Category Archives: روز و شب

سر سیّد احمد خان کے دِین اِسلام کے بارے میں عقائد

سر سید احمد خان کی مدح سرائی کرنے والے سر سیّد احمد خان کے عقائدِ فاسدہ و باطلہ کو بھول جاتے ہیں جو مُلک کی اساس اور اسلام کی تعلیمات کے سراسَر خلاف ہیں

1 ۔ سر سید احمد خان نے ایک باطل مذہب وضع کیا تھا جسے انہوں نے “نیچریت“ کا نام دیا تھا۔ ان کے مَن گھڑت عقائد میں سے کوئی ایک عقیدہ رکھنا ہی کفر لازم کر دیتا ہے جبکہ گستاخیاں اس کے علاوہ ہیں
2 ۔ الله کے بارے میں عقائد

اﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے (ان الدین عند الله الاسلام)

مگر سر سید احمد خان اس پر راضی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب نہ یہودی اور نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے ۔ نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو “۔

3 ۔ نبوت کے بارے میں عقائد

عِلم عقائد کی تقریباً ساری کتابوں میں نبی کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ مرد ہے جسے الله تعالیٰ نے مبعوث کیا، احکام کی تبلیغ کے لئے۔ اور یہی معنی عوام میں مشہور و معروف ہے اور یہی حق ہے

مگر سرسید احمد خان کہتے ہیں کہ ایک فطری چیز ہے… ہزاروں قسم کے ملکاتِ انسانی ہیں۔ بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں از روئے خلقت و فطرت، ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے، شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے۔ ایک طبیب بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے۔

جتنے بھی پیغمبر گزرے سب نیچری تھے۔

مزید مندرجہ ذیل ربطہ پر  کلِک کر کے پڑھیئے (آپ کے رَونگٹے کھڑے ہو جائیں گے)

https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B3%D8%B1_%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%AE%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%D9%86%D8%B8%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%AA_%D9%88_%D8%AA%D8%B9%D9%84%DB%8C%D9%85%D8%A7%D8%AA

پہلا قومی ترانہ

15 اگست 1947ء کی صبح ريڈيو پاکستان سے یہ ترانہ بجايا گيا تھا

توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا

مَطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا

ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا

ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا

ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں

ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا

ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو

ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا

ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش

لاہوتیوں کو  وجد کے عالم میں لائے جا

تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں

ان کو یہ چند شعر میرے بھی سنائے جا

اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق

اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا

خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو

جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اُٹھائے جا

رکھتا ہے لاکھ سر  بھی اگر اپنے دوش پر

نامِ محمدِ عربی صلعم پر  اسے کٹائے جا

وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے

حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا

کرتا رہ استوار  اساسِ حریمِ دِیں

اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا

چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا

دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا

سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم

دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا

رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار

اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

یہ مولانا ظفر علی خان کا کلام ہے جو بعد میں مجموعہءِ کلام ”چمنستانِ حجاز“ میں شائع ہوا 

یومِ استقلال

ریڈیو جس سے پہلے سُنا کرتے تھے ”یہ آل اِنڈیا ریڈیو  ہے“ ۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر آواز آئی ”یہ ریڈیو پاکستان ہے“۔ فضا نعرہءِ تکبِیر الله اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گُونج اُٹھی ۔ اب وہ جوش و جذبہ ناجانے کہاں دفن ہو چکا ہے

عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے (شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے) اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے

یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں ۔ ”اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے“۔  ”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے ۔ اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان االله سُبحانُهُ و تعالیٰ کا عطاء کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے جو ہمارے آباؤ اجداد کی محنت اور قربانیوں کے باعث عنایت ہوا

سر سیّد احمد خان کے دِین اِسلام کے بارے میں عقائد

سر سید احمد خان کی مدح سرائی کرنے والے سر سیّد احمد خان کے عقائدِ فاسدہ و باطلہ کو بھول جاتے ہیں جو مُلک کی اساس اور اسلام کی تعلیمات کے سراسَر خلاف ہیں

سر سید احمد خان نے ایک باطل مذہب وضع کیا تھا جسے انہوں نے “نیچریت” کا نام دیا تھا۔ ان کے مَن گھڑت عقائد میں سے کوئی ایک عقیدہ رکھنا ہی کفر لازم کر دیتا ہے جبکہ گستاخیاں اس کے علاوہ ہیں
1 ۔ الله کے بارے میں عقائد

اﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے (ان الدین عند الله الاسلام)

مگر سر سید احمد خان اس پر راضی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب نہ یہودی اور نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے ۔ نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو “۔

باہمی تعلق میں پیار کی اہمیت

گھر میں پیار و محبت کی فضا زندگی کی بنیاد ہےاپنے عزیزوں سے اختلاف کی صورت میں صرف حال کے معاملہ پر ہی نظر رکھیئے 
ماضی کی رنجشوں کو بیچ میں نہ لائیے

یاد رکھیئے کہ بہترین تعلقات وہ ہوتے ہیں جن میں آپس میں ایک دوسرے سے محبت ایک دوسرے کی ضرورت سے بڑھ جائے

بُہتان اور  دُشنام طرازی کرنے والے کے پرستار زیادہ کیوں ہیں ؟

میری عمر 80 سال ہو چکی ہے ۔ میرے بچپن اور نوجوانی میں بزرگ جس سے ناراض ہوتے تو ” بے ھدائتا “ یا ” بے مُرشدا “ کہتے

اِن دونوں کا مطلب ایک ہی ہے کیونکہ مُرشد ہمیشہ ھدایت دیتا ہے

جِسے یہ کہا جاتا وہ بالغ ہویا نابالغ  پریشان ہوتا اور کوشش کرتا کہ آئیندہ ایسی غلطی نہ کرے

اُس زمانہ میں گندی گالی صرف لَچر لوگ دیتے تھے اور بُہتان تراشی بھی بہت کم تھی
پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصہ گُزرا ” بے ھدائتا “ یا ” بے مُرشدا “ سُننے کو نہیں ملا البتہ گالیوں اور  بُہتان تراشیوں کی بُہتات ہو گئی ہے

اس کا سبب ہم سے 2 دہائیاں بعد تقریباً سب سکولوں اور کئی گھروں میں تربیت کا فُقدان ہے

ایک زمانہ تھا کہ ایک گلی ایک محلہ میں رہنے والے ایک دوسرے کو اپنے سگے بزرگ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ بیٹی یا بیٹے کی طرح سمجھتے تھے

جب انتخابات ہوتے تو لگ بھگ 70 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے تھے  

فی زمانہ یہ حال ہے کہ ایک ہی گلی میں ایک ہی دیوار کے دو اطراف رہنے والے ایک دوسرے کی شکلوں سے بھی واقف نہیں

یعنی ہر کوئی اپنے حال میں مَست ہے

مزید زیادہ تر لوگ ووٹ ڈالنے جانے کی نسبت گھر پر پڑے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ووٹ ڈالنے زیادہ تر وہ جاتے ہیں جو سَنسی خیز باتوں سے متاءثر ہیں یا بُہتان اور  دُشنام طرازی کرنے والے کو بڑا لیڈر سمجھتے ہیں نتیجہ آپ کے سامنے ہے