Category Archives: روز و شب

قائد اعظم ناکام سیاستدان تھے ؟ ؟ ؟

جمعہ بتاریخ 16 نومبر 2016ء میں ٹی وی پر وزیر اعظم پاکستان کی پریس کانفرنس دیکھ رہا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا

وہ لیڈر ہی نہیں جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا ۔ اُس سے بڑا بے وقوف لیڈر نہیں ہوسکتا ۔ نپولین اور ہٹلر نے یوٹرن نہ لے کر تاریخی شکست کھائی ۔ نواز شریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا ۔ جھوٹ بولا۔

میرے منہ سے نکلا

اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیْمِ
اَستٌغَفَرالُلُه آلُعظّيَم ۆاتٌۆبْ اِلَيهِ

پھر یہ دعا پڑھی

اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظَلَّتْ، وَرَبَّ الأَرَضِينَ وَمَا أَقَلَّتْ، وَرَبَّ الشَّيَاطِينِ وَمَا أَضَلَّتْ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا أَنْ يَفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ أَوْ أَنْ يَبْغِيَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ

الحمدلله ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے لئے قرآن شریف پر مکمل یقین کرنا اور اس میں لکھے الله سُبحانُه؛ و تعالٰی کے ہر فرمان پر عمل کرنے کی کوشش کرنا لازم ہے ۔ قرآن الحکیم میں کئی آیت ایسی نہیں جس سے ہمیں ارادہ یا بیان بدلنے کے حق میں اشارہ مِلتا ہو

حقیقت یہ ہے کہ ہم الله کے فرمان کو بھُول چکے ہیں اور اپنے دُنیاوی لالچ کا پیٹ بھرنے کے لئے نِت نئے بہانے تلاش کرتے ہیں
موجودہ حالات قوم کی بے راہ رَوی کا نتیجہ ہیں جس کی نسبت سب کی توجہ میں قرآن شریف کی صرف 2 آیات کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں ۔ یہ میرے ہموطنوں کے لئے ایک واضح پیغام ہیں

(1) سورت 13 الرعد آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
(2) سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

انجنیئر اور انجن ؟

مجھے 1990ء کی دہائی میں انجنیئرنگ یونیورسٹی طلباء کو خطاب کرنے کا کام سونپا گیا تھا ۔ میری اُس تقریر سے اقتباس

زمانہءِ حال سائنس اور انجنیئرنگ کا دور ہے ۔ اس اعلٰی تعلیمی دور میں ایک غلط فہمی عام پائی جاتی ہے کہ لفظ انجنیئر کو انجن سے اخذ کیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں لفظ انجنیئر اور ingenious (تیز فہم ۔ ذہین) کا مادہ یا مصدر (root) لاطینی (Latin) زبان کا لفظ ingenerare ہے جس کے معنی تخلیق کرنے کے ہیں (to create)
Encyclopedia Britanica کے مطابق
Engineering is the professional art of applying science to the optimum conversion of sources of nature to benefit man
Encyclopedia of Science and Technology کے مطابق
Engineering, most simply is the art of directing the great resources of power in nature for the use and convenience of man
یہ بیانات تجربہ کار صاحبانِ دانش و فراست کے ہیں ۔ ان میں اہم موضوع قدرتی وسائل اور انسان کی منفعت ہیں
قدرتی وسائل اور قابلیت یا طاقت کا خالق کون ہے ؟ اور انسان کی منفعت کے کاموں کا حُکم کس نے دیا ؟
الله نے جو مالک و خالقِ حقیقی ہے اور کُل کائنات کا خالق و مالک بھی
پہلی بار 1785ء میں ایک فرانسیسی معروف سائنسدان Antoine Laurent Lavoisier نے کہا اور سب سائنسدان متفق ہیں کہ انسان مادہ کی نہ تو تخلیق کر سکتا ہے اور نہ مادہ کو فنا کر سکتا ہے البتہ مادہ کو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کر سکتے ہیں
Matter can never be created nor destroyed. It can only be transformed from one form to another
مگر یہ حقیقت الله تعالٰی نے 14 صدیاں قبل قرآن شریف میں بتا دی تھی ۔ میرے مطالعہ کے مطابق اس سے قبل بھی الله کے پیغمبر اسی قسم کی بات کرتے رہے ۔ کچھ صدیاں قبل ایک فلسفی نے بھی یہ دعوٰی کیا تھا کہ ایسی بات تو عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش سے قبل بھی کہی گئی تھی ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ علمِ سائنس نیا نہیں ہے بلکہ اوائلِ انسانیت سے موجود ہے

سائنس یا انجنیئرنگ اور اسلام میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سائنس کے اصولوں میں تجربہ اور مشاہدہ کے ساتھ ترمیم ہوتی رہتی ہے جبکہ قرآن شریف الله کا کلام ہونے کی وجہ سے ابد یعنی جب تک دُنیا ہے اٹَل ہے
انجنیئر بننے کا فیصلہ کرتے وقت طالب علم کو ذہین اور تخلیقی بننے کی خواہش رکھنا چاہیئے تاکہ وہ اپنے علم اور ذہن کو انسانیت کے مفاد میں استعمال کرے

دعویٰ اور عمل

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

ہم اور ہم ہی ہم

ہم حُکمرانوں پر نُکتہ چِینی کرتے ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ سیاستدانوں پر نُکتہ چِینی کرتے ہیں
ہم سرکاری ملازمِین پر بھی نُکتہ چِینی کرتے ہیں
ہم ہر دوسرے آدمی میں غلطیاں نکاتے ہیں
مگر اِنجیل میں لکھے ” تُمہیں دوسرے کی آنکھ کا تِنکا تو نظر آتا ہے لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا “ کے مِصداق اپنے نقائص پر کبھی نظر نہیں ڈالتے
میں آج صرف ایک شاخ کا ذکر کروں گا ”ہمارا کردار سڑک پر“۔
میں اپنی گاڑی میں سوار جب سڑک پر پہنچتا ہوں تو ”روز ہوتا ہے اِک تماشہ میرے آگے“۔

میری کمزور سمجھ لیجئے یا احتیاط یا تربیت کہ میں ڈرائیونگ کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے گاڑی چلاتا ہوں ۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ میں نے ڈرائیونگ 1967ء جرمنی کے شمال مغربی شہر Desseldorf میں ڈرائیونگ باقائدہ طور پر سیکھی ۔ اِس کے بعد میں نے پاکستان میں کبھی کبھی گاڑی چلائی پھر طرابلس (لبیا) میں ساڑھے 6 سال (مئی 1976ء تا جنوری 1983ء) خُوب گاڑی چلائی ۔ اِس کے بعد سے پاکستان میں خُوب گاڑی چلاتا رہا ہوں ۔ جون 1999ء میں نیو جرسی (امریکہ) میں بھی گاڑی چلانے کا موقعہ ملا ۔ گو میں نے دساور کے مقابلہ میں پاکستان میں کافی زیادہ عرصہ گاڑی چلائی ہے لیکن میں اپنے آپ کو وطنی ٹریفک کے مطابق نہیں ڈھال سکا

سڑک پر جو کچھ میں روزانہ دیکھتا ہوں اُس کا خُلاصہ یہ ہے ۔ میں بات ٹیکسی ڈرائیوروں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے خواتین و حضرات کی کر رہا ہوں جو بہترین لباس میں ملبوس قیمتی گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں

جب گاڑیاں زیادہ ہوں تو زیادہ ترلوگوں میں سے ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ آگے نکل جائے لیکن جب گاڑیاں کم ہو جائیں تو وہی ڈرائیور ایسے گاڑیاں چلا رہے ہوتے ہیں جیسے اُن کے پاس بہت وقت ہے جسے گزارنا ہے ۔ اگر پھر گاڑیاں زیادہ ہو جائیں تو وہ مزے مزے سے جانے والے خواتین وحضرات جوش میں آ کر پہلے کی طرح دوڑیں لگانے لگتے ہیں ۔ عام طور میں دیکھا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں بھگانے والے منزلِ مقصودپر مجھ سے بعد ہی پہنچتے ہیں

کئی خواتین و حضرات مڑنے کے لئے اشارہ دینا ضروری خیال نہیں کرتے ۔ اِس پر طُرّہ یہ کہ آپ کے داہنی طرف ہوتے ہوئے آپ کے آگے سے گزر کر بائیں جانب مڑ جاتے ہیں یا بائیں طرف ہوتے ہوئے آپ کے آگے سے گزر کر داہنی طرف مڑ جاتے ہیں ۔ یہ عمل بالخصوص چوراہے (چوک یا چورنگی) پر دیکھنے میں آتا ہے جب کوئی صاحب یا صاحبہ اچانک بائیں طرف آخری قطار میں ہوتے ہیں 3 یا 4 قطاروں کے آگے سے گزرتے ہوئے داہنی طرف چلے جاتے ہیں ۔ یا اِس کا اُلٹ

بلا وجہ ہارن بجاتے رہنے کی عادت اکثر خواتین و حضرات میں پائی جاتی ہے خاص کر جب آگے کوئی گاڑی جا رہی ہو اور آگے والی گاڑی کے لئے ہان بجانے والی گاڑی کو راستہ دینا ممکن نہ ہو
اچھوتا واقعہ جو میرے ساتھ 2 بار پیش آ چکا ہے ۔ میں سڑک کی بالکل بائیں طرف آہستہ کار چلا رہا ہوں کیونکہ مجھے بائیں طرف مُڑنا ہے اورموڑ قریب ہے ۔ بائیں طرف مڑنے کا اشارہ ٹم ٹما رہا ہے ۔ مجھے پیچھے سے متواتر ہارن کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرے داہنی طرف کافی پیچھے تک کوئی گاڑی نہیں ہے چنانچہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہارن کیوں بجایا جا رہا ہے ؟ پھر اچانک پیچھے والی کار میری داہنی طرف سے گزر کر سیدھی چلی جاتی ہے ۔ کار چلانے والی محترمہ میری داہنی طرف سے گزرتے ہوئے مجھے مکا دکھا جاتی ہیں ۔ اِس راز کا عُقدہ آج تک مُجھ پر افشاء نہیں ہوا
اِسی طرح ایک بار میں نے داہنی طرف مڑنا تھا ۔ موڑ قریب آنے پر میں نے داہنی طرف کا اشارہ on کر دیا پھر دیکھا کہ داہنی lane میں کافی پیچھے تک کوئی گاڑی نہیں تو داہنی lane میں چلاگیا ۔ 40 یا 45 سیکنڈ بعد پیچھے سے تیز آواز والے ہارن کی متواتر آواز شروع ہوئی ۔ پھر وہ گاڑی بڑی تیزی سے میری بائیں طرف سے ہوتی ہوئی اچانک میرے سامنے آکر کچھ دُور رُک گئی ۔ کار نئی بی ایم ڈبلیو تھی ۔ اسے چلانے والا قیمتی پوشاک میں ملبوس بڑی تیزی سے نکل کر میری طرف لپکا ۔ میں کار سے نکلنے ہی والا تھا کہ میرے پیچھے ایک High Bed Double Cab گاڑی آ کر رُکی اور اُس کا ڈرائیور بی ایم ڈبلیو والے کی سی تیزی سے باہر نکلا اور میری بائیں طرف سے گزرتے ہوئے مجھے رُکنے کا اشارہ کرتے ہوئے بی ایم ڈبلیو کے ڈرائیور کے قریب پہنچا اور بڑے رُعب سے اُسے گاڑی میں بیٹھ کر چلنے جانے کا اشارہ کیا ۔ جس پر بی ایم ڈبلیو والاچلا گیا ۔ کہا کیا میں نہیں سُن سکا ۔ بی ایم ڈبلیو والے نے شاید سمجھا تھا کہ میں کوئی بڑا افسر ہوں اور Double Cab میں Security Force ہے
اس طرح اللہ کریم نے مجھے بچا دیا ورنہ بی ایم ڈبلیو والا اپنی دولت کے نشہ میں ناجانے میری کیسی دُرگت بناتا

کئی ڈرائیور زبردستی اپنے بائیں یا داہنی طرف والی گاڑی کے آگے گھُس جاتے ہیں ۔ اور اُس بے چارے کو تیزی سے brake لگا کر اپنی گاڑی روکنا پڑتی ہے ۔ اسی طر ح ایک بار ایک صاحب نے بغیر اشارہ دیئے اچانک میرے سامنے زبردستی گھُستے ہوئے میری کار کی بائیں Head Light کی بائیں جانب dent ڈال دیا اور اشارہ والی لائیٹ توڑ دی ۔ اتفاق سے چند منٹ بعد ہم دونوں ایک ہی جگہ رُک گئے ۔ بجائے اس کے کہ میں اُن صاحب سے شکائت کرتا اُلٹا وہ مجھ پر برس پڑے اور فرمایا ” آپ کو ڈرائیونگ نہیں آتی ۔ آپ کی timing غلط ہے“ اور پتہ نہیں کیا کچھ کہا ۔ لب و لہجہ مکمل کراچی والا تھا ۔ منہ سے پان کا تھوک بھی اُچھل رہا تھا
اُن کے چُپ ہونے پر میں نے کہا“ محترم ۔ میں فون کر کے ٹریفک سارجنٹ کو بلاتا ہوں ۔ وہ بتائے گا کہ کون غلطی پر تھا ۔ اس پر وہ کار بھگا کرچلے گئے جس سے معلوم ہوا کہ وہ مجھ پر غصہ نکالنے کے لئے رُکے تھے

یہودی لڑکا ”جاد“ سے کیسے ”جاد اللہ قرآنی“ بنا؟

یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو ”انکل ابراہیم“ کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ ۔ آئسکریم ۔ گولیاں اور ٹافیاں دستیاب تھیں

اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک 7 سالہ بچہ جاد تقریباً روزانہ انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولتا ۔ ایک دب دکان سے جاتے ہوئے جاد چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا
انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا ” جاد ۔ آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا ؟ “
انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا
جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا ” آپ اگر مجھے معاف کر دیں تو آئیندہ میں کبھی چوری نہیں کروں گا “۔

انکل ابراہیم نے جاد سے کہا ” اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا ۔ ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا “۔
اس بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا

وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا ۔ انکل ابراہیم میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے ”کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو“۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے 2 صفحے پڑھتے اور جاد کو مسئلے کا حل بتاتے ۔ جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر چلا جاتا

اس طرح 17 سال گزر گئے۔ 17 سال کے بعد جب جاد 24 سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابراہیم 67 سال کے ہوچکے تھے ۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے ۔ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی ۔ اُن کی وصیت تھی کہ اُن کے مرنے کے بعد صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے ۔ جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا کیونکہ انکل ابراہیم ہی اسکے غمگسار اور مُونس تھے۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا ۔ انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر جاد دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا ” آج انکل ہوتے تو وہ کتاب کھول کر 2 صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا”۔ جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسو نکل آئے ۔ ”کیوں نا آج میں خود کوشش کروں“۔ کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا ۔ لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ وہ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا ”مجھے یہ 2 صفحے پڑھ کر سناؤ“۔ پھر مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا ”یہ کیسی کتاب ہے ؟”
تیونسی نے کہا ” یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے“۔
جاد نے پوچھا ”مسلمان کیسے بنتے ہیں ؟“
تیونسی نے کہا ”کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں“۔
جاد نے کہا ” تو پھر سُن لو میں کہہ رہا ہوں

أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله و أَشْهَدُ اَنَّ محمد رسول الله“۔

جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے ”جاد اللہ القرآنی“ کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھُلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔ دین کو سمجھا اور دین کی تبلیغ شروع کی ۔ یورپ میں اس کے ہاتھ پر 6 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی

ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ

جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اسی کیلئے وصیت ہو۔ جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی اور یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا ۔ سوڈان ۔ یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا ۔ دعوتِ حق کیلئے ہر مشکل اور پُرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور الله تعالٰی نے اس کے ہاتھوں 60 لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا ۔ جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے 30 سال گزار دیئے۔ 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھِر کر 54 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملا

جاد اللہ کی محنت کے ثمرات اس کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک 2 سال بعد اس کی ماں نے 70 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔ جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتا تھا کہ انکل ابراہیم نے اس کے 17 سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کئے بغیر چارہ نہ تھا

آپ کے سامنے اس واقعے کے بیان کرنے کا فقط اتنا مقصد ہے کہ کیا مجھ سمیت ہم میں سے کسی مسلمان کا اخلاق و عادات و اطوار و کردار ”انکل ابراہیم“ جیسا ہے کہ کوئی غیر مسلم ”جاد“ ہم سے متاثر ہو کر ”جاداللہ القرآنی“ بن کر ہمارے مذہب اسلام کی اس عمدہ طریقے سے خدمت کر سکے

الله تعالٰی مجھ گناہ گار سمیت سب مسلمانان عالم پر رحم فرمائے اور عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے

غیر کا مال اور رشوت

سورة 2 البَقَرَة آیت 188
وَلَا تَاۡكُلُوۡٓا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ وَتُدۡلُوۡا بِهَآ اِلَى الۡحُـکَّامِ لِتَاۡکُلُوۡا فَرِيۡقًا مِّنۡ اَمۡوَالِ النَّاسِ بِالۡاِثۡمِ وَاَنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ

اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ‏

مخدوش معیشت اور خود غرض حکمران ۔ صرف ایک مثال

کسٹمز حکام چھاپوں میں دو درجن سے زائد قیمتی گاڑیاں ساتھ لے گئے جو راولپنڈی میں سیف الرحمٰن کی ملکیت REDCO Textile Mills کے احاطے میں پارک تھیں۔ یہ گاڑیاں قطری شہزادے حماد الثانی اور ان کے خاندان کی ملکیت تھیں ۔ حُکام نے یہ جانتے ہوئے کہ شہزادے نے کوئی قانون نہیں توڑا اُس کی ملکیت پر چھاپہ مار کر اسے ٹارگٹ کیا ۔ قطری شہزادے کے قریبی ذریعے نے بتایا کہ پاکستانی حکام کے ایکشن سے یہ خبر شہ سرخیوں میں آئی جو انتہائی بدقسمی ہے ۔
مُلک میں مسلسل Political witch hunting کا قطری شہزادہ بھی نشانہ بنا ۔ کسٹمز حکام کی غیر قانونی کاروائی کی وجہ سے قطری شہزادہ پاکستان سے اپنی سرمایہ کاری واپس نکالنے کےبارے میں سوچ رہا ہے۔
یہ ثابت ہو چکا ہے کہ قطری شہزادے نے تمام رولز پر عمل کیا تھا اور پاکستان میں سالانہ hunting season کیلئے یہ گاڑیاں امپورٹ کی تھیں ۔ یہ گاڑیاں ڈیوٹی سے مستثنٰی تھیں کیونکہ حکومت پاکستان SRO کے تحت یہ سہولت فراہم کرتی ہے ۔ بہت سے سعودیوں اور کویتیوں کی طرح جنہوں نے اپنی گاڑیاں clearance کے بعد پاکستان میں پارک کر رکھی ہیں پرنس حماد بن جاسم الثانی نے بھی یہ گاڑیاں پارک کر رکھی تھیں

پرنس حماد بن جاسم الثانی جو قطر کے سابق وزیراعظم اور اہم Regional player ہیں پاکستان کے دوست ہیں ۔ وہ کراچی پورٹ قاسم پاور پروجیکٹ کیلئے ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان لائے ۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست پر پاکستان میں پاور پلانٹ لگایا جو 3 سال میں بنا اور اب بجلی پیدا کر رہا ہے ۔ انہوں نے آئل ریفائنری ۔ گیس پائپ لائن اور ایک اور پاور پروجیکٹ میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کیلئے MOU پر دستخط کئے

سیف الرحمٰن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ ان کی فیکٹری پر چھاپہ مارا گیا اور حکام نے وہاں سے گاڑیاں قبضے میں لیں۔ انہوں نے کہا کہ منسٹری آف فارن افیئرز نے ان کاروں کی اپروول جاری کی تھی اور یہ کاریں میری پراپرٹی میں اس لئے پارک تھیں کہ یہاں جگہ دستیاب تھی۔ میرے منیجر نے حکام کو بتایا کہ اس کے پاس ان گاڑیوں کی چابیاں نہیں ہیں کیونکہ ان کی چابیاں قطری سفارت خانے کے پاس ہیں لیکن وہ ان گاڑیوں کو ٹو کر کے وہاں سے لے گئے اور انتظار نہیں کیا۔ یہ کاریں سال میں صرف ایک مرتبہ شکار کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکام نے میرے منیجر کو گرفتار کرلیا اور ان کی بات سنے بغیر اپنے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھیانک تجربہ تھا۔ سابق سینیٹرنے کہا کہ میرے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے جو سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں ہے اور یہ صورت حال حکومت کی موجودہ پریشانی کو ظاہر کرتی ہے۔ جو یہ نہیں جانتی کہ کیا کرنا ہے اور کیسے آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ اپنے پاگل پن کے اقدامات کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

تفصیل پڑھنے کیلئے یہاں کلِک کیجئے