Category Archives: روز و شب

”پہلی بار ؟ ؟ ؟“۔

ایک شخص کا اقرار
والدہ سے آخری بار بلند آواز سے بات کئے کئی برس بیت گئے ۔ تب ابا جی نے ایک جملہ کہا تھا جس کے بعد میری آواز گلے میں ہی کہیں دب گئی
کہنے لگے ”بیٹا اگر اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ نہ سیکھ پائے کہ بزرگوں سے بات کیسے کرنی ہے تو کل سے کالج نہ جانا ۔ جو تعلیم اچھا انسان نہ بنا پائے اس کا مقصد ہی کیا ہے ۔ کمائی تو سنیارے کی دکان کے باہر گندی نالی سے کیچڑ چھاننے والا اَن پڑھ بھی کئی پڑھے لکھوں سے زیادہ کر لیتا ہے“۔

اسی طرح پہلی اور آخری بار روزگار کا خوف تب ختم ہو گیا تھا جب ہم انتہائی سخت حالات کا شکار تھے ۔ چند ہزار کی ایک ملازمت کے دوران کسی نے ایسی بات کر دی جو برداشت نہ کر پایا ۔ دفتر سے ہی ابا جی کو مشورہ کے لئے فون کیا
کہنے لگے ”ملازمت چھوڑنے کے لئے مجھے فون تب کرنا جب خدا پر اعتبار نہ ہو ۔ اس مالک نے رزق کا وعدہ کیا ہے نا تو پھر اس کے وعدے پر یقین بھی رکھو ۔ یا پھر اسے مالک تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو ؟ یہاں ملازمت کے لئے دل نہیں مانتا تو ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرنا“۔

میں نے فون بند کیا اور اسی وقت استعفٰی لکھ دیا ۔ چار دن میں بے روزگار رہا ۔ ان چار دنوں میں جتنا فکر مند رہا ابا جی اتنے ہی مطمئن نظر آئے ۔ پانچویں دن مجھے ایک ایسے ادارے سے فون کال آ گئی جہاں میں نے ایک سال قبل ایک دوست کے کہنے پر مذاق مذاق میں سی وی بھیجی تھی اور مجھے اب یاد تک نہ تھا ۔ تنخواہ کا پیکج پہلی ملازمت سے تین گنا تھا

اس کے بعد سے یہی ہوتا آیا ہے ۔ جب بھی خدا کے بھروسے کسی ملازمت سے استعفی دیا اللہ نے پہلے سے بڑھ کر نواز دیا ۔ رب کی مہربانیوں کی طویل داستانیں ہیں جن کا عینی شاہد ہوں ۔ ایک بار صورت حال یہ تھی کہ جب ابا جی اپنا گھر تعمیر کر رہے تھے تو ٹائلوں کے لئے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کم پڑ گئے ۔ ہم سب قدرے پریشان تھے تو ایک دن ابا جی کہنے لگے ”بیٹا ۔ میں ساری عمر حرام سے بچا ہوں اور تم سب کو بچایا ہے ۔ مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی فرد نے کسی کا حق نہیں کھایا تو یہ کیسے ممکن ہے مجھے ضرورت ہو اور رب عطا نہ کرے“۔

تب عجیب سا لگا ۔ نہ کوئی وسیلہ ۔ نہ کہیں سے امید ۔ ابا جی کی ملازمت کے آخری ماہ تھے ۔ اچانک خبر ملی کہ ابا جی کو پنجاب کا بیسٹ آفسر قرار دیا گیا ہے ۔ وزیراعلی کی جانب سے ایوارڈ کے ساتھ ساتھ کیش انعام بھی تھا ۔ اس انعام کے باوجود ابھی بھی پچاس ہزار کم تھے ۔ ابا جی کہنے لگے ”میں مقابلے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا ۔ صرف اپنا فرض ادا کرتا رہا ہوں ۔ اللہ نے اس انعام کا حق دار قرار دلا کر یہ رقم دلوا دی ہے تو باقی رقم کا انتظام بھی وہی کر دے گا ۔ میں اس کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گا“۔

اسی ہفتے اگلی خبر یہ ملی کہ محکمہ کی جانب سے بھی بہترین آفیسر قرار دیتے ہوئے کیش انعام دیا جا رہا ہے ۔ ہمیں جتنی رقم کی ضرورت تھی اس سے زیادہ رقم عزت کے ساتھ آ گئی تھی ۔ اس دن سے ایمان پختہ ہو گیا ۔ ہم کسی کا حق نہ ماریں تو خدا ہمارا خیال رکھتا ہے ۔ ابا جی کی زندگی ایسے ہی معجزوں سے بھری ہوئی ہے ۔ ان بظاہر عام سی باتوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ سو اب ڈر نہیں لگتا۔ نہ کسی سے ہارنے کا اور نہ ہی رزق کی کمی کا ۔ میں گھر میں سب سے زیادہ نکما ہوں ۔ جب سب تہجد کے لئے اٹھتے ہیں تب سوتا ہوں لیکن رب مجھے بھی میری سوچ سے زیادہ نواز دیتا ہے

صبر اور طاقت ؟

صبر کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی خاموش رہے اور غُصہ اندر ہی اندر پکتا رہے
صبر کا مطلب اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر اپنی پریشانی بیان کرنا ہے

بھاگ جانا بہت ہی آسان ہے ۔ لیکن اس طرح آدمی کمزور ہی رہتا ہے
مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کا حل نکالنے سے آدمی مضبوط ہو تا ہے

دوسرے کو تلقین ؟

آجکل انسان کا طور طریقہ کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ خود چاہے ٹھیک ہو نہ ہو دوسروں کو ٹھیک کرنا اُس نے اپنے ذمہ لے لیا ہے ۔ وہ کسی فتوٰی لگاتا ہے اور کسی کو بُرا لقب دیتا ہے
ہم مسلمان ہونے کا دعوٰی تو کرتے ہیں لیکن اللہ کے فرمان (قرآن شریف) سے بہت دُور ہو چکے ہیں
قرآن شریف پر عمل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اِسے سمجھ کر پڑھیں
کسی کو ھدائت دینے کے متعلق اللہ کا پیغام بہت واضح ہے

سورت 16 النّحل ۔ آیت 35 ۔ فَہَلۡ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ ترجمہ ۔ سو رسولوں پر تو صرف کھُلم کھُلا پیغام پہنچا دینا ہے
سورت 16 النّحل ۔ آیت 82 ۔ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ ترجمہ ۔ اور اگر یہ لوگ اعراض کریں تو (اے پیغمبر) تمہارا کام فقط کھول کر سنا دینا ہے
سورت 24 النّور ۔ آیت 54 ۔ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ ترجمہ ۔ اور رسول کے ذمہ تو صاف صاف (احکام خدا کا) پہنچا دینا ہے
سورت 29 العنکبوت ۔ آیت 18 ۔ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ ترجمہ ۔ رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پیغام پہنچا دینا ہی
ہے
سورت 36 یس ۔ آیت 17 ۔ وَ مَا عَلَیۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ ترجمہ ۔ اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر (پیغام) پہنچا دینا ہے
سورت 64 التّغابُن ۔ آیت 12 ۔ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ۔ ترجمہ ۔ پس اگر تم اعراض کرو تو ہمارے رسول کے ذمے صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے

انشا ۔ اور ان شاء میں فرق

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ” زبر “ اور ”زیر “ کا فر ق ہے ۔ یعنی ان شاء اللہ میں پہلے والے الف کے نیچے ” زیر “ ہے ۔ انشاء جس کا مطلب بنانا ہے اُس میں پہلے الف کے اُوپر ” زبر “ ہے اور سب اِنشاء کہتے ہیں اس لئے غلط نہیں کہتے
یہ استدلال درست نہیں ۔ ذرا غور کیجئے نیچے نقل کردہ سورت 56 الوَاقِعَہ ۔ آیت 35 پر ۔ اس میں پہلے والے انشا میں زبر ہے اور دوسرے والے میں الف کے نیچے زیر ہے جبکہ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے ۔ عربی زبان میں ربر اور زیر کا فرق فاعل اور مفعول سے پڑتا ہے

“انشا “ قرآن شریف میں سورت 56 الواقعہ کی آیت 35 میں دو بار آیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے بنانا یا تخلیق کرنا ۔ نیچے 4 تراجم نقل کئے ہیں
سورت 56 الوَاقِعَہ ۔ آیت 35 ۔ اِنَّاۤ اَنۡشَاۡ نٰہُنَّ اِنۡشَآءً
ان کی بیویوں کو ہم خاص طور سے نئے سرے سے پیدا کریں گے
‏‏ ہم نے ان (کی بیویوں کو) خاص طور پر بنایا ہے
بیشک ہم نے اِن (حوروں) کو (حسن و لطافت کی آئینہ دار) خاص خِلقت پر پیدا فرمایا ہے
ہم نے ان (حوروں) کو پیدا کیا

“اِن شاء“ قرآن شریف میں آٹھ جگہ آیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے اگر اللہ نے چاہا
سورت 2 البقرہ ۔ آیت 70 ۔ قَالُوا ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنۡ لَّنَا مَا ہِیَ ۙ اِنَّ الۡبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیۡنَا ؕ وَ اِنَّاۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ لَمُہۡتَدُوۡنَ
بولے دعا کر ہمارے واسطے اپنے رب سے کہ بتا دے ہم کو کس قسم میں ہے وہ کیونکہ اس گائے میں شبہ پڑا ہے ہم کو، اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو ضرور راہ پالیں گے‏
سورت 12 یُوسُف ۔ آیت 99 ۔ ۔ ۔ ۔ وَ قَالَ ادۡخُلُوۡا مِصۡرَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ
اور کہا داخل ہو مصر میں اللہ نے چاہا تو دل جمعی سے
سورت 18 الکھف ۔ آیت 69 ۔ قَالَ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَاۤ اَعۡصِیۡ لَکَ اَمۡرًا
کہا تو پائے گا اگر اللہ نے چاہا مجھ کو ٹھہرنے والا اور نہ ٹالوں گا تیرا کوئی حکم
سورت 27 النَّمل ۔ آیت 87 ۔ وَ یَوۡمَ یُنۡفَخُ فِی الصُّوۡرِ فَفَزِعَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ
اور جس دن پھونکی جائے گی صور تو گھبرا جائے جو کوئی ہے آسمان میں اور جو کوئی ہے زمین میں مگر جس کو اللہ چاہے
سورت 28 القَصَص۔ آیت 27 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَیۡکَ ؕ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ
تو پائے گا مجھ کو اگر اللہ نے چاہا نیک بختوں سے
سورت 37 الصافات ۔ آیت 102 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ
تو مجھ کو پائے گا اگر اللہ نے چاہا سہارنے والا
سورت 39 الزُمر۔ آیت 68 ۔ وَ نُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَصَعِقَ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا مَنۡ شَآءَ اللّٰہُ ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِیۡہِ اُخۡرٰی فَاِذَا ہُمۡ قِیَامٌ یَّنۡظُرُوۡنَ
اور پھونکا جائے صور میں پھر بےہوش ہو جائے جو کوئی ہے آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو اللہ چاہے پھر پھونکی جائے دوسری بار ، تو فوراً کھڑے ہوجائیں ہر طرف دیکھتے
سورت 48 الفتح ۔ آیت 27 ۔ لَقَدۡ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ فَعَلِمَ مَا لَمۡ تَعۡلَمُوۡا فَجَعَلَ مِنۡ دُوۡنِ ذٰلِکَ فَتۡحًا قَرِیۡبًا
اللہ نے سچ دکھلایا اپنے رسول کو خواب تحقیق کہ تم داخل ہو رہو گے مسجد حرام میں اگر اللہ نے چاہا آرام سے بال مونڈتے ہوئے اپنے سروں کے اور کترتے ہوئے بےکھٹکے پھر جانا وہ جو تم نہیں جانتے پھر مقرر کر دی اس سے ورے ایک فتح نزدیک

حق گوئی

میرے آقا کو گِلہ ہے کہ میری حق گوئی راز کیوں کھولتی ہے
اور میں پوچھتا ہوں تیری سیاست فَن میں زہر کیوں گھولتی ہے
میں وہ موتی نہ بنوں گا جسے ساحل کی ہوا رات دن رَولتی ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چِڑیا اپنے پَر تولتی ہے
اِک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹَپَک جائے اگر بُوند بھی بولتی ہے
احمد ندیم قاسمی