Category Archives: روز و شب

توکّل بمقابلہ عِلم ؟

ایک دیہاتی گاؤں سے روزانہ شہر مزدوری کرنے جاتا تھا ۔ وہ فجر کی اذان کے وقت گھر سے نکلتا اور عشاء کی اذان کے وقت واپس پہنچتا ۔ روزانہ 2 بار اُس کا گزر گاؤں کی مسجد کے پاس سے ہوتا ۔  امام مسجد مزدور سے کہتے ”کبھی مسجد میں بھی آ جایا کرو“۔

مزدور ” مولوی صاحب ۔ میری مُشکلات کا بھی کوئی حل ہے یہاں ؟“ کہہ کر چلا جاتا

ایک دن مزدور جلدی واپس آ گیا اور امام مسجد کے پاس جا کر کہا ” مولوی صاحب ۔ میں برساتی نالہ سے گزر کر جاتا ہوں ۔ آج اس میں طغیانی تھی تو مجھے پُل پر سے جانا پڑا ۔ پُل 6 میل اُلٹی طرف ہے ۔ مجھے 12 میل فالتو چلنا پڑا ۔ شہر بہت دیر سے پہنچا ۔ مزدوری نہیں ملی ۔ آج میں اور میرے بیوی بچے بھوکے رہیں گے ۔ کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ طغیانی ہو اور میں نالے میں سے گزر جاؤں“۔

امام صاحب نے کہا ” بس کلمہ شہادت پڑھو اور چھلانگ لگا دو“۔

یہ کُلیہ درست ثابت ہوا چنانچہ مزدور نے نماز پڑھنا شروع کر دی

کچھ دن بعد مزدور کو واپسی پر امام صاحب مل گئے ۔ دونوں جب نالے پر پہنچے تو اس میں طغیانی تھی

امام صاحب رُک گئے ۔ مزدور نے کلمہ شہادت پڑھ کر پانی میں چھلانگ لگا دی

امام صاحب نے مجبوراً کلمہ شہادت پڑھا اور چھلانگ لگا دی

امام صاحب غوطے کھانے لگے تو مزدور نے اُنہیں اپنے ایک بازو میں سنبھالا اور تَیرتا  ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا

باہر نکل کر امام صاحب سے کہا ” مولوی صاحب ۔ کیا ہو ا ؟ کیا کلمہ غلط پڑھا تھا ؟“

امام صاحب جو شرمندہ تھے بولے ” تیرا توکّل الله پر درُست ہے ۔ میں کلمہ کے معنی پر ہی غور کرتا رہا “۔

نفرت ؟ ؟ ؟

کسی سے نفرت کرنے کے لئے زندگی بہت کم ہے ۔ نہ کسی کو بُرے نام سے بُلائیں اور نہ ذاتیات پر اُتریں

سُوۡرَةُ 49 الحُجرَات آية 11
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا خَيۡرًا مِّنۡهُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُنَّ خَيۡرًا مِّنۡهُنَّ‌ۚ وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ‌ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِيۡمَانِ‌ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فِسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے جو لوگ اس رَوِش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں

میں پاگل ہوں ۔ بیوقوف نہیں

پینسٹھ ستّر سال قبل برطانیہ کے انگریزی رسالے میں یہ واقعہ شائع ہوا تھا

لندن میں دماغی امراض کے ہسپتال کے  سربراہ ڈاکٹر شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے

ایک مریض دوسری منزل کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا

بولا ۔ ڈاکٹر کیا پریشانی ہے ؟

ڈاکٹر ۔ کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کے چاروں nuts اُتار کر لے گیا ہے  

مریض ۔ اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک اُتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے spare parts کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار نَٹس خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں

ڈاکٹر ۔ تم نے پاگل ہوتے ہو وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی

مریض ۔ ڈاکٹر ۔ میں پاگل ہوں ۔ بیوقوف نہیں

حُب الوطنی ؟

عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان الله سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا  کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 61 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئیآیئے آج یہ عہد کریں کہ ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تَن مَن دھَن کی بازی لگا دیں گے

آزادی

آزادی

آزادی کا ایک لمحہ غلامی کے ہزار سال سے بہتر ہے

آزاد آدمی ہمیشہ عادل اور رحمدل ہوتا ہے

آزاد لوگوں کا کردار ہمیشہ دوسروں کے لئے باعثِ کشش ہوتا ہے

آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت اس کا فرضِ اولیں

ٹِیپُو سُلطان اور راکٹ کی ایجاد

میسوری Rockets ہندوستان میں تیار کی گئی اولین لوہے کی خول میں بند کی گئی راکٹس تھیں۔ یہ میسور کے سلطان حیدر علی اور  ان کے بیٹے ٹیپو سلطان کی ایجاد تھی جسے حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگرویزوں کے خلاف مؤثر طور پراستعمال کیا

بعد میں انگریزوں نے اس میں بہتری لاکر Congreve rocket بنایا جسے انہوں نےنپولین کے خلاف جنگوں میں استعمال کیا

مُسکراہٹ

مُسکراہٹ سے موت بھی آسان ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔ سقراط

مسکراہٹ کے بغیر انسان سُکھ نہیں پا سکتا ۔ ۔ ۔ برنارڈشا

مسکراہٹ روح کی غذا ہے ۔ ۔ ۔ گاندھی

مسکراؤ میرے ساتھیو ۔ میں تمہیں مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں ۔ نپولین

مسکراہٹ بڑی مشکل سے ملتی ہے ۔ ۔ ۔ نطشے