Category Archives: روز و شب

گوٹھ نوّں پوترا کے مکینوں کا یادگار کردار

غالباً 29 جون 2018ء کو 27 اَپ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے جب تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو محراب پور سے چند کلو میٹر آگے گوٹھ نوّں پوترا کے پاس اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیئے ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے ۔ ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا اور الحمدللّہ ٹرین ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی

سواریوں کو اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس تھا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے ۔ سُبحان اللہ عجیب منظر تھا ۔ کسی نے پانی کا کولر اُٹھایا ہوا ہے ۔ کسی نے مٹکا ۔ کوئی جگ اُٹھائے ہے تو کوئی دودھ کا برتن ۔ کوئی بزرگ اپنی پگڑی میں برف لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں ۔ ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ۔ غرض بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اپنی استداد کے مطابق ہر کوئی کچھ نا کچھ لئے چلا آ رہا تھا ۔ چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی دیگ ایک رکشہ پر لائی گئی ۔ دیہاتیوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے ۔ چاول کھلانے کے لئے مٹی کی پلیٹیں لے آئے ۔ آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں
ہمدردی کے جذبہ سے سرشار گاؤں کے نیک سیرت سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ اُنہیں خدمت کا موقع ملا ۔ نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ جس کی وہ مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے ۔ کس ذات برادری ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ بس ایک ہی رشتہ تھا ۔ انسانیت کا ۔ پاکستانیت کا اور احسان کا کہ اللہ کا فرمان ہے
اللّہ تعالٰی ان سب کو جزائےعظیم دے ۔ ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے ۔ آمین

اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رُخصت کیا جاتا ہے

االلہ اللہ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے باری تعالٰی کی حمد کے ساتھ میری آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
مجھے اپنے دیہاتی بھائیوں کی ہمدردی اور مہمانداری کا تجربہ ہے ۔ میں جوانی میں سیر و سیاحت کا شوقین تھا ۔ جہاں بھی جاتا بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات کی طرف چلا جاتا ۔ قصبہ یا گاؤں کے اندر سارا سفر پیدل ہی ہوتا تھا ۔ میں نے خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی سیر کی اور پہاڑوں کی بھی ۔ ہر قصبہ ہر گاؤں کے باسیوں کو میں نے مُخلص ہمدرد پایا ۔ اُن کی ایک اور عادت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مُختلف تھی ۔ وہ برملا سیدھی بات کرتے تھے ۔ کسی لفظ یا فقرے پر مٹھاس چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ مجھے یہ طور پسند آیا کیونکہ مجھے بھی آج تک کسی بات پر ملمع چڑھانا نہیں آیا ۔ میں محسوس کرتا رہا کہ وہ بھی میرے انداز سے خوش تھے

ہمارے مُلک سلطنتِ خدا داد پاکستان کے اکثر عوام ہمدرد ۔ دُکھ درد بانٹنے والے ۔ مصیبت میں کام آنے والے ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناسی اور جذبہءِ خدمت و ایثار سے سرشار ہیں

جب میں اپنے مُلک کے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور اچھی مالی حالت والے لوگوں کی زبان سے سُنتا ہوں
”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔
”سب چور ہیں“۔
”سب بے ایمان ہیں“۔
تو میرا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اِن پڑھے لکھے جاہلوں کے ذہنوں میں ہالی وُڈ کی بنی مووی فلموں ۔ ٹی وی ڈراموں اور غیر مُلکی معاندانہ پروپیگنڈہ نے گھر کیا ہوا ہے ۔ یہ نہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں
اللہ ہم سب کو کریم ایسے ہموطنوں کو نیک ھدائت دے

غیب کا عِلم صرف اللہ رکھتا ہے

سورة 11 ھُود آیۃ 49
تِلۡكَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَيۡبِ نُوۡحِيۡهَاۤ اِلَيۡكَ‌ۚ مَا كُنۡتَ تَعۡلَمُهَاۤ اَنۡتَ وَلَا قَوۡمُكَ مِنۡ قَبۡلِ هٰذَا‌ ‌ۛؕ فَاصۡبِرۡ‌ ‌ۛؕ اِنَّ الۡعَاقِبَةَ لِلۡمُتَّقِيۡنَ

اے محمدﷺ ، یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اس سے پہلے نہ تم ان کو جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم ۔ پس صبر کرو ۔ ا نجام کار مُتّقِیوں ہی کے حق میں ہے

تباہی کی طرف تیزی سے سفر

ایک سکیورٹی گارڈ فیصل آباد کے ایک بس ٹرمینل میں ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد بس سروس میں بطور میزبان ملازمت کرنے والی ایک لڑکی کو روکتا ہے ۔ دونوں میں چند لمحوں کے لئے تکرار ہوتی ہے ۔ سکیورٹی گارڈ لڑکی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ لڑکی اپنا ہاتھ چھڑواتی ہے ۔ جواب میں گارڈ اپنی بندوق سے اس پر فائر کرتا ہے ۔ لڑکی گر جاتی ہے ۔ چند ثانیوں کے لئے بے بسی سے تڑپتی ہے اور پھر وہیں سیڑھیوں پر مر جاتی ہے
یہ اٹھارہ سالہ لڑکی جو اپنے گھر کی واحد کفیل تھی ۔ ایک بھرے پُرے بس ٹرمینل پر ہلاک کر دی گئی ۔ قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نوکری کرنے نکلی تھی ۔ مجبور ی یہ تھی وہ باعزت نوکری کرنا چاہتی ۔ نہ جانے کتنی مشکل سے اُس نے یہ معمولی نوکری حاصل کی ہو گی ۔ اُسے کیا معلوم تھا کہ سکیورٹی گارڈ جسے وہ محافظ سمجھتی تھی وہ کس قماش کا آدمی ہے

آج کے دَور میں ہماری ذہنی حالت یہ ہو چُکی ہے کہ اوّل ہم لڑکی کو کسی لحاظ سے قصور وار ٹھہرا دیں گے ۔ اگر یہ نہ کیا تو بھارت (جن کے دھرم میں بھی عورت صرف ایک لونڈی کی حیثیت رکھتی ہے) وہاں کے اعداد و شُمار گِنوا کر اِسے معمولی واقعہ قرار دے دیں گے ۔ یہ بھی نہ کریں تو ہم شور کریں گے ۔ کمپنی والوں کو گالیاں دیں گے ۔ توڑ پھوڑ کریں گے
ٹی وی اور اخبار کا روّیہ تو ہر معاملہ میں یکساں ہے ۔ چند دِن شور بپا ہو گا پھر خبر غائب

بڑے بڑے دانشور ۔ عورت کی ناموس کے نام پر چلنے والی بڑی بڑی تنظیموں کو تو نہ کسی غریب کی بے حُرمتی نظر آتی ہے نہ موت ۔ جب اُنہیں چندے یا مشہوری کی ضرورت ہوتی ہے تو معاملہ خواہ بے نام ہو پکڑ کر واویلہ شروع کر دیتے ہیں ۔ ہاں اگر کوئی عیسائی قانون کی زد میں آ جائے یا کسی حادثہ میں مر جائے تو اُسے مظلوم کہہ کر اپنے سرپرست مُلک کو خوش کرنے یا مالی امداد حاصل کرنے کیلئے طوفان مچا دیں گے

غرضیکہ ہم اب اپنے اسلاف کے قصے کہانیاں سنانے والے مُسلمان بن چکے ہیں ۔ ہم یہ حوالہ بھی دیتے ہیں کہ جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو وہاں کے دانشور مباحث میں مشغول تھے ۔ ہم تاریخ میں بڑے فخر سے پڑھتے ہیں کہ محمد بن قاسم صرف ایک عورت کی فریاد سُن کر دیبل پر حملہ آور ہو گیا ۔ لیکن خود جب کسی غریب پر ظُلم ہوتا دیکھتے ہیں تو تمسخر اُڑانا یا وِڈیو بنانا اپنا فرض سمجھتے ہیں

ایک اور طریقہ بھی ہے کہ ایسی خبر کو نظر انداز کر دیں یعنی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں
ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں مُلک کی بہترین جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والا نوجوان اپنی ماں کی عمر کے برابر خاتون کے بارے میں (جسے چند گھنٹوں کے لئے اغوا کیا گیا تھا) ٹوِیٹ کرتا ہے ”اس عورت کے لئے جنسی تشدّد ہی بہترین علاج ہے“۔
ہم اس معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا پر ایک مخصوص طبقے کے پڑھے لکھے جوان ایک بوڑھی بیمار ماں کی بیماری کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ سفاکانہ طعنے دیتے ہیں اور پھَبتیاں کستے ہیں

یہ درندگی دو دہائیاں پہلے تک تو نہ تھی ۔ جانے کس نے ہمارے معاشرے میں یہ زہرِ قاتل پھیلا دیا اور ہم امرت سمجھ کر پیتے چلے گئے
پھر بھی ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا کلچر بہت خوبصورت ہے ۔ ہم نجانے کس غلط فہمی میں مُبتلاء ہیں ۔ ہمیں بالکل احساس نہیں ہے کہ نفرت اور زہر کے جو بِیج ہم نے اپنے معاشرے میں بو دیئے ہیں اس کے ثمرات ہم نے اور ہماری آئیندہ نسلوں نے سمیٹنے ہیں ۔ ہم تو اُن لوگوں کی اولاد ہیں جن کے پاس کوئی دُشمن بھی پناہ لے لے تو وہ اُس کے محافظ بن جاتے تھے

ہماری اِس بے حِسی کا سبب صرف ایک ہے کہ ہم غور و فکر سے عاری ہو چُکے ہیں ۔ قرآن شریف کی بجائے الیکٹرانک میڈیا (بشمول سوشل میڈیا) ہمارا رہبر بن چُکا ہے ۔ حالانکہ قرآن شریف میں کم از کم 8 بار اللہ نے فرمایا ہے ” تم غور کیوں نہیں کرتے“۔
سورت 6 الانعام آیت 50
سورت 10 یونس آیت 3
سورت 11 ھود آیت 30
سورت 11 ھود آیت 24
سورت 16 النّحل آیت 17
سورت 23 المؤمنون آیت 85
سورت 37 الصّٰفّٰت آیت 155
سورت 45 الجاثیہ آیت 23

سوشل میڈیا اور ہم

آج پوری دنیا کی سیاسی ۔ سماجی اور ثقافتی زندگی سوشل مِیڈیا کے کنٹرول میں ہے جو لوگوں کے جذبات و خیالات کو کنٹرول کرنے اور اُن کے اذہان پر اثر انداز ہونے والا سب سے طاقتور ہتھیار ہے

سُوۡرَةُ 49 الحُجرَات آیة 6 ۔ بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو
(فاسِق صرف غیرمُسلم نہیں ہوتا بلکہ وہ بظاہر مسلمان بھی فاسِق ہے جو بَد اعمال ہو)

سُوۡرَة 17 ُ بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء آیة 6
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا

کسی ایسی چِیز کے پِیچھے نہ لگو ۔جِس کا تُمہیں عِلم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ ، کان اور دِل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے

سُوۡرَةُ 4 النِّسَاء آیۃ 83
وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا

یہ لوگ جہاں کوئی اِطمینان بخش یا خَوفناک خَبَر سُن پاتے ہیں اُسے لے کر پھَیلا دیتے ہیں حالانکہ اگر یہ اُسے رسول ﷺاور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے عِلم میں آجائے جو اِن کے درمیان اِس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اَخَذ کر سکیں ۔ تُم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو (تُمہاری کمزوریاں ایسی تھیں کہ ) معدُودے چَند کے سِوا تُم سب شیطان کے پِیچھے لگ گئے ہوتے

نیز فرمان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ہے ۔ كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع

کسی اِنسان کے جھُوٹا (ایک روایت کے مطابق گناہگار) ہونے کیلئے اِتنا ہی کافی ہے کہ ہر سُنی سنائی بات (بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے ۔ (صحيح مسلم 5)

اِختلاف

سورة 10 یُونس آیۃ 19 ۔ بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَمَا كَانَ النَّاسُ اِلَّاۤ اُمَّةً وَّاحِدَةً فَاخۡتَلَفُوۡا‌ ؕ وَلَوۡلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّكَ لَـقُضِىَ بَيۡنَهُمۡ فِيۡمَا فِيۡهِ يَخۡتَلِفُوۡنَ

ابتداءً سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مُختلف عقِیدے اور مَسلک بنا لئے اور اگر تیرے رَب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جِس چِیز میں وہ باہم اِختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا

الله کا مُسلم ؟

سورة 2 البَقَرَة آیۃ 136
قُوۡلُوۡٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنۡزِلَ اِلَيۡنَا وَمَآ اُنۡزِلَ اِلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَمَآ اُوۡتِىَ مُوۡسٰى وَعِيۡسٰى وَمَآ اُوۡتِىَ النَّبِيُّوۡنَ مِنۡ رَّبِّهِمۡ‌ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيۡنَ اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ وَنَحۡنُ لَهٗ مُسۡلِمُوۡنَ


مسلمانو! کہو کہ”ہم ایمان لائے الله پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور دوسرے تمام پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم الله کے مسلم ہیں“۔

جو بوئے گا سو کاٹے گا

سورة 2 البَقَرَة آیت 110
وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ  ‌ؕ وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ تَجِدُوۡهُ عِنۡدَ اللّٰهِ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏

نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو تم اپنی عاقبت کے لئے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے