إِنَّ الله لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (سورت13الرعدآیت11) ترجمہ ۔ الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ۔ ۔ ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (سورت 53 النّجم آیت 39) ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ ۔ ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ۔ ۔ ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے ۔ ۔ ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی
ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا
تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے
To see the informative video, click on the above image
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے
ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988ء میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا
بے غيرتی يہاں تک پہنچی کہ ملاقات يا مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان کے وقت کے حاکموں راجيو گاندھی اور بينظير بھٹو نے مشتکہ پريس کانفرنو کی جس ميں ايک صحافی نے جموں کشمير کے بارے ميں سوال کيا ۔ راجيو گاندھی نے اُسے غصہ ميں ڈانتتے ہوئے کہا “جموں کشمير بھارت کا اٹُوٹ اَنگ ہے”۔ اور بينظير بھٹو دوسری طرف منہ کر کے ہنستی رہيں
اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے حکمرانوں نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی
بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رَسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہلِ دل کے لئے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بنے ہیں اہل ہوَس مُدعی بھی مُنصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے مُنصفی چاہیں
بِچھا جو روزن زِنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رُخ پر بِکھر گئی ہوگی
یوں ہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظُلم سے خَلَق
نہ ان کی رسم نئی ہے ۔ نہ اپنی رِیت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھِلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے ۔ نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تُجھ سے عہدِ وفا اِستوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
بہت سے میاں بیوی ذرا سی لچک یا نرمی نہ دکھانے کی وجہ سے اپنا بُرا حال بنا لیتے ہیں ہمیں اپنے ساتھی کو اپنی توسیع نہیں سمجھنا چاہیئے ۔ اُس کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے اور اپنی پسند یا ناپسند ہوتی ہے ۔ ہمایں باہمی حقوق کو تسلیم کرنا چاہیئے جب تک کہ اس کا دین پر بُرا اثر نہ پڑے ۔ انفرادی معاملات میں اپنی اکڑ قائم رکھےا اور ساتھی کا لحاط نہ رکھے سے گھر کا ماحول بہت کشیدہ اور ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے
خوشگوار زندگی کا اہم جُزو یہ ہے کہ ازواج ایک دوسرے کی بات کو درگزر کریں ۔ بُغزنہ رکھیں ۔ ناقد نہ بنیں
باہمی تعلقات اور اکٹھے رہنے کے دوران بعض اوقات ایسا موقع آ جاتا ہے جب آدمی کوئی ایس بات یا حرکت کر بیٹھتا ہے جو اُس کے ساتھی کےلئے تکلیف دہ ہو ۔ اس کو پکڑ کر نہیں بیٹھ جانا چاہیئے اور نہ دوسرے کو قصور وار ٹھہرانا چاہیئے بلکہ اے بھُلا دینا چاہیئے
یہ اُسی صورت ممکن ہے کہ ہم غرور میں آ کر دوسرے معافی مانگنے کا نہ کہیں اور خود ہمیں معاف کر دینے میں بُخل نہیں کرنا چاہیئے
رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا ” کیا تم چاہتے ہو کہ الله تمہیں معاف کر دے ؟“
اُنہون نے کہا ” ضرور یا رسول الله“۔
حضور صلی الله عليه وآله وسلم نے فرمایا ” پھر ایک دوسرے کو معاف کر دیا کرو“۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ الله ہمیں معاف کر دے تو ہمیں دوسروں کو معاف کرنا سیکھنا چاہیئے
اگر ہم اپنے ساتھ سے ذکر کرتے رہیں کہ کتنی بار اُس نے ہمیں شرمندہ کیا ہے یا تکلیف دی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے معاف یا درگزر نہیں کیا
جو بات ماضی میں ہوئی اُسے ماضی ہی میں رہنے دینا چاہیئے اور اُس کی یاد نہیں کرنا چاہیئے ۔ یہ طریقہ نہ چھوڑنے والا خود ہی کم مائیگی یا کمینگی کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس کا ذہن آزاد نہیں ہو پاتا
شادی کا سب سے اہم وصف باہمی اعتبار یا یقین ہے جو شادی کے بندھن کو مضبوط بناتا ہے
اسلام دوسرے مذاہب کیطرح ہفتہ وار عبادت سے منسلک مذہب نہیں ہے ۔ اسلام لائحہءِ حیات ہے جو ہر انسانی عمل پر محیط ہے
باہمی اظہارِ خیال ازواج میں ہم آہنگی پیرا کرتا ہے اور یقین باہمی محبت میں اہم کردار ادا کرتا ہے
رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم کی حدیث ہے ”اگر خاوند اپنی بیوی کے منہ میں ایک نوالہ بھی ڈالتا ہے تو اس کا اجر اُسے ملتا ہے اور اللہ اُن میں محبت بڑھا دیتا ہے
اگر میاں بیوی صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے آپس میں پیار کرتے ہیں تو ہم اپنا ایمان بڑھا رہے ہوتے ہیں
اللہ نے نہیں کہا کہ
دن بغیر تکلیف کے ہوگے
خوشی بغیر غم کے ہو گی
دھوپ بغیر بارش کے ہو گی
لیکن وعدہ کیا ہے کہ
دن گزارنے کے لئے طاقت ہو گی
آنسوؤں کے بعد سکون ہو گا
اور راستہ دکھانے کے لئے روشنی ہو گی
مندرجہ ذیل سطر کو غور سے پڑھیئے
اگر اللہ آپ کو کہیں پہنچائے گا تو واپس بھی لائے گا