Category Archives: روز و شب

حادثہ اور ہمارا کردار

عیدالفظر سے ایک دن قبل احمد پور شرقیہ کے پاس ایک اندوہناک حادثہ پیش آیا جس میں 150 افراد لُقمہءِ اجل بن گئے اور 100 زخمی ہوئے ۔ وطنِ عزیز میں عام طور پر اختیار کئے جانے والے ردِ عمل جس میں ہر کوئی حکومت اور سرکاری اہلکاروں کو موردِ الزام ٹھہرا کر کوسنا شروع کر دیتا ہے سے ہٹ کر میں ایک خاص تکنیکی نقطہءِ نظر پیش کرنا چاہتا ہوں جو میرے زندگی بھر کے مشاہدات پر مبنی ہے

واقعات کا خلاصہ کچھ یُوں ہے ۔ صبح سویرے ساڑھے 5 بجے 25000 لیٹر پٹرول سے بھرا ٹینکر شاہراہ پر اُلٹ گیا ۔ پٹرول بہنے لگا ۔ قریبی دیہات کے لوگ بالٹیاں اور ڈبے لے کر پٹرول لُوٹنے پہنچ گئے ۔ ڈرائیور نے اُنہیں ٹوکا ۔ ٹریفک پولیس نے اُنہیں منع کیا لیکن بے سود ۔ شاہرہ پر سفر کرنے والے اپنی کاریں اور موٹر سائیکلیں روک کر حصہ وصول کرنے لگے ۔ اس طرح سینکڑوں لوگ اس لُوٹ میں شامل ہو گئے ۔ ایک لمحہ کیلئے بھی نہ سوچا کہ وہ آگ کے بم کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔ بے فکری کا یہ عالم کہ سوا 6 بجے کے بعد کسی نے جلتا سگریٹ پھینکا پھر وہی ہوا جو متوقع تھا

اب اس سے مِلتے جُلتے حادثہ کا خلاصہ جو 4 دہائیاں قبل پیش آیا تھا
۔ میں طرابلس (لبیا) میں کہیں سے اپنی رہائشگاہ کی طرف آ رہا تھا ۔ مخالف سمت سے 2 پٹرول کے ٹینکر آگے پیچھے آ رہے تھے ۔ اگلے ٹینکر کے آگے سے ایک چھوٹا لڑکا بھاگ کر سڑک پار کر گیا ۔ بچے کو بچاتے ہوئے ٹینکر ڈرائیور نے یکدم بریک لگائی اور ٹینکر بائیں جانب موڑ کر درمیانی پٹڑی پر چڑھا دیا ۔ لڑکا تو بچ گیا لیکن پچھلا ٹینکر اگلے ٹینکر سے ٹکرایا گیا ۔ میں اگلے ٹینکر سے پانچ چھ میٹر کے فاصلے پر رُک گیا ۔ میری داہنی طرف ایک گاؤں تھا اور سڑک کے دونوں جانب گاؤں والوں کی دُکانیں تھیں

رُکنے کے بعد میں نے دیکھا کہ پٹرول سڑک پر بہنا شروع ہو گیا ہے ۔ دُکاندار اور گاؤں کے لوگ ٹینکروں کے گرد کم از کم 5 میٹر فاصلہ چھوڑ کر ایک دائرہ بنا چکے تھے دو تین آدمی دونو اطراف سے آنے والی ٹریفک کو روکنا شروع ہو گئے ۔ کچھ آدمی گینتیاں اور بیلچے لے کر آ گئے اور سڑک کے کنارے کچی جگہ پر گڑھا کھودنے لگ گئے ۔ کچھ بیلچوں والے کھودی ہوئی مٹی اُٹھا کر ٹینکر سے گھڑے تک ایک نہر بنانے لگ گئے ۔ جب پٹرول گڑھے کی طرف آنا شروع ہوا تو لوگ ایک اور گڑھا کھودنے لگ گئے ۔ پھر جو لوگ پہلے نہر بنا رہے تھے وہ دوسرے گڑھے کی مٹی اُس پٹرول پر ڈالنے لگ گئے جو چاروں طرف پھیل گیا تھا ۔ اس سارے عمل میں 15 منٹ لگے ہوں گے

اب میں نے سوچا کہ مجھے پچھلے جانا چاہیئے ۔ میں نے اپنی کار سے باہر نکل کر پچھلی طرف دیکھا تو کچھ لوگ تمام گاڑیوں کو پیچھے جانے کا اشارہ کر رہے ہیں اور گاڑیاں تیزی سے اُلٹی ہی پیچھے جانا شروع ہو چکی ہیں ۔ چند منٹ بعد میں بھی اپنی کار اُلٹی ہی پیچھے لے جا رہا تھا ۔ 10 منٹ اُلٹا جانے کے بعد ایک سڑک آئی جس پر سب لوگ مُڑ رہے تھے ۔ میں بھی مُڑ کر گاؤں کے اندر چلا گیا ۔ آہستہ آہستہ کار چلاتا کوئی 100 میٹر کے بعد پھر مُڑ کر اپنی رہائشگاہ کی سمت چل پڑا ۔ اپنی رہائش گاہ سے ایک کلومیٹر سے زائد آگے جا کر ایک سڑک پر مُڑ کر پھر رہائشگاہ کے پچھلی طرف گلی میں داخل ہو کر گھر پہنچا کیونکہ میری رہائشگاہ کا سامنے کا راستہ بھی بند تھا

قارئین کرام ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں میرے ہموطن اَن پڑھ ۔ جاہل ۔ بیوقوف اور نجانے کیا کچھ خطابات دیا کرتے تھے

بہت دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فی زمانہ ہموطنوں نے بے تُکی باتیں اور حرکات بہت سیکھ لی ہیں مگر کام کی بات اور باہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ عام طور پر اپنی کوتاہیاں وطن عزیز یا حُکرانوں کے سر تھوپ کر سرزنش کرتے رہتے ہیں ۔ ایک فقرہ عام طور پر بولا جاتا ہے ”اِس مُلک کا 70 سال سے بُرا حال ہے“۔ حالانکہ کہ ایسا کہنے والوں کو پچھلے 10 سال کے واقعات بھی یاد نہیں رہتے اور بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وطنِ عزیز پاکستان کے حُکمران بلکہ اس میں بسنے والے سب بھی 1966ء تک باہمی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے تھے اور نظم و بُردباری کا مظاہرہ کرتے تھے ۔ پھر ایک نئی طرز کے شخص نے لیڈر بننے کی کوشش میں زہر گھولنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں ہماری 1966ء تک والی خصوصیات جن کی بدولت اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں پاکستان عطا فرمایا تھا اور اس کی تعمیر کی توفیق دی تھی وہ خصوصیات اب اپنے دیس میں ناپید ہو چکی ہیں ۔ صرف ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں

فی زمانہ سب جانتے ہیں کہ دُشمن کے زر خرید ہموطن اپنے ہی وطن میں دہشتگردی کر کے ہزاروں شہریوں کو ہلاک کر چکے ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں ۔ ۔ ۔

Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:
American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy.

ترجمہ ۔ بھارت کے ایک رسالے میں 24 اکتوبر 1951 میں چھپنے والے مضمون سے اقتباس
امریکی دانشوروں نے لیاقت علی کے قتل کے منصوبہ پر غور شروع کر دیا ۔ امریکہ چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو تاکہ بین الاقوامی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے ۔ جس طرح کہ ایران ۔ عراق ۔ اُردن میں غدار مل گئے تھے امریکہ کو پاکستان میں ایک بھی غدار نہ مل سکا ۔واشگٹن سے حُکمرانوں نے کابل میں امریکی سفارتخانے سے رابطہ کیا ۔ امریکی سفارتخانے نے پختونستان کے لیڈروں سے رابطہ کیا اور بتایا کہ اُن کے راست میں لیاقت علی ہی ایک رکاوٹ ہے اور اُنہیں یقین دلایا کہ اگر وہ لیاقت علی کو ہلاک کر دیں تو 1952ء تک وہ پختونستان قائم کر دیں گے ۔ پختون لیڈروں نے اس کام کیلئے اکبر (سید اکبر) کو تیار کیا اور سازش کو چھُپانے کی خاطر سید اکبر کو بھی ہلاک کرنے کا بندوبست کر دیا

غُصہ ۔ دماغ کا دُشن

ہم جب غُصے میں ہوں یا ناراض ہوں تو عام طور پر ہماری توجہ بدلے کی طرف ہوتی ہے اور مزا چکھانے کا رجحان بن رہا ہوتا ہے
ہم اپنے آپ کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ز یادتی ہوئی ہے اسلئے ہم کوسنے اور نقصان پہنچانے میں بر حق ہیں
جبکہ اللہ کا فرمان ہے
سورت 16 النحل آيت 126 ۔ اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے
سورت 42 الشورٰی آيت 40 ۔ اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔ (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا ۔

اتوار 18 جون 2017 کی یاد میں

وہ آئے معمول کو چھوڑ کر
پچھلی سب روائتیں توڑ کر
دماغ کی اُنہوں نے مان لی
پھِر دِل میں اپنے ٹھان لی
آج کر کے کچھ دِکھانا ہے
یُونہی لَوٹ کر نہیں جانا ہے
سینہ تان کے آئے میدان میں
اِس مبارک ماہِ رمضان میں
روزے تھے گھنٹے بیس کے
رکھ دیا مقابل کو پِیس کے
سب کے دِل میں وہ سما گئے
عید سے پہلے عید بنا گئے

تمام ہموطن بزرگوں بہنوں بھائیوں اور بچوں کو کرکٹ کی فتح مبارک ہو ۔ جس طرح ساری قوم یعنی ننھے بچوں سے لے کر مجھ سے بھی بڑے ہموطنوں تک کے دل اتوار کو ایک ہی رُخ پر تھے اور اُن کے دِل سے ایک ہی دعا نکل رہی تھی ”یا اللہ ۔ فتح“۔ میری دعا ہے کہ باری تعالٰی میرے سب ہموطنوں کے دِلوں میں قوم و مُلک کی ہر بہتری کیلئے یکسُوئی اور محبت ڈال دے ۔ اور گروہوں اور ذاتی پسند ناپسند کو چھوڑ کر ہم سب مِل کر یگانگت سے بھرپور ایک پاکستانی قوم بن جائیں ۔ آمین ۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت ہماری طرف مَیلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گی

تاخیر کی معذرت
میں نے علیل ہونے کے باوجود سارا میچ دیکھا تھا لیکن اُس کے بعد میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ۔ بخار بھی تیز ہو گیا تھا اسلئے خواہش کے باوجود بلاگ پر اظہارِ خیال نہ کر سکا ۔ آج بیٹھنے کے قابل ہوا ہوں تو سب سے پہلے یہی کام کیا ہے

ماں کا حق

سورت 46 الاحقاف ۔ آیت 15
اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے ۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا ”اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں“۔

انسان کے 30 پٹھوں کی ورزش

ہمارے ہاتھ کے ایک مربع اِنچ میں 9 فٹ خون کی نالیاں ۔ اعصاب کے 9000 سِرے ۔ 600 درد محسوس کرنے والے ۔ 36 تپش محسوس کرنے والے اور 75 دباؤ محسوس کرنے والے ہیں
ہمارے جسم میں 600 سے زائد پَٹھے ہیں

جب ہم مُسکراتے ہیں تو کم از کم 30 پٹھوں کی ورزش ہو جاتی ہے
پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

کیا پوچھیں گے ؟

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ نہیں پوچھیں گے کہ
” کتنا بچا کر جمع کیا تھا ؟ “
” کیا خواب دیکھے تھے ؟ “
” تمہارے منصوبے کیا تھے ؟ “
” تم کیا کہتے رہے تھے ؟“

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھیں گے کہ
” تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟ “
” کیا تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟ “
” کیا لوگ تمہاری زبان سے محفوظ تھے ؟ “
” کیا پڑوسی تم سے خوش تھے ؟“