پاکستانی معیارات پر انیل مسرت سے زیادہ توجہ طلب آدمی کوئی اور نہیں ہوسکتا ۔ وہ برطانیہ کے 500 امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی تصاویر پاکستانیوں کے ساتھ کم اور ہندوستانیوں کے ساتھ زیادہ ہیں اور نہ جانے کیوں جب بھی ان کی تصویر دیکھتا ہوں تو مجھے منصور اعجاز یادآجاتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان پر جن لوگوں نے ماضی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے، ان میں یہ صاحب سرفہرست ہیں ۔ وہ برطانیہ میں گھر بنانے کا کاروبار کرتے ہیں اور بنیادی طور پر ہزاروں گھر بنانے کا منصوبہ ان کے مشورے پر ہی شروع کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نامزد ہونے کے بعد عمران خان صاحب کے ساتھ یہی انیل مسرت تھے جو سرکاری میٹنگوں تک میں بٹھائے گئے ۔ سوچتا ہوں انیل مسرت جیسا شخص آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کے چہیتے ہوتے اور وہ اس برطانوی شہری کو اسی طرح سرکاری میٹنگوں میں شریک کرواتے تو نہ جانے اب تک پاکستان میں کیا قیامت برپا ہوچکی ہوتی ۔ اب تک غداری کے کتنے فتوے لگ چکے ہوتے اور فرمائشی ٹاک شوز میں محب وطن اینکرز اور تجزیہ نگار ان دونوں کو غدار ثابت کرنے کے لئے اب تک کیا کچھ کر چکے ہوتے لیکن عمران خان کے بارے میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے اور نہ ہوگا ۔ ظاہر ہے ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
زلفی بخاری کا نام بلیک لسٹ سے نکالنا تھا تو خود عمران خان، ایک ٹی وی ٹاک شو میں فرمانے لگے کہ وہ برطانیہ کے شہری ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں ، ان سے پاکستان کا یا پاکستان کے نیب کا کیا لینا دینا ۔لیکن پھرچشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ خاتون اول کو وزیراعظم کی حلف برداری میں بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس لانے کی ذمہ داری اس برطانوی شہری (بقول وزیراعظم) کو تفویض کی گئی ۔ اور تو اور اب اس زلفی بخاری کو وزیرمملکت بنا دیا گیا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے امور یہ برطانوی شہری نمٹائیں گے جنہیں برطانیہ میں عمران خان نیازی کی مہمان نوازی کے سوا نہ سیاست کا کوئی تجربہ ہے اورنہ سفارت کا ۔ حیران ہوں اس غلطی کا ارتکاب آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے اور نیب کو مطلوب اس برطانوی شہری کو وزیرمملکت بنانے کی غلطی ان سے سرزد ہوچکی ہوتی تو کب سے ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھ چکے ہوتے اور نہ جانے عدالتوں کو کتنے جواب دینے پڑتے لیکن عمران خان کی حب الوطنی پر کوئی حرف آیا ہے اور نہ آئے گا۔ ظاہر ہے ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق صرف تزویراتی اور اقتصادی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے محافظین نے اس کو ایک تقدس بھی عطا کردیا ہے ۔ پاکستان میں چین کے ساتھ تعلقات یا لین دین کا تنقیدی جائزہ بھی اس خوف سے نہیں لیاجاسکتا کہ کہیں حب الوطنی مشکوک نہ ہوجائے ۔ سی پیک کے بعد تو چین کے دشمن پاکستان کے بھی دشمن بن گئے ہیں ، اس لئے چین کے حوالے سے کسی بھی طرح کا تنازع کھڑا کرنا قومی مفاد کے خلاف سنگین قدم تصور کیا جاتا ہے ۔ سی پیک کے سودوں اور منصوبوں کے حوالے سے اے این پی اور بی این پی تو کیا پی پی پی کو بھی شدید تحفظات تھے لیکن ہر کوئی اس خوف سے ایک خاص حد سے آگے نہ جا سکا کہ کہیں ملکی مفاد کے منافی کام کرنے کا الزام نہ لگ جائے
تاہم عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی چینیوں کی درخواستوں کے باوجو د وفاقی کابینہ کی سطح پر سی پیک کے منصوبوں کو رِی اَوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا بلکہ اس فیصلے کی میڈیا میں بھی تشہیر کی گئی ۔ چینی وزیرخارجہ اس معاملے پر اپنی تشویش سے آگاہ کرنے کے لئے پاکستان آئے تو خلاف روایت ان کا استقبال ائیرپورٹ پر وزارت خارجہ کے پروٹوکول آفیسر سے کروایا گیا حالانکہ انہی دنوں میں جب سعودی وزیر اطلاعات پاکستان آرہے تھے تو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا اور پھر وہیں سے ان کو رخصت کیا ۔ ابھی چینی وزیرخارجہ اپنے ملک واپس نہیں پہنچے تھے کہ عمران کابینہ کے ایک اہم رکن عبدالرزاق داؤد نے مغربی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے سی پیک پر ایک سال تک کام رکوانے کا شوشہ چھوڑ دیا ۔ چنانچہ چینیوں کی تشویش اور بے چینی اس قدر بڑھ گئی کہ اس کو دور کرنے کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود چین کا دورہ کرنا پڑا جہاں ان کو چینی صدر نے بھی اپنا مہمان بنایا ۔حالانکہ عمران خان کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہمارے سفارتخانے نے پوری کوشش کی تھی کہ چینی صدر ان کو مبارکباد کا فون کرے لیکن ان کی بجائے صرف چینی وزیراعظم کے فون پر اکتفا کیا گیا۔ گویا اب چینیوں کا سارا تکیہ صرف اور صرف پاکستانی فوج پر ہے ۔چینی دوستوں اور سی پیک کے ساتھ یہ واردات اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف کرچکے ہوتے تو نہ جانے کب سے امریکی ایجنٹ ڈکلیئر ہوچکے ہوتے اور شاید ان کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا بھی آغاز ہوچکا ہوتا لیکن عمران خان پاک چین تعلقات اور سی پیک کے ساتھ اس سے بھی بڑا کھلواڑ کردیں، انہیں کوئی امریکی ایجنٹ نہیں کہے گا ۔ ظاہر ہے وہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
ان کی ٹیم کے ایک اہم رکن انتخابی مہم کے دوران امریکہ کے خفیہ دورے پر گئے اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کرکے تسلیاں دیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا لیکن اس کا برا منایا گیا اور نہ چین کے ساتھ حالیہ سلوک کو امریکہ کے ساتھ کسی خفیہ گٹھ جوڑ سے جوڑ ا جائے گا ۔ ظاہر ہے وہ آصف علی زرداری ہیں اور نہ میاں نوازشریف بلکہ وہ لاڈلے وزیراعظم ہیں اور پاکستان میں لاڈلوں کو بہت کچھ کرنے کی اجازت ہوتی ہے
آصف علی زرداری پر بیرون ملک اثاثے رکھنے کا الزام ہے ۔ میاں نوازشریف کے صاحبزادے برطانیہ اور سعودی عرب میں کاروبار کررہے ہیں ۔ ان دونوں پر اس حوالے سے تنقید بالکل جائز تھی اور وہ اگر پاکستان میں سیاست کرتے ہیں تو دونوں سے یہ مطالبہ ہونا چاہیئے کہ وہ اپنے سرمائے اور اولاد کو پاکستان منتقل کردیں ۔ اب ہمارے نئے وزیراعظم کی اولاد جناب گولڈ اسمتھ کے گھر میں مقیم ہے ۔ پہلے تو وہ چھوٹے تھے لیکن اب تو جوان ہوگئے ہیں اور ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کا مستقبل برطانیہ سے وابستہ ہے یا پھر پاکستان آکر اپنے والد کے سیاسی جانشین بنیں گے ۔ کل اگر کسی معاملے پر پاکستان اور برطانیہ کے مفادات باہم متصادم ہوں تو وہ وزیراعظم کیوں کر برطانیہ کے خلاف جاسکیں گے، جن کے بچے وہاں کے بااثر ترین خاندان کے افراد ہوں ۔ اس خاندان کے ساتھ یہ رشتہ کس قدر مضبوط ہے اس کا مظاہرہ ہم لندن کے مئیر کے انتخاب کے موقع پر دیکھ چکے ہیں جب ہمارے موجودہ وزیراعظم نے وہاں پاکستانی محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلائی ۔ ذرا سوچئے اگر آصف علی زرداری یا میاں نوازشریف ، پاکستانی نژاد محمد صادق کے مقابلے میں زیک گولڈ اسمتھ کے لئے انتخابی مہم چلاچکے ہوتے یا پھر اگر ان دونوں کی اولاد وہاں پر ایک عیسائی گھرمیں مقیم ہوتی تو کب کا ہم انہیں ایجنٹ قرار دے چکے ہوتے لیکن عمران خان پر اس حوالے سے کوئی تنقید نہیں ہو رہی۔ ظاہر ہے پہلے ہمارے پسندیدہ لیڈر تھے اور اب پسندیدہ وزیراعظم ہیں
بے نظیر بھٹو کی ہندوستان میں دوستیاں تھیں اور نہ اس سے ان کو کوئی ہمدردی تھی ۔ وہ جو کچھ کررہی تھیں پاکستان کے مفاد میں کررہی تھیں لیکن ہم نے انہیں ہندوستانی ایجنٹ مشہور کروا دیا۔ سارک کانفرنس کے موقع پر صرف کشمیر ہاؤس کے بورڈ کو ہٹائے جانے کا اتنا بڑا قضیہ بنادیا گیا ۔ اسی طرح میاں نوازشریف کے لئے نواسی کی شادی میں نریندرا مودی کی آمد مصیبت بن گئی اور وہ مودی کے یار مشہور کردیئے گئے ۔ عمران خان نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں کسی دوسرے اسلامی یا دوست ملک سے کسی کو مدعو نہیں کیا سوائے انڈین دوستوں کے ۔ اب بغیر کوئی رعایت حاصل کئے مودی کو مذاکرات کی دعوت دے دی اور خود ہی یواین جنرل اسمبلی کے موقع پر ہندوستانی وزیرخارجہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کی ملاقات کی تجویز دے دی ۔ لیکن وہ پھر بھی غازی ، بہادر اور ہندوستان مخالف سمجھے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ ایسے ویسے نہیں بلکہ ہمارے پسندیدہ وزیراعظم جو ہیں
دیکھتے ہیں ہمارے پسندیدہ ، کب تک ہمارے پسندیدہ رہتے ہیں ۔ ظاہر ہے ان کو ممکنہ حد تک ڈھیل دی جائے گی کیونکہ ان کی ناکامی صرف ان کی نہیں بلکہ ان کو لانے والوں کی بھی ناکامی سمجھی جائے گی ۔ ہماری تو دعا ہے کہ وہ پانچ سال تک پسندیدہ ہی رہیں اور کبھی بے نظیر بھٹو یا میاں نوازشریف نہ بنیں ۔اناڑی اور نام کے سہی لیکن بہرحال وزیراعظم تو ہیں
تحریر ۔ سلیم صافی
Category Archives: روز و شب
عوام کے نمائندے بمقابلہ عوام کے نوکر
شہریوں پر گورنر ہاؤس کے دروازے کھلنے سے یہ راز بھی کھل گیا کہ ہم کس قماش و کلاس کے لوگ ہیں۔ غور کریں یہ کاہنے کاچھے نہیں، لاہور اور اہل لاہور جیسے اہم شہر اور شہریوں کی بات ہورہی ہے۔ ہم سیاستدانوں، سرکاری ملازموں کے تو بہت لتے لیتے ہیں۔ آج ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ سیر کیلئے آنے والی فیملیز نے جہاں تک بس چلا گورنر ہائوس ادھیڑ کر رکھ دیا۔ وہی کیا جیساکبھی زندہ دلان منگولیا کے تاتاریوں نے عروس البلاد بغداد کے ساتھ کیا تھا۔ کچے پھل کھونچ کھونچ اور نوچ نوچ کر پھل دار درخت ننگے اور گنجے کردیئے گئے۔ کچ پکی سبزیاں اکھاڑ لی گئیں۔ خوبصورت لان کبڈی کے میدان سے بدتر کردیا گیا۔ گھاس کے ساتھ گھمسان کا رن ڈال کر کشتوں کے پشتے لگا دیئے گئے۔ گھاس کی ہریالی اور کوملتا کو روند کر رکھ دیا گیا۔ بقول شخصے مال غنیمت کی طرح جس کے ہاتھ جو لگا وہ لے اڑا۔ تاریخی شہر لاہور کے تاریخی لوگوں نے دشت تو دشت، دریا بھی نہ چھوڑے اور وہ اس طرح کہ شہری جھیل کے پل پر چڑھ دوڑے جو بیچارہ اتنا بوجھ برداشت نہ کرسکا اور ٹوٹ گیا ۔ حیرت ہے کہ نسل در نسل میلوں ٹھیلوں کا وسیع تجربہ ہونے کے بعد بھی گورنر ہائوس کا میلہ نبھایا نہ گیا کہ میلوں کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔ ہر میلہ ہر کسی کیلئے نہیں ہوتا لیکن یہیں رک جاؤں تو بہتر ہے ورنہ بات بہت دورنکل جائے گی ۔ گورنر ہاؤس کی سیر کرنے والے جا چکے تھے لیکن ان کی نشانیاں دور دور تک بکھری ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ پانی اور جوسز کی خالی بوتلیں اور ڈبے، استعمال شدہ ٹشو پیپرز کی پہاڑیاں، پھلوں کے چھلکے، برگرز، سینڈوچز کی پیکنگ، مختلف رنگوں اور اقسام کے شاپرز، سگریٹوں کے ٹوٹے اور خالی ڈبیاں گورنر ہائوس کا مذاق اڑا رہی تھیں۔
عمران خان کی شدید خواہش ہے کہ پولیس اور دیگر سول سروسز کو سیاسی مداخلت سے پاک، آزاد اور علیحدہ کر دیا جائے۔ مجھے یقین ہے یہ میچ بے حد دلچسپ اور یادگار ہوگا۔یہ ایک ایسا میچ ہوگا جس میں نہ ہار جیت ہوگی نہ یہ ڈرا ہوگا۔ سیاستدان عوام کے نمائندے۔ بیوروکریسی پبلک کی سرونٹ یعنی نوکر۔ ایک طرف عوام کے نمائندے ہوں گے تو دوسری طرف عوام کے نوکر
عوام درمیان میں ہوں گے تو اس بات کا اندازہ آپ خود لگا لیں کہ ان دو پاٹوں کے بیچ آنے والوں کا بنے گا کیا؟ اور اگر دونوں پاٹ یعنی چکی خالی چلائی گئی تو چکی کا کیا حشرہوگا؟
بشکریہ ۔ جنگ اخبار
فرق صرف سوچ کا ہے
فرق صرف سوچ کا ہے
ہر شخص کی 10 فیصد زندگی حقیقی ہوتی ہے ۔ 90 فیصد اُس کی سوچ ہوتی ہے یعنی بجائے اِس کے کہ کہنے والے کی بات کو صاف ذہن کے ساتھ سُنا جائے اگر ذہن میں ہے کہ دوسرا آدمی یہ چاہتا ہے اور وہ بات جو بھی کر رہا ہے اُس کا مطلب یہ ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بات سُننے والا اپنی سوچ کے مطابق سمجھ لیتا ہے وہ کہنے والے نے کہی ہی نہیں ہوتی اور نہ کہنے والے کے وہم و گمان میں ہوتی ہے
چنانچہ اگر سوچ 100 فیصد مَثبَت ہو تو زندگی 100 فیصد حقیقی ہوتی ہے اور دُنیا حسین لگتی ہے بصورتِ دیگر دوسروں میں عیب نظر آتے ہیں اور یہ عیب اپنی سوچ کی وجہ سے ہمیشہ قائم رہتے ہیں
اب سُنیئے ایک شخص کا واقعہ جس نے اُس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیا
میں ایک دن گھر سےکسی کام کیلئے نکلا ۔ ٹیکسی لی اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑا ۔ ٹیکسی شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتی جا رہی تھی کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پَتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک ٹیکسی کے سامنے آ گئی ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے ٹیکسی کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا
بجائے اس کے کہ دوسری گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا لیکن اس نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا
میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ” اُس نے تو تمہاری ٹیکسی کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور تم نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا “۔
ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں یا کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے“۔
میں نے اُس دن سے ایسے لوگوں کے بے جا سلُوک پر کُڑھنا چھوڑ دیا ہے اور میرے دن اب بہتر گذرتے ہیں ۔ یہ مجھ پر اُس ٹیکسی ڈرائیور کا احسان ہے
میری 10 ستمبر 2008ء کی تحریر کچھ ترمیم کے ساتھ
اطاعت کس کی ؟
سورة 4 النِّسآء آیۃ 59
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِيۡـعُوا اللّٰهَ وَاَطِيۡـعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِى الۡاَمۡرِ مِنۡكُمۡۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِىۡ شَىۡءٍ فَرُدُّوۡهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَـوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ وَّاَحۡسَنُ تَاۡوِيۡلًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے
قائد اعظم اور ہم
آج کے دن 70 سال قبل ہماری قوم کے مُحسن اور معمار اِس دارِ فانی کو خيرباد کہہ کر مُلکِ عدم کو روانہ ہوئے ۔ اِس دن کو منانے کا صحيح طريقہ يہ ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کر کے مرحوم کيلئے دُعائے مغفرت کريں اور اُن کے اقوال پر عمل کريں ۔ پچھلے چند سال سے دين اسلام کو دقيانوسی سمجھنے والے ہر طرح سے ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہيں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو اسلامی نہيں بلکہ بے دين رياست بنايا تھا ۔ موجودہ حکومت بھی اپنے پالنہاروں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان ميں تعليم کو بھی بے دين بنانا چاہتے ہيں اور اصل ضروريات کو پسِ پُشت ڈالا ہوا ہے ۔ نيچے قائد اعظم کے ايک پيغام کے کچھ اقتباسات درج کر رہا ہوں جو اُنہوں نے 27 نومبر 1947 کو کراچی ميں منعقد ہونے والی کُل پاکستان تعليمی کانفرنس کو ديا تھا
Under foreign rule for over a century, in the very nature of things, I regret, sufficient attention has not been paid to the education of our people, and if we are to make any real, speedy and substantial progress, we must earnestly tackle this question and bring our educational policy and program on the lines suited to the genius of our people, consonant with our history and culture, and having regard to the modern conditions and vast developments that have taken place all over the world
Education does not merely mean academic education, and even that appears to be of a very poor type. What we have to do is to mobilize our people and build up the character of our future generations. There is immediate and urgent need for training our people in the scientific and technical education in order to build up future economic life, and we should see that our people undertake scientific commerce, trade and particularly, well-planned industries. Also I must emphasize that greater attention should be paid to technical and vocational education.
In short, we have to build up the character of our future generations which means highest sense of honor, integrity, selfless service to the nation, and sense of responsibility, and we have to see that they are fully qualified or equipped to play their part in the various branches of economic life in a manner which will do honor to Pakistan
خلیفہ ثانی کی ذہانت
خلیفہ الثانی عمر ابن الخطاب رضي الله عنه امیرالمؤمنین تھے ۔ خلیفہ احباب مین بیتھے تھے کہ ایک بوڑھی عورت دربار مین حاضر ہوئی اور کہا ” میرے گھر میں کیڑے مکوڑے نہیں ہیں“۔
خلیفہ نے اس عورت سے گھر کا پتہ پوچھا اور یہ کہہ کر رُخصت کر دیا ” تمہاری شکائت دُور کر دی جائے گی“۔
بوڑھی عورت کے جانے کے بعد ہر کوئی حیرت کا پہاڑ بنا ہوا تھا کہ خلیفہ کی آواز گونجی
”امیر بیت المال ۔ اس عورت کے پہنچنے سے قبل اس کا گھر کھجور ۔ شہد اور اناج سے بھر دو“۔
پھر خلیفہ نے فرمایا ” حیرت سے دیکھنے والی آنکھو ۔ سُنو ۔ جس گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو اس میں کیڑے مکوڑوں کا کیا کام ؟
الله کریم ایسے سمجھدار حکمران ہمیں بھی عطا فرمائے ۔ آمین
خرچ
سورة 2 البَقَرَة آیت 215
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ
لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا