1 ۔ ماضی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا
2۔ دوسروں کی رائے آپ کی حقیقت ظاہر نہیں کرتی
3 ۔ ہر کسی کی زندگی کا سفر مختلف ہوتا ہے
4 ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ چیزیں بہتر ہوتی جاتی ہیں
5۔ دوسروں کے متعلق فیصلے دینا اپنے کردار کا اعتراف ہوتا ہے
6 ۔ زیادہ سوچنا اُداسی ۔ رنج یا ملامت کی طرف لے جاتا ہے
7 ۔ خوشی اپنے اندر سے پیدا ہوتی ہے
8 ۔ مثبت خیالات کا نتیجہ مثبت ہوتا ہے
9 ۔ مُسکراہٹ متعدی ہوتی ہے یعنی ایک مُسکراہٹ مزید مُسکراہٹیں لاتی ہے
10 ۔ کسی سے رحمدلی برتنے یا کسی پر نوازش کرنے پر کچھ نقصان نہیں ہوتا لیکن فائدہ ہو سکتا ہے
11 ۔ کسی کام کو چھوڑ دینے کا نتیجہ ناکامی ہوتا ہے
12 ۔ آدمی جیسا دوسروں کے ساتھ کرتا ہے بالآخر ویسا ہی اُس کے ساتھ ہوتا ہے
Category Archives: روز و شب
وہ جاہل بمقابلہ ہم پڑھے لکھے
میں انگلستان ۔ جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ فرانس ۔ امریکہ ۔ ترکی ۔ لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات میں رہا ہوں ۔ میری عادت تھی کہ بڑے شہروں میں اندرونِ شہر کے چکر لگانے کے ساتھ بیرونِ شہر ۔ چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی گھومتا تھا ۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وہاں کے لوگوں کا اصلی طور طریقہ دیکھ کر اگر کوئی اچھی عادت نظر آئے تو اسے اپنانے کی کوشش کروں ۔ اس سے مجھے وہاں کی شہری اور دیہاتی آبادی میں تفاوت بھی نظر آتی ۔ میں نے جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ ترکی اور عرب ممالک میں دیہات یا چھوٹے شہروں کے باشندوں کو سادہ طبعیت پایا ۔ شہروں میں ز یادہ تر دکھاوا اور تعصب دیکھنے کو ملتا تھا جس کی ایک وجہ ذرائع ابلاغ اور دوسری وجہ غیر ممالک سے آئے لوگوں کی موجودگی یا طور طریقہ تھا
میں نے ہر مُلک میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بھی مطالعہ کیا ۔ سوائے 2 ممالک کے لوگوں کے باقی سب اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کا دفاع کرتے تھے ۔ فرق رویئے والے پاکستانی اور فلسطینی تھے جو اپنے مُلک کو اچھا نہیں سمجھتے ۔ ان میں میرے ہموطن اوّل نمبر پر تھے کہ وہ اپنے ہموطنوں میں بھی کیڑے نکالتے تھے ۔ عرب ممالک میں میرے ہموطن عربوں کو جاہل و بیوقوف گردانتے تھے اور کچھ دلیر اپنی اس سوچ کا اظہار عربوں پر بھی کرتے تھے ۔ عربوں کے متعلق خود بنائی ہوئی ایسی ایسی باتیں بھی مجھے سُنائی گئیں جو عملی طور پر ممکن ہی نہ تھیں
یہ تو تھا میرا تجربہ ۔ اب ذرا 6 فروی کو شائع ہونے والی ایک خبر پڑھیئے جو شاید جنگ اخبار کے پاکستان ایڈیشن میں بھی شائع ہوئی ہو اور اس کا مقابلہ اپنے وطن کے حالات سے کیجئے جہاں مسجد کے لاؤڈ سپیکر کے خلاف آواز تو اُٹھتی ہے لیکن گھروں اور گاڑیوں میں جو دماغ پھاڑ قسم کی موسیقی بجائی جاتی ہے اُسے کوئی کچھ نہیں کہتا
یومِ یک جہتی جموں کشمیر
انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی
آج یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا
کوئی کراچی یا اسلام آباد یا پشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی 3 قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے
بھارت کی ایماء پر بیلجیئم ۔ کنیڈا ۔ چین ۔ کولمبیا ۔ برطانیہ اور امریکہ نے ایک مُشترکہ قرار داد پیش کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جس پر فیصلہ کیلئے 21 اپریل 1948ء کو اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا
پنڈت نہرو نے تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ ”امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا“ اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ قرار داد کے نتیجہ جنگ بندی ہونے کے بعد میں جب بھارت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں پاؤں جماتے ہی سب کچھ بھُلا دیا اور بھارتی لیڈر ہڈ دھرمی پر اُتر آئے ۔ اپنا حق مانگنے والے جموں کشمیر کے باشندوں پر ظُلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے ۔ انسانیت کا پرچار کرنے والے مغربی ممالک بھی لمبی تان کر سو گئے
رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد ۔ اِن شاء اللہ ۔ اِن شاء اللہ
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ
“جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں”
یا
“سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”
جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
راہِ حق میں جد و جہد کرنے والوں کو موت کا خوف نہیں ہوتا
بلکہ
لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے
اہلِ جموں کشمیر اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔
حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے ۔ بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگتے ہيں
یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دَغا کیا بلکہ بھارت کے ظُلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا
اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں ۔ جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے پاکستان کے لئے پیدا نہ کی ہو
جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس میں دلال کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن (جس کی بیوی کے جواہر لال نہرو کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات تھے) نے ادا کیا جس کا مقصد اِسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت پاکستان کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے ۔ بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے 3 بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پئے ہے
جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے
پڑھے لکھے لوگ
میں چار جماعتاں کی پَڑھیاں ۔ میں فتوے لاواں ہر اِک تے
کدی بے عملاں تے کدی بے عقلاں تے کدی شاعری تے کدی گاؤن تے
کدی ہَسَن تے کدی رَووَن تے ۔ میں فتوے لاواں ہر اِک تے
میں آپ مسِیتی جاواں ناں ۔ جے جاواں مَن ٹکاواں ناں
میں فتوے لاواں اَوتھے وی ۔ کدی وضو تے کدی نماز تے
کدی اُچی نیویں آواز تے کدی مَنَّن یا نہ مَنَّن تے
ہَتھ اُتے تھَلے بَنھَّن تے ۔ میں فتوے لاواں ہر اک تے
کدی کافر آکھاں مَولوِیاں نُوں کدی کعبہ آکھاں مَولوِیاں نُوں
میں فتوے لاواں ایَنہاں تے وی کدی ٹوپی تے کدی داڑھی تے
گل چَنگی یا گل ماڑی تے کدی شہِیداں تے کدی مَریاں تے
کدی مناؤندے جَمَّن وَرھیاں تے کدی جَنگاں تے کدی جہاد تے
کدی دِین دی ہُندی واد تے ۔ میں فتوے لاواں ہر اک تے
کدی رَسَم آکھاں دِین نُوں ۔ کدی دِین آکھاں رَسماں نوں
میں رَب قرآن نوں مَن لیا ۔ پر مَنیا چُکن قَسماں نُوں
کدی عیداں تے شَبراتاں تے ۔ کدی جاگن والیاں راتاں تے
کدی زیراں تے کدی زَبران تے ۔ کدی مزاراں تے کدی قَبراں تے
میں فتوے لاواں ہر اک تے
میں سُنی وہابی حنفی ہَویا ۔ میں مالکی شافعی حنبلی ہَویا
میں سب کجھ ہَویا ۔ پر ہویا نہ مُسلمان
ایہہ میں جو چار کتاباں پڑھیاں ۔ اپنے عِلم دِیاں لاواں تَڑیاں
ویلا میرے عِلم دا ٹھُوٹھا جے ۔ ہر فتوٰی میرا جھُوٹھا جے
میں آپ تاں فرض نبھاواں نہ ۔ دین دے نیڑے جاواں نہ
پر کافر آکھاں ہر اِک نوں ۔ میں فتوے لاواں ہر اک نوں
شاعر ۔ غیر معروف
کوششِ ناتمام
اِنہیں حاصل کرنے کیلئے کوشش کیجئے
تعلیم
بامعنی کام
کسی کی مدد کے طریقے
خوشیاں
پیار
اِن کے پیچھے نہ پڑیئے
دولت
رُتبہ
اپنی تعریفیں
شارٹ کٹ
نقل
کیلے مہنگے ۔ پِیزا سَستا
جب تک چرغے کا منہ چڑھائيں ۔ کے ايف سی کو بھاگے جائيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک کراچی حلوے کو حقير جانیں ۔ پِیزا مہنگا خرید کے لائیں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک کہیں چپل کباب بُرا ۔ ميکڈانلڈ پر رال ٹپکائیں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک چھوڑ کر سجّی ۔ بھاگے وِليج اور سب وے جائيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
ذرائع ابلاغ اور ہم
جب 1964ء میں لاہور میں پاکستان میں پہلا ٹیلی ویژن چینل شروع ہوا تو ایک بزرگ نے کہا ”شیطانی چرخہ شروع ہو گیا“۔ یہ بات ہم جوانوں کو اچھی نہ لگی کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ٹی وی کے بغیر ہماری معلومات ادھوری رہیں گی اور ہم ترقی نہیں کر سکیں گے ۔ پھر جب 15 سال قبل پرائیویٹ چینل شروع ہوئے اور 5 سال میں کھُمبیوں (mushrooms) کی طرح پھیل گئے تو اُس دور کے جوانوں نے خوشیوں کے شادیانے بجائے کہ اب تو عِلم کے دہانے کھُل گئے ۔ پاکستان کے عوام دن دُونی رات چوگنی ترقی کرنے لگیں گے اور ہر آدمی کے پاس عِلم کا اتنا خزانہ آ جائے گا کہ سنبھالنا مُشکل ہو جائے گا ۔ یہی کچھ کم نہ تھا انٹرنیٹ عام ہوا تو نام نہاد سوشل میڈیا بھی میدان میں کود کر چوکڑیاں بھرنے لگا
جب سنبھلنے کا موقع ملا تو سال 2010ء گذر چکا تھا ۔ احساس ہوا کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو غیر سوشل بنا کر رکھ دیا ہے اور اُنہیں گِرد و پیش کی بھی خبر نہیں رہی ۔ رہے ٹی وی چینل تو وہ پروپیگنڈہ ۔ سنسنی خیزی اور بے مقصد ڈراموں کا مرکز ہیں ۔ ایسی ایسی خبریں بناتے ہیں کہ جس کے متعلق خبر ہوتی ہے وہ بھی دنگ رہ جاتا ہے ۔ جیسے جنرل راحیل شریف رِیٹائرمنٹ کے بعد عمرہ کرنے گئے تو اُن کے 39 اسلامی ممالک کی دہشتگردی کے خلاف فوج کا کمانڈر مقرر ہونے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ۔ جنرل راحیل شریف بھی شاید وہ نوٹیفیکیشن تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے
پچھلے 3 سالوں سے اگر ایک ٹی وی چینل ایک سیاسی لیڈر کی پگڑی اُچھال رہا ہے تو دوسرا کسی دوسرے سیاسی لیڈر کے پرخچے اُڑا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ عدالت میں کیس ہے تو خود ہی مدعی ۔ گواہ اور مُنصف بن کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں
جہاں تک عِلم کا تعلق ہے تو اب حال یہ ہے کہ جو تھوڑا عِلم لوگوں کے پاس تھا وہ بھی ٹی وی چینلوں کی تیار کردہ کہانیوں اور سنسنی خیزی میں دب کر اگر دم نہیں توڑ چُکا تو بے ہوش ضرور پڑا ہے
سوشل میڈیا پر ایسی ایسی باتیں انسانی یا مذہبی فریضہ سمجھ کر دھڑا دھڑ شیئر کی جاتی ہیں کہ انسانی حقوق اور مذہب کا کچھ عِلم رکھنے والے حیرت میں اپنی اُنگلیاں کو دانتوں سے کاٹ لیتے ہیں ۔ ایک ادنٰی سی مثال ہے کہ ایک بچے کی گمشدگی کا اعلان جو کچھ سال قبل ہوا تھا اُس کی تصویر کے ساتھ انسانیت اور مذہب کا واسطہ دے کر لکھا گیا کہ جس کسی کو ملے دیئے پتہ پر پہنچائے ۔ اس اعلان کو اتنا زیادہ گھُمایا گیا کہ بچے کے باپ نے رحم کی اپیل کر دی
آج میں سوچتا ہوں کہ وہ بزرگ کتنے دُور اندیش تھے کہ 1964ء ہی میں وہ کہہ دیا تھا جِسے ہم آج سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں