Category Archives: روز و شب

کہاں چلے گئے وہ بلاگر ؟

جی ہاں ۔ صرف پانچ سات سال پہلے جو جوان بلاگ لکھا کرتے تھے میں اُن کی بات کر رہا ہوں
کیا زمانہ تھا اور کتنا بھائی چارہ تھا آپس میں
ہر ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار رہتا تھا
اِدھر میں نے مدد مانگی ۔ اُدھر مدد حاضر

حالانکہ سب جانتے تھے کہ میرا بڑا بیٹا زکریا کمپوٹر ہارڈ ویئر ۔ سافٹ ویئر اور بلاگنگ کا ماہر ہے
پہلا اردو بلاگز ایگریگیٹر (اُردو سیّارہ) ۔ اُردو محفل ۔ وغیرہ زکریا ہی نے بنائے تھے

میری مدد جن جوانوں نے کی اِن میں سے مندرجہ ذیل بغیر مدد مانگے ہی مدد کی پیشکش کرتے رہتے تھے
حارث بن خُرم
قدیر احمد جنجوعہ
جہانزیب اشرف
پرویز اُردو دان
حیدرآبادی

میں پچھلے چار سالوں میں تین بار مدد کی درخواست کر چکا ہوں لیکن مدد تو کُجا کسی نے حَوصلہ افزائی بھی نہ کی

آخری بار میں نے تین دِن قبل تمام قارئین سے مدد کی درخواست کی تھی
اِن تین دنوں میں 58 قارئین نے میری درخواست کو دیکھا لیکن میں مدد کی اِنتظار ہی میں رہا
آخر میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے مسئلہ حل کر دیا

مدد کی فوری ضرورت ہے

تمام محترمات اور تمام محترمان
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته

آپ سب سے درخوست ہے کہ کمپیوٹر کے سلسلے میں میری فوری طور پر مدد کریں

میرے laptop کی سکرین میں ایک تبدیلی آ گئی ہے اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اسے کیسے درست کروں
میں کچھ سال قبل ایسی ہی صورتِ حال سے دو چار ہوا تھا تو میں اُسے درست کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن اب مجھے یاد نہیں آ رہا کہ میں اُس وقت اِسے کیسے درست کیا تھا

1 ۔ top tool bar غائب ہو گیا ہے
2 ۔ نیچے تصویر دیکھیئے ۔ سکرین کے نِچلے حصے میں icon کھینچ کر لاتا ہوں تو واپس اُوپر بھاگ جاتا ہے

.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
.
3 ۔ سب documents اور browser بھی اس طرح کھلتے ہیں ۔ دیکھیئے نیچے دوسری تصویر

جولائی کا الٹرا ساؤنڈ اور اگست کا بلیک باکس

اَن گِنت حُرّیَت پسندوں نے محکُوم قوموں کے لئے آزادی کی سیاسی جدوجہد کے اصول وضع کئے ۔ یہ آزادی محض غیرملکی حکمرانوں کو بے دَخَل کرنے کا نَصبُ العَین نہیں تھی۔ آزادی کی اس لڑائی کا حتمی نَصبُ العَین یہ تھا کہ اس زمین کے رہنے والے اپنی معاشی ۔ سماجی اور سیاسی صلاحیتوں کو برُوئے کار لاتے ہوئے انسانی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے ۔ دنیا کے ابھرتے ہوئے امکانات میں اپنا پورا پورا حق حاصل کر سکیں گے

اِسی اصول کے تحت آزادی محمد علی جناح اور اُن کے ساتھیوں نے آزادی کی جد و جہد کی ۔ آزادی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہم شمالی یورپ کے جزیرے برطانیہ سے آنے والوں کو رُخصت کر کے مقامی طاقتور گروہوں کے غلام ہو جائیں جو نسل ۔ عقیدے اور بندوق کے بَل پر ہمارا اِستحصال کریں

جاننا چاہیئے کہ 25 جولائی 2018ء کی تصویر بدستور دھُندلی ہے ۔ اہلِ حُکم کا تھُوک ہمارے مقَدّس پرچم پر جم گیا ہے ۔ ہماری زمیں پَر زَور آور کے قدموں کے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمیں عِلم سے محروم کر کے تعصب اور نفرت میں اُلجھا دیا گیا ہے ۔ ہمارے قابل صد احترام آباؤاجداد کی سَتّر بَرس پر محیط قربانیوں سے ایک مرحلہ طے ہو گیا ہے ۔ اب ہماری کشمکش کسی ایک فرد یا منصب دار سے منسوب نہیں ہے ۔ ماضی میں ہم نے اپنے خوابوں کو فرد واحد کی ذات سے وابستہ کر رکھا تھا ۔ اب یہ کشمکش زیادہ اصولی اور ادارہ جاتی شکل اختیار گئی ہے ۔ ہمارے کچھ سیاسی رہنما آجکل اداروں کے احترام پر زور دے رہے ہیں ۔ ان کی رائے یقیناً وزن سے خالی نہیں ہو گی لیکن ان کی سوچ میں داخلی تضاد کی طرف اشارہ کئے بغیر بھی چارہ نہیں

ہمارے یہ مہربان عوام سے ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن ووٹ کی بالادستی کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں ۔ اگر انہیں ووٹ مانگتے ہوئے ایسے خدشات اور وسوسے لاحق ہیں تو کل جب یہ رہنما ووٹ سے تشکیل پانے والے اداروں میں رونق افروز ہوں گے تو ان کے دست و بازو پہلے سے قطع ہو چکے ہوں گے ۔ زمانے کا انقلاب دیکھیئے ۔ جو مہربان سیاسی قوتوں کے مابین مفاہمت کو مک مکا قرار دیتے تھے اب سقوط جمہوریت کے دستاویزی شواہد پر شاداں و مسرور ہیں ۔ تاریخ کے یہ چیمبرلین اگر جولائی کے الٹرا ساؤنڈ سے خوف زدہ ہیں تو اگست کے بلیک باکس کا سامنا کیسے کریں گے ؟
وجاہت مسعود کی تحریر سے اقتباس

خرچ

سورة 2 البَقَرَة آیت 215
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا

گوٹھ نوّں پوترا کے مکینوں کا یادگار کردار

غالباً 29 جون 2018ء کو 27 اَپ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے جب تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو محراب پور سے چند کلو میٹر آگے گوٹھ نوّں پوترا کے پاس اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیئے ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے ۔ ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا اور الحمدللّہ ٹرین ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی

سواریوں کو اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس تھا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے ۔ سُبحان اللہ عجیب منظر تھا ۔ کسی نے پانی کا کولر اُٹھایا ہوا ہے ۔ کسی نے مٹکا ۔ کوئی جگ اُٹھائے ہے تو کوئی دودھ کا برتن ۔ کوئی بزرگ اپنی پگڑی میں برف لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں ۔ ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ۔ غرض بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اپنی استداد کے مطابق ہر کوئی کچھ نا کچھ لئے چلا آ رہا تھا ۔ چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی دیگ ایک رکشہ پر لائی گئی ۔ دیہاتیوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے ۔ چاول کھلانے کے لئے مٹی کی پلیٹیں لے آئے ۔ آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں
ہمدردی کے جذبہ سے سرشار گاؤں کے نیک سیرت سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ اُنہیں خدمت کا موقع ملا ۔ نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ جس کی وہ مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے ۔ کس ذات برادری ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ بس ایک ہی رشتہ تھا ۔ انسانیت کا ۔ پاکستانیت کا اور احسان کا کہ اللہ کا فرمان ہے
اللّہ تعالٰی ان سب کو جزائےعظیم دے ۔ ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے ۔ آمین

اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رُخصت کیا جاتا ہے

االلہ اللہ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے باری تعالٰی کی حمد کے ساتھ میری آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
مجھے اپنے دیہاتی بھائیوں کی ہمدردی اور مہمانداری کا تجربہ ہے ۔ میں جوانی میں سیر و سیاحت کا شوقین تھا ۔ جہاں بھی جاتا بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات کی طرف چلا جاتا ۔ قصبہ یا گاؤں کے اندر سارا سفر پیدل ہی ہوتا تھا ۔ میں نے خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی سیر کی اور پہاڑوں کی بھی ۔ ہر قصبہ ہر گاؤں کے باسیوں کو میں نے مُخلص ہمدرد پایا ۔ اُن کی ایک اور عادت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مُختلف تھی ۔ وہ برملا سیدھی بات کرتے تھے ۔ کسی لفظ یا فقرے پر مٹھاس چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ مجھے یہ طور پسند آیا کیونکہ مجھے بھی آج تک کسی بات پر ملمع چڑھانا نہیں آیا ۔ میں محسوس کرتا رہا کہ وہ بھی میرے انداز سے خوش تھے

ہمارے مُلک سلطنتِ خدا داد پاکستان کے اکثر عوام ہمدرد ۔ دُکھ درد بانٹنے والے ۔ مصیبت میں کام آنے والے ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناسی اور جذبہءِ خدمت و ایثار سے سرشار ہیں

جب میں اپنے مُلک کے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور اچھی مالی حالت والے لوگوں کی زبان سے سُنتا ہوں
”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔
”سب چور ہیں“۔
”سب بے ایمان ہیں“۔
تو میرا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اِن پڑھے لکھے جاہلوں کے ذہنوں میں ہالی وُڈ کی بنی مووی فلموں ۔ ٹی وی ڈراموں اور غیر مُلکی معاندانہ پروپیگنڈہ نے گھر کیا ہوا ہے ۔ یہ نہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں
اللہ ہم سب کو کریم ایسے ہموطنوں کو نیک ھدائت دے

غیب کا عِلم صرف اللہ رکھتا ہے

سورة 11 ھُود آیۃ 49
تِلۡكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهَاۤ اِلَيۡكَ‌ۚ مَا كُنۡتَ تَعۡلَمُهَاۤ اَنۡتَ وَلَا قَوۡمُكَ مِنۡ قَبۡلِ هٰذَا‌ ‌ۛؕ فَاصۡبِرۡ‌ ‌ۛؕ اِنَّ الۡعَاقِبَةَ لِلۡمُتَّقِيۡنَ

اے محمدﷺ ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ۔ پس صبر کرو ۔ ا نجام کار مُتّقِیوں ہی کے حق میں ہے

تباہی کی طرف تیزی سے سفر

ایک سکیورٹی گارڈ فیصل آباد کے ایک بس ٹرمینل میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بس سروس میں بطور میزبان ملازمت کرنے والی ایک لڑکی کو روکتا ہے ۔ دونوں میں چند لمحوں کے لئے تکرار ہوتی ہے ۔ سکیورٹی گارڈ لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لڑکی اپنا ہاتھ چھڑواتی ہے ۔ جواب میں گارڈ اپنی بندوق سے اس پر فائر کرتا ہے ۔ لڑکی گر جاتی ہے ۔ چند ثانیوں کے لئے بے بسی سے تڑپتی ہے اور پھر وہیں سیڑھیوں پر مر جاتی ہے
یہ اٹھارہ سالہ لڑکی جو اپنے گھر کی واحد کفیل تھی ۔ ایک بھرے پُرے بس ٹرمینل پر ہلاک کر دی گئی ۔ قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نوکری کرنے نکلی تھی ۔ مجبور ی یہ تھی وہ باعزت نوکری کرنا چاہتی ۔ نہ جانے کتنی مشکل سے اُس نے یہ معمولی نوکری حاصل کی ہو گی ۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ سکیورٹی گارڈ جسے وہ محافظ سمجھتی تھی وہ کس قماش کا آدمی ہے

آج کے دَور میں ہماری ذہنی حالت یہ ہو چُکی ہے کہ اوّل ہم لڑکی کو کسی لحاظ سے قصور وار ٹھہرا دیں گے ۔ اگر یہ نہ کیا تو بھارت (جن کے دھرم میں بھی عورت صرف ایک لونڈی کی حیثیت رکھتی ہے) وہاں کے اعداد و شُمار گِنوا کر اِسے معمولی واقعہ قرار دے دیں گے ۔ یہ بھی نہ کریں تو ہم شور کریں گے ۔ کمپنی والوں کو گالیاں دیں گے ۔ توڑ پھوڑ کریں گے
ٹی وی اور اخبار کا روّیہ تو ہر معاملہ میں یکساں ہے ۔ چند دِن شور بپا ہو گا پھر خبر غائب

بڑے بڑے دانشور ۔ عورت کی ناموس کے نام پر چلنے والی بڑی بڑی تنظیموں کو تو نہ کسی غریب کی بے حُرمتی نظر آتی ہے نہ موت ۔ جب اُنہیں چندے یا مشہوری کی ضرورت ہوتی ہے تو معاملہ خواہ بے نام ہو پکڑ کر واویلہ شروع کر دیتے ہیں ۔ ہاں اگر کوئی عیسائی قانون کی زد میں آ جائے یا کسی حادثہ میں مر جائے تو اُسے مظلوم کہہ کر اپنے سرپرست مُلک کو خوش کرنے یا مالی امداد حاصل کرنے کیلئے طوفان مچا دیں گے

غرضیکہ ہم اب اپنے اسلاف کے قصے کہانیاں سنانے والے مُسلمان بن چکے ہیں ۔ ہم یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو وہاں کے دانشور مباحث میں مشغول تھے ۔ ہم تاریخ میں بڑے فخر سے پڑھتے ہیں کہ محمد بن قاسم صرف ایک عورت کی فریاد سُن کر دیبل پر حملہ آور ہو گیا ۔ لیکن خود جب کسی غریب پر ظُلم ہوتا دیکھتے ہیں تو تمسخر اُڑانا یا وِڈیو بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں

ایک اور طریقہ بھی ہے کہ ایسی خبر کو نظر انداز کر دیں یعنی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں
ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں مُلک کی بہترین جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والا نوجوان اپنی ماں کی عمر کے برابر خاتون کے بارے میں (جسے چند گھنٹوں کے لئے اغوا کیا گیا تھا) ٹوِیٹ کرتا ہے ”اس عورت کے لئے جنسی تشدّد ہی بہترین علاج ہے“۔
ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے کے پڑھے لکھے جوان ایک بوڑھی بیمار ماں کی بیماری کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ سفاکانہ طعنے دیتے ہیں اور پھَبتیاں کستے ہیں

یہ درندگی دو دہائیاں پہلے تک تو نہ تھی ۔ جانے کس نے ہمارے معاشرے میں یہ زہرِ قاتل پھیلا دیا اور ہم امرت سمجھ کر پیتے چلے گئے
پھر بھی ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا کلچر بہت خوبصورت ہے ۔ ہم نجانے کس غلط فہمی میں مُبتلاء ہیں ۔ ہمیں بالکل احساس نہیں ہے کہ نفرت اور زہر کے جو بِیج ہم نے اپنے معاشرے میں بو دیئے ہیں اس کے ثمرات ہم نے اور ہماری آئیندہ نسلوں نے سمیٹنے ہیں ۔ ہم تو اُن لوگوں کی اولاد ہیں جن کے پاس کوئی دُشمن بھی پناہ لے لے تو وہ اُس کے محافظ بن جاتے تھے

ہماری اِس بے حِسی کا سبب صرف ایک ہے کہ ہم غور و فکر سے عاری ہو چُکے ہیں ۔ قرآن شریف کی بجائے الیکٹرانک میڈیا (بشمول سوشل میڈیا) ہمارا رہبر بن چُکا ہے ۔ حالانکہ قرآن شریف میں کم از کم 8 بار اللہ نے فرمایا ہے ” تم غور کیوں نہیں کرتے“۔
سورت 6 الانعام آیت 50
سورت 10 یونس آیت 3
سورت 11 ھود آیت 30
سورت 11 ھود آیت 24
سورت 16 النّحل آیت 17
سورت 23 المؤمنون آیت 85
سورت 37 الصّٰفّٰت آیت 155
سورت 45 الجاثیہ آیت 23