Category Archives: روز و شب

القاب و خطابات

میں اپنی ایک دہائی پرانی تحریر معمولی رد و بدل کے ساتھ دُہرانے لگا ہوں کیونکہ آج اس کی ضرورت 2006ء کی نسبت شاید زیادہ ہے

پيرس فرانس ميں رہنے والے خاور صاحب آئے دن ہميں ياد کراتے رہتے ہيں کہ وہ کميار (کُمہار) ہيں
(خاور صاحب کب کے جاپان منتقل ہو چکے ہیں)

کميار يا کُمہارجو کوئی بھی ہے ایک ایسا ہُنرمند اور کاريگر ہے جس نے انسان کو مہذب بنايا ۔ اگر کميار يا کُمہار برتن نہ بناتا تو انسان آج بھی جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا ہوتا ۔ اِسی طرح بڑھئی ۔ لوہار ۔ درزی ۔ تيلی ۔ جولاہا وغيرہ سب ہُنرمند اور کاريگر ہيں ۔ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان آج تک قدرتی غاروں میں یا درختوں پر رہ رہا ہوتا ۔ ننگ دھڑنگ پھر رہا ہوتا اور گھاس یا پتے کھا کر گذارہ کر رہاہوتا
بدقسمت ہيں وہ لوگ جو جھوٹی شان دِکھانے کے لئے اِن ہُنرمندوں کو اپنے سے کمتر سجھتے ہيں

ہمارے مُلک ميں بہت سے القاب و خطابات رائج ہيں
سردار ۔ خان ۔ نواب ۔ نوابزادہ ۔ ملک ۔ پير ۔ پيرزادہ ۔ رئيس ۔ صاحبزادہ وغيرہ
کُمہار ۔ دھوبی ۔ درزی ۔جولاہا ۔ لوہار ۔ تيلی ۔ ميراثی وغيرہ

اوْلالذکر اعلٰی سمجھے جاتے ہيں اور ان پر فخر و تکبّر کيا جاتا ہے اور يہ القاب و خطابات قابض برطانوی حُکمرانوں نے زيادہ تر اُن لوگوں کو ديئے جنہوں نے قابض برطانوی حُکمرانوں کی خوشنوُدی حاصل کرنے کيلئے اپنے ہموطنوں کے خلاف کام کيا
جبکہ آخر الذکر گھٹيا سمجھے جاتے ہيں ۔ اس رویّئے کو بھی برطانيہ کی غلامی کے دور ميں ہندوستان میں بسنے والے ہُنرمندوں کی تحقیر کیلئے رائج کیا گیا ۔ آج اِن لوگوں کو کمتر سمجھنے والوں کو فائيو سٹار ہوٹلوں ميں انسانيت کا پرچار کرتے شرم نہيں آتی

عبدالواحد کھوکھر صاحب انجیئرنگ کالج لاہور میں مجھ سے ایک سال آگے تھے مگر ایک ہی ہوسٹل میں رہنے کی وجہ سے دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ ہنس کر کہا کرتے تھے ”ہم ہیں تو ترکھان ہی ۔ سچ میرے بڑے ترکھان کا کام کرتے تھے“۔ ان صاحب نے انجنیئر بننے کے بعد پڑھانے کا پیشہ اپنایا ۔ 1962ء میں وہ پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر تھے ۔ وہ پروفیسر تک بنے مگر جب بھی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ماحول پراگندہ ہوتا محسوس ہوتا کہتے ”ہم ہیں تو ترکھان ہی ۔ سچ میرے بڑے ترکھان کا کام کرتے تھے“۔

جب ميں ليبيا کی حکومت کا الخبير لِلمصانع الحربی (Adviser Defence Industry) تھا (مئی 1976ء تا فروری 1983ء) تو ايک بہت بڑے ادارے کے نائب رئيس (Vice Chairman) عبدالرحمٰن براملی ايک دن ميرے پاس آکر کہنے لگے ” آپ نے کبھی پوچھا نہيں کہ براملی کا کيا مطلب ہے ؟” سو ميں نے پوچھا تو کہنے لگے ” برمِيل (Barrel / Drum) کا ترجمہ ہے اور برامِل اس کی جمع ہے ۔ ميرے بزرگ برامِل بنايا کرتے تھے ۔ اُس زمانہ ميں برامِل لکڑی سے بنتے تھے چنانچہ ميرے آباؤاجداد بڑھئی يا ترکھان تھے” گويا ايم ايس سی انجنيئرنگ اور اعلٰی عہدے پر فائز شخص اپنے آباؤاجداد کے بڑھئی يعنی ہُنرمند ہونے پر فخر کر رہا تھا

يہ نام نہاد اعلٰی اور گھٹيا القابات و خطابات انگريزوں نے ہندوستانی مُسلمانوں ميں تفرقہ ڈال کر ہندوستان پر اپنی حکومت مضبوط کرنے کيلئے باقائدہ طور پر رائج کئے تھے جن سے ہماری قوم اب تک چِمٹی ہوئی ہے ۔ لوگ اِن القابات و خطابات کے معاشرہ پر بلکہ اپنی عاقبت پر مُضر اثرات سے بے خبر اِن کا اِستعمال کرتے ہيں ۔ نمعلوم کيوں لوگ بھول جاتے ہيں کہ سب انسان برابر ہيں اور اُن کی اچھائی اُن کے نيک اعمال ہیں نہ کہ پيشہ يا دولت يا بڑے باپ کی اولاد ہونا ۔ کتنے ہی انقلاب آئے مگر کسی کو سمجھ نہ آئی

مجھے ہُنر سیکھنے کا بچپن سے ہی شوق رہا ۔ ميں جب آٹھ نو سال کا تھا تو شہر کے کنارے ايک کُمہار صاحب کے پاس بيٹھ کر ديکھتا رہتا کہ وہ برتن کيسے بناتے ہيں ۔ ايک دن کُمہار صاحب نے مجھے پوچھا “برتن بناؤ گے ؟“ ميں تو کھِل گيا ۔ کُمہار صاحب نے تھوڑی سی مٹی چکّے پر لگائی اور ميرا ہاتھ پکڑ کر اُس سے لگايا اور اُوپر نيچے کيا تو چھوٹا سا گُلدان بن گيا

جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو میں نے بڑھئی کا کام سیکھ کر ایک لکڑی کی مسجد بنائی ۔ لوہار کا کام سیکھ کر ایک چھینی (Chisel) بنائی ۔ جب میں اسسٹنٹنٹ ورکس منیجر تھا (1963ء) تو میں نے گیس ویلڈنگ سیکھی ۔ میں نے درزی کا کام سیکھ کر اپنی قمیض اور شلوار سی ۔ میں نے کار کی ڈینٹنگ 1977ء میں سیکھی جب میں لبیا کی حکومت کا پاکستان کی حکومت کی طرف سے ایڈوائزر تھا اور ایک دوست کی کار کی ڈینٹنگ کی ۔ موٹر مکینک کا کام میں نے 1983ء میں سیکھا جب میں جنرل منیجر تھا

خوش اخلاق و سمجھدار لوگ

٭ محتاط
٭٭ مُنفَرَد مُشتاق
٭٭٭ کھُلے ذہن والے
٭٭٭٭ متحمّل مزاج اور رحمدِل
٭٭٭٭٭ خوش اُمید (Optimistic)

(مُنفَرَد مُشتاق ۔ انفرادی طور پر شوق رکھنے والے)

قائد اعظم محمد علی جناح

آج قائد اعظم کو فوت ہوئے 2 دن کم 68 سال ہو گئے ہیں ۔ ان 68 سالوں میں ہم نے اپنے مُلک پاکستان کا 10881693_10204444453364797_1140897710962626287_n جو حال کیا ہے اور ہمارا جو ایک دوسرے کے ساتھ سلوک ہے اگر اللہ قائد اعظم کو معائنہ کیلے بھیج دے تو وہ دیکھتے ہی غش کھا کر گِر پڑیں
یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی
ملک اپنا غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اٹھا دین محمد کا سپاہی
اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لئے آیا سر ِمیدان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
دیکھا تھا جو اقبال نے اِک خواب سہانا
اس خواب کو اِک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تُو نے تَو ہنسا تُجھ پہ زمانہ
ہر چال سے چاہا تُجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا
نہ توپ ۔ نہ بندوق ۔ نہ تلوار ۔ نہ پھالا
سچائی کے اَنمول اصولوں کو سنبھالا
پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سُن کر تیرا فرمان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے
سندھی ، بلوچی ، سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ ۔ بے سرو سامان چل پڑے
ساتھ اپنے مہاجر لئے قرآن چل پڑے
اور قائد ملت بھی چلے ہونے کو قربان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
نقشہ بدل کے رکھ دیا اس ملک کا تُو نے
سایہ تھا اللہ کا ۔ محمد کا تیرے سر پہ
دنیا سے کہا تُو نے کوئی ہم سے نہ الُجھے
لکھا ہے اِس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں ۔ آزاد رہیں گے یہ مسلمان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد
میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد
بولی یہ تیری روح ۔ نہ سمجھو اسے بیداد
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جایئے قربان
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

لڑکپن کی یادیں

یہ گیت میں نے 5 دہائیاں قبل سُنا تھا اور دِل میں بیٹھ گیا کہ یہ میرے مُستقبل کے متعلق ہی کہا گیا ہے
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
تُو نے تِنکا تِنکا چُن کر ۔ نگری تھی اپنی بسائی
بارش میں تیری بھیگی پانکھیں دھوپ میں گرمی کھائی
غم نہ کر جو تیری محنت ۔ تیرے کام نہ آئی
اچھا ہے کچھ لے جانے سے دے کر ہی کچھ جانا
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
ختم ہوئے دن اُس ڈالی کے جس پر تیرا بسیرا تھا
آج یہاں اور کل ہو وہاں یہ جوگی والا پھیرا تھا
یہ تیری جاگیر نہیں تھی چار دنوں کا میلہ تھا
سدا رہا ہے اس دُنیا میں کس کا آب و دانہ
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
بھُول جا اب وہ مَست ہوا ۔ وہ اُڑنا ڈالی ڈالی
جگ کی آنکھ کا کانٹا بن گئی چال تیری متوالی
کون بھلا اُس باغ کو پوچھے ۔ ہو نہ جس کا مالی
تیری قسمت میں لکھا ہے ۔ جیتے جی مر جانا
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
روتے ہیں وہ پنکھ پکھیرُو ساتھ تیرے جو کھیلے
جن کے ساتھ لگائے تُو نے ۔ ارمانوں کے میلے
بھیگی انکھیوں سے ہی اُن کی آج دعائیں لے لے
کِس کو پتہ اب اس نگری میں ۔ کب ہو تیرا آنا
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ