Category Archives: روز و شب

کون اچھی زندگی گذارتا ہے

ایسا بھی ہوتا کہ کہ آپ اپنی زندگی سے مطمئن نہ ہوں
جبکہ بہت سے لوگ آپ کی طرح زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہے ہوں
کھیتوں میں کھڑا ایک بچہ اُوپر اُڑتا ہوائی جہاز دیکھ کر اسے اُڑانے کا خواب دیکھتا ہے
جبکہ ہوائی جہاز کا پائیلٹ کھیت دیکھ کر گھر واپسی کا خواب دیکھتا ہے
اسے زندگی کہتے ہیں ۔ کُڑہنے کی بجائے اس سے لُطف اندوز ہوں

اگر خوشی کا راز دولت میں ہوتا تو دولتمند خوشی سے گلیوں میں ناچ رہے ہوتے
لیکن ایسا غریب بچے کرتے ہیں
اگر طاقت حفاظت کی ضامن ہوتی پھر افسروں کو گارڈز کے بغیر پھرنا چاہیئے
لیکن جو سادہ زندگی گذارتے ہیں وہ مزے کی نیند سوتے ہیں

اگر خوبصورتی اور شہرت سے مثالی رشتے قائم ہوتے
تو نامور لوگوں کی شادیاں بہترین ہوتیں

سادہ زندگی گذاریئے ۔ عاجزی اختیار کیجئے اور حقیقی محبت کیجئے ۔ اِن شاء اللہ ہر اچھائی آپ کے پاس آئے گی

انسان اور کتا

شیخ سعدی نے گلستان لکھی ۔ یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی فارسی میں لکھی کتاب میں نے 66 سال قبل آٹھویں جماعت میں پڑھی تھی ۔ اِن میں سے 2 کا ترجمہ
(1) ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا ۔ درویش کے پاس اس کا کُتا بیٹھا تھا
بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا ” آپ اچھے ہیں یا آپ کا کُتا ؟ “۔
درویش نے جواب دیا ” یہ کُتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے ۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کُتا مجھ سے اچھا ہے“۔
(2) ایک آدمی کو کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد سے اُس کے آنسو نکل آئے
اُس کی کمسِن بچی اُسے کہنے لگی ” بابا روتے کیوں ہو ۔ کُتا آپ سے بڑا تو نہیں تھا ۔ آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔
آدمی نے کہا ” بیٹی ۔ ٹھیک ہے کہ کُتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں ۔ رو سکتا ہوں ۔ کُتے کو نہیں کاٹ سکتا “۔

کیا وہ عقل سے فارغ ہیں ؟

دوسروں کو بیوقوف کہنے سے کوئی عقلمند نہیں بن سکتا اسلئے ہمیں دوسروں کو بیوقوف سمجھنے کی بجائے اپنی عقل کی خبر گیری کرنا چاہیئے کہ وہ درست پروان چڑھے اور درست سمت میں چلے

ہمارے ہموطن عام طور پر عربوں کو بیوقوف یا جاہل گردانتے ہں اور اِس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں
میرا تجربہ اور مشاہد یہ ہے کہ عرب بیوقوف نہیں ہوتے البتہ وہ اپنی لیاقت جتانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ میں نے کئی عرب دیکھے جو انکساری اور کم عِلمی کا اظہار کرتے تھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ تھے

میرا 2 ممالک کے عربوں کے ساتھ کافی تعلق رہا ہے ۔ سعودی فوج کے نئے انجیئرز کی پاکستان میں تربیت میرے ذمہ رہی اس کے بعد سعودی عرب میں میری رہائش 5 بار مختلف دورانیوں کیلئے رہی ۔ اس کے علاوہ لبیا میں میری رہائش پونے 7 سال رہی جہاں مجھے حکومتِ پاکستان نے لبیا کی حکومت کے ایڈوائزر اور لبیا میں موجود تمام پاکستانیوں کیلئے پاکستان اور لبیا کے مابین آنریری چیف کوآرڈینیٹر کے طور پر بھیجا تھا ۔

میرے عِلم میں ایک ایسا واقعہ ہے جس نے ثابت کر دیا تھا کہ عربوں کو بیوقوف سمجنے اور کہنے والا میرا پاکستانی بھائی دراصل خود بیوقوف نکلا
لبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ایک ہموطن سے جان پہچان ہو گئی جو گریجوئیٹ تھا اور ایک وکالہ (Agency) میں کام کرتا تھا جو یورپ سے اشیاء درآمد کرتے تھے ۔ کبھی کبھی اُس کے دفتر کے سامنے سے گذرتے ہوئے علیک سلیک ہو جاتی ۔ وکالہ کے مالک سے بھی جان پہچان ہو گئی ۔ چند سال بعد وہ پاکستانی لبیا سے چلا گیا ۔ ایک دِن میں اُس وکالہ کے سامنے سے گذر رہا تھا تو وکالہ کا مالک ملا اور سلام کے بعد بولا ” آؤ بیٹھو چائے پیو ۔ میں نے تم سے کچھ بات بھی کرنا ہے“۔ میں چلا گیا ۔ جب چائے پی چکے تو اُس نے مجھے ایک خط پڑھنے کیلئے دیا جو اُس پاکستانی نے بھیجا تھا ۔ اُس انگریزی میں لکھے خط میں اہم باتیں یہ لکھی تھیں

میں یہاں نوکر نہیں ہوں بلکہ تمہاری سے بڑی کمپنی کا مالک ہوں
تم لیبی لوگ تو پرلے درجے کے بیوقوف ہو
میں over-invoicing کرتا رہا اور سامان بھیجنے والے اٹلی میں میرے اکاؤنٹ میں رقمیں جمع کراتے رہے
اس طرح جب میں لکھ پتی بن گیا تو تمہیں روتا چھوڑ کر اٹلی آ گیا

اس خط کا ایک ایک لفظ میرے دِل میں خنجر اور دماغ پر ہتھوڑے مارتا رہا ۔ جب میں خط پڑھ چُکا تو مجھ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی ۔ وکالہ کا مالک بولا ” تم بھی پاکستانی ہو ۔ بتاؤ کیا یہ خط بھیج کر اُس نے عقلمندی کی ہے ؟ کیا اُس نے ساری پاکستانی قوم کو نقصان نہیں پہنچایا ؟“

اب سُنیئے کہ عرب کتنے بیوقوف ہوتے ہیں
لبیا میں ایک پروجیکٹ لگانے کیلئے یورپ کی ایک بہت بڑی کمپنی سے مذاکرات ہو رہے تھے ۔ کمپنی نے اپنا ایک ایکسپرٹ بُلوایا ۔ شام کو ایکسپرٹ پہنچا اور اُسی رات اُسے ہوٹل سے پکڑ کر ڈی پورٹ کر دیا گیا ۔ ہوا یوں کہ لبیا اور اُس کمپنی کا معاہدہ تھا کہ کوئی اسرائیلی یا جو شخص اسرائیل گیا ہو وہ لبیا نہیں آئے گا ۔ اُس ایکسپرٹ نے انجنیئرنگ میں گریجوئیشن اسرائیل میں کی تھی یعنی 4 سال وہاں رہا تھا ۔ یہ بات یورپی کمپنی کے سربراہان کے عِلم میں نہ تھی لیکن لبیا کی انٹیلیجنس سروس نے ایکسپرٹ کے لبیا میں داخل ہونے کے بعد چند گھنٹوں میں معلوم کر لی

میرے ہموطنوں کی غلط سوچ اور عربوں کی سُوجھ بُوجھ کے متعدد واقعات کا تجربہ یا مشاہدہ ہوا ۔ اختصار کی خاطر صرف ایک ایک رقم کیا ہے

آپ حاکم بننا چاہتے ہیں ؟ ؟ ؟

ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا ۔ جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی اُمید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ ”وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا“۔

سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا ۔ ایک کُمہار جس نے ساری زندگی کچھ جمع نہ کیا تھا ۔ اس کے پاس سوائے ایک گدھے کے کچھ نہ تھا ۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کرلے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا ۔ اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس ۔ سو اس نے بادشاہ کے اہلکاروں کو بتایا کہ وہ ایک رات بادشاہ کی جگہ قبر میں گزارنے کے لئے تیار ہے

بادشاہ کے مرنے کے بعد لوگوں نے بادشاہ کی قبر تیار کی ۔ وعدے کے مطابق کُمہار خوشی خوشی اس میں جا کر لیٹ گیا اور لوگوں نے قبر کو بند کر دیا ۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد فرشتے آئے اور کُمہار کو کہا کہ ” اُٹھو اور اپنا حساب دو“ ۔
اس نے کہا ”بھائی حساب کس چیز کا ؟ میرے پاس تو ساری زندگی تھا ہی کچھ نہیں سوائے ایک گدھے کے“۔

فرشتوں میں سے ایک نے کہا ” تُمہارے نامہءِ اعمال میں لکھا ہے کہ فلاں فلاں دن تم نے گدھے کو ایک وقت بھوکا رکھا تھا“۔
کُمہار نے جواب دیا ”ہاں“۔
فرشتے نے کہا ”اسے 100 دُرّے مارے جائیں“۔ 100 دُرّے مارے گے
اس کے بعد پھر فرشتے نے سوال کیا ”یہ بتاو فلاں فلاں دن تم نے زیادہ وزن لادا اور پھر گدھے کو مارا بھی تھا ؟“
کُہار نے کہا ”ہاں“۔
پھر حُکم ہوا ”اس کو 200 دُرّے مارے جائیں“۔ اُسے دو سو دُرّے مارے گئے
غرض صبح تک اس کی پٹائی ہوتی رہی

صبح سب لوگ اکھٹے ہوئے اور قبر کشائی کی تا کہ اپنے نئے بادشاہ کا استقبال کر سکیں ۔ جیسے ہی انہوں نے قبر کھولی تو کُمہار نے باہر نکل کر دوڑ لگا دی ۔ لوگوں نے بھاگ کر اُسے روکا اور مؤدبانہ کہا ”بادشاہ سلامت کدھر جا رہے ہیں ؟“
تو کُمہار نے جواب دیا ”بھائیوں ۔ مجھے نہیں چاہیئے بادشاہت ۔ پوری رات میں ایک گدھے کا حساب نہیں دے سکا تو ساری رعایا اور مملکت کا حساب کون دیتا پھرے“۔

کبھی سوچا ہے کہ ہم نے بھی حساب دینا ہے ۔ اور پتہ نہیں کہ کِس کِس چیز کا حساب دینا پڑے گا جو شاید ہمیں یاد بھی نہیں ہے

راست بازی ؟

کبھی کبھی آدمی جتنا مذہبی ہوتا جاتا ہے اپنے آپ کو اتنا ہی نیک سمجھنے لگ جاتا ہے
ایسا کردار اندرونی مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے
مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ ہم میں ہمدردی کا جذبہ بڑھنا چاہیئے نہ کہ ہم فیصلے دینے لگیں
جس دِل میں اللہ سما جائے وہ نرم پڑ جاتا ۔ سخت نہیں بنتا
اگر دِل سخت ہو رہا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ دِل میں اللہ نے گھر نہیں کیا بلکہ خود ستائشی بھر گئی ہے جس پر مذہب اور پرہیزگاری کا لبادہ چڑھا ہوا ہے

سُنیئے محترمہ ۔ سُنیئے محترم

آج میرے مخاطب وہ خواتین و حضرات ہیں جو پڑھے لکھے ہیں اور اپنے آپ کو مُسلم یا مُسلمان سمجھتے ہیں
(خیال رہے کہ میں نے تعلیم یافتہ نہیں لکھا)
از راہ کرم اِسے واپس مجھ پر تھوپنے کی کوشش نہ کیجئے گا کیونکہ جب آپ اِسے پڑھیں گے تو آپ ”خطیب“ بن جائیں گے اور میں ”مُخاطب“۔

پہلا سوال یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سکول ۔ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھا تھا کیا اپنی عملی زندگی میں اس سے مکمل استفادہ کیا ؟
یا
حاصل کردہ اسناد کو صرف حصولِ روزگار یعنی پیٹ پالنے یا دولت اکٹھی کرنے کیلئے استعمال کیا ؟

مُسلم یا مُسلمان ہونے کے ناطے آپ نے قرآن شریف بھی پڑھا ہو گا چنانچہ میرا دوسرا سوال ہے کہ کیا آپ نے قرآن شریف کو سمجھا اور اسے اپنی عملی زندگی پر مُنطبق کیا ؟

اگر آپ کا پہلے سوال کا جواب ” نہیں “ہے ۔ ۔ ۔ تو آپ تعلیم یافتہ نہیں ہیں کیونکہ آپ نے سکول ۔ کالج اور یونیورسٹی میں کچھ نہیں سیکھا ۔ صرف اسے وقتی ضرورت کے تحت یاد کیا تھا

اگر دوسرے سوال کا جواب ” نہیں“ ہے
تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ صرف نام کے مُسلم یا مُسلمان ہیں حقیقت میں نہیں

میرے محترمین و محترمان ۔ آپ کی فلاح اِسی میں ہے کہ آپ تعلیم یافتہ مُسلم یا مُسلمان بنیں جس کیلئے کل کی اِنتظار نہ کیجئے ۔ آج اور ابھی سے کوشش و محنت کیجئے
صبح کا بھُولا شام کو گھر واپس آ جائے تو اُسے بھُولا نہیں کہتے