھلے چند سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیر سیاسی ادارے یا گروہ سب نے ایک ہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے ”سٹرائیک (strike)“ جسے اُردو میں ہڑتال کہتے ہیں لیکن آجکل انگریزی پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو سب ”سٹرائیک“ ہی کہتے ہیں ۔ سٹرائک (strike) کے معنی ڈکشنری کے مطابق ہیں ”مارنا ۔ پیٹنا ۔ ٹھونکنا“۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں سٹرائیک اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے ۔ کل کی سٹرائیک شاید تعلیمیافہ لوگوں کی تھی ورنہ سٹرائیک ایک سیاسی جماعت کرے یا کرائے یا کوئی گروہ کرے یا کوئی خاندان ۔ توڑ پھوڑ کرنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ جس کار کے شیشے توڑے گئے اُس کے مالک کے پاس شاید کار مرمت کرانے کیلئے بھی پیسے نہ ہوں ۔ کوئی بھی تکلیف پہنچے جس کا سبب چاہے کوئی بھی ہو سڑکیں بند کرنا اور بے قصور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچاناہمارا مشغلہ بن چکا ہے ۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اصل مقصد دوسروں کو نقصان پہچانا ہی ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا ریکارڈ بنانے میں لگا ہے ۔ اس سے ملک و قوم کو ہونے والے نقصان کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ ایک ریکارڈ 7 ماہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے باسیوں کی زندگیاں اجیرن کرنے کا ریکارڈ بھی بن چکا ہے ۔ آج سے شاید 85 سال قبل علامہ صاحب نے کہا تھا

وائے ناکامی ۔ متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

یہ شعر صحیح معنوں میں ہم پر منطبق ہوتا ہے ۔ منگل کی ہڑتال بجلی کی بچت کی حکومتی کوشش کے خلاف تھی ۔ دکانداروں کا یہ بہانہ بالکل غلط ہے کہ افسروں کو 5 بجے چھٹی ہوتی ہے ۔ اسلام آباد کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اسلئے افسران شام 7 بجے گھر پہنچتے ہیں تو وہ شاپنگ کب کریں ؟ جی 9 المعروف کراچی کمپنی میں شاپنگ کرنے والوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہاں دکانیں مغر ب کے وقت بند ہو جاتی ہیں ۔ بلیو ایریا۔ ایف 6 ۔ ایف 7 اور ایف 10 میں شاپنگ کرنے والوں میں 90 فیصد سے زائد عورتیں ہوتی ہیں

ان دنوں شام 7 بجے سے 11 بجے تک بہت زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے ۔ آجکل ایک ایک دکان پر درجنوں قمقمے 100 سے 500 واٹ کے لگے ہوتے ہیں ۔ کئی دکانوں میں ایئر کنڈیشنر بھی لگے ہوتے ہیں ۔ اگر دکانیں جلدی بند ہو جائیں تو لوگوں کے گھروں کو زیادہ بجلی مہیاء کی جا سکتی ہے ۔ وزیر پانی و بجلی کے مطابق اگر دکانیں شام 8 بجے بند ہو جائیں تو لوڈ شیڈنگ میں 2 گھنٹے کی کمی آ سکتی ہے ۔ میرے علم میں ایسا ملک نہیں جہاں دکانیں شام 7 بجے کے بعد کھلی رہتی ہوں ۔ یورپ ۔ امریکہ ہو یا بھارت ۔ جرمنی اور انگلینڈ میں میں دکانیں شام ساڑھے 6 بجے بند ہو جاتی ہیں ۔ بھارت میں بھی دکانیں ساحے 7 بجے تک بند ہو جاتیں ہیں۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں 1970ء تک سب دکانیں شام 8 بجے تک بند ہو جاتی تھیں ۔ میرا خیال ہے لاہور کراچی میں بھی ایسا ہی تھا ۔ پھر ناجانے کس قسم کی ترقی قوم نے کی کہ لوگ رات کو جاگنے اور دن کو سونے لگے ۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ کبھی غلطی سے دوپہر 12 بجے سے قبل کسی کے گھر چلے جائیں تو سوئے ہوئے ہوتے ہیں یا کرم نوازی کریں تو آنکھیں ملتے ہوئے سونے کے لباس میں دروازہ کھولتے ہیں ۔ سکول میں ایک محاورہ پڑھا تھا ”اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی“ تو مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔ جو سمجھ آ گیا ہے