Category Archives: روز و شب

24 گھنٹے متحرک آواز ؟

کیا آپ ایسی آواز جانتے ہیں جو دن کے 24 گھنٹے اِس دُنیا میں اُٹھتی رہتی ہے جس میں ہم رہتے ہں ۔ اور اِسے سُن کر کئی لوگ متحرک ہو جاتے ہیں اور یہ عمل ایک ہفتہ یا ایک مہینہ نہیں سارا سال جاری رہتا ہے خواہ گرمی ہو خواہ سردی خواہ بارش ہو یا طوفان ۔ دن ہو یا رات ہو
جناب یہ اذان کی آواز ہے فرض کریں کہ انڈونیشیا دنیا کے ایک سِرے پر ہے ۔ جب انڈونیشیا میں فجر کی اذان ہوتی ہے تو سورج انڈونیشیا سے مشرق کی طرف ڈیڑھ گھنٹہ پیچھے ہوتا ہے ۔ سورج کے آگے آگے اذان سفر کرتی ہوئی ملیشیا ۔ بنگلہ دیش ۔ بھارت ۔ پاکستان ۔ افغانستان ۔ ایران ۔ کویت ۔ سعودی عرب ۔ مصر ۔ لیبیا ۔ تیونس ۔ مراکش پہنچتی ہے ۔ جب مراکش میں فجر کی اذان ہوتی ہے تو انڈونیشیا میں ظہر کی اذان ہو چکی ہوتی ہے
مراکش سے چلتی ہوئی فجر کی اذان جب نیویارک پہنچتی ہے تو انڈونیشیا میں عصر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے اور انڈونیشیا کے مغرب کے کئی ممالک مں ظہر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے ۔ جب فجر کی اذان کیلیفورنیا پہنچتی ہے تو انڈونیشیا میں مغرب کی اذان ہو چکی ہوتی ہے اور انڈونیشیا اور کیلیفورنیا کے درمیان کچھ ممالک میں عصر اور کچھ میں ظہر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے ۔
اس سے پہلے کہ فجر کی اذان ہوائی پہنچے انڈونیشیا میں عشاء کی اذان کے بعد نماز پڑھ کر لوگ سونے کی تیاری میں ہوتے ہیں اور دنیا کئ کچھ ممالک میں مغرب کچھ میں عصر اور کچھ میں ظہر کی اذان ہو رہی ہوتی ہے
ہوائی سے آسٹریلیا ۔ جاپان ۔ فلیپائین سے ہوتے ہوئے اذان انڈونیشیا پہنچتی ہے تو اگلی صبح کی اذان شروع ہو جاتی ہے
اسی طرح پانچوں وقت کی اذانیں دُنیا کے گرد 24 گھنٹے گھومتی رہتی ہیں ۔ اور ہر لمحے میں کُرّہ ارض پر درجنوں اذانیں گونج رہی ہوتی ہیں
سُبحان اللہ و بحمدہ

پڑھائی اور تعلیم

پڑھائی اور تعلیم
آجکل سکولوں میں صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں تعلیم کا کہیں نام نہیں ۔ میں اپنے آپ کو اس لحاظ سے بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ سکول و کالج میں ہمارے اساتذہ نے ہمیں تعلیم دی تھی یعنی پڑھایا ۔ سکھایا اور تربیت دی ۔ الله میرے اساتذہ کو جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ میں آئے دن اُن کی ہوئی نصیحتوں مین سے کوئی نہ کوئی یاد آتی ہے
میں نویں جماعت میں تھا جب میرے 2 ہمجماعت سکول سے چھُٹی کے بعد آپس میں لڑ پڑے ۔ دوسرے دن صبح ہمارے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر شیخ ھدایت الله صاحب کلاس میں آئے ۔ اُن دونوں کو کھڑا کیا اور لڑنے کی وجہ پوچھی ۔ اُن میں سے ایک بابا کہہ رہا تھا ” الله کی قسم“۔ اور دوسرا بار بار کہتا تھا ”میں سچ کہتا ہوں“۔ سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحب نے سب لڑکوں کو مخاطب کر کے کہا
”سچا آدمی الله کی قسم نہیں اُٹھاتا کیونکہ وہ اِسے بہت بڑا وزن سمجھتا ہے اور سچ بولنے والے کو اپنے منہ سے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ سچ ہو یا جھُوٹ کبھی چھُپتا نہیں“۔

اس کی موجودہ حکمرانوں سے مماثلت اتفاقیہ ہو گی

قرآن شریف کی تلاوت

قرآن شریف کی تلاوت کارِ ثواب ہے لیکن قرآن شریف کا مقصد اِسے سمجھنا اور اِس کے مطابق عمل کرنا ہے
سورت 39 الزُمَر ۔ آیت 9 ۔ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى الَّذِيۡنَ يَعۡلَمُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‌ؕ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۔ (کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ (اور) نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں جو عقلمند ہیں)
دین کی بات نہ بھی کریں تو عِلم والے کا مطلب رَٹا لگانے والا نہیں ہے بلکہ سمجھ کر اُس پر عمل کرنے والا ہے اور جو سمجھ کر عمل کرتا ہے وہی عقلمند ہوتا ہے
الله نے انسان کو غور کرنے کا سبق بار بار دیا ہے کیونکہ غور کرنے سے ہی درست سمجھ آ سکتی ہے
سورت 6 الانعام ۔ آیت 50 میں یہ فرمایا ہے ۔ ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوۡنَ ۔ (بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوتے ہیں؟ تو پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟)
مزید 9 جگہ کا تو میرے عِلم میں ہے
سُوۡرَةُ 2 البَقَرَة آية 219 ۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَۙ ۔ (اس طرح الله تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو)۔
سُوۡرَةُ 2 ۔ البَقَرَة آية 266 ۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَتَفَكَّرُوۡنَ ۔ (اس طرح الله تم سے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو (اور سمجھو)) ۔
سُوۡرَةُ 10 یُونس آية 3 ۔اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ (بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟)
سُوۡرَةُ 11 هُود آية 24 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ (پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟)
سُوۡرَةُ 11 هُود آية 30 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ (بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟)
سُوۡرَةُ 16 النّحل آية 17 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ (پھر تم غور کیوں نہیں کرتے؟)
سُوۡرَةُ 23 المؤمنون آية 85 ۔ قُلۡ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ (کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟)
سُوۡرَةُ 37 الصَّافات آية 155 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ‌ۚ ۔ (بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟)
سُوۡرَةُ 45 الجَاثیَة آية 23 ۔ اَفَلَا تَذَكَّرُوۡنَ ۔ (بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟)
ہم سِینہ ٹھَونک کر مسلمان ہونے کا دعوٰی تو کرتے ہیں لیکن الله کا فرمان (قرآن شریف) احترام کی خاطر ہم مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھتے ہیں لیکن اُسے سمجھنے اور اُس پر غور و فکر کرنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا
حد تو یہ ہے کہ ہم دُنیاوی معاملات میں بھی صورتِ حال اور معاملہ کا مکمل جائزہ لئے بغیر فتوٰی صادر کر دیتے ہیں
اللہ ہمیں اپنے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

میں کیا ہوں

میں کیا ہوں کون ہوں ؟ یہ بتانے سے میں رہا
اب خُود کو خُود سے خُود ہی ملانے سے میں رہا
میں لَڑ پَڑا ہوں آج خُود اپنے خلاف ہی
اب درمیاں سے خُود کو ہٹانے سے میں رہا
ہے زندگی اسیرِ عدم جانتا ہوں میں
دنیا تیرے فریب میں آنے سے میں رہا

عقل

عقل الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے ہر اِنسان کو دی ہے ساتھ ایک آسان اور واضح User Manual (قرآن شریف) دیا ہے اور استعمال انسان پر چھوڑ دیا ہے
چنانچہ
1 ۔ کوئی عقل زیادہ استعمال کرتا ہے
2 ۔ کوئی عقل کم استعمال کرتا ہے
3 ۔ کوئی عقل سنبھال کر رکھتا ہے اور صرف اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے
4 ۔ کوئی عقل کو غلط استعمال کرتا ہے
پہلی قسم کم ہے ۔ انہیں عقلمند یا ذی شعور کہا جاتا ہے ۔ یہ دوسروں کے کام آتے ہیں
دوسری قسم پہلی سے کچھ زیادہ ہے ۔ یہ عام آدمی کہلاتے ہیں ۔ اگر دُشمنی نہ ہو تو یہ بھی دوسروں کے کام آتے ہیں
تیسری قسم کافی زیادہ ہے ۔ یہ ہوشیار یعنی خود غرض لوگ ہوتے ہیں ۔ ہر کام میں اپنا فائدہ تلاش کرتے ہیں
چوتھی قسم تیسری سے کچھ کم ہیں ۔ یہ ہر چیز یا بات کو اپنی مرضی کے مطابق سمجھتے ہیں چنانچہ دوسروں کی بُرائیاں چُننے کے ماہر ہوتے ہیں

کیا ہم انسان بننا چاہتے ہیں ؟

آج سے 6 دہائیاں قبل اگر کوئی دوست یا ساتھی تنگ کرتا تو ”انسان بنو بھئی“ کہنے سے وہ رک جاتا
اگر کوئی بچہ تنگ کرتا تو ”انسان بنو یا انسان کا بچہ بنو“ کہنے سے وہ ٹھیک ہو جاتا

آجکل کے زمانہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

تُجھے آباء سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گفتار ۔ وہ کردار ۔ تُو ثابت ۔ وہ سیّا رہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر ۔ آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ اقبال

اُردو قومی زبان کیسے بنی ؟ بہتان اور حقیقت

آج سے 72 سال 9 ماہ قبل 21 مارچ کو ایک واقعہ ہوا تھا جسے درست بیان کرنے کی بجائے نامعلوم کس مقصد کیلئے قوم کو خود تراشیدہ کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں اور اب تک سنائی جاتی ہیں ۔ جن صاحب نے سب سے پہلے خود تراشیدہ کہانی کو کتابی صورت میں پیش کیا وہ عطا ربانی صاحب (میاں رضا ربانی کے والد) تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا
”قائداعظم نے مارچ 1948ء میں اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران مشرقی بازو کی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو محض 2 فیصد آبادی کی زبان تھی اور وہاں ہنگامہ ہوگیا جس میں 3 طلباء مارے گئے“۔
عطا ربانی صاحب نے جو لکھا وہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ ڈھاکہ کے اس جلسے میں بطور اے ڈی سی قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ سات ماہ قائداعظم کے ساتھ رہے اور 19 مارچ 1948ء کو واپس ایئرفورس میں چلے گئے تھے جبکہ قائداعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ سے 21 مارچ 1948ء کو خطاب کیا۔ مزید یہ کہ اس جلسہ میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا
قائداعظم کی اس جلسہ میں تقریر کا پس منظر اور پیش منظر منیر احمد منیر صاحب نے اپنی کتاب ” قائداعظم، اعتراضات اور حقائق“ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں جو اعلان کیا وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ 25 فروری 1948ء کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے کانگریس کے ہندو رُکن دھرنیدر ناتھ دتہ نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ قائداعظم نے اسمبلی کے سپیکر کے طور پر اس مطالبے کو رد کرنے کی بجائے اس پر بحث کرائی۔ کانگریسی رُکن اسمبلی نے کہا ”ریاست کے 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے ہیں اس لئے قومی زبان بنگالی ہوگی“۔
ایک اور کانگریسی رُکن پریم ہری ورما نے اس مطالبے کی حمایت کی ۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی ارکان مولوی تمیز الدین اور خواجہ ناظم الدین نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ہم انگریزی کی جگہ اُردو کو لانا چاہتے ہیں اس کا مطلب بنگالی کو ختم کرنا نہیں۔ کافی بحث کے بعد متذکرہ مطالبہ مسترد کردیا گیا ۔ یہ مطالبہ مسترد کرنے والوں میں بنگالی ارکان حسین شہید سہروردی ۔ نور الامین ۔ اے کے فضل الحق ۔ ڈاکٹر ایم اے مالک اور مولوی ابراہیم خان بھی شامل تھے ۔ چنانچہ اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ قائداعظم کا نہیں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ تھا
قائداعظم نے 21 مارچ 1948ء کی تقریر میں یہ بھی کہا تھا آپ اپنے صوبے کی زبان بنگالی کو بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے نمائندوں کا کام ہے ۔ بعدازاں صوبائی حکومت نے اُردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن تاخیر سے کیا گیا اور اس تاخیر کا پاکستان کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا
بنگالی عوام قائداعظم سے ناراض ہوتے تو 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جنرل ایو ب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرتے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ڈھاکہ میں جیت گئی تھیں جہاں اِن کے چیف پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمان تھے“۔