Category Archives: روز و شب

آج کے مسلمان کی حالت

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب
بد ن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلمانوں کا جامہء احرام

کیا ہم انسان بننا چاہتے ہیں ؟

پچاس سال پہلے اگر کوئی دوست یا ساتھی تنگ کرتا تو “انسان بنو بھئی” کہنے سے وہ رک جاتا ۔ اگر کوئی بچہ تنگ کرتا تو
انسان بنو یا انسان کا بچہ بنو” کہنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا ۔ آجکل کے زمانہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ ”

تجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار ۔ تو ثابت وہ سیّا رہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ اقبال

تبدیلی تبدیلی تبدیلی

خود بدلتے نہیں ۔ سب کچھ بدل دیتے ہیں
میرے اہل وطن یہ کیا چارہ گری کرتے ہیں

تبدیلی تبدیلی تبدیلی
پچھلی آدھی صدی سے یہ گردان سنتا چلا آ رہا ہوں
نتیجہ
جتنی تبدیلی لائی گئی ہے اتنا ہی ملک اور قوم کا نقصان ہوا
وجہ
تبدیلی اس لئے لائی گئی کہ تبدیلی لانا تھی
تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں لا لا کر تعلیم کو بے مقصد بنا دیا گیا ہے
حکومتیں تبدیل کر کر کے ملک کو وحشیوں بھرا جنگل بنا دیا گیا ہے
آئین میں تبدیلیاں کرتے کرتے ملک بے آئین ہو کے رہ گیا ہے
آجکل تو تبدیلی نہیں تبدیلیوں پر زور ہے اور آئین کو ایک بے کار کتاب کی طرح بالائے طاق رکھ چھوڑا ہے
اللہ رحم کرے اس ملک پر اور ہم عوام پر

ترقّی چاہیئے تو ترقّی تبدیلی سے نہیں ہوتی بلکہ ترقّی از خود تبدیلی لاتی ہے
اگر کچھ کرنا ہی ہے ترقّی کی کوشش کیجئے ۔ تبدیلیاں خود بخود آئیں گی اور ترقّی کے نتیجہ میں آنے والی تبدیلیاں صحتمند اور خوشگوار ہوں گی
مگر ترقّی کے لئے بے غرض محنت کی ضرورت ہے

انسان اور کتا

شیخ سعدی نے گلستان سعدی لکھی یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتاب میں نے جب پہلی بار پڑھی تو میں آٹھویں جماعت میں تھا۔
اس وقت مجھے وہ بچوں کی کہانیاں لگیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کہانیاں بھی آگے چلتی گئیں اور میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ کہانیاں ہر عمر کے لئے ہیں اور ان کو پڑھ کر آدمی انسان بن سکتا ہے

آپ فالحال مندرجہ دو کہانیاں پڑھیئے

ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا۔ درویش کے پاس اس کا کتا بیٹھا تھا
بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا ” آپ اچھے ہیں یا آپ کا کتا ؟ “۔
درویش نے جواب دیا ” یہ کتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کتا مجھ سے اچھا ہے “۔

ایک آدمی کو کتے نے کاٹ لیا۔ درد سے اس کے آنسو نکل آئے
اس کی کمسن بچی اسے کہنے لگی ” بابا روتے کیوں ہو۔ کتا آپ سے بڑا تو نہیں ہے۔ آپ بھی اس کو کاٹ لیں”۔
آدمی نے کہا ” بیٹی ٹھیک ہے کہ کتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں اور انسان کتے کو نہیں کاٹتا “۔

16 مارچ 2011ء جب انصاف کا جنازہ نکلا

امریکی ایجنٹ Raymond Devis نے حال ہی میں شائع ہونے والی سنسنی خیز آپ بیتی ” The Contractor“ میں اپنی گرفتاری، مختلف اداروں کی جانب سے تفتیش، مقدمے، اور بالآخر رہائی کا ذکر کیا ہے۔ اس دوران سب سے ڈرامائی دن مقدمے کا آخری دن تھا جب لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قائم کردہ خصوصی سیشن کورٹ میں ریمنڈ ڈیوس پر قتل کی فردِ جرم عائد ہونا تھی۔ ڈیوس لکھتا ہے کہ اُسے گزشتہ رات نیند نہیں آئی تھی

عدالت میں پنجرہ
اُس دن عدالت میں غیر معمولی بھیڑ تھی ۔ عدالت میں ریمنڈ ڈیوس کو فولادی پنجرے میں بند کر کے جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہ لکھتا ہے ”مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کا مقصد مجھے لوگوں سے بچانا ہے یا پھر لوگوں کو مجھ سے محفوظ رکھنا“۔ اس دوران وہاں موجود لوگوں کے رویئے سے اُسے لگا جیسے وہ سبھی لوگ جج کی جانب سے اس کے قصوروار ہونے کا فیصلہ سنائے جانے کے منتظر ہیں تاکہ اس کے بعد وہ اُسے گھسیٹ کر کسی قریبی درخت سے لٹکا کر پھانسی دے دیں
ڈیوس کو عدالت میں ایک حیران کُن بات یہ نظر آئی کہ اس دن وکیلِ استغاثہ اسد منظور بٹ غیر حاضر تھے جنھوں نے اس سے قبل خاصی سخت جرح کر رکھی تھی اور ان کا دعویٰ تھا کہ ڈیوس نے فیضان حیدر کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا
بعد میں منظور بٹ نے بتایا کہ جب وہ اس صبح عدالت پہنچے تو انہیں پکڑ کر کئی گھنٹوں تک قید رکھا گیا اور کارروائی سے دُور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے موکلین (clients) سے بھی ملنے نہیں دیا گیا
کتاب کے مطابق یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار کر گیا کہ 23 فروری 2011ء کو پاکستانی اور امریکی فوج کے سربراہان جنرل کیانی اور ایڈمرل مائیک ملن کے درمیان عمان میں ایک ٹاپ سیکرٹ ملاقات ہوئی جس کا بڑا حصہ اس بات پر غور کرتے ہوئے صرف ہوا کہ پاکستان عدالتی نظام کے اندر سے کیسے کوئی راستہ نکالا جائے کہ کسی نہ کسی طرح ڈیوس کی گلو خلاصی ہو جائے

موبائل فون پر مسلسل رابطہ
16 مارچ 2011ء کی دوپہر کو جب عدالت کی کارروائی شروع ہوئی تو جج نے صحافیوں سمیت تمام غیرمتعلقہ لوگوں کو باہر نکال دیا۔ لیکن ایک شخص جو کارروائی کے دوران کمرۂ عدالت میں موجود رہے اور وہ تھے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل شجاع پاشا ۔ اُس وقت ڈیوس کو معلوم نہیں تھا لیکن اس دوران پسِ پردہ خاصی سرگرمیاں ہو رہی تھیں۔ ان سرگرمیوں کے روحِ رواں جنرل پاشا تھے جو ایک طرف امریکی سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا سے ملاقاتیں کر رہے تھے تو دوسری جانب اسلام آباد میں امریکی سفیر کیمرون منٹر سے رابطے میں تھے
ڈیوس لکھتا ہے کہ عدالت کی کارروائی کے دوران جنرل صاحب مسلسل کیمرون منٹر کو لمحہ بہ لمحہ کارروائی کی خبریں موبائل فون پر میسج کر کے بھیج رہے تھے

شرعی عدالت
عدالتی کارروائی چونکہ اُردو میں ہو رہی تھی ۔ ڈیوس کو پتہ نہیں چلا لیکن درمیان میں لوگوں کے ردِ عمل سے پتہ چلا کہ کوئی بڑی بات ہو گئی ہے۔ ڈیوس کے ایک امریکی ساتھی پال وکیلوں کا پرا توڑ کر پنجرے کے قریب آئی اور کہا کہ جج نے عدالت کو شرعی عدالت میں تبدیل کر دیا ہے
”یہ کیا کہہ رہی ہو؟ میری کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا “ ڈیوس نے حواس باختہ ہو کر اُسے کہا
کتاب کے مطابق مقدمے کو شرعی بنیادوں پر ختم کرنے کے فیصلے کے منصوبہ سازوں میں جنرل پاشا اور کیمرون منٹر شامل تھے۔ پاکستانی فوج بھی اس سے آگاہ تھی
ڈیوس لکھتا ہے کہ جنرل پاشا کو صرف 2 دن بعد یعنی 18 مارچ کو ریٹائر ہو جانا تھا اس لئے وہ سرتوڑ کوشش کر رہے تھے کہ یہ معاملہ کسی طرح نمٹ جائے۔ اور جب یہ معاملہ نمٹا تو ان کی مدتِ ملازمت میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی اور مارچ 2011ء کی بجائے مارچ 2012ء میں ریٹائر ہوئے
کتاب کے مطابق یہ جنرل پاشا ہی تھے جنہوں نے سخت گیر وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ کو مقدمے سے الگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو یہ مقدمہ مفت لڑ رہے تھے

گن پوائنٹ پر
ریمنڈ ڈیوس لکھتا ہے کہ جب دِیّت کے تحت معاملہ نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا تو اس میں ایک اڑچن یہ آ گئی کہ مقتولین کے عزیزوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا چنانچہ 14 مارچ 2011ء کو آئی ایس آئی کے اہلکار حرکت میں آئے اور اُنہوں نے تمام 18 عزیزوں کو کوٹ لکھپت جیل میں بند کر دیا ۔ اُن کے گھروں کو تالے لگا دیئے گئے اور اُن سے موبائل فون بھی لے لئے گئے
کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جیل میں لواحقین کے سامنے 2 راستے رکھے گئے ۔ وہ ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کا خون بہا قبول کریں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب میں لکھا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں
یہ لواحقین ایک ایک کر کے خاموشی سے جج کے سامنے پیش ہوتے، اپنا شناختی کارڈ دکھاتے اور رقم کی رسید لیتے رہے۔
یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ یہ رقم کس نے دی؟ کیونکہ اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن نے اس بات سے صاف انکار کیا تھا کہ یہ خون بہا امریکہ نے ادا کیا ہے۔ تاہم بعد میں خبریں آئیں کہ رقم آئی ایس آئی نے دی اور اس کا بل امریکہ کو پیش کر دیا۔
جونہی یہ کارروائی مکمل ہوئی، ریمنڈ ڈیوس کو ایک عقبی دروازے سے نکال کر سیدھا لاہور کے ہوائی اڈے پہنچایا گیا جہاں ایک سَیسنا طیارہ رن وے پر اُس کا انتظار کر رہا تھا

اور یوں پاکستان کی عدالتی، سفارتی اور سیاسی تاریخ کا یہ عجیب و غریب باب بند ہوا

بشکریہ ۔ بی بی سی اردو

ازدواج کی پہلی ضرورت ۔ دوستی

دوستی کی بناء پر استوار ہونے والا تعلق دیر پا ہوتا ہے جو زمانے کے حوادث کی برداشت رکھتا ہے ۔ ہم اختلاف کے باوجود اپنے دوستوں پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ اُن کا احترام کرتے ہیں اور اُن کا خیال رکھتے ہیں ۔ حقیقتاً یہ اطوار ازدواج کی بنیادی ضرورت ہیں لیکن ازدواج کو ساتھی کی حیثیت میں رکھا جاتا ہے جس میں متذکرہ بالا خواص ہونا ضروری نہیں ۔ ساتھی سکول کا یا سفر کا یا کاروبار کا بھی ہوتا ہے ۔ ساتھی کے ساتھ تلخی بھی پیدا ہو سکتی ہے ۔ بیوی کو ساتھی سمجھنا ایک عمومی غلطی ہے جو ازدواج میں تلخی پیدا کرتی ہے

اسلام نے خاوند کو رہنما کا کردار عطا کیا ہے ۔ رہنما کا کردار غور و فکر کا متقاضی ہے لیکن غلط فہمی کی بناء پر حاکم سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ یہ کردار ایک گڈریئے سے متشابہ ہے جو بھیڑوں کو چراتا ہے اور ان کی ہر لحاظ سے حفاظت بھی کرتا ہے اور اُنہیں ہر قسم کی تکلیف سے بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ خاوند کی حیثیت ایک انہائی ذمہ دار شخص کی ہے ۔ والدین کی ہم آہنگی اُن کی اولاد کی ایک اہم ضرورت ہے جو اُن کے کردار کو صحتمند طور سے پروان چڑھاتی ہے

مذاق میں گناہ

ٹی وی چینلز کھُمبیوں کی طرح اُبھرے اور جنگلی گھاس کی طرح پھیل گئے ۔ بازی جیتنے کی دوڑ میں خبر ساز ۔ ملمع ساز اور جُگت باز ماہرین بھرتی کئے گئے ۔ اتنے سارے کھیل تماشے یکدم شروع ہوئے تو حضرتِ انسان ان میں کھو کر رہ گیا ۔ اُس کا احساس جاتا رہا کہ جسے وہ جبِلّت یا حظِ مزاح سمجھ رہا ہے وہ انسانی اقدار کی تضحیک ہے ۔ پھر مرغوبیت اتنی بڑھی کہ اس فعل کا دہرانا اپنے ذمہ لے لیا ۔ چنانچہ ٹی وی کے پھیلائے یہ جراثیم پہلے فیس بُک پر پہنچ کر عام ہوئے ۔ پھر واٹس اَیپ اور دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ پر دہرائے جانے لگے ۔ ۔ ۔ پھر بجائے اس کے کہ درست رہنمائی کی جائے آفرین و مرحبا کے ڈونگرے برسائے جانے لگے یا پھر تُرکی بہ تُرکی دوسری انتہاء اختیار کی گئی
کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندوں اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو ۔ کم از کم قرآن شریف میں اللہ کے واضح طور پر لکھے احکامات کی خلاف ورزی تو نہ کرو
سورت 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو ۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
سورت 49 ۔ الحجرات۔ آیت 11 ۔ اے ایمان والو ۔ مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔ ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو بُرے لقب دو ۔ ایمان کے بعد فسق بُرا نام ہے ۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں