Category Archives: روز و شب

تمام ہموطن بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں

ملک میں تبدیلی حکمرانوں کو تبدیل کرنے سے نہیں آتی بلکہ خود کو تبدیل کرنے سے آتی ہے ۔ اگر ہم خود اچھے کام کرنے لگیں اور بُرے کام باکل چھوڑ دیں پھر حکمران بھی اچھے ہی چُنے جائیں گے اور اپنا مُلک تیزی سے ترقی کرے گا اور جنت نظیر ہو جائے گا جس کا فائدہ ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو ہو گا

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اچھی زندگی گزاریں تو اِس کیلئے ہمیں آج ہی سے محنت کر کے اچھائی اختیار کرنا ہو گی ۔ جو تھوڑی سی تکلیف آج ہم برداشت کریں گے اس کا ہمارے بچوں کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا اور ہمارا اپنا بڑھاپا بھی اچھا گزرے گا

اِس کی ابتداء کیلئے آپ سب کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میری درخواست ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ اسے غور سے پڑھ کر اس سلسلہ میں پوری کوشش کی جائے گی

1 ۔ سڑک پر ۔ گلی یا عمارت میں ڈسٹ بن (Dust Bin) کے سوا کسی جگہ چھلکا ۔ کاغذ یا سگرٹ وغیرہ نہ پھنیکیئے (جلتا سگریٹ کبھی نہ پھیکیئے)
2 ۔ سڑک ۔ گلی ۔ دیوار یا فرش پر نہ تھُوکیئے
3 ۔ کرنسی نوٹ یا دیوار پر کچھ نہ لکھیئے
4 ۔ باہر اور اپنے گھر میں بھی پانی اور بجلی کی جتنی بچت ہو سکے کیجئے
5 ۔ ٹریفک رولز کو سمجھئے ۔ ٹریفک رولز پر عمل کیجئے اور کبھی خلاف ورزی نہ کیجئے
6 ۔ ایمبولنس اور فائر بریگیڈ کی گاڑی کو فوری طور پر راستہ دیجئے
7 ۔ والدین ۔ دادا ۔ دادی ۔ نانا نانی کی خدمت کیجئے اور اُن کی کسی بات کا بُرا نہ منایئے
8 ۔ اپنے سے بڑی عمر کے لوگوں اورسب خواتین کا احترام کیجئے
9 ۔ خواہ کوئی آپ کے ساتھ زیادتی کرے آپ کسی کو نہ گالی دیجئے نہ تضحیک کیجئے
10 ۔ ہر سال کم از کم ایک درخت لگایئے چاہے اپنی زمین پر ہی لگائیں اور پہلے سے لگے درخت نہ کاٹیئے

اِس پر خود عمل کیجئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی عمل کی ترغیب دیجئے مگر احترام اور پیار سے

جمعہ ۔ کالا یا سبز یا کچھ اور ؟

محترمہ سیما آفتاب صاحبہ نے ایک تحریر ” گرین فرائی ڈے“ لکھی ۔ وہاں تبصرہ کرنا چاہتا تھا لیکن خدشہ تھا کہ تبصرہ متذکرہ تحریر سے طویل ہو جائے گا چنانچہ اسے یہاں لکھنے کا قصد کیا

ہمارے مُلک میں جو 70 فیصد تک رعائت دی جاتی ہے صرف ایک دھوکہ ہوتا ہے ۔ یہ میرا اسلام آباد کا تجربہ ہے کہ زور ” تک“ پر ہوتا ہے یعنی ”70 فیصد تک“۔ اسلئے 5 فیصد بھی ہو سکتی اور صفر بھی ۔ اور جہاں یہ تجربہ ہوا اُن کا بہت بڑا نام ہے ۔ اسلام آباد میں کچھ دُکانیں ایسی ہیں جن پر موسم کے لحاظ سے یعنی گرمیوں یا سردیوں کا آدھا دورانیہ گزرنے کے بعد وہ کم قیمت فروخت شروع کرتے ہیں تاکہ متعلقہ موسم والے کپڑے نکل جائیں ۔ اس سے میں بھی کبھی کبھی یعنی جب ضرورت ہو فائدہ اُٹھا تا ہوں

یہ ” اشرافیہ “ کون لوگ ہوتے ہیں ۔ اگر مُراد دولتمند ہے تو وہ لوگ اس طرح کی فروخت میں دلچسپی نہیں رکھتے ۔ اس طرح کی فروخت سے میرے جیسے لوگ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں چاہے بیچنے والے نے پہلے قیمت زیادہ لکھ کر اُسے کاٹ کر کم قیمت لکھی ہو

رہا جمعہ تو کالا نیلا پیلا سبز سفید کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ جمعہ صرف جمعہ ہے ۔ ہم اپنے عمل سے اِسے اچھا بناتے ہیں ۔ خرابی غیرمُسلموں کی اندھی نقّالی کی ہماری عادت میں ہے ۔ ہماری حالت اُس کوّے کی سی ہے جس نےہم مَور کی دُم کے کچھ پَنکھ اپنی دُم میں لگا لئے اور سمجھ بیٹھا کہ مَور بن گیا ہے

ہمارے پاس اپنے تہوار ہیں جیسے عیدالفطر ۔ عیدالاضحٰے ۔ میلادُالنّبی ۔ اِن کے بعد کی بجائے اِن سے ہفتہ 10 دِن قبل سستی فروخت کی جا سکتی ہے تاکہ غریب لوگ بھی عید پر نئے کپڑے پہن سکیں ۔ روزی کمانے کے ساتھ ثواب بھی کمائیں ۔ ہم لوگ 1976ء سے 1983ء تک لبیا کے شہر طرابلس میں رہے ۔ وہاں سب سے بڑی کم قیمت فروخت رمضان المبارک میں ہوتی تھی اور دوسری ربع الاول کے پہلے 10 دنوں میں ۔ زیادہ تر عرب ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے

ہم لوگ ویسے تو سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں ”میں مُسلمان ہوں“ لیکن غیر مُسلموں کے تہوار جیسے کرسمِس ۔ نیو ایئر نائٹ ۔ ایسٹر ۔ بلیک اور گُڈ فرائیڈے مناتے ہیں جبکہ عیدین سے پہلے قیمتیں زیادہ کر دیتے ہیں

چائے کی پیالی ۔ ایک منفرد واقعہ

پندرہ فوجی ایک میجر کی کمان میں ہمالیہ ک برف پوش چوٹی پر بنی پوسٹ پر ڈیوٹی کیلئے برف سے لدے دشوار گزار پہاڑ پر چڑھ رہے تھے ۔ چوکی پر اُنہوں نے 3 ماہ ڈیوٹی دینا تھی ۔ مزید برف باری وقفے وقفے سے جاری تھی ۔ نامساعد حالات کے ساتھ مکّار دُشمن کی چھیڑ خانی ۔ خاصی مُشکل ڈیوٹی تھی

متواتر 2 گھنٹوں سے وہ چڑھتے جا رہے تھے ۔ میجر نے دِل ہی دِل میں سوچا ” ایسے میں اگر گرم چائے کی ایک پیالی مل جائے تو کیا بات ہے“۔ پھر میجر خود ہی اپنے آپ پر ہنس دیا کہ کیسی بیوقوفانہ خواہش ہے ۔ وہ چڑھتے گئے ۔ مزید ایک گھنٹہ گزر گیا ۔ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا کہ ایک شکستہ حال کمرہ نظر پڑا جو چائے کی دکان لگتا تھا ۔ قریب گئے تو دروازے پر تالا پڑا تھا ۔ میجر نے کہا ”جوانو ۔ قسمت نے یاوری نہیں کی ۔ چائے نہیں ملے گی ۔ لیکن آپ سب تھک گئے ہوں گے ۔ یہاں کچھ دیر آرام کر لیتے ہیں“۔

ایک سپاہی بولا ” سر ۔ چائے کی دکان ہے ۔ ہم خود چائے بنا لیں گے ۔ بس تالا توڑنا پڑے گا“۔
میجر مخمصے میں پڑ گیا ۔ تجویز غیر اخلاقی تھی ۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ چائے کی ایک پیالی تھکاوٹ سے چُور سپاہیوں میں نئی رُوح پھُونک دے گی ۔ بادلِ نخواستہ اُس نے اجازت دے دی ۔ سپاہیوں نے تالا توڑا تو اندر چائے بنانے کا پورا سامان موجود تھا اور بسکٹ بھی تھے ۔ اُنہوں نے چائے بنائی ۔ سب نے دو دو بسکٹ کے ساتھ گرم گرم چائے پی اور پھر چلنے کیلئے تیار ہو گئے

میجر نے سوچا کہ اُنہوں نے بغیر مالک کی اجازت کے چائے پی ۔ بسکٹ کھائے اور تالا بھی توڑا ۔ وہ مُلک و قوم کے محافظ ہیں ۔ کوئی چور ڈاکو تو نہیں ۔ چائے ۔ بسکٹ اور تالے کے علاوہ بھی کچھ معاوضہ دینا چاہیئے ۔ میجر نے اپنے بٹوے سے 1000 روپے کا نوٹ نکالا ۔ کاؤنٹر پر رکھا اور اُس پر چینی دانی رکھ دی تاکہ دکان والے کو فوراً نظر آ جائے ۔ اس طرح میجر کے ذہن پر بوجھ ہلکا ہو گیا ۔ سپاہیوں نے دکان کا دروازہ بند کیا اور چل پڑے

چوکی پر پہنچ کر وہاں موجود دستے کو فار غ کر کے اُن کا کام سنبھال لیا ۔ گاہے بگاہے دُشمن کے فوجی اور تربیت یافتہ دہشتگرد حملے کرتے رہے ۔ 3 ماہ گزر گئے لیکن خوش قسمتی سے اُن کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔ ڈیوٹی نئے دستے کے حوالے کر کے واپسی کا سفر اختیار کیا ۔ راستے میں اُسی چائے کی دکان پر رُکے ۔ دن کا وقت تھا ۔ دکان کھُلی تھی اور اُس کا مالک موجود تھا جو بوڑھا تھا ۔ وہ اکٹھے 16 مہمانوں کو دیکھ کر خوش ہوا اور بخوشی چائے پیش کی ۔ میجر نے اُسے اپنے تجربات کا پوچھا ۔ وہ اپنے قصے سنانے لگا ۔ ہر قصے میں وہ الله کی موجودگی کا بار بار ذکر کرتا ۔ ایک سپاہی نے کہا ”بابا ۔ اگر الله ہر جگہ موجود ہے تو آپ کا یہ حال کیوں ہے ؟

بوڑھا دکاندار نے بڑے جوش سے کہا ” ایسے مت کہیئے صاحب ۔ الله ہر جگہ موجود ہے ۔ میرے پاس اس کا تازہ ثبوت ہے ۔ 3 ماہ قبل مجھے بہت مُشکلات کا سامنا تھا ۔ دہشتگرد میرے اکلوتے بیٹے سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے میرے بیٹے کو بہت زد و کوب کیا ۔ میں نے دکان بند کی اور بیٹے کو شہر میں ہسپتال لے گیا ۔ کچھ دوائیاں خریدنا تھیں اور میرے پاس رقم نہ تھی ۔ دہشتگردوں کے ڈر سے کوئی قرض دینے کو بھی تیار نہ تھا ۔ میں نے اپنے الله سے مدد کی استدعا کی ۔ میں دکان پر آیا تو تالا ٹوٹا دیکھ کر دِل دھک سے رہ گیا کہ جو میری پونجی تھی وہ بھی کوئی تالا توڑ کر لے گیا ۔ اچانک میری نظر کاؤنٹر پڑی ۔ الله نے میری دکان میں چینی دانی کے نیچے 1000 روپے رکھ دیئے تھے ۔ وہ رقم میرے لئے سب کچھ تھی ۔ صاحب ۔ الله ہر جگہ ہے اور سب کچھ دیکھتا اور سُنتا ہے“۔

پندرہ کے پندرہ سپاہیوں کی کی نظریں اپنے کمانڈر (میجر) کی طرف اُٹھیں ۔ میجر کی آنکھیں اُنہیں کہہ رہی تھیں ”خبر دار ۔ خاموش ۔ ایک لفظ نہیں بولنا“۔

میجر اُٹھا ۔ بِل ادا کیا ۔ بوڑھے دکاندار سے بغل گیر ہوا اور بولا ”ہاں ۔ بابا جی ۔ میں جانتا ہوں ۔ الله ہر جگہ موجود ہے ۔ اور ہاں ۔ چائے بہت عمدہ تھی”۔

چلتے ہوئے سپاہیوں نے دیکھا کہ اُن کا کمانڈر کہ کبھی بُرے سے بُرے وقت میں جس کی آنکھیں نَم نہیں ہوئی تھیں ۔ اُن آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے

مسجد نہیں جاؤں گا

بیٹے نے باپ سے کہا ” میں آج سے مسجد نہیں جاؤں گا “
باپ ” کیوں ؟ کیا ہوا ؟“
بیٹا ” ابا جی ۔ وہاں میں دیکھتا ہوں کہ کوئی موبائل فون پر لگا ہے ۔ کوئی گپ لگا رہا ہے اور کوئی کچھ اور ۔ سب منافق ہیں“۔
باپ نے کہا ” ٹھیک ہے لیکن حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے تم میری خاطر ایک کام کرو گے ؟“
بیٹا بولا ”وہ کیا ؟“
باپ نے کہا ” ایک گلاس میں پانی بھر کر ہاتھ میں پکڑ لو اور مسجد کے گرد 2 چکر لگاؤ لیکن خیال رہے کہ گلاس میں سے پانی بالکل نہ گرے“۔
بیٹا مان گیا اور گلاس لے کر چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد لڑکے نے واپس آ کر بتایا کہ ہو گیا
باپ نے کہا ” اب میرے 3 سوالوں کا جواب دو“۔
”1 ۔ کیا تم نے کسی کو اپنے موبائل فون پر کچھ کرتے دیکھا ؟“
”2 ۔ تم نے کسی کو گپ لگاتے سُنا ؟“
”3 ۔ تُم نے کسی کو کچھ غلط کرتے دیکھا ؟“
بیٹا بولا ” ابا جی ۔ نہیں میں نے کسی کو نہ دیکھا نہ سُنا ۔ میری پوری توجہ تو گلاس کی طرف تھی کہ کہیں پانی نہ گرے“۔

باپ نے پھر کہا ” بیٹا ۔ اِسی طرح جب تُم مسجد میں جاتے ہو تو تمہاری پوری توجہ پیدا کرنے والے کی طرف ہونا چاہیئے جس کیلئے تُم مسجد جاتے ہو نہ کہ اُس کی مخلوق کی طرف پھر ہی تمہیں الله کے گھر جانے کا فائدہ ہو گا“۔

موبائل فون

کتاب چھوڑ کر ہم نے ۔ موبائل فون پکڑ لئے
عمر گھٹتی رہی اور ہم پوسٹ کرتے رہے
غافل رہے قرآن سے اور حدیث پوسٹ کرتے رہے
بھیج کر میسَج ہم خود کو دِیندار سمجھتے رہے
آتی رہی پانچوں وقت مسجد سے اذان کی آواز
ہم فیس بُک پر برما کے ظُلم شیئر کرتے رہے

چھٹا لیکن بہت اہم Litmus Test

الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے تخلیقِ کائنات کا ذکر قرآن شریف کی جِن آیات میں فرمایا ہے اُن میں سے چند جو مکمل تخلیق بیان کر دیتی ہیں
سُورت 15 الحِجر کی آیات 19اور 26 تا 35 ۔ ہم نے زمین کو پھیلایا ، اُس میں پہاڑ جمائے ، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نَپی تُلی مِقدار کے ساتھ اُگائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا۔ اور اس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے ۔ پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا ”میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں ۔ جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی رُوح سے کچھ پھونک دُوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ۔ سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ۔ ربّ نے پوچھا ”اے ابلیس ۔ تُجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟“ اس نے کہا ”میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے“۔ ربّ نے فرمایا ”اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردُود ہے اور اب روزِ جزا تک تجھ پر لعنت ہے“۔
سورت 4 النّساء آیت 1 ۔ لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے
سورت 39 الزُمَر آیت 6 ۔ اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اُس کا جوڑا بنایا

مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ میں آدمی کے مُسلمان یا مُسلم ہونے کا چھٹا لیکن اہم Litmus Test ہے یعنی اِس بات کا یقین کہ
(1) پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کا پُتلا الله تعالٰی نے مٹی سے بنایا اور اُس میں روح پھُونک دی ۔ سارے انسان اُن کی اولاد میں سے ہیں
(2) حضرت آدم علیہ السلام پہلے اِنسان اور پہلے نبی تھے
جو الله کے فرمان کے علاوہ کچھ سمجھے وہ مُسلم یا مسلمان نہیں ہو سکتا

پانچواں Litmus Test ۔ اعتدال

سورت 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔
سورت 31 لقمان آیۃ 18 اور 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ الله کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

پانچواں Litmus Test ہے ہر عمل میں اعتدال ۔ میانہ روی اور انکساری